مَین از اے سوشل میڈیا اینیمل
ارسطو کے زمانے میں انسان محض سماجی حیوان تھا مگر نظریہ ارتقاء کی بدولت آج وہ، سوشل میڈیا اینیمل، بن چکا ہے۔ لمحہ موجود میں سوشل میڈیا دلوں کی دھڑکن، آنکھوں کی ٹھنڈک، روح کی غذا اور آدابِ حیات کا جزوِ لاینفک اور رنگ، نسل، زبان اور علاقہ کی تفریق کے بغیر مرد و زن اور پیر و جواں کے لئے آن لائن مرجع خلائق ہے۔ اب کروڑوں کی تعداد میں مخلوق خدا اس کے اخلاقی، معاشرتی، روحانی اور سیاسی فیض سے فیض یاب ہو رہی ہے۔
بھلے سوشلیوں کی زیادہ تر صلاحیتیں فتویٰ و فتنہ سازی پر صرف ہوتی ہیں مگر لوگ جوق در جوق اس کے حلقۂ ارادت میں شامل ہوتے جا رہے ہیں۔ یہاں صنف نازک، صنف سخت اور صنف میانہ کی تمیز جوئے شیر لانے سے کم نہیں۔ یہ فرینڈشپ، فرینڈ ریکویسٹس، کمنٹس اور سمعی و بصری کالز کا بحر بیکراں ہے جس کے اندر لاکھوں غواص غوطہ زن ہیں۔ مخلوق خدا کا سوشل میڈیا میں استغراق دیکھ کر لگتا ہے جیسے کائنات کے اہم ترین مسائل پہ غور کیا جا رہا ہے۔
فی زمانہ وائی فائی کی عدم دستیابی اور نیٹ کے نحیف سگنل سانحاتِ عظیم سے کم نہیں جبکہ سوشل میڈیا کا بوجوہ بند ہوجانا قدرتی آفت کا درجہ رکھتا ہے۔ آج سوشل میڈیا اینیمل کسی کے ہاں مہمان جائے تو سلام دعا کی جگہ، یار کوڈ دسیں، ، سننے کو ملتا ہے۔ وائی فائی کے سگنلوں نے ہمیں چاروں طرف سے گھیر رکھا ہے اور ہماری شہ رگ سے بھی قریب ہو چلے ہیں۔ پبلک مقامات، کلاس رومز، کھانے کی میز، سرکاری دفاتر، واش روم، کچن، بستر استراحت، دوران سفر حتیٰ کہ حالت اعتکاف میں بھی لوگ، فنا فی الفیس بک، ہوتے ہیں۔
روز و شب سٹیٹس لگانے، کمنٹس، لائیک اور لَو کے شمار میں بیت رہے ہیں۔ مرغی انڈا دے یا بکری بچہ جنے، فیس بک پہ پوسٹ لازم ہے۔ ولیموں، جنازوں، چائے نوشی، باراتوں، مزارات، گھر اور مسجد سے نکلتے اور داخل ہوتے وقت کی تصاویر وائرل کرنا ہر فیس بکیے پہ فرض عین ہے۔ اب، نیکی کر دریا میں ڈال، کی جگہ، کچھ بھی کر fb میں ڈال کی کہاوت مناسب ہو گی۔ فیس بک، خواتین کے لئے تو نعمت ہے کہ انہیں دوسروں کی ٹوہ میں لگے رہنے کی مشقت کی ضرورت نہیں رہی بلکہ گھر بیٹھے یہ فریضہ انجام دے سکتی ہیں۔ آج اگر زیادہ افراد پر مشتمل فیملی کے گھر خاموشی ہو تو وہاں نیٹ کے سگنل فُل ہونے کی دلیل ہے۔ حج و عمرہ کی تشہیر اور سیلفی فیس بک کا نورانی پہلو ہے۔ بعید نہیں کہ فقہ سوشلیہ میں سیلفی مناسک عمرہ و حج میں شمار ہونے لگے۔
سماجی رابطوں کے حیوان اس جہاں میں صورت خورشید ہیں جو اُدھر ڈوب کر اِدھر اور اِدھر ڈوب کر اُدھر نکلنے میں ملکہ رکھتے ہیں۔ حسرت ہے ان سماجی حیوانوں پر جو سوشل میڈیا اینیمل بننے سے صدیوں قبل ملک عدم سدھار گئے۔ رانجھا، مجنوں، مہنیوال اور مرزا اگر سوشل میڈیائی اینیمل ہوتے تو انہیں آبلہ پائی، صحرا نشینی اور معاشرتی مخاصمت و رقابت سے دو چار نہ ہونا پڑتا۔ مرزا کو یقیناً کوئی دوست وٹس ایپ پر صاحباں کے بھائیوں کی آمد کی خبر ضرور دے دیتا۔
عشاق کو پیام بروں اور کبوتروں کی حاجت بھی نہ رہتی اور رانجھا ہیر کے ساتھ ساتھ، سسی، صاحباں اور سوہنی کا فرینڈ بھی نکلتا۔ رانجھے کی بانسری، ہیر کی چوری، سوہنی کے گھڑے، فرہاد کے تیشے اور لیلیٰ کی کتیا کی پوسٹوں کو ہزاروں لائک ملا کرتے۔ شہزادہ سلیم، انارکلی، محمد شاہ رنگیلا اور یحیٰی خان کی، یو ٹیوبز، کے تو لاکھوں فالوورز ہوتے۔ سوشل اینیمل سے سوشل میڈیا اینیمل کا سفر ڈارون کے نظریہ ارتقاء کی تصدیق کرتا ہے جو انٹرنیٹ کے موجب ممکن ہوسکا۔ انٹرنیٹ لاکھوں کمپیوٹروں کا تانا بانا ہے جو فون لائنوں، مصنوعی سیاروں اور کیبلز کے ذریعے اک دوجے میں پیوستہ ہے۔ انسان جب سماجی حیوان تھا تو یوں شعر کہتا تھا،
ہم جیسے دلبروں کو جہنم میں ڈال کر۔ بیٹھے رہو بہشت کو ویراں کیے ہوئے
لیکن جونہی ارتقائی عمل سے وہ سوشل میڈیا اینیمل ہوا تو شعری توجیہات ایسے بدلیں،
ہم دلبروں کو کر کے بلاک اپنی وال سے۔ بیٹھے ہو فیس بک کو ویراں کیے ہوئے
آڈیو اور ویڈیو کریسی کے ظہور سے قبل ماضی کے کتنے مناظر ہوں گے جو منظر عام پہ آنے کی سعادت سے محروم رہے۔ ستر کی دہائی میں آغا جانیوں اور ان کی رانیوں کی حشر سامانیوں کا سمعی و بصری مواد تو سنبھالے نہ سنبھلتا۔ ازمنہ قدیم اور قرونِ وسطیٰ کے کروڑوں بصری مناظر بِن دیکھے ہی سپردِ خلا ہو گئے۔ اقوامِ عاد و ثمود اور نوح و لوط کیمروں کی آنکھ سے کتنی محفوظ رہیں اور دنیا ان کے کارناموں کے بصری تجسس سے نا آشنا رہی۔
پھر ہم نینڈر تھل اور ہومو سیپئن کو جدید انسان بنتے دیکھ سکتے۔ زلیخا کے الزامات کی قلعی بھی کھل جاتی۔ اموی، عباسی اور عثمانی خلفاء کے پردے بھی چاک ہو جاتے۔ ہم دیکھ پاتے کہ محمود و ایاز اور مادھو لال کے اونٹ کس کروٹ بیٹھتے تھے؟ رام، راون اور یاجوج ماجوج کے کچے چٹھے بھی کھلتے۔ ابدالی، محمد بن قاسم، عالمگیر اور سکندر کی ہیرو شپ جبکہ راجہ داہر، پورس، مرہٹوں اور سکھوں کی ولن شپ کا ریکارڈ بھی مل جاتا۔ کاش محمد شاہ رنگیلا کے دور میں 36 تصویروں والا کیمرہ ہی میسر ہوتا تو کیا تماشا لگتا۔
پھر ویڈیو کریسی کی صورت میں مغلوں، خلجیوں، غوریوں، لودھیوں، انارکلیوں، سلیموں، نورجہانوں، شاہ جہانوں اور زیب النساؤں کے معاملات بھی طشت ازبام ہوتے؟ قائداعظم کی زیارت ریذیڈینسی کے آس پاس کچھ سی سی ٹی وی ضرور لگے ہوتے۔ مصطفیٰ زیدی اور شہناز گل والے کمرے میں بھی ایک آدھ کیمرہ ہوتا۔ کثرتِ بادہ خواری کے باعث غالب ہمیشہ مغلوب رہتا اور ولی بننے کا دعویٰ نہ کر پاتا۔ ابراہیم ذوق کی فیس بک پہ غالب کی حالت کیا ہوتی؟
کیا الزامات، کیا دشنام اور کیا الم غلم رہتا۔ سائنس کی بے پناہ بلکہ خدا پناہ ترقی سے ہر فرد کے ہاتھ جام جمشید لگ چکا ہے جس میں دنیا و مافیہا کی جملہ حرکات مِن و عن قابلِ سماعت و بصارت ہیں۔ اب خلوتوں کے آداب ریزہ ریزہ ہو کر بکھر رہے ہیں۔ جہاں ”اللہ دیکھ رہا ہے وہاں کیمرا بھی شریک ہے۔ گویا شہر کا شہر الہٰ دین کا چراغ لئے لوگوں کے عیوب ڈھونڈتا پھرتا ہے۔ اب اطلاقی دل پھینک اور بوالہوسوں کی مٹی پلید ہونے کے وسیع اہتمام موجود ہیں۔
دفاتر، گھر، ریستوران، نیٹ کیفے، مدارس، دربار، شادی، غمی، ہسپتال، سکول اور نہ جانے کہاں کہاں کیمروں کی آنکھیں جھانک رہی ہیں اور ان میں لگے کان انہماک سے سب کچھ سن رہے ہیں۔ جب سے انسان سوشل میڈیا اینیمل بنا ہے تو روحانی بابوں نے ہوا میں اڑنا، بندوں کو کھڑے کھڑے جلانا اور قبروں میں نکیرین سے الجھنا چھوڑ دیا ہے۔ اولاد آدم کو سماجی رابطوں کا حیوانِ ناطق اور گھاتک بنانے میں اللہ کے جن پہنچے ہوئے ذہین بندوں کا ہاتھ ہے ان میں خالق ِفیس بک عزت مآب ذکر برگ، شہنشاہ انسٹا گرام کیون سسٹروم و مائک گریگر، بابائے مائیکرو سافٹ جناب بِل گیٹس، مالکِ پے پال جناب ایلون مسک، والی ایمازون بابا جی جیف بیزوس حفظ اللہ، بانیانِ وٹس ایپ محترم جان کَون اور ڈیوڈ ایکٹن مد ظلھم، امامِ ٹک ٹاک ژانگ یمنگ، آقائے نیٹ فلکس ریڈ ہاسٹنگ، شاہِ گوگل لیری پیج، امیرِ یوٹیوب گرو سٹیفن چان اور خواجگانِ، یاہو، جیری یانگ اور ڈیوڈ فیلو جیسی عظیم شخصیات شامل ہیں۔
جن کا فیض رہتی دنیا تک جاری و ساری رہے گا۔ یہی وجہ ہے کہ پوری دنیا میں لاکھوں فیس بُکیے، وٹس ایپئیے، یو ٹیوبئیے، ٹویٹرئیے، انسٹا گرامئیے اور ایمازونئیے ہمہ وقت حاضر و ناظر ہوتے ہیں۔ یاد رہے سوشل میڈیا کے نوے فیصد پلیٹ فارمز کا ظہور و نزول سرزمین امریکہ میں ہوا ہے۔ جن مقامات پر بڑے بڑے مہاشوں، دانشوروں، سائنسدانوں، عالموں، انجنیئروں، ڈاکٹروں سیاست دانوں، سپہ سالاروں، تاجروں، آجروں اور ڈاکو لٹیروں کے پَر جل کر راکھ ہو جاتے ہیں، سوشلیے ان مقامات کے بھی آشنا نکل آتے ہیں۔
سوشل میڈیا کے جال net کے اندر ہر قسم کے، میر، دوسروں پر، غالب، آنے کے، ذوق، کی“ آتش ”کا“ سودا ”لیے ہیں۔ کچھ“ مومن ”ولی، بننے کی، حسرت، کے، داغ، لیے پھرتے ہیں۔ کچھ، فیض، حاصل کر کے اپنا، اقبال، بلند کرتے ہیں جبکہ بہت سے، مجروح، اپنی قسمت پر، شاکر، بھی ہیں۔ ہر گھر میں ونڈو کھلی ہے جس میں سے ہر چیز آ اور جا سکتی ہے۔ اک دور تھا کہ لوگ ایک دوسرے سے ملتے، دیکھتے بھالتے اور دوستیاں قائم کرتے تھے۔ پھر قلمی دوستی کا دور چلا اور اب ہزاروں آن لائن اور آف شور فرینڈز کا جمِ غفیر براجمان ہے۔ (A I) حضرت انسان کی متبادل بن کر منصہ شہود پر آئی ہے۔ یہ سوشل میڈیا کے علوم و فنون کی معراج، گنجینٗہ معلومات اور خزینہ ہدایات ہے۔ لاریب کہ ٹوٹا ہوا تارا مہ کامل بننے کے قریب ہے اور فرشتے انگشتِ بدنداں ہیں کہ جنت سے نکالا گیا انسان پھر سے جنت میں گھسنے کے چکر میں ہے۔
- کچھ ہم عصر جنگی دُکھڑے - 10/05/2025
- غالب جو ایک شاعر تھا عالم میں انتخاب - 15/03/2025
- انہیں خط میں لکھا تھا دل مضطرب ہے - 18/02/2025
Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).