فراقؔ: تجھے اے زندگی ہم دور سے پہچان لیتے ہیں
بیسویں صدی عیسوی کو دنیائے اُردو ادب میں تحریکوں اور رجحانات سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ جبکہ انیسویں صدی میں یہ فضا یکسر مختلف تھی۔ مگر جیسے ہی یہ دور ختم ہوا عقلیت پسندی کی تحریک پوری شدت کے ساتھ وارد ہوئی۔ اور اس کے ساتھ کئی اور تحریکیں دیکھتے ہی دیکھتے منظر ِ عام پر آ نا شروع ہو گئیں۔ ان تمام تحریکوں کا ادب پر براہ راست اثر پڑا۔ شاعری ہو یا پھر نثر، فنی، فکری، لسانی، اسلوبیاتی اور ہیتی سطح پر تغیر و تنوع نظر آیا۔ اور اسی ماحول میں ”نئی غزل“ نے جنم لیا۔ ہر اک سخن طراز جدید پیرائے میں مشق سخن کرتا ہوا نظر آیا۔ کیونکہ اب جدت اور ندرت ہی معیار غزل ٹھہرا تھا۔ اسی بیسوی صدی کے چند سال قبل، دنیائے اردو ادب میں ایک ایسے شاعر کا جنم ہوا جو اپنے فکر و فن میں مثالی تھا۔ ”رگھو پتی سہائے“ جو ادبی دنیا میں ”فراق گھورکھپوری“ کے نام سے مشہور ہوا۔
فراقؔ کا فن منفرد ہے۔ فراقؔ کے فن کا مطالعہ خواہ خارجی سطح پر کریں یا پھر داخلی، اُن کی انفرادیت مسلم ہے۔ فراق ؔ کی شاعری کا سب سے بڑا وصف یہ ہے کہ بیک وقت کئی زبانوں، تہذیبوں اور تحریکات کا ایک خوبصورت امتزاج ہے، جو دوسرے شعراء کے کلام میں علی العموم نظر نہیں آتا۔ فراقؔ بنیادی طور پر رومانوی شاعر تھے۔ ”حسن اور عشق“ کا موضوع ان کا جہان شاعری ہے۔ مگر دلچسپ بات یہ ہے کہ بالخصوص ان کی غزل میں جہاں حسن و عشق اور ہجر و وصال کی باتیں ملتی ہیں وہیں گنگا جمنی تہذیب کی پَرفِشاں پرچھائیاں بھی نظر آتی ہیں۔ اور پھر فنی اور موضوعاتی سطح پر روایت سے انحراف اور حمایت کا رویہ بھی نظر آتا ہے۔ قلبی وارداتیں، جنسی کشش و ہیجان، اشتراکی فکر، سحر انگیز ہندوستانی اساطیری رنگ، غنائیت و ڈرامیت، تجسیم و تمثیل، تشبیہ و استعارات کا بیان، معاملہ بندی و رعایت لفظی اور وسیع کائنات کے اسرار و رمواز کا بیان، یہ تمام چیزیں متنوع گل ہائے رنگ سے مزین ان کی غزل میں نظر آتی ہیں۔ جو فی نفسہ نئی جہت سے آشنا کرتی ہیں۔
فراق ؔ کی ہمہ جہت شخصیت کی تشکیل میں مشرق کی روحانیت و ثقافت اور مغرب کی جدت و ندرت دونوں کا حصہ ہے۔ ان دونوں تہذیبوں کے انسلاک نے ان کے فن کو جس مزاج سے آشنا کیا وہ اُردو شعر و ادب میں روایت ساز ثابت ہوا۔ فراق اُردو، ہندی، سنسکرت، فارسی، عربی اور انگریزی زبان میں مہارت رکھتے تھے۔ بنا بریں، ان کی شاعری میں ان تمام زبانوں کے اثرات واضح دکھائی دیتے ہیں۔ اور ان کی یہ انفرادیت صرف فن ِ غزل گوئی تک محدود نہیں بلکہ، نظم، ربائی، مکتوب نگاری، اور تنقید میں بھی یکساں روا ہے۔
فراق کے والد ”گھورکھ پرساد عبرتؔ“ خود قادر الکلام شاعر تھے، اسی لئے فن شاعری فراقؔ کو ورثہ میں ملا تھا۔ فراق نے اسی ادبی ماحول میں پرورش پائی اور ( 1918 ء ) میں باقاعدہ شاعری کے میدان میں قدم رکھا اور معاصر شعرا ء کو ورطہ حیرت میں ڈال دیا۔ فراق نے ریاض خیر آبادی، امیر مینائی، وسیم خیر آبادی اور حسن ناصری جیسے ماہر اساتذہ کے سامنے زَانوئے تلمیذ تہ کیا۔ ہرچند کہ، فراق نے کم و بیش شاعری کی ہر صنف ِ سخن میں طبع آزمائی کی مگر وہ بنیادی طور پر ”غزل گو“ شاعر ہی تھے۔ جنہوں نے اپنی تخلیقی ذہنیت، وسیع علوم اور حساسیت کے سبب، غزل کو نئی جہت سے رو شناس کرایا۔ انھوں نے آزادی کے بعد ، ہندوستانی فضا کی جس طرح عکاسی کی اس کی مثال ملنا مشکل ہے۔ اسلوب احمد انصاری جیسے ژرف بینا نقاد نے انھیں، ہندوستان کی نشاۃ ثانیہ کا علمبردار اور نمائندہ ترین شاعر کہا۔ فراقؔ کے کلام میں میر تقی میرؔ کا رنگ، حسرت، جگر مراد آبادی، اصغر گونڈوی، فانی اور یگانہ جیسے قد آور شعراء جیسی حلاوت، جذبات کی فراوانی اور دھیما پن سب باہم دیکھنے کو ملتے ہیں۔
بات بھی پوچھی نہ جائے گی جہاں جائیں گے ہم
تیری محفل سے اگر اُٹھے کہاں جائیں گے ہم
فراق کی غزل مشرق اور مغرب کا خوب صورت سنگم ہے جہاں کلاسیکیت سے جدت کی راہیں ہموار نظر آتی ہیں۔ جہاں فراق جان کیٹس، ورڈزورتھ اور شیلے سے متاثر نظر آتے ہیں وہیں ان کے کلام میں سنسکرت، ہندی، اردو اور فارسی شعراء کے اثرات بھی واضح طور پر دیکھے جا سکتے ہیں۔ فراق کے کلام میں تہذیبی اور جمالیاتی روایات کو بڑی اہمیت حاصل ہے۔ وہ اپنے اظہارات کے لئے بیک وقت کئی زبانوں کی لفظیات، تشبیہات و استعارات کا استعمال نہایت اہتمام سے کرتے ہیں۔ جذبات کے اظہار میں ان کا یہ شعر دیکھیئے :
کوئی سمجھے تو ایک بات کہوں
عشق توفیق ہے گناہ نہیں
فراق کی غزلوں میں جہاں ان کا محبوب ”گوشت پوست“ کا انسان ہے مگر وہیں وہ اپنے داخلی و خارجی اظہار کے لئے روایتی و تہذیبی رموز اور کنایہ و تشبہیات کا استعمال کرتے ہیں۔ گویا جو کچھ انھوں نے دیکھا، محسوس کیا، اسی کو لفظوں کا وجود دے دیا۔ ان کے کلام میں سادگی اور سہل ممتنع جیسی شعری صفات بھی ہیں، روایت سے انحراف بھی اور مختلف تحریکات و رجحانات کے اثرات بھی دیکھنے کو ملتے ہیں۔ فراق کی غزل کلاسیکی روایت کا ”عطرِ مجموعہ“ ہے، ان کی شمع ِ سخن میں تمام اساتذہ کی آوازیں روشن ہیں۔ میر ؔ کے کلام میں محبوب کو تمام معائب و محاسن کے ساتھ قبول کرنے کا اصرار ملتا ہے مگر فراقؔ محبوب کے منفرد اور آزاد وجود کی خواہش رکھتے ہیں، کہتے ہیں :
دیکھ پھر حُسن کے محاسن کو
حُسن کی پہلے ہر برائی دیکھ
معاملات ِ عشق کا موضوع ہماری کلاسیکی شاعری میں نمائندہ ترین موضوع ہے۔ ہر شاعر نے مقدور بھر اس کو ہر انداز میں بیان کرنے کی کوشش کی۔ مگر فراقؔ کا انداز یہاں بھی منفرد نظر آتا ہے۔ کیوں کہ فراقؔ کا عشق افلاطونی نہیں۔ ان کا عشق ان کے ذاتی مشاہدات اور تجربات سے حاصل شدہ ہے جو جلد ہی ایک انسان سے نکل کر پوری انسانیت کو اپنے دامن میں لے لیتا ہے۔ فراقؔ اردو کے ان چند شاعروں میں شمار ہوتے ہیں جنھوں نے عشقیہ موضوعات سے نئی شاعری کی بنیاد رکھی جو اپنے موضوعات میں متنوع بھی ہے اور حیات آفریں بھی۔
ہزار بار زمانہ ادھر سے گزرا ہے
نئی نئی سی ہے کچھ تری رہ گزر پھر بھی
عشق کی آگ ہے وہ آتش خود سوز فراق
کہ جلا بھی نہ سکوں اور بجھا بھی نہ سکوں
جس طرح فراق ؔ نے کلاسیکی شعرا کی معتبر روایت کی پاسداری کی اسی طرح فراق کے بعد آنے والے شعراء نے بھی فراق کے اثرات قبول کیے۔ بالخصوص، ناصر کاظمی، خلیل الرحمٰن اعظمی اور شاذ تمکنت قابل ِ ذکر ہیں۔ یہ فراق کی انفرادیت ہے کہ انھوں نے حسن و عشق اور جسم و جمالیات کو بھی حسیات و ادراک میں ڈھال کر ایک اچھوتے انداز میں پیش کیا۔ ان کے کلام میں جدید رجحانات اور تحریکوں کے اثرات بھی ہیں اور ہندوستانی اساطیر و دیومالائی عناصر کا رنگ بھی۔
تارے بھی ہیں بیدار زمیں جاگ رہی ہے
پچھلے کو بھی وہ آنکھ کہیں جاگ رہی ہے
- فراقؔ: تجھے اے زندگی ہم دور سے پہچان لیتے ہیں - 02/09/2024
- روایتی اور تجریدی افسانوں کی ماہیت - 12/08/2024
- بنت داہر: ایک نئی سمت - 07/12/2023
Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).