نیلا آسمان، فسادات کے لیے موزوں وقت


Sohail Ahmad usa

آج موسم صاف ہے تو میرے خیال میں یہ ہنگامے کے لیے بہترین وقت ہے؟ دراصل کچھ عرصے سے برطانیہ کے سیاست دانوں کے لیے موسم گرما زیادہ تر مشکلات کا باعث بنتا چلا آ رہا ہے اور یہ معاملہ محض تارکینِ وطن کے برطانوی سر زمین پر غیر قانونی داخلے تک ہی محدود نہیں ہے بلکہ ان میں ان دنوں شدت آ جاتی ہے جب فسادات ہونے کا سب سے زیادہ امکان ہو۔ اس عدم اطمینان کی بنیادی وجہ ایک غیر محسوس سا دباؤ ہے جو ہر لمحہ فضاؤں میں سانس لے رہا ہوتا ہے۔ عام طور پر یہ لاوا سردیوں کے دنوں میں پکنا شروع ہوتا ہے اور اس وقت تک پکتا رہتا ہے جب تک کوئی غیر معمولی ٹریگر واقعہ اس کے پھٹنے کا سبب نہ بن جائے۔

اس سال جو واقعہ ان حالات کی وجہ بنا وہ ساؤتھ پورٹ میں چھوٹے بچوں کو چھرا گھونپ کر موت کے گھاٹ اتارنے کا تھا جس کا کچھ بد فطرت افراد نے بھرپور فائدہ اٹھایا اور بغیر کسی تحقیق و تفتیش کے یہ دعویٰ کرنے میں کوئی وقت ضائع نہیں کیا کہ مبینہ مجرم ایک مسلم غیر قانونی تارکین وطن تھا، جبکہ بعد میں ہونے والی ابتدائی تحقیقات میں ہی یہ ثابت ہو گیا کہ وہ اصل میں کارڈف میں پیدا ہوا تھا اور ایک مسیحی باپ کی اولاد تھا۔

برطانوی میڈیا میں 2011 میں انگلینڈ میں ہونے والے آخری بڑے فسادات سے جب موازنہ کیا گیا تو وہاں بھی ٹرگر واقعہ، شمالی لندن کے ایک مبینہ گینگسٹر کی ہلاکت خیز شوٹنگ کے واقعات کو الجھا کر اور غلط معلومات کے ذریعہ چھپا دیا گیا تھا کیونکہ پولیس اور عینی شاہدین نے متضاد معلومات فراہم کی تھیں۔ اکاؤنٹس آتش زنی اور لوٹ مار کے نتیجے میں ہونے والے ان ہنگاموں میں، اصل محرکات کو بڑی حد تک فراموش کر دیا گیا، جس سے مجرموں نے اپنا مقصد پورا کر لیا۔

اسی طرح کی غلط معلومات کے واقعات کی بازگشت

تاریخ کے اوراق میں جھانک کر دیکھیں تو 1255 میں ایک خاص طور پر بدنام مثال، ”لٹل سینٹ ہیو آف لنکن، ہے جس میں ایک 9 سالہ لڑکے کے حوالے سے الزام لگایا گیا تھا کہ اسے یہودیوں کی طرف سے ’خون کی توہین‘ کی قربانی میں رسمی طور پر قتل کر دیا گیا تھا۔ ایک گھناؤنا واقعہ جس میں لڑکے پر تشدد کیا گیا، کوڑے مارے گئے، مصلوب کیا گیا اور کنویں سے نیچے پھینک دیا گیا، ایسا لگتا ہے کہ ظلم کا یہ واقعہ یہودیوں کے خلاف نفرت کو بھڑکانے کے لیے تیار کیا گیا تھا اور اس نے اپنے مقصد کو بڑی کامیابی سے مکمل کیا تھا۔ اس واقعے کا مجرم ایک یہودی کو پایا گیا اور اسے اعتراف جرم کرنے پر تشدد کا نشانہ بنایا گیا، جس کے بعد اسے پھانسی دے دی گئی، اس کے بعد 18 مزید یہودیوں نے کینگرو کے ’شو ٹرائلز‘ کی صداقت کو تسلیم کرنے سے انکار کر دیا، یہ رسمی قتل کا الزام یہودیوں پر پہلا نہیں تھا۔ لیکن یہ سب سے پہلے حکمران بادشاہ، ہنری سوئم کی طرف سے تھا جسے پوشیدہ رکھا گیا تھا کہ بادشاہ نے پہلے اپنے بھائی رچرڈ ارل کو فروخت کیا تھا۔

اس کے بعد مزید 71 یہودیوں کو موت کی سزا سنائی گئی تھی۔ لیکن تب تک یہ دھوکہ دہی پوری طرح عیاں ہو چکی تھی۔ یہاں تک کہ چرچ، اور کارن وال کے رچرڈ نے بھی مداخلت کرنے کے ضرورت محسوس کی اور متاثرین کو رہا کر دیا گیا۔ لیکن بوگس کہانیاں کبھی ختم نہیں ہوتی انہیں پاؤں لگ جاتے ہیں اور وہ سفر کرتی رہتی ہیں۔ بعد میں یہ چوسر اور مارلو کے کیسز میں سامنے آیا اور 20 ویں صدی کے امریکہ میں بھی یہ طریقہ واردات کام کر رہا تھا۔ 1955 میں چرچ آف انگلینڈ نے لنکن کیتھیڈرل میں ہیو کے سابق مزار پر ایک تختی لگائی، جس میں بتایا گیا کہ کس طرح یہودی برادریوں کے ہاتھوں عیسائی لڑکوں کے رسمی قتل کی کہانیاں قرون و سطیٰ اور اس کے بعد بھی پورے یورپ میں عام تھیں۔ ان افسانوں کی وجہ سے بہت سے معصوموں کی جانیں چلی جاتی ہیں جبکہ ایسی کہانیاں عیسائیت کے کریڈٹ پر نہیں جاتیں اور اس لیے ہم دعا کرتے ہیں : ”اے رب، ہم سے جو کچھ ہوا اسے معاف کر دیں“۔

شاید سب سے زیادہ سخت انگلش ڈیفنس لیگ کا ہمدرد واضح تاریخی متوازی کو مسترد کر دے گا۔ صرف اس لیے کہ ’غیر ملکیوں‘ پر الزام لگانا اتنا ہی پرانا حربہ ہے جتنی کہ تاریخ تاہم اس کا مطلب یہ ہرگز نہیں ہے کہ آج کے دور دائیں والے غلط نہیں ہیں۔ لیکن انہیں پھر بھی رک کر اپنے آپ سے سوال پوچھنا چاہیے کہ اس دعوے سے فائدہ کس کو ہوتا ہے؟ دوسری جانب یہ واضح ہے کہ بادشاہ اور زمینداروں کو ان لوگوں کو بدنام کرنے اور ستانے کے لیے ایک واضح مالی ترغیب کی ضرورت تھی جو ان کے قرض دار تھے، جس کی وجہ سے انہیں پھانسی دینے، قتل و غارت، بے دخلی، اور یہاں تک پیلے بیجز پہننے پر مجبور کیا گیا، جس کا حکم ویٹیکن نے 700 سال پہلے دیا تھا۔ چرچ کے بارے میں بھی سوچا جاتا ہے کہ وہ چھوٹے ’دیوتا‘ پیدا کرنے کی ترغیب دیتا ہے جن کے مزارات زائرین کے ذریعے بڑوں کے لیے منافع بخش ہوتے ہیں۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آج کس کو فائدہ ہوا؟ مہتواکانکشی پاپولسٹ تارکین وطن مخالف ووٹوں کی لہر پر اقتدار میں آنے کے خواہاں ہیں۔ سرمایہ دار اشرافیہ جو محنت کشوں کو آپس میں لڑتے دیکھ کر خوش ہوتے ہیں اب ان مایوس افراد پر الزام لگانے کے خواہشمند ہیں۔

قرون وسطیٰ میں زیادہ تر لوگ ناخواندہ تھے، جن کے پاس کوئی تعلیم نہیں تھی اور نہ ہی حقائق کو سمجھنے اور پرکھنے کی صلاحیت تھی۔ آج لوگوں کے پاس ایسا کوئی بہانہ نہیں ہے۔ اگر وہ اب بھی جھوٹی کہانیوں پر یقین کرنے کا انتخاب کرتے ہیں، تو یہ اس لیے نہیں کہ وہ اس کی مدد نہیں کر سکتے، یہ اس لیے ہے کہ وہ سچائی کی پرواہ نہیں کرتے۔ وہ سوشیو پیتھی میں ڈوب چکے ہیں، اور سوشلسٹوں کے لیے کوئی مددگار نہیں ہیں۔

تورات کے مطابق یہودی لوگ رسمی طور پر بکری پر اپنے گناہوں کا بوجھ ڈالتے تھے اور اسے صحرا میں بھٹکنے کے لیے بھیج دیتے تھے۔ یسوع نے اپنے آپ کو مصلوب کر کے عیسائیوں کے لئے وہی کام انجام دیا۔ لیکن سب سے بڑے قربانی کے بکرے ریاستیں اور ان کے حکمران اشرافیہ ہیں، خاص طور پر جب بات ساؤتھ پورٹ جیسے پر تشدد جرائم کی ہو۔ پر تشدد جرائم کی بہت سی وجوہات ہیں جبکہ ان کا ممکنہ حل وسیع تحقیق میں اچھی طرح سے دستاویزی صورت میں موجود ہیں۔

بشمول غربت اور محرومی، دماغی صحت کے سنگین مسائل اور آن لائن بنیاد پرستی یہ سب پُر تشدد جرائم کے پھیلاؤ کا حصہ ہیں۔ مناسب گھر کی کمی، گھر میں تشدد، وسائل اور پیسے کی کمی، والدین کی نظر اندازی، بچپن کے منفی تجربات، منشیات کی فراہمی بھی اس کی وجوہات میں شامل ہیں۔ کبھی کبھی تصویر کے کئی رخ ہوتے ہیں۔ کون سی سرمایہ دار ریاست ایسی ہے جو ان میں سے کسی کے بارے میں کچھ نہیں کر سکتی، اگر وہ چاہے تو ؟ خاص طور پر غربت کو ختم کرنے کے لیے جو کہ بہت ساری سماجی برائیوں کا سرچشمہ ہے، آپ کو نجی دولت کی ملکیت کو ختم کرنا ہو گا، جو سرمایہ داری نظام کی بنیاد ہے۔ بالکل یہی سوشلسٹ تجویز کرتے ہیں۔ سرمایہ دارانہ اہلکار صرف مجرموں کو منحرف سمجھ کر بند کر دیں گے۔ اب سوال یہ ہے کہ اگلے فسادات کب اور کہاں ہوں گے اس کا کوئی اندازہ نہیں لگا سکتا۔ لیکن جب تک سرمایہ داری قائم رہے گی ہم اس بات کا یقین کر سکتے ہیں کہ فسادات ہوں گے اور جس کا الزام عام طور پر بے گناہوں پر عائد ہوتا آیا ہے۔

پی جے ایس
سوشلسٹ سٹینڈر ستمبر 2024
ترجمہ :سہیل احمد


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments