سعودیہ میں کوئی رئیس، کسی غریب کو ٹریفک حادثے میں مار دے تو


یہ تحریر دو حصوں پر مشتمل ہے۔ اصل تحریر بعد میں ہے۔ جو تحریر کے عنوان یعنی ہیڈنگ سے مطابقت رکھتی ہے اور 1999 سے 2002 تک پیش آنے والے واقعات اور معلومات کا نچوڑ ہے۔ لیکن اُس تحریر سے پہلے پڑھیں۔ ”پس تحریر“ ۔

٭پس تحریر٭

ہم پاکستانی مسلمان انتہائی جذباتی لوگ ہیں۔ سڑک پر حادثہ ہو جائے تو ”پیدل۔ سائیکل“ میں سائیکل سوار کی غلطی ہوگی۔ ”موٹر سائیکل۔ سائیکل“ میں بائیک والے کی، ”چار پہیئے والے کی ٹو وہیلر یا پیدل سے“ تو غلطی کار والے کی اور ”بس، ڈمپر یا ٹرک سے حادثہ“ میں ظاہر ہے!

البتہ ٹرین یا ہوائی جہاز کے حادثے کی صورت میں ہمارا بیانیہ ہوتا ہے کہ غلطی زمینی عملے کی ہوگی اور بے چارے ڈرائیور یا پائلٹ پر بعد از مرگ الزام دھرا جا رہا ہے۔

اسلام آباد کی مرکزی شاہراہ فیصل ایونیو کو سڑک سے پار کرنا منع ہی نہیں جرم ہے۔ مگر کون سنتا ہے۔

اب رات کی تاریکی میں دو اشخاص گھر جانے کی جلدی میں سڑک پار کر رہے ہوں اور اُسی وقت تیز رفتار کار آ کر ان کو کچل دے تو اوپر بیان کیے گئے فارمولے کے تحت غلطی کار والے کی ہی ہوگی۔

” پیسے نے ان کو اندھا کر دیا ہے پیدل چلنے والوں کو تو انسان ہی نہیں سمجھتے“ ۔

خدا شاہد ہے کہ متعدد مرتبہ، رات کے کسی پہر، اُسی سڑک پر ہائی اسپیڈ لین میں ڈرائیو کرتے ہوئے سڑک کے وسط میں لگے پودوں کے بیچ سے کوئی کالا برقعہ یا قمیض پہنے صاحب یک دم سڑک پر آ جائیں گے۔ اور آپ اگر حادثے سے بچ گئے تو آپ کی قسمت۔ اور اگر بریک لگا بھی دیئے تو پیچھے آنے والا آپ کے ساتھ کیا کرے گا۔ وہ بھی آپ کی قسمت۔

باقی پیدل چلنے والا محض دانت نکوس کر کہہ دے گا۔ ”بھائی جان سوری“ ۔

یہی حال متعدد مقامات پر موٹرسائیکل، گدھا گاڑی، ہتھ گاڑی، ٹھیلے والوں اور سب سے بڑھ کر غیر قانونی چنگ چی تھری وہیلر کا ہے۔ کبھی بھی کہیں بھی سامنے آ کر حادثے کا سبب بن جاتے ہیں۔ اور کہتے ہیں۔ ”سوری“ ۔ اور عوام الناس بھی بس اتنا کہتے ہیں۔ ”بھائی معاف کر دو غریب آدمی ہے آپ کا نقصان کہاں سے پورا کرے گا؟“۔

کیوں کیا اس کو سزائے قید نہیں ہو سکتی؟

ہمیں ٹریفک کے حادثات کو جذباتی ہو کر نہیں دیکھنا چاہیے۔ ہمارے قانون بھی اب ایسے فرسودہ ہوچکے ہیں کہ چاہتے ہوئے بھی سڑک پر پڑے شخص کی مدد بھی کوئی دوسرا گاڑی والا نہیں کرتا کہ پولیس اسی کو نہ دھر لے۔ اور رہا اندھا قانون، اس پر بعد از مقدمہ اعتبار کرنے سے بہتر ہے کہ اس ”گناہ بے لذت یا ثواب مع بے عزت“ سے بچا جائے۔

یوں جس ڈرائیور نے پیدل چلنے والے کو مارا یا وہ خود اُس سے آ ٹکرایا، ڈرائیورکس کی محبت میں وہاں رکے گا (جب کہ پیدل چلنے والا خود بھی رات کو فیصل ایونیو سے سڑک پار کر کے جرم کر رہا ہو) ۔ کیوں کہ ہمارا قانون بھی اب یہی ہے، ”جو رک گیا، وہ پھنس گیا“ ۔ جس نے اجازت لی وہ پیچھے رہ گیا۔ یعنی جس نے کی شرم اس کے پھوٹے کرم۔

بہرحال ضروری نہیں کہ ہر ٹریفک حادثہ افنان شفقت یا بیگم نتاشہ کا کارنامہ ہو۔ یہ بھی یاد رکھیں کہ قانون میں ہر جرم کی کوئی سزا ہوتی ہے۔ کبھی پھانسی یا ہاتھ کاٹنا۔ کبھی جیل کی قید یا کوڑے مارنا اور یا ان میں سے کسی کو ملا کر یا اس کے بغیر مالی جرمانہ۔ دنیا بھر میں بھاری بھرکم مالی جرمانے کو سب سے موثر سزا مانا جاتا ہے کہ ایک مرتبہ جرمانے کے بعد ڈرائیور عرصے تک اس کی شدت سے تڑپتا رہتا ہے۔ کسی کو قید کرنے سے ریاست کو کوئی فائدہ نہیں ہوتا بلکہ نقصان ہوتا ہے۔ کیوں کہ آپ کے اور میرے ٹیکس کے پیسوں سے وہ تین وقت کھانا کھاتا اور ساتھ میں ایکسرسائز مشین بھی استعمال کرتا ہے۔ اس سے بہتر ہے کہ مجرم کو ایک اچھا جرمانہ کر کے معاشرے میں واپس بھیج کر ہر مہینے اس سے کوئی رقم لے لی جائے اور ساتھ اس پر نظر رکھی جائے یا کوئی پابندی بھی لگا دی جائے۔ اور عادی مجرم کو ایسی سزا دی جائے کہ وہ اس طرح کا جرم دوبارہ نہ کرسکے (ریپ کے مجرم کو سزائے قید دینے سے بھلا عوام کو کیا فائدہ۔ وہ آج باہر آئے یا دس سال بعد ، اس کی سزا آر یا پار ہی ہونی چاہیے ) ۔

ٹریفک حادثے کی صورت میں پہلے بھاری جرمانے پھر لائسنس معطل ساتھ کسی بھی الیکشن میں لڑنے کے لئے نا اہل قرار دیا جا سکتا ہے۔ پھر بھی گاڑی چلائے تو شناختی کارڈ اور اس سے وابستہ سمز اور بنک اکاؤنٹ ضبط کر لیں۔ قید میں رکھ کر وہ الٹا عوام کا نقصان کرے گا۔ اس کو کسی لازمی سماجی خدمت کا کام سزا کے طور پر دے دیں۔ کم عمر بچہ گاڑی چلاتا نظر آئے تو گاڑی ضبط کر کے دوسرے دن فروخت کر دیں اور پیسے اسٹیٹ بنک میں جمع۔ اس بچے پر 21 سال تک گاڑی نہ چلانے کی پابندی اور نہ لائسنس جاری کرنے کی سزا۔ پھر بھی پکڑا جائے تو زندگی بھر، ڈرائیونگ، الیکشن یا سرکاری نوکری کے لئے نا اہل۔

ترقی یافتہ ممالک میں ٹریفک کی ہر خلاف ورزی پر ڈی میرٹ پوائنٹس بھی دیے جاتے ہیں جو ایک حد کے بعد ڈرائیور کا لائسنس عارضی یا ساری زندگی کے لئے کینسل کر دیتا ہے۔ ہمارا مسئلہ دوسرا ہے۔

ہمارے پاس لائسنس ہی نہیں ہوتے۔ گاڑیوں کی نمبر پلیٹ جعلی ہوگی یا اپلائیڈ فار لکھ کر کئی کئی سال چلایا جاتا ہے۔

سعودی عرب سے متعلق تحریر کا بنیادی مقصد اس معاملے کی تحقیق تھی کہ سعودیہ جیسے امیر ملک میں جہاں قانون کی حکمرانی کے باوجود اب بھی امراء اور شاہی خاندان کے لئے قوانین میں شارٹ کٹ موجود ہیں۔ جب یہ اشرافیہ اور ان کے شباب (یعنی بے لگام لونڈے ) سڑکوں پر موت بانٹتے ہیں تو سسٹم اس سے کیسے نبٹتا ہے۔

سعودیہ میں اب جو قوانین موجود ہیں ان میں اشرافیہ اور عامی دونوں کے لئے قدرے ون ون (یعنی سب کا بھلا) صورت حال موجود ہے۔ جس کا کریڈٹ ان کے نظام عدل کو جاتا ہے جو ایک بار سب کے لئے بن چکا ہے۔ ہمارے ملک میں اشرافیہ (بے چاروں ) کے بچے جب کسی کو ٹریفک حادثات میں مارتے (یا شاہ زیب جتوئی کی طرح قتل) کرتے ہیں تو عامی ایسے جذباتی ہو جاتے ہیں جیسے کوئی نئی اور انوکھی بات ہو گئی ہو۔ افنان شفقت (لاہور) ، کشمالہ طارق کے بیٹے (اسلام آباد مبینہ الزام) ، نتاشہ (کارساز کراچی) ، بلوچستان میں ایم پی اے کا ٹریفک کانسٹیبل کو اڑانا، ریمنڈ ڈیوس یا امریکی سفارت خانے کی گاڑی کا پاکستانیوں کو مارنا ہو۔ لوگ ان معاملات پر جذباتی ہو کر یوں لکھتے ہیں جیسے ڈرائیور کو پھانسی ملنی چاہیے ( جو قتل عمد ثابت ہونے پر بھی نہیں ہو سکتی) ۔ یا چلیں عمر قید ہو جائے تو وہ بھی ثابت ہونے پر اتنا آسان نہیں کیوں کہ بریک فیل ہونے یا ایکسل ٹوٹنے کو کون روک سکتا ہے۔ اسی لئے پاکستانی یا انڈین فلم ہو (یا عام زندگی) ، کسی دشمن کو اڑانے کے سب سے آسان دو طریقے ہیں۔ کسی کم عمر بچے سے قتل کروا دو (جس میں خود کش حملہ بھی شامل ہے ) یا ٹرک یا ڈمپر سے ٹریفک حادثہ۔ جس کی سزا چند سال سے زیادہ ہو ہی نہیں سکتی بالخصوص اگر ڈرائیور خود کو سرینڈر بھی کرچکا ہو۔

ویسے ایک تیسرا طریقہ بھی ہے۔ پہلے اپنے کارندے کو کسی نفسیاتی ماہر علاج کے پاس رجسٹر کروائیں اور پھر موقع دیکھ کر ”ظاہر جعفر“ یا ”خرم (میڈیکل فائنل ائر کا طالب علم جس نے رفاہ میڈیکل یونیورسٹی کے ڈین بریگیڈیئر کو قتل کیا تھا)“ ، پھر کچھ عرصے بعد ٹارگٹ کو مار ڈالیں اور یوں بعد ازاں سزائے موت سے بچ جائیں۔

اسلام میں متبادل سزا کا بھی ایک نظام موجود ہے جسے ”قصاص“ کہا جاتا ہے۔ قصاص میں قتل، زخمی کرنے یا اعضاء کو نقصان پہنچانے جیسے جرم کو ریاست کا قاضی ”مالی جرمانے کے ساتھ غلام رہا کرنا“ کے بدلے معاف کر سکتا ہے ( مگر ورثاء کی مرضی لازم ہے ) ۔ آج کے دور میں قتل کے بدلے رقم ”دیت“ اور اعضاء کو نقصان پہچانے کا معاوضہ ”ارش“ کہلاتا ہے۔

قصاص کے معاملے کو بہرحال مذاق نہیں سمجھنا چاہیے اور نہ بنانا چاہیے۔ اسلام میں یہ سزا کا ایک طریقہ ہے۔ یعنی سزائے قید کی طرح کی ایک شکل، بصورت بھاری بھرکم مالی جرمانہ۔ اگر کوئی امیر شخص یا اس کا بچہ سزائے قید پاتا ہے (اور پیسہ دے کر بھی نہیں بچ پاتا) تو ہمیں اور غریب غرباء کو ایک کمینی سی خوشی تو ملتی ہے لیکن ہم یہ نہیں سوچتے کہ الٹا ہمارا نقصان ہو رہا ہوتا ہے۔ کیوں کہ کچھ دن بعد وہ مریض کسی عالیشان ہسپتال میں آصف علی زرداری، نواز شریف یا سندھ کے کسی وزیر یا اسپیکر کی طرح اسپتال میں جا لیٹے گا۔ ساتھ شہد چاٹے گا اور الٹا پاکستانی عوام کا خرچہ بڑھ جائے گا۔ تو خود سوچیں قوم کا فائدہ کس طرح کی سزا میں ہے؟

نیب کی پلی بارگیننگ کو بھی اسی طرح کی ایک اچھی کاوش سمجھنا چاہیے۔

نبی اکرم ﷺ نے خوں بہا یعنی دیت کی صورت میں (فی مسلمان شخص موت ) کا معاوضہ ”سو اونٹ“ مقرر کیا تھا۔ اور اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ کسی شخص کی جان ٹریفک حادثے میں گئی۔ جان بوجھ کر مارا گیا یا غیر ارادی طور پر ۔ لیکن اگر مقتول کے ورثا ء اس خوں بہا سے بڑھ کر کچھ مانگتے ہیں تو وہ صریحاً زیادتی ہوتی ہے (لیکن جس طرح منع کاموں میں طلاق جائز ہے اسی طرح یہ مطالبہ بھی جائز ہوتا ہے ) ۔

ان سو اونٹوں کی بھی ایک کہانی اور دل چسپ فارمولا ہے۔ اس میں 20 بیس مخصوص عمر کے نر اونٹ ہوتے ہیں بیس کم عمر۔ کچھ مخصوص عمر اور تعداد کی اونٹنیاں ہوتی ہیں اور کچھ عمر رسیدہ اونٹ۔

یاد رہے نبی اکرم ﷺ کے دادا حضرت عبدالمطلب نے زم زم کے کنویں کو دوبارہ کھودتے وقت منت مانی تھی کہ اگر ان کے دس بیٹے پیدا ہوئے اور سب جوانی کی عمر تک زندہ رہے تو وہ رب کعبہ کے حضور ایک بیٹے کی قربانی دیں گے (ان کے اجداد اسماعیل ؑ و ابراہیمؑ کی سنت کی اتباع میں ) ۔ دسویں بیٹے نبی اکرم ﷺ کے والد حضرت عبداللہ تھے۔ اور ان کے جوان ہوتے ہی یہ منت پوری کرنے کے لئے جب تمام بیٹوں کے نام سے قرعہ فال نکالا گیا کہ کس کی قربانی کی جائے تو ہر مرتبہ قربانی کے لئے نام حضرت عبداللہ کا نکلتا (جو باپ کو سب سے زیادہ عزیز تھے ) ۔ اس موقع پر ایک مشہور کاہن نے مشورہ دیا کہ اب عبداللہ اور دس اونٹوں کے درمیان قرعہ نکالو (مکہ میں اس وقت، کسی امیر کی جان کا ”خوں بہا“ ، دس اونٹ تھا) ۔ اگر پھر عبداللہ نکلے تو اونٹوں کی تعداد میں دس دس کا اضافہ کرتے رہو۔ اضافہ ہوتا رہا اور بدستور نام حضرت عبداللہ کا ہی نکلتا رہا۔ حتی کہ اونٹوں کی تعداد ”سو 100“ تک پہنچ گئی اور اس کے بعد ہر بار سو اونٹ ہی نکلے۔ یہ اور بات کہ سو اونٹوں کی قربانی کے بعد اسی کاہن کے کہنے پر حضرت عبداللہ کی فوراً شادی کردی گئی۔ مگر اس کے باوجود بھی وہ بمشکل سال بھی زندہ نہ رہ پائے۔

بہر حال آج 2024 میں سعودیہ میں اچھے اونٹ کی اوسط قیمت تیس ہزار ریال یا 8000 آٹھ ہزار امریکی ڈالر تصور کی جاتی ہے۔ یعنی سعودیہ میں خوں بہا، آج سن 2024 میں آٹھ لاکھ امریکی ڈالر ( 22 کروڑ چالیس لاکھ پاکستانی روپے ) ہے۔ ایک دل چسپ بات اور کہ غیر مسلم بالغ شخص کا خوں بہا، مسلمان سے کم ہوتا ہے ( ابتدا ء میں یہ نصف ہوتا تھا۔ مگر اب مختلف اسلامی ممالک اور فقہ میں یہ شرح مختلف ہیں ) ۔ چونکہ ٹریفک حادثہ کے بعد اتنی بڑی رقم ادا کرنا تقریباً ناممکن ہوتا ہے اس لئے یا تو لوگوں کو گاڑی چلاتے وقت انتہائی احتیاط کرنا ضروری ہے یا اپنی گاڑی یا لائسنس کی انشورنس کروانا، تاکہ حادثے کی صورت میں یہ تمام خوں بہا انشورنس کمپنی ادا کرے۔

برسبیل تذکرہ پاکستان میں دیت کا تعین، ”سو اونٹوں“ سے نہیں کیا جاتا بلکہ 30 کلو اور 630 گرام چاندی کی مساوی رقم پر کیا جاتا ہے۔ آج 31 اگست 2024 کے حساب سے دیکھا جائے تو دیت کی رقم کم از کم 81 لاکھ روپے بنتی ہے (قیمت چاندی بحساب 2650 روپے فی دس گرام) ۔

یاد رہے سعودیہ میں گاڑی کا عربی متبادل ”سیارہ“ ہوتا ہے اور اسی لئے ڈرائیور کو ”قائد سیارہ“ کہتے ہیں۔ اسی طرح وہاں (پاکستان کے برعکس) ڈرائیور، ”یورپ کی طرح“ ، گاڑی میں الٹے ہاتھ پر بیٹھتا ہے۔ جب کہ گاڑیاں سڑک کے دائیں جانب یعنی سیدھے ہاتھ کی طرف چلتی ہیں۔

٭٭٭ اب پڑھیں 22 سال پرانی تحریر٭٭٭

کچھ عرصہ پہلے تک سعودیہ میں گاڑی اور مسافروں کی انشورنس کا مسئلہ حلال اور حرام کی کج بحثی میں اٹکا ہوا تھا۔ بڑے مفتی اور ان کے ہم خیال پینل کی طرف سے مثبت فتویٰ کے باوجود سعودیہ کی اکثریت، انشورنس کو حرام سمجھتی تھی اور بلا انشورنس رہتی تھی۔ مگر 2001 ء کے بعد سے یہاں کم از کم تھرڈ پارٹی انشورنس کروانا لازمی ہو چکا ہے۔ یہ اور بات ہے کہ یہ تھرڈ پارٹی انشورنس ہمارے ملک میں کرائی گئی نام نہاد انشورنس سے یکسر مختلف ہوتی ہے۔ تھرڈ پارٹی میں مخالف کے ہر نقصان کو انشورنس کمپنی پورا کرتی ہے۔ جس میں ایک یا زائد گاڑیوں کو نقصان اور اس میں موجود مسافروں کے علاج اور مرنے کی صورت میں خوں بہا بھی شامل ہے۔ لیکن آپ کی اپنی گاڑی یا اس میں موجود اشخاص کی انشورنس اس میں شامل نہیں ہوتی۔ اس انشورنس کے مطابق اگر کوئی اور بھی آپ کی گاڑی چلا رہا ہو یا آپ کی کار کے کسی مسافر کی غلطی کی وجہ سے حادثہ ہوا ہو تب بھی تھرڈ پارٹی انشورنس، ”قائد سیارہ اور مالک سیارہ“ دونوں کی جان بچا لیتی ہے۔

یہاں بلامبالغہ عام بات ہے کہ دو گاڑیوں کے تصادم یعنی ایکسیڈنٹ کے بعد دو ڈرائیور باہر آنے کے بعد ایک دوسرے کا گالیوں سے سواگت کرنے کی بجائے گلے ملتے اور خوشی خوشی تبادلہ خشم و بوسہ کرتے ہیں (یعنی پہلے ناک ملاتے ہیں پھر ایک دوسرے کے گال پر پچ پچ) یعنی ایسی محبت جیسے دو بھائی تھے جو بچپن میں کمبھ کے میلے میں بچھڑ گئے تھے اور اب پھر ملے ہیں۔ وجہ یہی کہ ان کی گاڑیاں انشورڈ ہوتی ہیں اور غلطی چاہے جس کی بھی ہو انہیں علم ہوتا ہے کہ انشورنس کمپنی ان کے نقصان کی مکمل بھر پائی کردے گی۔ بلکہ گاڑی کے کچھ ایسے کام جو آؤٹ اسٹینڈنگ تھے وہ بھی انشورنس کے کام میں ایڈجسٹ ہوجائیں گے۔ تو لڑنا کس بات کا ۔ ہاں لڑائی اس بات پر ضرور ہوتی کہ پولیس کو میں فون کروں گا اور دوسرا کہتا ہے نہیں بھائی۔ میری غلطی میں کرتا ہوں۔

ویسے یاد رہے یہاں سگنل توڑنے پر امیر ہو یا غریب، کوئی جرمانہ نہیں ہوتا بس اگر آپ پکڑ لیئے گئے تو صرف تین دن مقامی پولیس اسٹیشن میں گزارنا ہوں گے ۔ جس پر کوئی رعایت نہیں۔

اصل میں یہاں ”مرور“ (یعنی ٹریفک ) کے قوانین اتنے سخت ہیں کہ پاکستان میں گاڑی چلاتے پیک تھوکنے والوں کو بلا مبالغہ ”نانی“ یاد آجاتی ہے۔ گاڑی اگر لب سڑک سرکاری طور پر لگائے درخت کو دے ماریں تو پانچ ہزار سے دس ہزار ریال تک جرمانہ بلدیہ کو ادا کرنا پڑ سکتا ہے۔ اور اگر آپ گاڑی آرام سے ڈرتے ڈرتے سگنل ہرا ہونے پر نکال کر لے جا رہے ہوں اور اچانک سیدھے ہاتھ کی طرف سے کوئی پاگل گاڑی میں آئے، آپ کی گاڑی سے آن ٹکرائے اور گاڑی میں اپنے چار سعودی بچوں اور دو بیویوں سمیت (اپنی ہی غلطی سے ) اناللہ ہو جائے تو یقین جانیں اگر آپ خود بھی اْن سب کے ساتھ مر جاتے تو اچھا تھا!

وہ یوں کہ یہاں کے فارمولے کے تحت حادثہ میں جو ڈرائیور مر گیا تو وہ تو ٹھہرا بے چارا اور جو بچ گیا وہ پھنس گیا یعنی یہاں اسی کو مورد الزام ٹھہرایا جائے گا۔ چاہے لاکھ ثبوت موجود ہوں کہ مرحوم نے اپنی غلطی سے دارفانی کو کوچ کیا مگر جیسا میں نے کہا کہ حادثہ کے بعد جو بچ گیا قانوناً وہ ”پھنس گیا“ ۔ چونکہ سات لوگوں کی جان گئی اور آپ بچ گئے تو بے شک آپ قتل خطا کے مرتکب ہوئے اس لئے سزا تو تب بھی ملے گی۔

اسی طرح سڑک کے حادثے میں ایک بندہ مرنے پر کم از کم ایک سے ایک لاکھ بیس ہزار ریال دیت کا جرمانہ، ”کسی نہ کسی کو “ ، ککھ پتی مرحوم کے لکھ پتی ورثا کو ادا کرنا پڑے گا۔ یعنی اگر کوئی اپنی بیوی اور سسر سمیت گاڑی میں جا رہا ہو اور اْس کی اپنی غلطی سے حادثہ ہونے پر بیوی اگر ہلاک ہوجاتی ہے۔ تو شوہر کو اپنی مرحومہ بیوی کے ورثا کو ایک لاکھ بیس ہزار ریال ادا کرنے پڑیں گے، چاہے بندر بانٹ میں اسے خود کچھ ملے یا نہ ملے۔ یہ نہیں ہو گا کہ قاضی کے سامنے جاکر آپ سینہ تان کر بولیں کہ جی میری بیوی تھی مر مرا گئی تو کیا ہوا، خیر ہے!

اسی طرح اگر آپ کی گاڑی میں بیٹھے سسر صاحب ان ہی حالات میں حادثہ کے سبب زخمی ہو جاتے ہیں تو بھی سسر صاحب کے علاج کے تمام اخراجات داماد صاحب کو بالجبر و بالصبر اٹھانا پڑیں گے۔ مزید برآں نوکری سے اْن کی غیرحاضری اور زحمت کا خرچہ الگ سے دینا ہو گا۔ یعنی آپ کی گاڑی میں جو بیٹھا ہے آپ کے لئے وہ بھی اتنا ہی اہم ہے، جتنا باہر والا۔

اور اگر آپ نے غلطی سے کسی بس کو حادثے کا شکار کر دیا اور اس میں پندرہ بیس لوگ اوپر کا ٹکٹ کٹا گئے تو سمجھیں کہ ”اٹھارہ بیس لاکھ ریال“ صرف مرحومین کے ورثا کو بطور خوں بہا دینا ہو گا۔ جبکہ گاڑی وغیرہ کا نقصان اپنی جگہ۔

بہر حال اپنی گاڑی اور اس میں بیٹھے لوگوں کے علاوہ تمام دنیا کے پچیس تیس بندوں کو مارنے تک کا لائسنس یہاں تھرڈ پارٹی (یا کم از کم لازمی ) انشورنس کہلاتا ہے۔ جس کی آج کل قیمت صرف ایک ریال یومیہ یعنی 365 ریال سالانہ یا اس سے بھی کم ہے اور جس کی موجودگی میں آپ تھرڈ پارٹی یعنی مخالفین کے پینتیس لاکھ ریال تک کے نقصانات ایک ہی ہلے یعنی حادثے میں کر سکتے ہیں۔ مگر یہاں یار لوگوں کے پاس پانچ دس ریال روزانہ کی ”تدخین یعنی اسموکنگ یا“ ہبلی ببلی شیشہ ” (حقہ) پینے کے لئے تو “ فلوس یعنی رقم ”ہوتی ہے مگر انشورنس کے لئے ایک ریال نہیں ہوتا۔ یہ اور بات کے حادثہ کے بعد پھر آپ جیسے بچت کرنے والوں کو رہا کرانے کے لئے چندہ برائے دوست یا بھائی ہو رہا ہوتا ہے اور آپ کی بچت آپ کے عزیز و اقارب کے لئے مصیبت بن جاتی ہے، مگر ریال پھر بھی پورے نہیں ہو پاتے۔ اسی لئے ہم اس انشورنس کو بیس پچیس بندے مارنے کا لائسنس کہتے تھے۔

جن دنوں یہاں، ”ہر طرح کی انشورنس“ ، نئی نئی جائز ہوئی تھی، شادیوں کا ایک شوقین، ”قحطانی“ لائف انشورنس کرانے والوں کے پاس گیا او ر معصومیت سے سوال کیا۔

”اگر میں آج اپنی لڑاکا بیوی کی دو لاکھ ریال کی لائف انشورنس لوں اور وہ کل مر جائے تو مجھے کیا ملے گا؟“ ۔

”للتامین“ یعنی انشورنس والے نے منہ بنا کر کہا، ”ہمارا بس چلے تو پھانسی“ ۔

صحرا سے گزرنے والی، ”طریق سریع“ (طریق یعنی ”شاہ راہ“ اور سریع یعنی ”تیز یا فاسٹ“ گویا ہائی ویز) پر موت کے فرشتے، ”اونٹوں“ کی صورت میں عام گھومتے پائے جاتے ہیں اور کسی بھی گاڑی سے بارہ فٹ اونچے اونٹ کی ملاقات کا مطلب ”اونٹ کی یقینی موت اور گاڑی کی یقینی تباہی ہوتی ہے“ ، کیوں کہ ایک آدھ ٹن کا آپ سے دوگنا اونچا اونٹ جب گاڑی کی چھت پر سجدہ ریز ہوتا ہے تو ڈرائیور اور فرنٹ سیٹ کے مسافر بچیں یا مارے جائیں، گاڑی کی چھت او ر اونٹ کی ٹانگیں ضرور ختم ہوجاتی ہیں اور پھر زخمی اونٹ کی چیخ و پکار، الامان و الحفیظ۔

اس لئے بے ٹانگوں کے زخمی اونٹ کو مزید تکلیف سے بچانے کے لئے فوراً ہی مار دیا جاتا ہے۔

خانہ بدوش عربی بدو، اونٹ کو گھر کا فرد سمجھتے ہیں اور ان کے محاوروں میں اونٹ کو ”اخوان“ مانا جاتا ہے یعنی بھائی۔ یعنی اب سیارے کے حادثے کی صورت میں اخوان کی موت کا ہرجانہ بھی کسی نہ کسی کو ادا کرنا ہو گا۔ بے شک مارنے والا خود اللہ کو پیارا ہو چکا ہو۔ تو یا اس کے ترکے سے یہ ادائیگی ہوگی یا اس کے گھر والے یا قبیلے کے لوگ ادا کریں گے۔ وگرنہ سرکار۔

سرکار نے ان کے مالک بدوؤں کو اِن نقصانات سے اور گاڑی والوں کو اِن عزرائیلوں سے بچانے کے لئے سیدھا سادھا فارمولہ وضع کر دیا ہے۔ اگر رات کے اندھیرے میں حادثہ ہو تو غلطی صاحب جمل (یعنی اونٹ کے مالک ) کی اور اگر قبل مغرب ہو (یعنی دِن میں ) اونٹ صاحب نے آپ کو شرف ملاقات بخش دی تو غلطی آپ کی۔ ایسی صورت میں اونٹ کی قیمت معہ سڑک کی دھلائی کے علاوہ اپنی پوری گاڑی کی قیمت اور گاڑی کے اندر بیٹھے تمام لوگوں کی مرمت کا خرچ (اگر بچ گئے ہوں تو ! ) ورنہ (اگر پچک گئے تو ) کفن دفن اور ان کے لواحقین (کی شادیوں ) کا خرچ تو دو ، تین لاکھ ریال کا سیدھا نسخہ بن جاتا ہے۔ (یہاں جونہی چھ ہندسوں کی رقم کسی بدو کے ہاتھ آئے وہ فوراً ایک نئی شادی کی سوچتا ہے ) ۔

بے چارہ خارجی (یعنی غیر سعودی) اونٹ سے حادثے کی صورت میں بھی یہ رقم کہاں سے لائے؟ نتیجتاً، ”سجن (یعنی جیل)“ سے ملاقات ہوتی ہے گویا سرکاری مہمان بنا دیا جاتا ہے اور جب تک ریال پورے نہ ہوں ڈرائیور عزت سے با مشقت ”جیل“ میں وقت گزارتا رہتا ہے۔ یہ اور بات کہ سجن (یعنی جیل ) میں اتنے ریال کبھی پورے ہی نہیں ہو پاتے کہ خوں بہا ادا ہو سکے اس لئے ”عمر گزر جاتی ہے اسِ سجن کی سیاحی میں“ ۔ بعض اوقات ورثاء بغیر رقم لئے واقعی فی سبیل اللہ بھی معاف کر دیتے ہیں (لیکن بہت کم ) ۔ کچھ ورثا متبادل آفر پر بھی راضی نامہ کر لیتے ہیں (مثلاً لڑکی سے شادی ) ۔

یہاں کچھ فلاحی تنظیمیں (بالخصوص رمضان میں ) لوگوں سے زکٰوۃ وغیرہ جمع کر کے متوفی کے ورثا کو خوں بہا کے طور پر ادا کر کے بھی، اِس طرح کے لوگوں کو جیل سے رہا کرواتی ہیں۔ مگر جیل میں اونٹوں کے مارے ایسے نابیناؤں کو آنکھیں لگنے کی باری کے انتظار میں کئی عشرے لگ جاتے ہیں۔ جو رہائی کے بعد سڑک پر جاتے ہی پھر پکارتے ہیں کہ ”آ جمل مجھے مار!“

سعودیہ میں کار انشورنس دو طرح کی ہوتی ہے۔ تھرڈ پارٹی یا لازمی انشورنس اور دوسری مکمل یعنی کمپری ہینسو۔ اونٹ یا سڑک پر چلتے جانوروں یا عمارات وغیرہ کا نقصان تھرڈ پارٹی انشورنس میں شامل نہیں ہوتا۔ کیوں کہ بدو بے شک اونٹ کو صحرائی سیارہ مانیں انشورنس والے اونٹ اور دوسرے جانور جیسے کتے یا بھیڑیئے کو ایک ہی صف میں رکھتے ہیں۔ یعنی صحرا میں اگر آپ تھرڈ پارٹی انشورنس کے ساتھ دن کے حادثے میں دو چار اونٹ پھڑکا دیں تو زندگی جہنم بنتے دیر نہیں لگے گی۔ بشرطیکہ آپ زندہ رہ جائیں۔ (صرف دوسری گاڑیاں یا ان کے مسافر تھرڈ پارٹی میں شامل ہوتے ہیں آپ کی اپنی گاڑی کے مسافر بھی نہیں ) ۔

ٹھہریئے، یہ اونٹ کے حادثے کی کہانی یہیں ختم نہیں ہوتی۔ تصویر کا ایک دوسرا رخ بھی ہے۔ زیادہ تر یوں ہوتا ہے کہ موٹر ویز پر حادثہ مغرب کے بعد اور اندھیرے میں ہوتا ہے۔ نتیجتاً سرکاری اصول کے تحت اونٹ کے کروڑ پتی مگر ”غریب“ بدو مالک کو سڑک گندا کرنے سے، بندہ یا بندے مارنے کا سبب بننے اور گاڑی کی تباہی تک سب ہی چیزوں کا ”ڈنڈ“ بھرنا ہوتا ہے کہ اْس نے اپنے اونٹ کو بعد مغرب اندھیرے میں بند کیوں نہیں رکھا!

بھلا پانچ اونٹ رکھنے والا عقل مند بدو، اجنبی مقتول ڈرائیور کے ورثاء کو کئی لاکھ ریال کیوں بھرے؟ یعنی کم از کم ایک سو اونٹ کہاں سے دے؟ اس لئے رات کو اپنے یا کسی اور کے اونٹ کی چیخیں سننے پر دور کہیں سے اس کا مالک یا اس کا کوئی اور یار بیلی آتا ہے اور مرتے مسافروں کو بچانے کی بجائے موت کے ہرکارے قاتل اونٹ کی گردن پر بنے ”خصوصی ٹیٹو یا نشان“ کو اپنے چْھرے سے کھْرچ یا کاٹ دیتا ہے تاکہ پتہ نہ چل پائے کہ یہ اونٹ کس (قبیلے ) کا تھا اور پھر جائے واردات سے نو دو گیارہ ہوجاتا ہے۔ جب تک پولیس موقع پر پہنچتی ہے زیادہ تر ایسا ہوتا ہے کہ بارِ ثبوت اونٹ کی گردن سے لاپتہ ہو چکا ہوتا ہے۔ اب صحرائے ربع خالی کی میلوں طویل گرد میں اگر کوئی قاتل اونٹ کی نعش سے اس کے مالک کا کھْرا ڈھونڈ سکتا ہو تو ڈھونڈ لے!

یہ نشان دراصل دھوبی کے مخصوص نشان کی طرح ”ٹیٹو“ ہوتا ہے جو اونٹ کی گردن کی سائیڈ میں ڈالا جاتا ہے، اونٹ کے لاپتہ ہونے کی صورت میں یہ نشان بتلاتا ہے کہ یہ حاشی بچہ صحرا میں کس قبیلے کا ہے اور اس لئے ڈالا جاتا ہے کہ گْم ہونے کی صورت میں دوسرے کو واپس کیا جا سکے۔ (قبیلے کے سربراہ کے پاس مزید ریکارڈ ہوتا ہے کہ یہ اونٹ ہمارے قبیلے کے کس فرد کا ہے ) ۔ اونٹ کے ذرا بڑے بچے کو حاشی کہتے ہیں، سمجھیں اونٹ کا بچھڑا جس کا گوشت کھانا جائز ہو چکا ہوتا ہے۔ کچھ لوگ اپنے اونٹ کی خوب صورتی کو بچانے کے لئے یا مستقبل میں بیچنے کے لئے اس پر ٹیٹو ڈالنے کی بجائے گلے میں کالر یا پٹہ ڈال دیتے ہیں جو عارضی طور پر اونٹ کی ملکیت کے بارے میں بتا دیتا ہے۔

کسی نے بتایا کہ گردن سے نشان کھرچنے والے دراصل دوسروں کو فائدہ پہنچانے سے زیادہ اس لئے بار ثبوت اڑا لیتے ہیں کہ گوشت کا وہ حصہ چلتا پھرتا بلینک چیک ہوتا ہے اور اونٹ سے ہونے والے نقصان کا تخمینہ کرنے کے بعد (مثلاً تین لاکھ ریال ) شکاری، صاحب جمل کو پکڑتا ہے اور مک مکا کر کے تین لاکھ کی بجائے پچاس ہزار سے ایک لاکھ ریال تک کی قیمت میں ”نشان جمل“ یعنی بار ثبوت واپس کر دیتا ہے۔

٭ 2024 میں اب بہت کم اونٹوں پر یہ ٹیٹو موجود ہے۔ سعودیہ میں لگ بھگ تمام اونٹوں میں مائیکرو چپ نصب ہے۔ جس سے ان کے محل وقوع اور دوسری معلومات کے علاوہ ملکیت یعنی صاحب جمل کا بھی ریکارڈ بنتا رہتا ہے۔ لیکن پھر بھی ہزاروں اونٹ صحرا میں ایسے بھی ہیں جو لاوارث گھوم رہے ہوتے ہیں۔

تصویر : اونٹ حادثہ


الٹے ہاتھ کی طرف سے دیکھیں۔ اونٹ شرافت سے سڑک پار کر رہا تھا۔ اور جب وہ گاڑی پر گرتا ہے تو کیا حشر برپا ہوتا ہے۔

٭٭٭

سعودیہ میں رہنے والے پرانے لوگ بتاتے ہیں کہ ایک زمانے میں جب یہاں صحرا سے گزرنے والی سڑکوں پر اونٹ سے ٹکرا کر شہید ہونے والوں کی تعداد بہت بڑھ گئی تو سرکار نے ان قاتل اونٹوں کی گردنوں میں گھنٹیوں کے ساتھ ساتھ ریفلیکٹر بھی لگانے کا عقلمندانہ فیصلہ کیا، تاکہ رات کے اندھیروں میں صحرا کے ان جہازوں یعنی اونٹوں سے ریفلیکٹ ہوتی روشنی سے لوگ ہوشیار ہو سکیں۔ اس اسکیم پر کتنا عمل ہوا یا نہیں ہوا، کچھ خبر نہیں، البتہ اتنا پتہ ہے کہ لوگ اب بھی صحرا سے گزرنے والی سڑکوں پر اونٹوں سے ٹکرا ٹکرا کر مر رہے ہیں۔

ایک دن ہم نے اپنے دفتر ”دفاع المدنی“ میں بیٹھے بیٹھے ”حوادث کے سسٹم“ سے ایک رپورٹ بنائی کہ جان لیوا ٹریفک حادثات کی بڑی وجوہات کیا ہیں۔ تو پتہ چلا کہ پاکستان ابھی بھی ٹریفک حادثات میں ضائع ہونے والی جانوں میں سعودیہ سے بہت پیچھے ہے۔ اور ہائی ویز پر ہونے والے جانی حادثات کی سب سے بڑی وجہ ( 90 فی صد ) اونٹ ہیں۔ جس کے بعد بے احتیاطی سے گاڑی چلانا، گاڑی چلاتے وقت کچھ اور حرکات بھی کرنا، تھکن یا نیند آنا اور آخر ٹائر کا پھٹنا شامل ہیں۔

سعودی عرب میں تمام امریکیوں کی اوسط تنخواہ پندرہ بیس ہزار ریال ماہانہ سے کیا کم ہوگی جبکہ تمام بنگالیوں کی اوسطاً ماہانہ تنخواہ پانچ چھ سو ریال کے آس پاس ہوگی مزید یہ کہ بنگالی کو پولیس گرفتار کر کے بھول جاتی ہے جبکہ امریکی پر ہاتھ ڈالنے سے پہلے شرطہ بہادر، لاکھ بلند انصاف معاشرے کا علم بردار ہونے کے، پہلے اپنے گناہ معاف کرواتا ہے، پھر استخارہ نکالتا ہے اور یا امریکی سفارت خانے سے پوچھ لیتا ہے اور یوں باعزت طریقہ سے گرین کارڈ والے تھانے کی عزت بڑھاتے ہیں۔

مگر وائے ری قسمت کے باوجود اتنی عزت کے حادثہ میں مرنے پر ایک عام مسلمان بنگالی کی قیمت اگر ایک سے ایک لاکھ بیس ہزار ریال ہو تو اصلاً امریکی گورے کی قیمت صرف پچیس پچاس ہزار ریال سے زیادہ نہیں ہوتی! وجہ کچھ اور نہیں بلکہ یہ ہے کہ مرنے پر مسلمان کی قیمت، غیر مسلم سے دوگنی اور چو گنی ہوتی ہے۔ اس لئے اپنی زندگی میں یہاں رہنے والا بے وقعت یعنی دو ٹکے کا بنگالی مرنے پر گورے کرسٹان امریکی کے مقابلے میں مردہ ہاتھی یعنی سوا لاکھ کی عملی تفسیر بن جا تا ہے۔

سعودی عرب کے بارے میں ایک گورے کی لکھی کتاب سے پتہ چلا کہ حادثہ کی صورت میں یہاں مرنے والی عورت کے ورثاء کو بھی مرد کے مقابلے میں آدھی رقم بطور خون بہا ملتی ہے، وجہ شاید وہی ہو کہ عورت کی گواہی اور جائیداد میں حصہ دونوں نصف ہوتا ہے مگر جب میں نے اس کی تصدیق کے لئے یہاں کی سب سے بڑی انشورنس کمپنی NCCI کے ایک عہدیدار سے یہ بات پوچھی تو حضرت اس بات سے مکر گئے اور کہنے لگے، نہیں جناب ہمارے لئے تو دونوں برابر ہیں، دونوں کے ورثاء کو برابر رقم ملتی ہے، اب معلوم نہیں دل جلا گورا جھوٹا تھا یا انشورنس والا، خدا جانے۔

بہر حال ہم اس بات کے قائل ہیں کہ ہر جھوٹ میں کچھ نہ کچھ صداقت ضرور ہوتی ہے! ہماری تحقیق کے مطابق سعودیہ میں اگر مقتول اہل کتاب (یعنی یہودی یا عیسائی) ہوں تو دیت کی رقم نصف ہوتی ہے۔ جب کہ دیگر مذاہب کے غیر مسلمین مثلاً زرتشت (پارسی) ، ہندو، بدھ مت، جین یا سکھ مذہب کے مقتولین کے لئے دیت کی رقم، مسلمان کے مقابلے میں محض سولہواں حصہ ہوتی ہے۔

سعودی معاشرہ کم از کم ٹریفک کے معاملے میں مالی نقصان کے علاوہ لگ بھگ جانی نقصان کے سلسلے میں بھی قصاص یعنی متبادل سزا کے نظام پر چلا گیا ہے یعنی دیت یا خوں بہا دے کر ڈرائیور بری ہو جائے۔ کیوں کہ یہاں ہر سعودی، یہ بات جانتا ہے کہ جس بے ڈھب، جلد بازی اور واہیات طریقے سے وہ لوگ اور ان کے بچے گاڑیاں چلاتے ہیں۔ کوئی بھی کسی بھی وقت حادثہ کر سکتا ہے تو ”کر بھلا سو ہو بھلا“ یعنی ہم آج دیت لے کر کسی کو چھوڑیں گے تو کل ہم یا ہمارے بچے کو بھی کوئی دیت لے کر حادثے کی صورت میں چھوڑ دے گا۔ اس کے علاوہ یہ لوگ قرآن سے قصاص کو سزا کا ایک طریقہ سمجھتے ہیں اور یوں ان کا ماننا ہے کہ مجرم، پھانسی چڑھ جائے، سزا کاٹ لے یا دیت دے کر رہا ہو جائے۔ ایک ہی بات ہے۔ مرنے والا تو بہرحال واپس آ نہیں سکتا۔ تو کیا یہ بہتر نہ ہو گا کہ اس کے بال بچوں کا مستقبل آسانی سے کٹ جائے کیوں کہ قاتل کو سزائے موت یا سزائے قید ملنے سے پیچھے رہ جانے والے خاندان کا پیٹ تو نہیں بھر سکے گا۔ یہ لوگ اب ٹریفک حادثات کو جذباتی ہو کر نہیں دیکھتے۔ سیدھا قصاص کی بات کرتے ہیں۔

البتہ ایک بات اور۔ وہ یہ کہ شرعاً دیت ادا کر کے بری ہونے والے پر لازم ہوتا تھا کہ وہ ایک غلام بھی آزاد کرے اور چوں کہ اب غلام آزاد کرنا ممکن نہیں اس لئے قاضی رہا کرتے وقت مجرم کو متعدد مرتبہ تاکید کرتا ہے کہ غلام آزاد کرنے کے بدلے اسے ساٹھ دن کے مسلسل روزے بھی رکھنے ہوں گے۔ وگرنہ قیامت کے دن وہ جانے اور اس کا نامہ اعمال۔ قاضی کا کام وارننگ دینا اور بتانا تھا سو بتا دیا۔

میں نے ایک بار دیت ادا کر کے ایک شباب کو رہا ہوتے دیکھا جو رو رہا تھا۔
پوچھا خوشی کے آنسو ہیں۔ کہنے لگا نہیں۔
پوچھا کیا پیسہ جانے کا غم ہے۔ بولا۔ وہ بھی نہیں۔
پوچھا پھر کیا مشکل ہے۔ بولا۔ ساٹھ روزے مسلسل رکھنے پڑیں گے اس پر پریشان ہوں!


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments