نوجوان نسل کے رومانوی مسائل، شہوانی خواب اور خود وصلی بارے تصورات
گزشتہ دنوں ڈاکٹر خالد سہیل کا ایک کالم بعنوان ” جسمانی طور پر بالغ، ذہنی طور پر نابالغ“ نظروں سے گزرا۔ جس میں مقدس مجید صاحبہ جو کہ ایک معروف لکھاری ہیں اور نوجوانوں کے مسائل پر گہری نظر رکھتی ہیں نے ڈاکٹر سہیل سے نوجوانوں کے رومانوی تعلق اور ان کے مسائل کے متعلق بڑا گہرا اور بنیادی سوال پوچھا۔
(مقدس صاحبہ کا سوال)
”جیسا کہ ہم ایڈوانس ٹیکنالوجی کے دور میں رہ رہے ہیں۔ اس کا نہ صرف ہماری پروفیشنل زندگی بلکہ ذاتی زندگی پر بھی گہرا اثر پڑ رہا ہے۔ ہمارے دوسروں کے ساتھ استوار کیے جانے والے تعلقات پر بھی۔ تیزی سے آگے بڑھتی دنیا میں انسانی تعلقات دھندلا سے گئے ہیں۔
میں پاکستان میں گرین زون اور نوجوانوں کی نفسیاتی صحت کے حوالے سے کام کر رہی ہوں اور مجھے ان کی نجی زندگی کو گہرائی سے جاننے کا موقع بھی ملتا ہے۔ چونکہ نوجوانوں کے رومانوی تعلقات ہمارے یہاں ایک ٹیبو کی حیثیت رکھتے ہیں اس وجہ سے اکثر لڑکیاں اور لڑکے کبھی ان پرسن زندگی میں مواقع ملنے اور زیادہ تر سوشل میڈیا کے ذریعے جلد ہی رومانوی تعلق قائم کر لیتے ہیں اور اکثر زہریلے تعلق میں ہونے کے باوجود یہ بات کسی کو بتا نہیں پاتے۔ وہ صحت مند تعلق استوار کرنے اور اپنا ہمسفر چننے کے اصولوں سے واقف نہیں ہو پاتے۔ وہ خاموشی میں گھٹتے رہتے ہیں اور نفسیاتی الجھنوں کے شکار ہو جاتے ہیں کیونکہ اذیت دینے والے تعلق کا کنواں ایک طرف اور دوسری جانب رومانوی تعلق قائم کرنے کے گلٹ کی کھائی ہوتی ہے۔ یہ حالت انھیں بے چین رکھتی ہے ”
اس سوال کے جواب میں ڈاکٹر سہیل نے جن مسائل کی طرف توجہ دلائی ہے وہ واقعی پڑھنے سے تعلق رکھتے ہیں۔
لیکن ہمارا تعلق چونکہ اسی سماج سے ہے، بطور معلم کم و بیش 17 سالوں سے بندہ خود بھی نوجوان نسل سے مسلسل رابطے میں ہے اور مجھے گاہے بگاہے سوال و جواب کی صورت میں نوجوانوں کے ذہنوں میں جھانکنے کا موقع ملتا رہتا ہے۔
میرے خیال میں بچوں کو نیک و پاکباز بنانے کے چکروں میں والدین شروع میں ہی ایسے لوگوں کے حوالے کر دیتے ہیں جن کے متعلق ان کا یہ خیال ہوتا ہے کہ ان کی چھتر چھایا میں ہمارے بچے مذہبی تعلیم کے ساتھ ساتھ ایک اچھے انسان بھی بن جائیں گے، لیکن ایسا بھلا کہاں ہوتا ہے؟
بلکہ ان کا بے ضرر سا بچپن، معصوم سی حیرت و مسکراہٹ اور گناہ و ثواب سے بالاتر اور بے نیاز ہو کر کے فطرت کو اپنی ننھی سی نگاہوں سے دیکھنے کا جذبہ سماج کی طرف سے انہیں نیک بنانے کے ہنگامی بندوبست کی صورت میں مسخ ہو جاتا ہے۔
جب اسی ابتدائی اسکولنگ کے ساتھ وہ زندگی کے اگلے پڑاؤ کو سر کرتے ہوئے آ گے بڑھتا ہے تو وہ ساری زندگی تضادات کا شکار رہتا ہے۔ نا خدا ہی ملا نا وصال صنم کا یہ انسان نما روبوٹ ساری زندگی راندہ درگاہ رہتا ہے۔
روایتی ماحول میں کی گئی ابتدائی جبری و غیر اختیاری اور غیر فطری سی ذہنی اسپون فیڈنگ اسے ساری زندگی بے بس کیے رکھتی ہے۔
اس کا تجسس تو اسے بے چین کیے رکھتا ہے، وہ نوجوانی کے مختلف پڑاؤ میں جب قدم رکھتا ہے تو اس کے جنسی تقاضے، جیون ساتھی کے متعلق تجسس اور فینٹسی اور شہوانی خواہشات و جذبات اسے متحرک کرنے لگتے ہیں۔ فطرت کی ودیعت کردہ جبلت اس سے تقاضا کرنے لگتی ہے کہ وہ بھی کسی سے پیار کرے، محبت کے کچھ بول وہ بولے اور کچھ اپنے متعلق بھی کسی سے سنے۔
لیکن اس کی جبری تربیت، معاشرتی جبر اور خوف اسے ایک جینوئن روپ میں ڈھلنے کی اجازت نہیں دیتا اور وہ ساری زندگی گناہ و ثواب کے پیمانوں میں الجھا رہتا ہے اور وہ ایک طرح سے منافق، دوغلا اور میسنا بن جاتا ہے۔
فطرت کے منہ زور تقاضوں کا مقابلہ وہ چھپ چھپا کے کرنے لگتا ہے، لوگوں کے سامنے روایتی پر سونا ماسک پہنے رکھنے کی اداکاری کرتا ہے اور خلوت میں شہوانی خوابوں کو ذہن میں سجا کر ماسٹر بیشن ”خود وصلی“ سے لطف اندوز ہونے لگتا ہے اور من کو ٹھنڈا کرنے کی ہر ممکن کوشش کرتا رہتا ہے اور اسے احساس گناہ بھی بے چین کیے رکھتا ہے۔
افسوس اور حیرت کی بات تو یہ ہے کہ وہ سیلف ابیوز یعنی ”ماسٹر بیشن“ جسے اب سیلف پلیژر کہا جانے لگا ہے کو بھی احساس گناہ کے سائے میں سیلیبریٹ کرتا ہے اور گلٹ کی وجہ سے مسکرانا تک بھول جاتا ہے۔
بند اور جامد و ساکت ایسے سماج میں منافقت کا بول بالا ہوتا ہے، فطری جذبوں اور انسانی جسم سے جڑی ہوئی حقیقتوں اور تقاضوں پر سماجی ٹھیکیداروں کی طرف سے کھوکھلے اخلاقی پہرے بٹھا دیے جاتے ہیں اور حساس موضوعات پر گفتگو کرنے سے منع کر دیا جاتا ہے۔ جس کا نتیجہ بچہ بازی، نابالغ بچیوں کا جنسی استحصال، جانوروں اور خواجہ سراؤں سے بدفعلی ایسے مکروہ افعال کی صورت میں سامنے آنے لگتا ہے۔
سماج کو اس گندگی و غلاظت کی طرف دھکیلنے میں وہ سارے جبری بندوبست یا روایتی اسکولنگ بہت اہم کردار ادا کرتی ہے جو ہم اپنی جنریشن کو پاکباز اور متقی بنانے کے لیے حفظ ماتقدم کے طور پر دوسروں پر زبردستی عائد کرتے ہیں۔
پاکباز بننے کا تو پتا نہیں البتہ وہ منافق ضرور بن جاتے ہیں اور ابتدائی شخصی ٹیڑھ پن کی وجہ سے ادھ ادھوری سی شخصیت کے مالک بن جاتے ہیں جو ایک طرح سے تضادات کا مجموعہ ہوتی ہے۔
سیکس ایجوکیشن کے نصاب کا حصہ نہ ہونے کی وجہ سے ہمارے نوجوان جنسی طور پر بالغ نہیں ہوتے اور جنس کے متعلق ایک غیر فطری سے جہاں میں گم رہتے ہیں اور ان کی نظر میں خاتون سے شادی یا دوستی کا مطلب صرف اس کے جسم کو فتح کرنا یا نوچنا ہوتا ہے۔ جس کے اثرات ان کی ازدواجی اور رومانوی زندگی پر بھی پڑتے ہیں۔
جنسی تعلیم کے نہ ہونے اور جبری ماحول کی وجہ سے دو باشعور انسانوں کے بیچ رومانوی تعلقات کا قائم ہونا، شادی سے پہلے دوستی کا رشتہ قائم ہونا، شریک حیات کو خود پسند کرنا ایسے فطری تقاضوں کی ایک تنگ سماج میں قطعاً کوئی گنجائش نہیں ہوتی ہے۔ اسی لیے تو یہاں نفسیاتی و ذہنی مسائل کی بھرمار ہے، یہاں شادی دو دلوں کا آزادانہ ملاپ نہیں ہوتی بلکہ بے جوڑ رشتوں کا جسمانی ملاپ ہوتی ہیں جس کا ذہنی ہم آہنگی سے کوئی تعلق نہیں ہوتا ہے بلکہ والدین کی جذباتی بلیک میلنگ سے ہوتا ہے۔
ڈاکٹر سہیل نے بالکل درست کہا ہے کہ
”جب شادیاں دوستی اور محبت کی بنیادوں پر استوار نہیں ہوں گی تو وہ نفسیاتی مسائل کا شکار ہو جائیں گی“
محترم ڈاکٹر صاحب! میں اس منافق سماج کا چشم دید گواہ ہوں، یہاں ازدواجی رشتوں کو کوئی زیادہ اہمیت نہیں دی جاتی بلکہ شادی کے بعد گھر میں ایک اور کنیز یا گھریلو ملازمہ کا اضافہ ہو جاتا ہے اور والدین اس جبری سے رشتے کو بھی محبت میں ڈھلنے کا موقع نہیں دیتے ہیں۔
بہو اور بیٹے پر ”آئی سی یو“ والی نگاہیں گاڑھے رکھتے ہیں اور جیسے ہی محبت ہونے لگتی ہے یا امکان پیدا ہونے لگتا ہے تو بیٹے پر فوری ”زن مرید“ کا ٹیگ لگ جاتا ہے اور وہ بیچارہ شرم سے پانی پانی ہو جاتا ہے۔
یہاں پیار و محبت، اپنائیت اور مرد و خاتون کی برابری کی بنیاد پر دوستی کو شک کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔
افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ یہاں خاتون کو صرف جنسی مشین کے طور پر دیکھا جاتا ہے جس کا مرد کے ساتھ ایک نارمل ریلیشن قائم ہو ہی نہیں سکتا اور مرد و خاتون کا ساتھ میں دکھنے کا صرف ایک کی مقصد ہو سکتا ہے اور وہ ہے جنسی تسکین کے لئے بستر شیئر کرنا۔
مقدس صاحبہ نے جو سوال پوچھا ہے وہ آج کے پس منظر میں پوچھا ہے کہ اب ہر ریلیشن ”انٹرنٹائز“ ہو چکا ہے، ذہنی کتھارسس کے تقاضے بدل چکے ہیں، فیس ٹو فیس ریلیشنز اور مل بیٹھ کر گفت و شنید کا کلچر دم توڑنے لگا ہے۔
اب ایسے میں وہ لوگ کیسے ڈھونڈیں جن کے ساتھ ہماری ذہنی وابستگی قائم ہو سکے، اب اس سماج کا بڑا المیہ یہ ہے کہ یہاں انٹرنیٹ ریلیشنز کو بھی دوسروں کو دھوکا دینے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے اور مقصد پورا ہو جانے کے بعد چھوڑ دیا جاتا ہے۔
منافقت کا یہ عالم ہے کہ فیس بک اکاؤنٹ پر تصویر اور تفصیل تک جعلی ہوتی ہے، مقصد دوسروں کو دھوکا دینا ہوتا ہے۔
اب ایسے میں انتہائی احتیاط کی ضرورت ہوتی ہے، غیر فطری معاشروں میں رانگ نمبرز کا راج ہوتا ہے لوگ مختلف روپ و رنگ میں رنگ بازیاں کر رہے ہوتے ہیں۔
- عامر ہاشم خاکوانی اتنی جلدی میں کیوں رہتے ہیں؟ - 11/10/2024
- لکی مروت کی پلوشہ کا سوال اور ڈاکٹر ذاکر نائک کا ”ٹنل ویژن“ - 07/10/2024
- آن لائن حلالہ سینٹرز، مکمل رازداری کے ساتھ حلالہ کا اہتمام - 05/10/2024
Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).