A City in City
واپسی پہ میں نے نومی کو نیشنل کالج آف آرٹس کے سامنے استنبول چوک میں موجود ایک چھوٹے سے پرندوں کے شہر کا حوالہ دیا تو ہمارے دورے کا اختتام ہو چکا تھا۔ یہ ایک دلچسپ دورہ تھا۔ میرے لیے سب سے مشکل کام صبح سویرے جاگنا تھا۔ دو ہی آپشنز تھے۔ یا تو سویا ہی نہ جائے یا پھر دورہ کینسل کر دوں۔ قرعہ پہلے آپشن کے حق میں نکلا۔ معمول جیت گیا اور میں جاگتا رہا۔ آٹھ بجے کے قریب لیوسڈ ڈریمز (lucid dreams) پہ پانی پھیرتے ہوئے نومی نے مجھے جگایا تو میرا رومانس دھرے کا دھرا رہ گیا۔ دو منٹ تک سکتہ طاری رہا۔ میں تو اپنے ہی کمرے میں موجود تھا۔ تف ہے نومی پہ۔ مغلظات کریہہ کی آمد ہوئی۔ کیتھارسس ہوا۔ اور پھر عقل و خرد کے دروازے کھلنے لگے۔
” او ماما توں مینوں راتِیں بڑی پکی کیتی ہائی کہ جے میں سوں گیا تے مینوں دھمی جگا دیویں۔ اچھرے جانا ایں۔ ٹَیم کوئی نہیں ہتھ منہ دھو لا جلدی جلدی نکلنا ایں“ ( او ماموں جی تم نے مجھے رات کنفرمڈ کیا تھا کہ میں تمہیں صبح سویرے جگا دوں۔ اچھرے جانا ہے۔ وقت نہیں ہے۔ ہاتھ منہ دو لو جلد از جلد نکلنا ہے۔ )
پانچ منٹ بعد ہم میٹرو بس میں بدقت تمام فِٹ ہو گئے۔ بندے پہ بندہ چڑھا ہوا تھا۔ بلکہ بندے پہ بندے چڑھے ہوئے تھے۔ یہ فِٹ ہونا ہی تھا۔ نومی نے مجھے میٹرو بس میں ہونے والی ہراسانی پہ لیکچر دیا۔ میں ہنسنے لگا۔ اس قدر رش میں ہراساں کرنا بھی ناممکن تھا۔ یوسفی نے لاہور کی ایک تنگ گلی میں آمنے سامنے سے آنے والے مرد عورت کے درمیان فقط نکاح کی گنجائش نکالی تھی۔ میں نے ایک اس قدر تنگ گلی بھی دیکھی ہے کہ وہاں تو نکاح بھی نا ممکن ہے کہ سائیڈ سے ہو کے گزرنا پڑتا ہے۔ یہاں بس میں بھی کچھ ایسی ہی کیفیت تھی۔ اس نے اختلاف کیا۔ جرح و تعدیل ہوئی۔ میں نے پوچھا : ”تمہیں کبھی کسی نے ہراس کِیا ہے؟“
” ایک دفعہ کِیا ہو تو بتاؤں بھی!“
” مَردوں نے؟“
” تو اور ماما“
” می ٹُو وِد ہیش ٹیگ (#meetoo) کا سٹیٹس کیوں نہیں لگایا تھا پھر تم نے؟“
” ہاہاہاہا“
” چل اتنی دیر تک کوئی سٹوری سنا دے فیر؟“
” دُھر دُھر“
فیر وی؟ ”
ہماری گفتگو جاری رہی۔ اچھرہ آ گیا۔ نیچے اترے۔ یہاں سے پیدل قبرستان جانا تھا۔ یہ ایک علامتی آغاز تھا۔ الٹیمٹ منزل (قبرستان) سے سفر کا آغاز اپنے آپ میں کئی معنی سموئے ہوئے تھا۔ منزلیں اختتام کا پیام لاتی ہیں۔ ہم نے آغاز کر کے اس روایتی بیانیے کو توڑا۔ قبرستان پہنچ گئے۔ سبھی کے پاس موتیے کی پنیری تھی۔ یہ پنیری ہم نے راستے میں ہمیں ہوسٹ کرنے والوں کو گفٹ کرنی تھی۔ میں اور نومی پنیری نہ لا سکے۔ میں نے انصاری کے ذمے لگایا تھا کہ ہماری پنیری بھی وہ ہی لائے گا، بلکہ اس نے خود ہی اپنے ذمے لگایا ہوا تھا۔ وہ بھی خالی تھا۔ پہلے پہل تو اپنے خالی ہاتھ دیکھ کر خفت سی ہوئی جو آہستہ آہستہ عنقا ہو گئی۔ پیاس کی شدت کم ہونے کو نہیں آ رہی تھی۔ سبھی سے علیک سلیک ہوئی۔ پانی نہ ملا۔ چند منٹس میں سبھی لوگ پہنچ چکے تھے۔ سامنے عمر اچھروی کا مزار تھا اور یہاں سے باقاعدہ ہمارے دورے کا آغاز ہونا تھا۔
یہ تاریخی دورہ ”ہست و نیست“ اور ”لاہور شناسی فاؤنڈیشن“ کے زیر اہتمام کِیا جا رہا تھا۔ دورے سے زیادہ مجھے ”ہست و نیست“ کے نام میں دلچسپی تھی۔ مجھے شرارت سوجھی۔
” اوئے نومی“
” ہاں“
” تمہیں پتہ ہے ہست و نیست نے قدیم و جدید کے امتزاج کو اپنے نام میں سمونے کے لیے binary approach کا سہارا لیا ہے۔ “
دن کے ساتھ رات ہے، کالے کے ساتھ سفیدی، زمین کے ساتھ آسمان، آگ کے ساتھ پانی، اوپر کے ساتھ نیچے، موٹے کے ساتھ پتلا، ہست کے ساتھ نیست ”
” کاش تم نیست و نابود ہو جاؤ“
پیاس سے برا حال ہو رہا تھا کپڑوں کا رنگ میرے دل سے بھی زیادہ سیاہ تھا۔ ہِیٹ کے لیے کشش کا سامان پیدا کر کے پسینے کو دعوت دے چکا تھا۔ پانی کی کمی کی وجہ سے پسینے نے ناراضگی کا اظہار کیا۔ پیاس کی شدت بڑھتی جا رہی تھی۔ دل کو جھوٹا دلاسا دینے کے لیے میں نے گنگنانا شروع کر دیا۔
میں تشنہ کہاں جاؤں
پی کر بھی کہاں جانا
میں تشنہ کہاں جاؤں
پی کر بھی کہاں جانا
” تم جہاں بھی جاؤ گے، لوٹو گے تو میرے ہی پاس آؤ گے۔ بس یہی اک اچھی بات ہے میرے ہرجائی“
” بس کرو سستی پروین شاکر“
میری اور نومی کی بک بک جاری تھی۔ ہست و نیست پر بائنری اپروچ اور ہیگل کی ڈایئیلیکٹیکل اپروچ دونوں کا ٹیگ لگ چکا تھا۔ میرے ذہن میں پانی گردش کر رہا تھا۔ میں نے مری ہوئی آواز میں ”آج پانی کی ضد مت کرو، یوں ہی تشنہ ترستے رہو“ گنگنایا تو عمر اچھروی رحمت اللہ علیہ صاحب کے پڑپوتے ضل عمر اچھروی صاحب کا بیان شروع ہو گیا۔ ادب و آداب کو ملحوظ خاطر رکھا گیا۔ سبھی ہمہ تن گوش تھے۔ انہوں نے اپنے آبا و اجداد کی خدمات پر روشنی ڈالی۔ مجھے میرے آبا و اجداد یاد آنے لگے، گویا داغِ دل یاد آنے لگے۔ مجھے سنجیدہ ہونا چاہیے تھا۔ بھوکا پیاسا ہو تو اچھا خاصہ مسخرہ بھی مرجھا جاتا ہے۔ میرا معاملہ الٹ تھا۔ میں ہجوم میں موجود اپنے دوستوں کو اشاروں کنایوں سے سلام کر رہا تھا۔ کنکھیوں سے دیکھ رہا تھا۔ گرمی بڑھ رہی تھی۔ جو تھوڑا بہت پانی تھا وہ پسینہ بن چکا تھا۔ اسلام، تبلیغ، فن مناظرہ، منطق اور دیگر شجرہ ہائے نسب پر روشنی ڈالنے کے بعد مولانا ضل عمر اچھروی صاحب نے اپنا بیان ختم کیا تو میں ہونٹوں پہ زبان پھیر رہا تھا۔ اپنے ہی ہونٹوں پہ۔ گروپ تتر بتر ہو رہا تھا۔ میری محسن پر نظر پڑی۔ اس نے مجھے پکارا :
” بروٹس!“
میں نے فلک شگاف قہقہہ لگاتے ہوئے جواب دیا :
” یُو ٹُو!“
” اچھا سیزر! تمہاری پنیری کہاں ہے؟
” بروٹس! میں نہیں لا سکا“
مجھے قلبی تسکین ہوئی۔ دل میں گنگنایا، ”اک تم ہی نہیں تنہا، الفت میں میری رسوا“ ۔ اور یہاں سے ہم ناشتہ کرنے چل دیے۔ نومی پیچھے رہ گیا تھا۔ اسے ساتھ ملایا۔ وہ ان بابا جی سے محو گفتگو تھا جو پورے اچھرہ کے نائی مشہور تھے۔ شمشاد نائی۔ خاندانی طور پہ چلتے آتے تھے۔ شادی بیاہ کا پیغام، رشتے کروانے اور تڑوانے اور اس طرح کے دیگر معاشرتی اقدار کے علمبردار تھے۔ میرا تعلق چونکہ گاؤں سے ہے اس لیے میں ان کے کردار کو بہتر جانتا تھا۔ میرے خود کے ختنے ہمارے گاؤں کے شہادت نائی نے کیے تھے۔ میں اس وقت دوسری کلاس میں پڑھتا تھا اور با شعور تھا۔ اس دنیا سے اعتبار اٹھانے میں شہادت نائی کا پورا پورا کردار ہے۔ آسمان پر نہ تو چیل تھی، نہ ہی گدھا۔ مجھے دھوکہ دیا گیا۔ میں نے نومی کو آواز دی۔ وہ دونوں بات چیت کر رہے تھے۔ میں نے وڈیو بنائی۔ یہ بابا جی حسینی برہمن تھے۔ کنورٹ ہونا ہمارے آباء کے حصے میں آیا تھا۔ ہم یزیدی برہمن تھے۔ تصویریں لیں اور پانی کی طرف چل دیے۔ لوگوں نے ناشتہ کرنا تھا اور مجھے پیاس مار رہی تھی۔
قبرستان سے پیدل دس منٹ کی مسافت پر ناشتے کا بندوبست کیا گیا تھا۔ لاہوری شاہی پٹھورے۔ میں پانی پہ ٹوٹ پڑا۔ اچھرہ کے رہائشی ہمارے میزبان تھے۔ چار چار لوگوں کے گروپس بنے ہوئے تھے۔ خواتین الگ تھیں۔ ہمارے ٹیبل پہ محسن، میں اور دو لوگ اور تھے۔ نومی کو بغل والے ٹیبل پہ دھکیل دیا۔ اس نے ایک پٹھورا زیادہ کھایا۔ میں نے اس کی بھی پانی والی بوتل ختم کر دی۔ ہمیں تاریخ پہ بات کرنی چاہیے تھے۔ ہم نے نہیں کی۔ ہماری چند باتیں صیغہ راز کے زمرے میں آئیں۔ یہ صیغہ راز آخر تک چلتا رہا۔ ساتھ والے ٹیبل پہ عدنان، گل اور دو لوگ اور بیٹھے تھے۔ عدنان کی طرف کیمرہ گیا تو اس نے حسب معمول روبوٹ کی یاد دلائی۔ ”مجھ سے ملیے، میں ہوں عدنان باجوہ، آداب عرض ہے، نمستے ست سری اکال، سلام۔“ اس کی زبان چلتی رہی۔ محسن نے ہنستے ہوئے ایک جملہ بولا۔ میری نظر عدنان کی طرف اٹھی۔ میرا ہاسا نکل گیا۔ دوران ناشتہ وڈیو بنتی رہی۔ میں نے ارد گرد نظر دوڑائی۔ لوگ اٹھنا شروع ہوئے۔ اچھرہ کے سب سے قدیم بلکہ بر صغیر کے قدیم مدرسوں میں شامل جامعہ فتحیہ ہمارا اگلا ٹارگٹ تھا۔
لاہور شاہی پٹھورے سے باہر نکلے۔ ناشتے کے بعد تازگی کا احساس ہو رہا تھا۔ بنیادی ضروریات کی تکمیل آسودگی بخشتی ہے۔ دو تو پوری ہوئیں نا۔ تھوڑی دیر بعد جامعہ فتحیہ کے مرکزی دروازے سے داخل ہوئے۔ میں سب سے آخر میں داخل ہوا۔ سبھی لوگ کرسیوں پہ بیٹھ چکے تھے۔ میرے حصے میں باقی لوگوں سے ہٹ کر ذرا دور دیوار کے ساتھ ایک کرسی آئی۔ بیٹھ گیا۔ انصاری، نومی، میں اور تین خواتین ہمارے ساتھ بیٹھی تھیں۔ مولانا کا بیان شروع ہوا۔ یہاں بھی آبا و اجداد کی کہانی تھی۔ مدرسے کی تاریخ بیان کی گئی۔ برصغیر میں دارالعلوم دیوبند سے بھی قدیم مدرسہ تھا یہ۔ شاید یہی بتا رہے تھے۔ کنفرم نہیں۔ جن لوگوں کے پاس موتیے کی پنیری یا پودے تھے وہ میزبانوں کو سونپ رہے تھے۔ ایک صاحب نے مدرسے کے ساتھ موجود گھر کی بالائی منزل سے جھانکنے والے ایک شخص کی طرف موتیے کا گملا پھینکا۔ اس نے کیچ کر لیا۔ یہ منظر کیمرے میں ریکارڈ کیا گیا۔ وٹس اپ گروپ میں اس منظر کی وڈیو دیکھ کر میرے ذہن مین خیال آیا کہ کیوں نہ اس وڈیو کے پیچھے منصور ملنگی کا گانا ”اک پھُل موتیے دا مار کے جگا سوہنیے“ لگایا جائے۔ جامعہ فتحیہ میں حافظ ڈاکٹر ضیاءالحق صاحب کے پاس پرانی اور نایاب کتابوں کا ذخیرہ تھا۔ ہمیں دکھایا گیا۔ زیادہ تر اسلامی کتابیں تھیں۔ قرآن مجید کے قدیم نسخے، حدیث کی نایاب مجلد کتابیں۔ یہ سب پرنٹنگ پریس کی ایجاد سے پہلے کے نسخے تھے۔ ہاتھ سے لکھے ہوئے مسودات۔ ایک کتاب کی قیمت کا حساب لگایا گیا۔ آج کے دور میں وہ دو کروڑ کے لگ بھگ بن رہی تھی۔ میرے ساتھ موجود عندلیب کے ہاتھ مین علامہ زمحشری کی کشاف تھی۔ میں ”جبر و قدر“ کے صفحات پلٹ رہا تھا۔ یہ ریاضی کی کوئی بنیادی درسی کتاب تھی۔ کتابوں کے بوسیدہ اوراق کی بھینی بھینی خوشبو نے جمالیاتی ذوق کی تسکین کی۔ جامعہ فتحیہ کی وائبز میں ایک نشہ تھا۔ میں جب تک وہاں رہا ماضی پرست رہا۔ باہر نکلتے ہوئے میں نے اقبال کا شعر پڑھا اور انصاری سے سگریٹ منگوایا۔
ہاں دکھا دے اے تصور پھر وہ صبح و شام تُو
دوڑ پیچھے کی طرف اے گردش ایام تُو
ہمیں چاہیے تھا کہ اچھرہ کی تاریخ، قدیم عمارتوں اور گلیوں کی جمالیات، پرانے گھروں میں رہنے والے لوگوں کی طرز بود و باش وغیرہ ڈسکس کرتے لیکن ہم نے ایسی کوئی بھی بات نہ کی۔ ایک تنگ گلی میں پندرہ منٹس تک کھڑے رہے۔ صیغہ راز کو فوقیت رہی۔ مجھے کال آئی۔ ”خاکسار تحریک“ کے دفتر میں گروپ پہنچ چکا تھا۔ سگریٹ بجھایا اور جلدی جلدی وہاں پہنچے۔
خاکسار تحریک کے بانی علامہ عنایت اللہ مشرقی میں مجھے میٹرک کے دور سے دلچسپی رہی تھی۔ میں ان دنوں کٹر فرقہ پرست ہوا کرتا تھا اور اپنے تئیں سمجھتا تھا کہ علامہ نے بھی جدید تعلیم میں ریکارڈ توڑ کر جو واپس مشرقی گیئر لگایا ہے وہی اصل چیز ہے۔ وہ بچپنا تھا۔ لیکن ان کی شخصیت کے علمی ہالے کی کشش میں کوئی کمی نہیں تھی۔ وہ چھوٹا سا صحن، ان کی کھٹارا گاڑی کی باقیات، ان کا مزار اور ان کے پوتے ضیغم مشرقی کا بیان مجھے آٹھویں کلاس میں لے گیا۔ ان دنوں میں بچوں کے رسائل پڑھا کرتا تھا۔ ماہنامہ ہمدرد نونہال میں شاید علامہ کا خاکہ پڑھا تھا۔ اس کے بعد ریسرچ کی اور خاکسار تحریک کو جاننے کے لیے کئی کتابیں پڑھیں۔ مجھے اس تحریک میں سب سے دلچسپ علامہ مشرقی صاحب کی شخصیت لگی۔ وہ ایک عبقری شخصیت تھے۔ ان کے پوتے نے ہمیں بتایا کہ علامہ اقبال کو سر کا خطاب دلوانے کے لیے علامہ مشرقی نے سفارش کی تھی۔ واپسی پر میں میں نے علامہ کی کھٹارا گاڑی کے ساتھ تصاویر اتاریں۔ اس وقت پورے بر صغیر میں صرف تین گاڑیاں تھیں۔ ایک نواب آف حیدرآباد کے پاس، ایک علامہ عنائیت اللہ مشرقی کے پاس اور تیسری مجھے بھول گیا ہے۔ یہ بات بھی ان کے پوتے نے بتائی۔ واللہ اعلم۔
اندرون اچھرہ میں زیادہ کوڑا کرکٹ نظر نہیں آیا۔ اندرون لاہور والڈ سٹی سے زیادہ صاف تھا۔ چالیس پچاس لوگوں کا گروپ جس میں جنس، عمر، پیشہ غرض ہر طرح کا تنوع پایا جاتا تھا کو اندرون اچھرہ کے لوگ حیرت سے دیکھ رہے تھے۔ پرانی عمارتوں میں ابھی تک لوگ رہائش پذیر تھے۔ ہم لوگوں کے گھروں میں داخل ہوئے، چھتوں پہ چڑھے، تصویریں اتاریں، ہمارا فراخدلی سے استقبال کیا گیا۔ ایک اماں نے مجھ سے پوچھا ”آپ لوگ کہاں سے آئے ہیں؟“ میں نے بتایا ہم لاہور سے ہی ہیں۔ وہ ہمیں فارنر سمجھ رہے تھے۔ شاید لڑکیوں کی وجہ سے۔ میں نے پرانی عمارتوں سے ہندی کی تختیاں ڈھونڈنے کی کوشش کی لیکن ناکام رہا۔ میرا سب کے سامنے ہندی سکرپٹ پڑھنے کا خواب دھرے کا دھرا رہ گیا۔
شیو دیال چڈا کی حویلی اور جنج گھر دیکھتے ہوئے مجھے نیند کے ہلکورے آ رہے تھے۔ اور ابھی لکھتے ہوئے بھی نیند کی دیوی کو مجھ پہ پیار آ رہا ہے۔ چڈا صاحب کی حویلی میں ابھی تک ایک فیملی رہائش پذیر ہے۔ یہ علاقہ معاشی طور پہ کمزور ہے۔ یہاں پرانے گھروں میں کئی کئی فیملیاں رہائش پذیر ہیں۔ میں نے ایک کھڑکی سے سر باہر نکالا۔ رومانوی منظر تھا۔ نیچے ایک بچے کو آواز دی۔ ”میں فون پھینکتا ہوں، اسے کیچ کرو اور میری تصویر بناؤ“ میرے گروپ فیلوز نے روک دیا۔ بچے نے اوپر آ کر موبائل لیا اور نیچے جاکر تصویریں لیں۔ ہمارا زیادہ تر دھیان تصویریں لینے میں ہی رہا۔
جنج گھر میں ایک سے زیادہ فیملیاں رہائش پذیر تھیں۔ ہم داخل ہوئے۔دس منٹ بعد جنج گھر سے باہر نکلے۔ کسی نے جنج کا مطلب پوچھا۔ خاکسار نے بتایا۔ علامہ مشرقی والا خاکسار نہیں۔ ہیچمدان والا خاکسار، یعنی میں۔
میری نیند اڑ گئی تھی۔ اب ہم دربار پیر غازی کی جانب رواں دواں تھے۔ میں سوچ رہا تھا کہ لاہور میں ابھی بھی ایسا کلچر زندہ ہے جہاں لوگ ایک دوسرے کو جانتے ہوں۔ مجھے اچھرہ پہ گاؤں کا گمان ہو رہا تھا۔ یہاں برادری سسٹم مضبوط نظر آ رہا تھا۔ لوگوں نے اپنے گھروں کے دروازے ہمارے لیے کھول دیے تھے۔ دل بھی۔ اس سارے وزٹ میں عجیب سی سرشاری رہی۔ کچھ انوکھا پن تھا۔ الگ تھا۔ اپنائیت تھی۔ دربار پہ پہنچ کے لنچ کیا۔ کمال کا کھانا تھا۔ اچھرہ والوں کی مہمان نوازی میں روایت کی جھلک دکھتی تھی۔ یہاں سے ہم دوبارہ قبرستان کی طرف جا رہے تھے۔ یہ ایک الگ قبرستان تھا۔ کامریڈ تنویر نے اس کی تاریخ اور یہاں مدفون لوگوں پر روشنی ڈالی۔ کامریڈ تنویر صاحب پچھلے تیس سال سے اچھرہ کی تاریخ اکٹھی کر رہے ہیں۔ تیس سال کی محنت شاقہ سے پانچ سو صفحات کی کتاب لکھ کر اچھرہ میں اپنی رہائش کا حق ادا کر دیا ہے انہوں نے۔ ایک مہینے تک یہ کتاب شائع ہو جائے گی۔
اب ہم واپس جا رہے تھے۔ میں نے نومی کی طرف دیکھا : ”یہ کیا تھا؟“
”وزٹ“
” ہاہایاہاہایاہا“
” یہ تو شہر کے اندر ایک شہر تھا۔“
” بے شک“
” استنبول چوک میں پرندوں کے گھونسلوں کا ایک لکڑی کا چھوٹا سا شہر ہے۔ جہاں آج تک کسی پرندے نے گھونسلا نہیں بنایا۔ اس بے آباد پرندوں کے شہر کا نام ہے A City in City۔“
موٹر سائیکل انارکلی کی طرف جا رہا تھا۔ ایک آباد A city in city city ایک بے آباد A city in city کی طرف۔
- تفرید : چند تحریریں - 08/09/2024
- A City in City - 02/09/2024
- ایک انڈین لڑکی کے ساتھ لاہور میں کیے گئے سفر کی روداد - 31/08/2024
Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).