یحییٰ سنوار امر ہو گئے
”اگر دنیا یہ چاہتی ہے کہ ہم اچھے مظلوم بن جائیں کہ وہ جب چاہیں آئیں اور ہمارے بچے ٹکڑے ٹکڑے کر دیں، ہماری عورتیں قتل کر دیں، ہمارے بوڑھوں کو مار ڈالیں، ہماری زمینیں ہم سے چھین لیں، ہمیں محاصرے میں ڈال دیں اور ہم پر زندگیاں تنگ کر دیں اور ہم یہ سب اخلاق اور محبت سے سہ لیں۔ وہ ہمیں ذبح کریں اور ہماری آواز تک نہ نکلے؟ یہ اب ہم فلسطینیوں سے نہیں ہو گا۔“
یہ حماس کے رہنما یحییٰ سنوار کا کسی بھی عالمی میڈیا کو دیا گیا آخری انٹرویو تھا۔ کینیڈا میں قائم دی وائس نیوز کی نمائندہ ہند حسن دو ہزار اکیس میں ہونے والی حماس اسرائیل چپقلش جسے اسرائیل نے ”آپریشن گارڈنگ دا والز“ کا نام دیا تھا، کے بعد غزہ آئی تھیں اور انہیں یحییٰ سنوار کا انٹرویو کرنے کا موقع ملا تھا۔ ساری دنیا کے میڈیا کی نظریں ان دنوں قدیم بیت المقدس کے محلے شیخ جراح پہ لگی ہوئی تھیں۔ اسرائیلی قابض انتظامیہ اور اسرائیلی عدالت نے شیخ جراح میں مقیم فلسطینی خاندانوں کو ان کے گھروں سے بے دخل کرنے کے احکامات جاری کر دیے تھے۔ انتہا پسند یہودی رمضان کے مہینے میں مسجد الاقصیٰ میں گھس چکے تھے اور اسرائیلی پولیس آئے روز مسجد اقصٰیٰ کے صحن میں ہتھیار لے کر داخل ہوتی تھی اور نمازیوں کو زد و کوب کرتی تھی۔ حماس نے غزہ سے چند راکٹ اسرائیل کی طرف فائر کیے تھے اور جواب میں اسرائیل نے بمباری کر کے غزہ کے چار رہائشی ٹاورز کو زمیں بوس کر دیا تھا اور اس کے نتیجے میں سینکڑوں فلسطینی شہید ہوئے تھے اور کئی خاندان صفحہ ہستی سے مٹ گئے تھے۔
جب ہند حسن نے یحییٰ سنوار سے پوچھا کہ حماس بھی تو اسرائیل کی طرف اندھا دھند راکٹ فائر کرتی ہے یہ بھی تو جنگی جرائم میں آتا ہے۔ سنوار نے جواباً کہا ”ساری دنیا اسرائیل کو ہتھیار فراہم کرتی ہے۔ ان کے پاس ایف سولہ ہیں، جدید ترین لڑاکا طیارے ایف پینتیس ہیں، آئرن ڈوم ہے، وہ جب چاہیں جہاں چاہیں بمباری کرتے ہیں اور سینکڑوں کی تعداد میں معصوم لوگوں کو قتل کرتے ہیں۔ ہمارے پاس یہی کچھ ہے جس سے ہم مزاحمت کر سکتے ہیں۔ دنیا ہمیں بھی جدید ہتھیار مہیا کرے ہم بھی اسرائیل کے فوجیوں کو چن چن کے نشانہ بنائیں گے۔“
حماس اور سنوار کسی خلا میں بننے والے نام نہیں ہیں۔ یحییٰ سنوار کا خاندان اسرائیلی ریاست کے قیام سے پہلے عسقلان شہر میں رہا کرتا تھا۔ جب اسرائیلی ریاست قائم ہوئی تو جن فلسطینی شہروں پر اقوام متحدہ کے تقسیم پلان کے برعکس زبردستی قبضہ کر کے اور ساڑھے سات لاکھ فلسطینیوں کو بے دخل کیا گیا تھا عسقلان بھی ان میں سے ایک تھا۔ اب یہ شہر اسرائیل میں اشکلون کے نام سے جانا جاتا ہے۔ سنوار کا خاندان تاریخی فلسطین سے بے دخل ہو کر غزہ میں موجود خان یونس کے مہاجر کیمپ میں جاکر آباد ہوا جہاں 29 اکتوبر 1962 کو یحییٰ سنوار کی پیدائش ہوئی۔ 1967 کی چھے روزہ جنگ میں یحییٰ سنوار ابھی پانچ سال کے تھے جب اسرائیل نے تمام عرب افواج کو ایک اچانک حملے میں ختم کر دیا اور خطے کے بڑے علاقے پر قابض ہو گیا۔ یحییٰ سنوار نے بچپن سے اسرائیلی قبضے کو اپنی ذات اور اپنے خاندان پہ جھیلا تھا۔ وہ ابھی نوجوان ہی تھے کہ انہیں اسرائیل نے گرفتار کر لیا اور ان پر دو اسرائیلی فوجیوں کے قتل کا الزام تھا۔ انہیں عمر بھر کے لئے قید میں ڈال دیا گیا۔ سال 2011 میں بائیس سال کی یہ قید ایک ڈیل کے تحت ختم ہوئی جب ایک اسرائیلی فوجی گیلاد شالت کی رہائی کے بدلے اسرائیلی جیلوں سے ایک ہزار سے زائد فلسطینیوں کو رہا کروایا گیا۔ سنوار بھی ان میں شامل تھے۔ اپنی قید کے دوران انہوں نے ناصرف تعلیم مکمل کی۔ ایک ناول لکھا اور عبرانی زبان پر مکمل عبور حاصل کیا۔ سنوار ایک مکمل حریت پسند کی تمام تعریفوں پہ پورا اترتے ہیں جو اپنی آزادی کے حصول کے لئے ہر حد تک جانے کو تیار ہوتے ہیں۔ اسرائیلی تاریخ کے سب سے بڑے خونی دن 7 اکتوبر 2023 کی منصوبہ بندی اور تکمیل کے لئے بہت سے لوگ سنوار کو ذمہ دار سمجھتے ہیں۔ دو دن پہلے اسرائیلی افواج نے ایک مقابلے کے دوران انہیں میدان جنگ کے میں شہید کیا جسے اسرائیلی وزیر اعظم بینجمن نیتن یاہو نے غزہ کی جنگ میں بڑی کامیابی قرار دیا ہے۔
آپ ذرا اس اسرائیلی ڈرون کیمرے کی فوٹیج ملاحظہ کیجئے جو اسرائیل کے مطابق یحییٰ سنوار کے آخری لمحات کی ہے۔ آپ دیکھیں گے کہ ایک زخمی ہے جو کسی تباہ شدہ عمارت کی دوسری یا تیسری منزل پہ ایک ایسے کمرے میں صوفے پہ جھکا بیٹھا ہے جہاں ہر طرف تباہی پھیلی ہوئی ہے۔ اس زخمی نے فوجی کمانڈوز والی وردی پہن رکھی ہے سر اور چہرے پہ فلسطینی رومال لپیٹا ہوا ہے اور وہ زخموں سے نڈھال ہے۔ مگر جب اسرائیلی ڈرون اس کے قریب آتا ہے تو ہاتھ پکڑا ہوا ایک ڈنڈا اس ڈرون کی طرف پھینکتا ہے۔ آخری منظر میں وہ ڈنڈا ڈرون کی طرف اڑتا ہوا آ رہا ہے اور وہیں ویڈیو ختم ہوجاتی ہے۔ یحییٰ سنوار کی موت کے اعلان سے پہلے تک اسرائیلی افواج اور حکومت ایک سال سے یہ کہہ رہے تھے کہ سنوار بزدلوں کی طرح غزہ کی کسی سرنگ میں چھپا بیٹھا ہے اور وہ ہر وقت اس خوف سے اسرائیلی مغویوں کے ساتھ ہوتا ہے کہ کہیں ہم اسے ڈھونڈ نکالیں اور ٹارگٹ کر کے مار نہ ڈالیں۔
مگر کل جب یحییٰ سنوار کی موت کا اعلان ہوا تو وہ نہ تو کسی سرنگ میں تھا اور نہ ہی کسی اسرائیلی مغوی کے ساتھ تھا۔ خود اسرائیلی فوج کے جاری کیے گئے بیان کے مطابق ہم نے رفح میں تین جنگجوؤں کو شناخت کیا۔ ہماری ان سے جھڑپ ہوئی۔ اس جھڑپ کے دوران وہ تینوں لڑاکے ایک دوسرے سے علیحدہ ہو گئے۔ ایک جنگجو ایک تباہ شدہ عمارت میں گھس گیا۔ ہمارے ڈرون نے اسے عمارت کے کمرے میں ڈھونڈا اور پھر ہم نے ٹینک کے فائر کر کے اس جنگجو کو مار ڈالا۔ پھر ہم نے اس کی لاش تلاش کی تو ہمیں ایسا لگا کہ وہ یحییٰ سنوار ہو سکتا ہے ضروری میڈیکل چیک اپ کے بعد ہمیں یقین ہو گیا کہ ہم نے سنوار کو مار ڈالا ہے۔
معروف عرب اخبار مڈل ایسٹ آئی نے کل سنوار کی موت کے بعد غزہ کے عام شہریوں سے تاثرات لئے۔ ایک نوجوان کا کہنا تھا ”اسرائیلی یہ سمجھتے ہیں کہ ایک سنوار کو قتل کر کے انہوں نے فلسطینی مزاحمت کو قتل کر دیا ہے۔ غزہ کی سرزمین مزاحمت کے لئے بہت زرخیز ہے۔ یحییٰ سنوار تو خود مزاحمت کی پیداوار تھے اور ان کی موت سے مزید ہزاروں سنوار پیدا ہوجائیں گے۔ ہماری جدوجہد اس وقت تک جاری رہے گی جب تک ہماری سرزمین آزاد نہیں ہوجاتی۔“
1987 میں قائم ہونے والی حماس کی قیادت کی کہانی خون سے عبارت ہے۔ حرکت المقاومت الاسلامیہ کے بزرگ اور معذور بانی شیخ احمد یاسین 2004 میں اسرائیلی بمباری میں شہید ہوئے تھے۔ ان کے بعد ڈاکٹر عبدالعزیز رنتیسی تحریک کے سربراہ بنے تو چند دنوں میں ہی انہیں بھی ٹارگٹ کر کے شہید کر دیا گیا اور پھر خالد مشعل کو تحریک کا سربراہ بنایا گیا۔ وہ اردن میں تھے جب اسرائیلی ایجنٹوں نے انہیں زہر دے دیا۔ اردن کی پولیس نے اسرائیلی خفیہ ایجنسی موساد کے ان دو ایجنٹوں کو رنگے ہاتھوں پکڑ لیا جب وہ اس واردات کے بعد فرار ہو رہے تھے۔ اردن کے شاہ حسین نے اسی وقت اعلان کیا کہ وہ ان ایجنٹوں کو سزائے موت دیں گے اور اردن اسرائیل کے ساتھ سفارتی تعلقات ختم کردے گا اگر اسرائیلی حکومت نے فوری طور پر خالد مشعل کو دیے گئے زہر کا تریاق مہیا نہ کیا۔ موساد کے سربراہ خود اسی وقت اس زہر کا تریاق لے کر ہیلی کاپٹر کے ذریعے اردن پہنچے اور اسرائیل نے یہ گارنٹی دی کہ وہ آئندہ اپنے فوجی مقاصد کے لئے اردن کی سرزمین کو نشانہ نہیں بنائے گا۔ 2006 میں غزہ میں انتخابات ہوئے۔ حماس نے یہ جمہوری انتخابات جیت لئے اور اسماعیل ہانیہ فلسطینی علاقوں کے وزیر اعظم بنائے گئے۔ انہیں رواں سال تہران میں ایک اسرائیلی حملے میں قتل کر دیا گیا۔ ان کی موت کے بعد حماس نے یحییٰ سنوار کو اپنا سربراہ بنایا۔ کل ان کی موت کے بعد خیال کیا جا رہا ہے کہ ان کے بھائی محمد سنوار حماس کے اگلے سربراہ ہوسکتے ہیں۔
اسرائیل ہر چند سالوں کے بعد فلسطینیوں کا قتل عام کرتا ہے اور اسے حقارت سے گھاس کاٹنے سے تشبیہ دیتا ہے۔ جیسے کچھ عرصے بعد گھاس بڑھ جاتی ہے اور پھر اسے کاٹ کر برابر کرنا پڑتا ہے ویسے ہی تھوڑے تھوڑے عرصے کے بعد اسرائیل فلسطینیوں کا قتل عام کر کے مزاحمت کو کچل دیتا ہے۔ 7 اکتوبر 2023 کے حملے سے اسرائیلی ریاست نے یہ تو سمجھ لیا ہو گا کہ اب یہ گھاس ان کے گلے کا پھندا بھی بن سکتی ہے۔ سوال یہ ہے کہ امریکہ سمیت یورپی ممالک کا ضمیر کب جاگے گا اور یہ فلسطینی جنہیں اسرائیل بڑھی ہوئی بے ہنگم گھاس قرار دیتا ہے کب انسان کہلائے جانے کے لائق ہوں گے۔ انہیں حق خودارادیت اور آزاد ریاست کب ملے گی جس کا جھوٹا اعادہ آج بھی امریکی صدر نے یورپ میں خطاب کرتے ہوئے کیا تھا۔
- اسرائیل کا شمالی غزہ میں ہولوکاسٹ - 03/11/2024
- یحییٰ سنوار امر ہو گئے - 20/10/2024
- کربلا، فلسطین اور پاکستان - 25/08/2024
Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).