ایک بے خواب دوپہر کا فلیش بیک: چند تاثرات


اردو افسانے کے ارتقا کا جائزہ لیا جائے تو ابتدا ہی سے خواتین افسانہ نگار، افسانے کے اُفق پر جلوہ افروز دکھائی دیتی ہیں۔ حجاب امتیاز علی، قرۃ العین حیدر، رشید جہاں، عصمت چغتائی اور ممتاز شیریں سے لے کر عصرِ حاضر تک ایک طویل فہرست ہے جن کے محض نام بھی درج کیے جائیں تو کئی صفحات درکار ہوں گے۔ ان خواتین کے افسانے سیاسی، سماجی اور فنی پختگی کا صریح ثبوت ہیں۔ انھوں نے اپنے افسانوں میں عورت کے جذبات، احساسات اور جذبۂ ایثار کو مہارت اور فنکاری سے پیش کیا ہے۔ ابتدا میں جو افسانے تحریر ہوئے اس میں خواتین معاشرتی جکڑ بندیوں کے باعث مخصوص موضوعات تک محدود رہیں لیکن وقت کے ساتھ ساتھ ان میں وسعت پیدا ہوتی چلی گئی۔ اب اکیسویں صدی میں خواتین، تخلیقی موضوعات کے انتخاب میں آزاد ہیں۔ انھیں مکمل طور پر فکری اظہار کی آزادی حاصل ہے۔ دیکھا جائے تو اکیسویں صدی کے افسانوی منظر نامے میں ڈاکٹر صنوبر الطاف ایک خوب صورت اضافہ ہیں جن کا افسانوی مجموعہ ”ایک بے خواب دوپہر کا فلیش بیک“ 2024 ء میں مہردر پبلی کیشنز کوئٹہ سے اشاعت پذیر ہوا ہے۔ اس سے پہلے ان کی نظموں کا مجموعہ ”کائنات کے بیک یارڈ سے“ 2022 ء میں شائع ہو کر ناقدینِ ادب سے داد وصول کر چکا ہے۔

ڈاکٹر صنوبر الطاف نے ان افسانوں میں موضوع اور معروض کے تصادم سے، ایک منفرد افسانوی کائنات تخلیق کرنے کی کوشش کی ہے۔ ان کے ہاں زندگی کے متنوع رنگ ہیں جن کو پیش کرنے کے لیے اُنھوں نے مختلف کرداروں کا سہارا لیا ہے۔ ان کے افسانوں میں کئی ایسے کردار ہیں جو بار بار نمایاں ہوتے ہیں خاص طور پر مرد اور عورت کا کردار، روپ بدل بدل کر سامنے آتا ہے۔ ان کے افسانوں میں عورت کبھی ماں کے روپ میں، کبھی بیوی کے روپ میں اور کبھی محبوبہ کے روپ میں ظاہر ہوتی ہے۔ ان کے افسانوں میں تانیثی رویہ بھی ابھرتا ہے لیکن ریڈیکل تانیثیت پسندوں کے برعکس ان کے ہاں مرد کو کہیں بھی مطعون نہیں ٹھہرایا گیا۔ وہ مرد اور عورت کو ایک دوسرے کے لیے لازم و ملزوم خیال کرتی ہیں یہی وجہ ہے کہ ان کے ہاں خواتین اپنے قلبی جذبات کا اظہار مرد کرداروں کے سامنے بے دھڑک، کرتی دکھائی دیتی ہیں۔ ہماری افسانہ نگار کا سماجی و معاشرتی زندگی کے ساتھ ساتھ گھریلو زندگی کا مشاہدہ انتہائی گہرا ہے، یہی وجہ ہے کہ ان کے ہاں زیریں اور درمیانے طبقے کے طرزِ زندگی کو فنی چابکدستی سے پیش کیا گیا ہے جس سے سماج کی معاشرتی خباثتیں قاری کے ذہنی اُفق پر نمایاں ہو کر کئی سوالات کو جنم دینے کا باعث بنتی ہیں۔ ان کے کرداروں سے سماج کی اقتصادی اور ثقافتی پیچیدگیوں کو آسانی سے سمجھا جا سکتا ہے۔

طاقت، جہالت، سیاست، رومانی زندگی کے اتار چڑھاؤ اور عورت کا کرب ان کے خاص موضوعات ہیں۔ موجودہ معاشرے کے خود غرض رویوں اور صارفی اخلاقیات کو ان کا افسانہ ”لکھت لکھواتی ہے“ میں پیش کیا گیا ہے۔ ہم اپنی خواہشات کی تکمیل میں انسانیت کے دائرے سے خود کو کیسے باہر نکال لیتے ہیں اور پیسہ فنکار جیسے حساس فرد کے لیے بھی انسانی زندگی سے اہم قرار پاتا ہے۔ اس کو مذکورہ افسانے میں پیش کر کے انھوں نے انسانی ضمیر کو جھنجھوڑنے کی کوشش کی ہے۔ صارفی کلچر کے منفی رجحانات میں سے ایک یہ بھی ہے کہ وہ ہر شے بشمول انسانی احساسات و جذبات کو پیداوار کا درجہ دے دیتا ہے۔ جس طرح سے ہمارے معاشرے میں آزاد ذرائع ابلاغ، اشتہار بازی اور تعیشاتِ زندگی نے اس رجحان کو پروان چڑھایا ہے اس سے ہماری مثبت اقدار کو نقصان پہنچا ہے اور ہم انسانیت سے مشینی سطح پر اُتر آئے ہیں۔ ان کے افسانے ”ہم جو روشن راہوں میں مارے گئے“ میں سائیں کا کردار بھی عصری حسیت کا استعارہ بن کر سامنے آتا ہے۔ افسانہ نگار نے معاصر سیاسی صورتِ حال کو سماج کے حاشیے پر موجود سائیں کے کردار سے دکھانے کی کوشش کی ہے۔ سائیں کے الفاظ دیکھئے :

”کیوں بے! میرا اپنا کوئی گھر نہیں تو کیا یہ میرا ملک بھی اپنا نہیں؟ یہ لوگ بھی میرے نہیں ہیں؟ میرے دل میں بھی سَٹ لگتی ہے جب میں لاش اور بندوقیں دیکھتا ہوں۔ سٹرکوں پہ خون دیکھتا ہوں۔ میرا پیٹ بھر جاتا ہے لیکن مجھے ننگے بھوکے پیٹ نظر آتے ہیں۔ جا دفع ہو جا اور لے جا اپنی پلیٹ۔ کمینے مجھ سے پوچھتا ہے کہ۔ ۔ ۔“

ملک کا درد رکھنے اور سیاسی عمل میں اپنا حصہ ڈالنے والے سائیں کا نہ تو شناختی کارڈ ہے اور نہ ہی اس کا ووٹنگ لسٹ میں نام ہے۔ وہ اس ملک میں پلا بڑھا ہے، اس سے محبت رکھتا ہے لیکن شناختی کارڈ نہ ہونے کے باعث نہ اس کی کوئی شناخت ہے اور نہ وہ کسی شمار میں آتا ہے، یوں وہ اس ملک کا شہری ہونے کے باوجود شہری نہیں ہے۔ اسی لیے وہ سر کاری امداد سے بھی محروم رہ جاتا ہے۔ یہ المیہ سائیں کا المیہ نہیں یہ اس ملک کے ہر اس شہری کا ہے جو سماجی دھارے کے مرکز سے حاشیے پر دھکیل دیا گیا ہے۔ انسانی زندگی کی بے قدری کو ایک اور افسانے ”زندگی کے بلینک چیک“ میں بھی دکھایا گیا ہے جہاں بالائی طبقے کے افراد انسانی زندگیوں کی قیمت لگاتے دکھائے گئے ہیں۔

ڈاکٹر صنوبر الطاف انسانی نفسیات اور رومان کو اپنی تخلیقات میں مہارت سے پیش کرتی ہیں۔ ان کے افسانے ”ماہ و سال کی کینچلی“ ، ”سلوٹوں میں پڑی ایک یاد“ ، ”ممنوعہ موسموں کی کہانی“ اور ”ادھورے سکرپٹ کی آخری سطریں“ اس حوالے سے اہم ہیں۔ ان افسانوں میں انھوں نے فرد کی نفسیات کی گرہیں کھولنے کا جتن کیا ہے۔ اس طرح کی تخلیقات ہمیں عالمی سطح پر مارسل پروست، فلابیر، موپساں، ایملی زولا اور جیمز جوائس کے ہاں ملتی ہیں۔ صنوبر الطاف کے ہاں کہیں بھی شعوری طور پر افسانے کو نفسیاتی بنانے کی کاوش نظر نہیں آتی۔ اس لیے ان کے کرداروں کو کیس ہسٹری نہیں بنایا جا سکتا بلکہ فرد کا فرد سے اور فرد کا معاشرے سے کیا تعلق بنتا ہے، مذکورہ افسانوں کی مدد سے، معرضِ تفہیم میں لایا جا سکتا ہے۔ انسانی نفسیات میں عمل اور ردِ عمل کیا اہمیت رکھتے ہیں اس کو انھوں نے ”نیوٹن کا تیسرا قانون“ میں سمجھانے کی کوشش کی ہے۔ نیلم اور جاوید کے کرداروں سے انھوں نے محض فرد کی ذات کے پوشیدہ گوشوں سے پردہ اٹھانے کی کوشش نہیں کی بلکہ بیرونی واقعات سے فرد کے اندر ہونے والی نفسیاتی تبدیلیوں کو معاشرتی طور پر پرکھنے کا جتن بھی کیا ہے۔ اس افسانے میں مرد کی روایتی نفسیات بھی سامنے آئی ہے جس نے عورت کو ہمیشہ ایک کھلونا اور ضعیف مخلوق سمجھا ہے اسی لیے تو اس کا استحصال کرتا رہا ہے لیکن نیلم کے کردار نے مرد کی اس روایتی سوچ پر ردعمل ظاہر کر کے عورت کے کھلونا ہونے کے تصور کو، غلط ثابت کیا ہے۔

ڈاکٹر صنوبر الطاف نے کرداروں کی موضوعی صورتِ حال کی عکاسی کے لیے خط کی تکنیک کا استعمال بار بار کیا ہے۔ اس طرح کے فکشن کو Epistolary کہا جاتا ہے۔ یہ تکنیک کردار کی نفسی کیفیات، غیر واضح جذبات اور پوشیدہ ارادوں کو قاری کے سامنے پیش کرنے میں آسانی مہیا کرتی ہے۔ فکشن میں مذکورہ تکنیک مغربی فکشن سے اردو میں داخل ہوئی ہے جسے عبدالحلیم شرر، مجنوں گورکھپوری اور قاضی عبدالغفار جیسے فکشن نگاروں نے استعمال کیا۔ صنوبر الطاف نے بھی اس تکنیک سے استفادہ کرتے ہوئے ”لڑکپن کے ملبے سے ملے خطوط“ اور ”آؤٹ باکس میں پڑی ایک ای میل“ جیسے افسانے تخلیق کیے ہیں۔ ان کے افسانوں میں کہیں کہیں میٹا فکشن کا تجربہ بھی ملتا ہے۔ افسانہ ”ممنوعہ موسموں کی کہانی“ کے متن پر غور کریں تو محسوس ہو گا کہ مذکورہ افسانہ اپنے افسانہ ہونے سے آگاہ ہے۔ انگریزی ادب میں تو یہ تکنیک رواج پا چکی ہے لیکن اردو میں اس کا استعمال خال خال دکھائی دیتا ہے۔ مرزا اطہر بیگ اور اسد محمد خان کے فکشن کے بعد ”ممنوعہ موسموں کی کہانی“ میں اس کا استعمال نظر آیا ہے۔ ممکن ہے کسی اور فکشن نگار کے ہاں بھی استعمال ہوئی ہو لیکن میں اس سے لا علم ہوں۔ فینٹیسی، ڈائری، خط، مکالمہ اور خود کلامی جیسی تکنیکوں کا استعمال کر کے انھوں نے اپنے افسانوں کو معاصر افسانے کے مدِ مقابل لا کھڑا کیا ہے۔ امید ہے کہ وہ اس تسلسل کو آنے والے افسانوں کے مجموعے میں برقرار رکھیں گی۔ مذکورہ افسانوی مجموعے میں ان کی فنی ریاضت اور سماجی شعور واضح نظر آتا ہے جو امید ہے کہ مستقبل میں خوب سے خوب تر کے مراحل طے کرتا رہے گا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments