جب بل نے خود کشی کرنے کی کوشش کی
میموریل یونیورسٹی کینیڈا میں ہمارے معزز و محترم پروفیسروں میں سے ایک ڈاکٹر یوجین وولف تھے جو انگلستان سے دو سال کے لیے کینیڈا تشریف لائے تھے۔
ڈاکٹر وولف ایک سائیکوتھراپسٹ تھے۔ انہوں نے جب گروپ تھراپی کا پروگرام شروع کیا تو انہیں ایک ایسے طالب علم کی ضرورت تھی جو ان کے ساتھ کام کرے۔ یہ میری خوش بختی تھی کہ انہوں نے تیرہ طلبا و طالبات میں سے مجھے چنا اور مجھے ان کے ساتھ دو سال کام کرنے کا سنہری موقع ملا۔
ایک سہ پہر جب ڈاکٹر وولف طلبا و طالبات سے ملے تو انہوں نے ہمیں بتایا کہ ان سے ICU۔ INTENSIVE CARE UNIT کے ڈاکٹر نے رابطہ قائم کیا ہے اور درخواست کی ہے کہ وہ ان کے ایک ایسے مریض کا انٹرویو کریں جس نے خود کشی کی کوشش کی تھی۔ ڈاکٹر وولف نے طلبا و طالبات سے کہا کہ وہ بل کا انٹرویو سب کے سامنے کرنا چاہتے ہیں۔ یہ خبر سن کر میں بہت خوش ہوا کیونکہ یہ ایک ماہر نفسیات استاد سے بہت کچھ سیکھنے کا موقع تھا۔
جب مریض کمرے میں داخل ہوا تو ہم سب نے دیکھا کہ وہ ایک دراز قد اور بھاری بھرکم مرد تھا۔ اس کے سر اور داڑھی کے بال بھورے تھے۔ ڈاکٹر وولف نے کھڑے ہو کر اس سے ہاتھ ملایا اور اپنا تعارف کروایا۔ مریض نے کہا کہ اس کا نام بل ہے۔ ڈاکٹر وولف نے بل کو اپنے ساتھ والی کرسی پر بیٹھنے کو کہا۔ بل دور سے ایک خاموش طبع انسان دکھائی دے رہا تھا۔ جب ڈاکٹر وولف نے بل سے پوچھا کہ اسے کیوں ہسپتال لایا گیا تو بل نے بتایا کہ وہ ایک فارمسسٹ ہے اور اس نے حساب لگایا تھا کہ اسے خودکشی میں کامیاب ہونے کے لیے کتنی نشہ آور گولیاں کھانی ہوں گی۔
ایک جمعہ کی شام جب اس کی بیوی شیلا اپنی سہیلیوں سے و یک اینڈ کے لیے ملنے چلی گئی تو بل گھر میں اکیلا تھا۔ چنانچہ اس نے خودکشی کرنے کے لیے ساری گولیاں نگل لیں اور اپنے بستر پر لیٹ گیا۔ وہ اس شام صرف سونا ہی نہیں ابدی نیند سونا چاہتا تھا۔ بل کی بیوی شیلا ابھی راستے میں ہی تھی کہ اسے یاد آیا کہ وہ اپنا پرس گھر بھول آئی ہے۔ چنانچہ جب وہ اپنا پرس لینے واپس گھر آئی تو اس نے بل کو بیہوش پایا۔ شیلا نے ایمبولنس کو فون کیا اور انہوں نے بل کو ہسپتال لا کر انٹینسو کیئر یونٹ میں داخل کر دیا۔ ڈاکٹروں نے بل کی جان بچائی اور پھر ڈاکٹر وولف سے مشورہ کیا۔
جب ڈاکٹر وولف نے بل سے پوچھا کہ وہ خودکشی کیوں کرنا چاہتا ہے تو بل نے کہا کہ وہ اپنی زندگی کے ہر کام میں ناکام رہا تھا۔ اس نے کہا کہ اس کی تازہ ترین مثال اقدام خودکشی ہے اور وہ اس میں بھی ناکام رہا ہے۔ بل نے ہم سب کو یہ بتانا بھی ضروری سمجھا کہ لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ صرف وہ لوگ خودکشی کرتے ہیں جو اپنا ذہنی توازن کھو چکے ہوتے ہیں۔ بل نے کہا کہ اس نے حالت دیوانگی میں نہیں بلکہ کئی ہفتوں کی منطقی سوچ بچار کے بعد خودکشی کا فیصلہ کیا تھا۔ اس نے کہا کہ ہسپتال سے نکلنے کے بعد وہ دوبارہ خودکشی کی کوشش کرے گا اور یہ بھی کوشش کرے گا کہ اگلی دفعہ وہ اس میں کامیاب ہو جائے۔
جب ڈاکٹر وولف نے بل سے اس کی بیوی شیلا کے بارے میں سوال کیا تو بل نے ہمیں بتایا کہ اس کی شادی کو بیس برس ہو چکے ہیں۔ اسے ایک سال پہلے اس بات کا شدت سے احساس ہوا کہ اس کی بیوی اس سے محبت نہیں کرتی۔ اس تکلیف دہ احساس کے بعد بل نے فیصلہ کیا کہ بغیر محبت کی شادی سے خودکشی کرنا بہتر ہے۔ انٹرویو کے آخر میں ڈاکٹر وولف نے بل سے کہا مجھ سے وعدہ کرو کہ تم چھ ماہ تک اقدام خودکشی نہیں کرو گے اور مجھ سے ہر ہفتے تھراپی کروانے آیا کرو گے۔ بل ہمارے سامنے کافی دیر تک خاموشی سے کچھ سوچتا رہا پھر کہنے لگا میں نے مرنا تو ہے ہی جہاں اتنے سال انتظار کیا ہے وہاں چھ ماہ اور انتظار کر لوں گا۔ میں اس سہ پہر ڈاکٹر وولف کے انٹرویو سے بہت متاثر ہوا۔
ڈاکٹر وولف کے ساتھ کام کرنے سے مجھے یہ پتہ چلا کہ وہ امریکی ماہر نفسیات ہیری سٹاک سالیوان کے مداح تھے جن کا کہنا تھا کہ انسانوں کا سب سے بڑا نفسیاتی مسئلہ اینزائٹی یا ڈپریشن نہیں احساس تنہائی ہے اور کوئی انسان دس لوگوں میں رہ کر بھی احساس تنہائی کا شکار ہو سکتا ہے اگر ان میں سے کوئی بھی اس کا ہم خیال یا ہم مزاج نہ ہو۔ سالیوان کا یہ بھی موقف تھا کہ ایک بھی محبت بھرا رشتہ انسان کو خودکشی کے دہانے سے واپس لا سکتا ہے۔
جب میں نے ڈاکٹر وولف کے ساتھ بل اور شیلا کی تھراپی کے بارے میں تبادلہ خیال کیا تو مجھے پتہ چلا کہ بل کی عمر صرف دو برس تھی جب دوسرے بچے کی پیدائش کے دوران اس کی والدہ کا انتقال ہو گیا تھا۔ بل کے والد نے ایک سال بعد دوسری شادی کر لی تھی اور بل کی سوتیلی ماں بل اور اس کے والد کی محبت دیکھ کر حسد کرنے لگی تھی۔ جب بل اپنی سوتیلی ماں کے رویے سے بہت دکھی ہوا تو وہ اپنی دادی کے ساتھ رہنے لگا۔ جب بل دس برس کا تھا تو اس کی دادی کا انتقال ہو گیا اور اسے واپس اپنے والد اور سوتیلی ماں کے پاس آنا پڑا۔ جب بل ایک ٹین ایجر تھا تو اس نے یونیورسٹی کے ہوسٹل میں رہنا شروع کر دیا اور پھر وہ کبھی واپس اپنے گھر رہنے نہ گیا۔
ڈاکٹر وولف نے ہمیں بتایا کہ خاندان کے تکلیف دہ واقعات کی وجہ سے بل ایک ایسا منطقی انسان بن گیا تھا جو اپنے جذبات سے قطع تعلق ہو چکا تھا۔ یونیورسٹی میں جب بل کی شیلا سے ملاقات ہوئی تو وہ ایک دوسرے سے فلسفیانہ مکالمے اور نظریاتی مباحثے کر کے بہت خوش ہوتے۔ ان ہی فلسفیانہ مکالموں کی وجہ سے انہوں نے ایک دوسرے سے شادی بھی کر لی۔
شیلا نے ایک انٹرویو کے دوران ہمیں بتایا کہ اس کی پیدائش سے دو سال پہلے اس کے بھائی کی وفات ہو گئی تھی اور اس کے والد چاہتے تھے کہ ان کے گھر ایک اور بیٹا پیدا ہو لیکن جب بیٹی پیدا ہوئی تو اس کے والد نے اسے لڑکوں والے کپڑے پہنانے شروع کر دیے۔ جب شیلا بڑی ہوئی تو وہ اسے اپنے ساتھ بزنس ٹرپ پر بھی لے جاتے۔ شیلا کو جوان ہو کر اندازہ ہوا کہ وہ نہ صرف لڑکوں والے کپڑے پہنتی ہے بلکہ لڑکوں کی طرح سوچتی بھی ہے۔ چنانچہ شیلا نے فیصلہ کیا کہ وہ سائنس میں ماسٹرز کرے گی۔ ماسٹرز کی ڈگری حاصل کرنے کے بعد وہ سائنس کی استانی بن گئی۔ جب شیلا کی بل سے ملاقات ہوئی تو وہ بہت خوش ہوئی کہ وہ کسی سے سائنس اور فلسفے پر تبادلہ خیال کر سکتی ہے۔
جب ڈاکٹر وولف نے شیلا کو بتایا کہ بل یہ سمجھتا ہے کہ وہ اس سے محبت نہیں کرتی تو وہ بہت دکھی ہوئی۔ اس نے کہا میں بل کو دل کی گہرائیوں سے چاہتی ہوں لیکن یہ اعتراف کرتی ہوں کہ میں اپنی محبت کا کبھی اظہار نہیں کرتی۔ جب شیلا نے ڈاکٹر وولف سے پوچھا کہ میں بل کی کیسے مدد کر سکتی ہوں تو ڈاکٹر وولف نے کہا اب آپ بل سے اپنی محبت کا برملا اظہار کیا کریں کیونکہ بل کو ایک نظریاتی رشتے کے ساتھ ایک جذباتی رشتے کی بھی ضرورت ہے۔ ڈاکٹر وولف نے شیلا کو مشورہ دیا کہ وہ ہر ہفتے بل کے ساتھ ڈیٹ پر جایا کریں۔ چاہے وہ ڈیٹ لنچ ہو یا ڈنر فلم دیکھنا ہو یا موسیقی سننا۔ اس طرح ان دونوں کا ایک جذباتی و رومانوی رشتہ قائم ہو گا۔
ڈاکٹر وولف کی تھراپی سے بل کی شخصیت میں ایک نمایاں تبدیلی آئی۔ سنجیدہ چہرے پر مسکراہٹ پھیل گئی۔ ایک دن جب ڈاکٹر وولف نے اسے ایک لطیفہ سنایا تو وہ کھلکھلا کر ہنسا۔ چھ ماہ بعد جب ڈاکٹر وولف نے طلبا و طالبات کے سامنے بل کا دوبارہ انٹرویو لیا تو بل نے ڈاکٹر وولف کا شکریہ ادا کیا کہ انہوں نے نہ صرف اسے ایک نئی زندگی دی بلکہ اس کی چاہے جانے کی خواہش بھی پوری کی۔ بل نے ڈاکٹر وولف سے کہا کہ ان کی وجہ سے اس کا محبت پر یقین بحال ہو گیا ہے۔
بل کے جانے کے بعد جب ایک طالب علم نے ڈاکٹر وولف سے پوچھا کہ ان کی نگاہ میں محبت کی کیا نشانی ہے تو ڈاکٹر وولف نے کہا کہ ماہر نفسیات سالیوان کہا کرتے تھے کہ جب کسی اور انسان کے دکھ سکھ آپ کو اپنے دکھ سکھ کے برابر محسوس ہونے لگیں تو آپ سمجھ جائیں کہ آپ کا اس انسان سے رشتہ محبت بھرا رشتہ ہے۔
ڈاکٹر وولف نے جس طرح بل کی زندگی اور شادی کو بچایا وہ کسی کرامت سے کم نہ تھا۔
اس واقعے کے بعد میں یہ سوچا کرتا تھا کہ کیا میں بھی ایک دن ڈاکٹر وولف کی طرح ایک کامیاب تھراپسٹ بن سکوں گا جو دکھی انسانوں کی زندگی بچا سکے، ان کے دلوں میں امید کی کرن روشن کر سکے اور ان کے دکھوں کو سکھوں میں بدل سکے۔ میں ڈاکٹر وولف کا ہمیشہ شکر گزار رہوں گا وہ میرے شفیق استاد تھے انہوں نے مجھے نہ صرف انسانی نفسیات اور تھراپی کے راز سکھائے بلکہ دکھی انسانیت کی بے لوث خدمت کرنا بھی سکھایا۔
- گاندھی اور ٹیگور کی سماجی رفاقت اور نظریاتی رقابت کی کہانی - 03/11/2024
- ڈرامہ نگار اور نقاد ظہیر انور کا ادبی تحفہ - 30/10/2024
- میرؔ تقی میر: صاحب دیوان کی دیوانگی - 26/10/2024
Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).