کچھ اقبال ساجد کے بارے میں


محترم ڈاکٹر خالد سہیل صاحب

آپ کا ادبی مکتوب نظر نواز ہوا جس میں آپ نے لاہور کی ایک منفرد ادبی شخصیت زاہد ڈار صاحب سے قلمی تجدیدِ ملاقات کا سامان کیا ہے۔ آپ کے خط سے پاک ٹی ہاؤس اور اس کے مستقل ”نشینوں“ کی یادیں بھی تازہ ہو گئیں اور زاہد ڈار کی شاعری سے بھی حظ اٹھانے کا موقع ملا۔

اس حوالہ سے دل چسپ بات یہ کہ زاہد ڈار صاحب ان شخصیات میں سے تھے جن سے رسمی سا تعارف تو پاک ٹی ہاؤس میں پہلی بار قدم رکھتے ہی ہو گیا تھا مگر دوستانہ شناسائی کبھی نہ ہو سکی۔ وجہ اس کی میری کم مائیگی بھی ہو سکتی ہے اور جیسا کہ آپ کے خط میں بھی اشارہ ملتا ہے کہ وہ خود بھی کچھ مردم گریز اور مردم بیزار فرد تھے۔ مجھے یاد ہے، انہیں پہلی بار انیس سو ستتر میں دیکھا تھا جب میں اپنے ایک شاعر دوستوں بابر شوکت اور افضل اقبال کے ساتھ شہرت بخاری صاحب اور انجم رومانی صاحب کو ایک مشاعرہ میں مدعو کرنے پاک ٹی ہاؤس گیا تھا۔ یہ ٹی ہاؤس کو اندر سے دیکھنے کا میرا پہلا موقع تھا۔ دائیں طرف کھڑکی کے ساتھ والے پہلے ہی میز کے گرد انتظار حسین اور مظفر علی سید اپنے دوستوں کے ساتھ تشریف فرما تھے۔ دوسرے پر ڈاکٹر سہیل احمد خان، انیس ناگی، ڈاکٹر انور سجاد، عبدالرشید اور جاوید شاہین کی محفل سجی تھی۔ درمیان والے قدرے اونچے میز کے گرد شہرت بخاری اور انجم رومانی اپنے ادبی احباب کے ساتھ محوِ تکلم تھے۔ انتہائی دائیں کونے میں سیڑھیوں کے ساتھ دیوار گِیر صوفے پر اسرار زیدی صاحب نے اپنی مجلس سجا رکھی تھی۔ ٹی ہاؤس کے ادب اور ادیب نواز ویٹرز شاعروں ادیبوں کو چائے پلانے میں مصروف تھے۔ ان میں سے ایک تو شاعر بھی تھے جو ’بنجارہ‘ تخلص کرتے تھے۔ ٹی ہاؤس میں آوازوں اور قہقہوں کی آمیزش نے ایک عجب شور بپا کر رکھا تھا۔ مگر دیوار کے ساتھ کاؤنٹر کے پاس والی پہلی نشست پر ایک منحنی سے صاحب سفید کرتے اور کُھلے پائنچے کے پاجامے میں ملبوس، دبیز شیشوں کی عینک لگائے اس شور سے بے نیاز انتہائی انہماک سے کسی کتاب کے مطالعہ میں مصروف تھے۔ ان کے سامنے چائے کا ایک کپ دھرا تھا۔ جس کے آس پاس سگریٹ کا دھواں رقص کر رہا تھا۔ مجھے وہ صاحب پہلی نگاہ ہی میں مختلف اور منفرد لگے۔ بعد میں میرے دوست وسیم گوہر نے بتایا کہ ان کا نام زاہد ڈار ہے اور یہ کہ وہ نظم کے شاعر اور مطالعہ کے رسیا ہیں۔

ڈاکٹر صاحب

پھر ٹی ہاؤس میں جب میں باقاعدہ جانے لگا، حلقہ اربابِ ذوق کا رُکن بھی بن گیا اور رُکنیت کے اگلے ہی برس سالانہ انتخابات میں جائنٹ سیکرٹری کے عہدہ کے لیے الیکشن کے میدان میں بھی اُتر گیا یا اتار دیا گیا تو انتخابی مہم کے سلسلہ میں حلقہ کے سبھی اراکین سے رابطہ کرنا پڑا۔ ظاہر ہے اراکین کی فہرس میں زاہد ڈار صاحب کا نام بھی شامل تھا تو ان سے بھی ووٹ طلب کرنے پہنچ گیا۔ وہ اس وقت ٹی ہاؤس سے باہر ریلنگ پر بیٹھے تھے اور تب بھی تنہا تھے۔ ہاں، ایک کتاب ضرور ان کے بغل میں دبی تھی۔ شام ہو رہی تھی۔ وہ دُور شفق کا نظارہ کر رہے تھے یا بس یوں ہی خلا میں گھور رہے تھے؟ مجھے معلوم نہ ہو سکا۔ مگر میرے تعارف اور انتخابی منشور کی فراہمی کے بعد ان کا ردِ عمل قطعی مختلف تھا یعنی انہوں نے کوئی جواب نہ دیا۔ میری باتیں تاثر سے عاری چہرے کے ساتھ سُنیں، پمفلٹ تھاما۔ اسے ایک نظر دیکھنے کی بھی زحمت نہ کی اور جب تک میں بولتا رہا وہ عجیب معنی خیز نظروں سے مجھے دیکھتے رہے جیسے کہہ رہے ہوں

اچھا، یہ انتخاب جس کے لیے تم اتنی تگ و دو کر رہے ہو اگر بالفرض جِیت بھی گئے تو کیا تِیر مار لو گے! ”۔“

میں نے دن بھر کی کارکردگی کی زبانی ’رپورٹ‘ رات گئے اپنے ’انتخابی مشیر‘ جناب مبارک احمد کی خدمت میں پیش کی تو زاہد ڈار صاحب کے بارے میں بھی بتایا تو مبارک صاحب نے قہقہہ لگاتے ہوئے کہا:

”اسے چھوڑئیے آپ۔ وہ ایسا ہی ہے۔ ووٹ آپ ہی کو دے گا۔ اُس کا معاملہ مجھ پر اور سعادت سعید پر چھوڑ دیجیے۔“

پھر میں زاہد ڈار صاحب کو مسلسل ٹی ہاؤس کے اندر، باہر دیکھتا رہا۔ کبھی وہ حلقہ کے اجلاس میں شرکت کے لیے گیلری میں بھی آ جاتے۔ کراچی سے ڈاکٹر آصف فرخی لاہور آئے تو ٹی ہاؤس میں ان سے بھی باتیں کرتے رہے لیکن مجھ سے باقاعدہ ملاقات کی کوئی صورت نہ بن سکی۔ ہاں کتاب اور مطالعہ سے ان کے عشق کی داستانیں اُس دور میں بھی لاہور کی ادبی فضاؤں میں گونجا کرتی تھیں۔

میں دیکھتا تھا کہ وہ ٹی ہاؤس میں داخل ہوتے اور سیدھا اپنی مخصوص نشست پر جا بیٹھتے اور پھر چائے، کتاب اور دھوں ان کے رفیق ہو جاتے۔ میں نے انہیں نہ کبھی کسی اور کی طرف بڑھتے ہوئے دیکھا اور نہ ہی کسی کو اپنے پاس بیٹھنے کو مدعو کرتے۔ لوگ ان سے ملنا چاہتے تھے مگر وہ ان سے کتراتے تھے اور کبھی کبھار تو قریب کھڑے یا بیٹھے لوگوں کو بھی نظر انداز کر دیتے تھے۔ شاید یہی ان کا مزاج تھا۔

ڈاکٹر خالد سہیل صاحب

ٹی ہاؤس کی ان دنوں کی دنیا عجب رنگا رنگ تھی۔ اس میں جہاں ہمیں زاہد ڈار جیسے مردم گریز تخلیق کار دکھائی دیتے تھے وہاں ایسے لکھنے والے بھی متواتر نظر آتے تھے جن سے دوسرے گریز کرتے تھے۔ ایسی ہی ایک شخصیت منفرد لب و لہجہ کے شاعر اقبال ساجد تھے۔ وہ بھی باقاعدگی سے اس چائے خانہ میں آتے اور میں دیکھتا کہ اکثر احباب نہیں چاہتے تھے کہ اقبال ساجد ان کے میز پر آ بیٹھیں۔ وجہ اس گریز کی یہ بتائی جاتی تھی کہ وہ شراب نوشی کے عادی ہیں اور نشہ پورا نہ ہونے کی صورت میں بھی اور نشہ میں ہونے کی صورت میں بھی ’غیر محتاط‘ باتیں کرتے ہیں۔ وہ دعویٰ کرتے ہیں کہ وہ شہر کے کئی معروف شعرا اور شاعرات کو معاوضہ پر کلام لکھ کر دیتے ہیں۔ جیسا کہ وہ خود کہتے تھے :

روشن ہوئے ہی لوگ مِرا فن خرید کر

ان سے ایک گلہ یہ بھی کیا جاتا کہ وہ اپنے ہم۔ عصر سینئر شعرا پر بھی الزام لگاتے ہیں کہ وہ نہ صرف ان کے اشعار ’چُراتے‘ ہیں بلکہ اچھی اور ان سے بہتر شاعری کے سبب ان سے حسد بھی کرتے ہیں۔ مثلاً ان کی ایک غزل کا یہ مطلع اس دور میں خاصا مشہور ہوا:

نئے زمانہ میں ان کا جواز کچھ بھی نہیں
فراق و فیض و ندیم و فراز کچھ بھی نہیں

وہ احمد ندیم قاسمی صاحب کو بھی اپنے حاسدین کی فہرست میں شامل کرتے تھے۔ مجھے یاد ہے میں والد صاحب محترم یزدانی جالندھری کے ساتھ ریڈیو پاکستان لاہور کے اس مشاعرہ کی ریکارڈنگ میں موجود تھا جس میں اقبال ساجد صاحب اپنی طنزیہ لہجہ کی غزل سناتے ہوئے مسلسل ندیم صاحب کی طرف دیکھتے رہے گویا غزل کی زبان میں انہی سے مخاطب ہوں۔ ان کی اس غزل کے اشعار کے تیور ذرا دیکھیے :

ہر کسی کو کب بھلا یوں مسترد کرتا ہوں میں
تو ہے خوش قسمت اگر تجھ سے حسد کرتا ہوں میں
بغض بھی سینے میں رکھتا ہوں عداوت کی طرح
نفرتیں کرنے پہ آ جاؤں تو حد کرتا ہوں میں
کچھ شعوری سطح پر ، کچھ لاشعوری طور پر
کارِ فکر و فن میں اب سب کی مدد کرتا ہوں میں

مشاعرہ کے بعد میں نے خالد احمد، نجیب احمد، قائم نقوی اور کچھ دوسرے دوستوں کو اقبال ساجد کے اس ’اندازِ جسارت‘ پر خفگی کا اظہار کرتے سُنا۔

لیکن یہ میرا پہلا موقع نہ تھا اقبال ساجد کو سننے کا ۔ میں نے انہیں پہلی بار ستّر کے عشرے کے اواخر میں الشجر بلڈنگ، نیلا گنبد میں واقع ایک نجی تعلیمی ادارہ میں منعقدہ اس محفل ِ مشاعرہ میں سنا تھا جس کا اہتمام ڈاکٹر تبسم رضوانی صاحب کی ادبی تنظیم مجلس شمع ادب نے کیا تھا۔ میں ان دنوں ہائی سکول میں پڑھتا تھا اور بطور سامع والدصاحب کے ساتھ ادبی تقاریب میں شرکت کرنے لگا تھا۔ اقبال ساجد کی پہلی غزل نے ہی مجھ پر گہرا اثر چھوڑا کیوں کہ ان کا شعر کہنے کا ڈھنگ دیگر شعرا سے مختلف تھا۔ ان کی غزل کی زمین بھی منفرد تھی۔ اس شام سُنی ان کی غزل کا مطلع آپ بھی پڑھ لیجیے :

سورج ہوں زندگی کی رمق چھوڑ جاؤں گا
میں ڈوب بھی گیا تو شفق چھوڑ جاؤں گا

اور بعد ازاں ان کی متعدد غزلیں سنیں اور پڑھیں :

وہ چاند ہے تو عکس بھی پانی میں آئے گا
کردار خود اُبھر کے کہانی میں آئے گا

دہر کے اندھے کنویں میں کس کے آوازہ لگا
کوئی پتھر پھینک کر پانی کا اندازہ لگا

کل شب دلِ آوارہ کو سینے سے نکالا
یہ آخری کافر بھی مدینے سے نکالا

غار سے سنگ ہٹایا تو وہ خالی نکلا
کسی قیدی کا نہ کردار مثالی نکلا

ڈاکٹر صاحب،

جب میں گورنمنٹ کالج لاہور میں داخلہ کے بعد اسّی کے اوائل میں لاہور کے ادبی حلقوں میں متعارف ہونا شروع ہوا تو اقبال ساجد ایک منفرد و ممتاز شاعر کے طور پر اپنی پہچان بنا چکے تھے۔ میں دیکھتا تھا کہ ایک طرف جہاں ان کے اشعار کی قدر افزائی ہو رہی ہے وہاں دوسری جانب ان کی شخصیت اور طرزِ عمل کو تنقید کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ مثلاً دوست بتاتے تھے کہ وہ شراب پینے کے لیے ان سے رقم ادھار مانگتے رہے ہیں اور یہ کہ ان کی اس عادت اور نامساعد معاشی حالات کے باعث ان کے اہلِ خانہ سخت پریشانیوں اور مشکلات کا شکار ہیں۔ اس ضمن میں وہ ریواز گارڈن میں ان کے پڑوسی معروف شاعر اور لکھاری احمد راہی صاحب کا بھی نام لیتے کہ وہ ان کے خاندان کی کس مپرسی کے عینی شاہد ہیں۔ میرے مشاہدہ کی حد تک لاہور کے ادبی حلقوں میں ان کا کوئی قریبی دوست نہ تھا۔ ان کی طرف دوستی کا ہاتھ بڑھانے میں کئی امور میرے دامن گیر رہے ؛ ایک تو عمر کا تفاوت، دوسرے میری طبع کم آمیز اور پھر انہیں احباب سے الجھتے دیکھنا۔ میں ان کی شاعری کا مداح ہونے کے باوصف ان سے حدِ فاصل بنائے رہا۔

ڈاکٹر صاحب

آپ خود تخلیق کار ہونے کے ساتھ ساتھ ایک ماہرِ نفسیات اور ایک تھیراپسٹ ہیں اور بخوبی سمجھتے ہیں کہ معاشی وسائل کی عدم دست یابی اور اسی پر مہنگا شوق یا علّت کسی فرد اور اس کے اہلِ خانہ کو معاشرہ میں کن مشکل حالات سے دوچار کر سکتے ہیں۔ اقبال ساجد کو دیکھ کر لامحالہ مجھے والد صاحب کے ایک اور شاعر دوست ساغر صدیقی یاد آ جاتے۔ انسان کی احتیاج اس کی سوچ کو کس رُخ پر لے جاتی ہے۔ اقبال ساجد کا ایک شعر دیکھیے :

آج کے دن بھی مِرا رزق نہ اترا مجھ پر
آج کے دن بھی پڑوسی مِرے رازق ٹھہرے

تاہم، دل چسپ امر یہ کہ برسوں کی ملاقات کے باوصف دوستوں کے بیانات کے برعکس انہوں نے مجھ سے کبھی رقم کا تقاضا نہیں کیا بلکہ ایک دو بار مجھے کھانے کی دعوت ہی دی۔

مجھے یاد ہے چودہ اگست کا دن قریب آ رہا تھا۔ ہم نے ریڈیو پاکستان لاہور کے لیے خصوصی آزادی مشاعرہ ریکارڈ کروایا تھا اور پھر پاکستان نیشنل سنٹر میں منعقدہ شعری تقریب میں بھی ایک ساتھ شرکت کی تھی۔ واپسی پر رات ہو گئی۔ ہم مال روڈ کی رنگا رنگ روشنیوں کے جِلو میں پاک ٹی ہاؤس پہنچے تو وہ بند ہو رہا تھا۔ اقبال ساجد صاحب نے اس پر اپنی ناراضی کا اظہار کیا اور کچھ ’نازیبا‘ الفاظ بھی کہہ گئے۔ وہاں اس وقت چند اور نوجوان شاعر دوست بھی جمع تھے جنہوں نے یہ سوچ کر کہ وہ نشے میں ہیں ان کا ’مذاق‘ اُڑانا شروع کر دیا۔ اقبال ساجد صاحب نے چند منٹ ان کے ’حملوں‘ کا جواب دیا اور پھر آگے بڑھے، میرا بازو تھاما اور تقریباً کھینچتے ہوئے بولے :

”تم نکلو بے شناخت لوگوں کے اس ہجوم سے۔ تمہارا ان میں کیا کام؟“
:میں نے کہا
”اقبال ساجد صاحب، یہ میرے دوست ہیں۔“
انہوں نے میرا بازو چھوڑ دیا اور اپنے دونوں ہاتھ میرے شانوں پر رکھتے ہوئے بولے

”دیکھو، ان کا کوئی ادبی پس منظر نہیں۔ کوئی شناخت نہیں۔ یہ مجھے کچھ بھی کہہ لیں مجھے کیا فرق پڑتا ہے! مگر تم۔“

:میں نے فوراً کہا کہ میں نے تو آپ کے بارے میں کچھ نہیں کہا۔ تو میری آنکھوں میں دیکھتے ہوئے رک رک کر کہنے لگے

”تم ایک جینوئن شاعر کے بیٹے ہو۔ یزدانی جالندھری کے بیٹے۔ تمہارا ان ناہنجاروں کے ساتھ کھڑے رہنا بھی مجھے گوارا نہیں۔ چلو، یہاں سے۔ میں تمہیں انارکلی سے اچھا سا کھانا کھلاتا ہوں۔“

:میں نے تردد کیا تو جیب میں ہاتھ ڈالا اور کچھ نوٹ دکھاتے ہوئے بولے
”ارے، واقعی میں ہی کِھلاؤں گا۔ پیسے ہیں میرے پاس۔ یہ دیکھو۔“

میں نے ادب سے کہا کہ وجہ پیسوں کی نہیں۔ دراصل مجھے بھوک نہیں اور پھر یہ کہ انہیں بھی اب گھر جانا چاہیے۔ یہ سن کر وہ کچھ جذباتی سے ہو گئے۔ کہنے لگے کہ میں بھی یہی سمجھتا ہوں کہ کھانا کھانے کے بعد وہ بل نہ چکا پائیں گے۔

میں نے ہزار سمجھانے کی کوشش کی کہ میں ایسا نہیں سمجھتا مگر وہ خفگی کے انداز میں کچھ بڑبڑاتے ہوئے سڑک کے دوسری جانب چل دیے۔ اُس سڑک کی جانب جو انارکلی کی جانب بھی جاتی ہے اور ریواز گارڈن کی طرف بھی۔ وہ اس رات وہاں سے انارکلی گئے تھے یا ریواز گارڈن اپنے گھر۔ مجھے کبھی معلوم نہیں ہوسکا۔

ڈاکٹر صاحب،

شعر و شراب کی لہروں میں بہتا یہ با کمال شاعر زندگی کے نشیب و فراز کے ہچکولے برداشت کرتا ہوا انیس سو اٹھاسی میں اس دارِ فانی رخصت ہو گیا۔ ایک ایسے سماج میں جہاں معاشی اور معاشرتی ناہمواری کے جھکڑ چلتے ہوں، جہاں انسان کی عزتِ نفس اور تخلیقی پہچان گروہی وابستگیوں اور خوش آمدوں کی محتاج ہو اور جہاں مشکلات کے طوفان اور مسائل کے بھونچال مکینوں کی زندگیاں تہ و بالا کر دینے کے در پے ہوں وہاں اتنے سال جی جانا بھی کسی کرشمہ سے کم نہیں۔ اقبال ساجد کی شاعرانہ بصیرت تو دیوار و در ہلاتے ان طوفانوں اور بھونچالوں کو سماج کی بنیادوں میں بیٹھا دیکھتی تھی۔ اسی لیے تو وہ کہتے ہیں

جہاں بھونچال بنیادِ فصیل و در میں رہتے ہیں
ہمارا حوصلہ دیکھو ہم ایسے گھر میں رہتے ہیں

جہاں تک ان کے شعری اثاثے کا تعلق ہے تو وہ کلیات کی صورت میں شائع تو ہوا مگر افسوس کہ ان کی زندگی میں نہیں۔

دیکھیے، ڈاکٹر خالد سہیل صاحب، آپ کے ادبی مکتوب کا جواب رقم کرتے ہوئے لاہور کی ایک ادبی شخصیت ہی نہیں ایک پورا دور نگاہ کے سامنے گھوم گیا بلکہ چشمِ تصور میں پھر سے زندہ ہو گیا۔ میں یادوں کی اس نیم روشن بستی کی سیر کا موقع فراہم کرنے پر آپ کا شکر گزار ہوں۔

نیک تمناؤں کے ساتھ:
آپ کا ادبی دوست
حامدیزدانی
یکم ستمبر دو ہزار چوبیس


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments