دیہی خواتین کا عالمی دن


اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں 18 دسمبر 2007 کو پیش ہونے والی قرارداد 62 / 136 کی منظوری کے بعد 15 اکتوبر 2008 کو پہلی بار دیہی خواتین کا عالمی دن منایا گیا۔ جس کا مقصد دیہات میں رہ کر معاشرتی ترقی میں کردار ادا کرنے والی خواتین کے مسائل اجاگر کرنا تھا۔ 15 اکتوبر کو دیہی خواتین کے عالمی دن پر مختلف ممالک میں صنفی مساوات کے لیے آواز بلند کی جاتی ہے۔

2023 میں ہونے والی مردم شماری کے مطابق پاکستان کی کل آبادی 24 کروڑ 14 لاکھ 90 ہزار سے زائد ہے۔ 61 فی صد یعنی 14 کروڑ 76 لاکھ آبادی دیہی علاقوں میں آباد ہے۔ جس میں خواتین کی تعداد 7 کروڑ 20 لاکھ 17 ہزار ہے۔ چاروں صوبوں میں دیہی خواتین کی زیادہ آبادی والا صوبہ پنجاب ہے جہاں 37083868 خواتین دیہاتی علاقوں میں آباد ہیں۔ جبکہ خیبر پختون خواہ میں خواتین کی دیہی آبادی 17038648 ہے۔ سندھ میں 12393405 اور صوبہ بلوچستان میں خواتین کی 4902339 آبادی دیہی ہے۔

دیہی علاقوں کی خواتین گھروں میں کام کاج کے ساتھ ساتھ مختلف امور میں مردوں کے شانہ بہ شانہ مصروف عمل رہتی ہیں بلکہ کئی علاقوں میں مردوں کے حصے کا کام بھی خواتین کے سپرد ہوتا ہے۔ ملک کی 52 فیصد آبادی کو کھانا پکانے کے لیے لکڑی بطور ایندھن استعمال کرنی پڑتی ہے اور 14 لاکھ گھروں میں جانوروں کا گوبر جلا کر یہ ضرورت پوری کی جاتی ہے جس میں خواتین ہی زیادہ مشقت کرتی ہیں۔ دیہی آبادیوں کی بیشتر خواتین گلہ بانی اور زراعت کے شعبے میں اہم کردار ادا کرتی ہیں۔ اگر کہا جائے کہ دیہی خواتین کی کاشت کاری سے سب کو خوراک میسر آتی ہے تو بے جا نہ ہو گا۔ بیج بونے سے لے کر خوراک کی تیاری تک دیہاتی خواتین کا کردار مسلمہ ہے۔ دیہات سے تعلق رکھنے والی خواتین کی بڑی تعداد مختلف کارخانوں میں اور بھٹوں پر مزدوری کرتی ہے جہاں انھیں ہراسانی سمیت دیگر سنگین مسائل درپیش ہوتے ہیں۔ انھیں مردوں کے برابر اجرت اور ای او بی آئی جیسی دیگر مراعات کا حق بھی نہیں دیا جاتا۔ خواتین سے ساری عمر زمینوں پر کام تو کروایا جاتا ہے لیکن جائیداد میں انھیں حق سے محروم رکھا جاتا ہے جس کی وجہ سے زمین کی ملکیت سے محروم رہتی ہیں۔

عالمی دن کی مناسبت سے سماجی تنظیم PODA کے دیہی عورت اتحاد کے پلیٹ فارم سے خواتین رہنماؤں نے حکومت اور مالیاتی اداروں کو اپنے مطالبات پیش کیے ہیں۔ تحصیل کونسل ہری پور کی ممبر اور خواتین کی رہنما ساجدہ حسرت خان نے اس حوالے سے بتایا کہ پاکستان کے 70 اضلاع میں پریس کانفرنسز کے ذریعے خواتین رہنماؤں نے دیہی عورتوں کے مسائل اجاگر کرنے کی کوشش کی ہے۔ انھوں نے حکومت سے مطالبہ کیا کہ دوسرے ممالک کی طرح پاکستان بھی 15 اکتوبر کو سرکاری سطح پر تقریبات منعقد کر کے دیہی خواتین کے مسائل اجاگر کرنے کے ساتھ ساتھ ان کے حل کے لیے سنجیدہ اقدامات اٹھائے۔ صنفی مساوات قائم کرنے، خواتین کو با اختیار بنانے اور معاشرتی رویوں میں تبدیلی لانے کے لیے تمام سٹیک ہولڈرز اپنا کردار ادا کریں۔ حکومت زراعت کے شعبہ سے وابستہ خواتین کو مردوں کے برابر کسان تسلیم کرے تاکہ عورتیں بھی سرکاری زرعی اسکیموں اور دیگر سہولیات سے مستفید ہو سکیں۔ زمینوں کی ملکیت اور وراثت منتقلی میں خواتین کی شمولیت کو یقینی بنانے کے لیے اقدامات کیے جائیں اور لینڈ ریکارڈ سنٹروں میں خواتین اسٹاف تعینات کیا جائے۔ ساجدہ حسرت خان نے مزید کہا کہ آئین کے آرٹیکل 25 A کے تحت 5 سے 16 سال کے بچوں کو مفت تعلیم دینا ریاست کی ذمہ داری ہے جسے پورا کیا جائے اور میٹرک کے بعد بچیوں اور دیہی خواتین کو جدید دور کے مطابق تعلیم، صحت، بجلی اور انٹرنیٹ کی سہولیات مہیا کی جائیں۔ کم عمر میں شادیوں کی حوصلہ شکنی کے لیے قانون سازی کر کے سزا مقرر کی جائے اور شناختی کارڈ کی شرط لازمی قرار دی جائے۔ ساجدہ حسرت خان نے حکومت سے مطالبہ کیا کہ دیہی خواتین کو بلا سود و آسان شرائط پر قرض دیے جائیں اور مقامی اشیاء و مصنوعات کی مختلف منڈیوں تک رسائی میں دیہی خواتین کی معاونت کی جائے۔ جنسی ہراسانی اور گھریلو تشدد کی روک تھام کے لئے قوانین پر سختی سے عملدرآمد یقینی بنایا جائے اس حوالے سے کمیونیٹی آگاہی مہم کے ساتھ ساتھ پولیس اہلکاروں کو تربیت فراہم کی جائے۔ مقامی کونسلوں اور کمیٹیوں میں خواتین کی نمائندگی بڑھا کر بلدیاتی نظام کو فعال کیا جائے۔

انھوں نے کہا کہ حکومت ذہنی و جسمانی صحت کے لیے دیہی علاقوں کی بچیوں کو ورزش اور کھیلوں کا سامان مہیا کرے اور انھیں ذاتی دفاع کی تربیت فراہم کی جائے۔ ساجدہ حسرت خان نے مختلف میڈیا ہاؤسز سے مطالبہ کیا کہ دیہی خواتین کے مسائل کو بھرپور انداز میں اجاگر کریں اور 15 اکتوبر عالمی دن کو اہمیت دیں تاکہ دیہاتی عورتوں کا ملکی ترقی میں کردار، ان کے مسائل اور ضروریات سے حکومتیں اور مختلف ادارے آگاہ ہوں۔

یاد رہے کہ معاشرے کے محروم طبقات کے مسائل اجاگر کر کے انھیں حقوق دلوانے میں سماجی تنظیموں، سول سوسائٹی اور میڈیا کا کردار قابل تحسین ہے۔ جس سے معاشرے میں جاہلانہ رسومات، امتیازی سلوک اور منفی رویوں کے خاتمے میں کافی حد تک مدد ملی ہے۔ معاشرے کے تمام طبقات دیہی خواتین کو درپیش مسائل کے حل کے لیے خلوص نیت سے اپنے حصے کا کردار ادا کریں تو انتہائی مثبت نتائج برآمد ہو سکتے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments