پنجاب کالج کا واقعہ اگر سچ بھی ہوتا تو آپ کیا کر لیتے؟
ان دنوں فیس بک پہ پنجاب گروپ آف کالجز میں ہونے والے واقعہ کو لے کر کافی واویلا مچا ہوا ہے، اس پر عوام الناس کی رائے منقسم ہے، ایک گروہ کا ماننا ہے کہ یہ سارا واقعہ جھوٹا ہے، جبکہ دوسرا گروہ اسے سچا کہتا ہے اور ان کا ماننا ہے کہ مذکورہ کالج کا مالک طاقتور آدمی ہے اور حکومتی ایوانوں میں کافی اثر و رسوخ ہے، لیکن حقیقت کیا ہے کوئی نہیں جانتا۔
میں ذاتی طور پر اس واقعے میں کوئی حتمی رائے دینے سے قاصر ہوں، کیونکہ آزاد و مستند ذرائع نے اس کی تصدیق نہیں کی، یہ بات ایک حقیقت ہے کہ سوشل میڈیا پہ فیک نیوز کا انبار ہے، ان کو پھیلانے والے ایک منصوبہ بندی کے تحت ایسا کرتے ہیں، ذاتی طور پہ چند گنے چنے فیسبک دوستوں کی خبروں پہ یقین کرتا ہوں لیکن ان کی تعداد اتنی کم ہے کہ انگلیوں پہ گن سکتا ہوں، کئی لوگوں کو محض اسی لیے اَن فرینڈ کر چکا ہوں کہ انھوں نے فیک نیوز پوسٹ یا فیک ویڈیوز پوسٹ کیں۔
ابھی پچھلے دنوں کی بات ہے کہ ایک صاحب نے یہ خبر پوسٹ کی کہ ”ایران کا خفیہ طور پہ ایٹمی تجربہ، ساتھ کے ممالک میں زلزلے کے جھٹکے۔“ ، اسی طرح لاہور کے جلسوں میں مارگلہ کی پہاڑیاں بھی دیکھ چکا ہوں۔ لیکن میڈیا اور ریاستی مشینری کے ماضی کے طریقۂ واردات کو سامنے رکھتے ہوئے اِس واقعہ کے ”امکان“ کو مطلقاً رد بھی نہیں کر سکتا، ملکی میڈیا کی اکثریت بھی اِس استحصالی نظام کا بینیفشری ہے، جو اس نظام کے رکھوالوں کی ایما پر عام آدمی کو بیوقوف بنانے، اسے جھوٹ بیچنے اور بیانیہ سازی کے لیے مختلف ہتھکنڈے استعمال کر کے اپنا حصہ وصول کرتا ہے، کسے ہیرو بنانا ہے اور کسے زیرو، کھرے کو کھوٹا اور کھوٹے کو کھرا کیسے ثابت کرنا ہے، یہ ہمارے ملکی میڈیا کے بائیں ہاتھ کا کھیل ہے، میڈیا تو میڈیا یہاں فضا اتنی مکدر ہے کہ ایکس (سابقہ ٹویٹر) پہ بیٹھے بعض بڑے بڑے صحافی، ٹویٹ کر کے واقعے کو کوئی خاص رنگ دینے کے لیے فی ٹویٹ کے حساب سے پیسے لیتے ہیں، یہی حال ویلاگز کا ہے۔
قلم گھسانے کا مقصد اس واقعے کا سچ جھوٹ نکالنا نہیں، بلکہ ماضی میں ہونے والے ایسے واقعات جو واقعتاً وقوع پذیر ہوئے، ان کے تناظر میں اس نظام کا کھوکھلا پن اور بدمعاشی سامنے لانا ہے، کہ کیا اُن سب واقعات میں ریاستی مشینری مظلوم کے ساتھ تھی یا ظالم کے۔
خیر پی پی کا دور تھا نئے نئے آمریت کے بادل چھٹے تھے، بڑی مشکلوں سے نام نہاد جمہوریت بحال ہوئی تھی، اور سیاست دانوں کو باری نصیب ہوئی تھی، کہ ایک کیس نے پی پی گورنمنٹ کی مشکلات میں اضافہ کر دیا۔
واقعہ کچھ یوں تھا کہ 27 جنوری 2011 کو لاہور کے مزنگ روڈ پہ امریکی شہری ریمنڈ ڈیوس نے دو پاکستانی شہریوں کو قتل کر دیا۔
عدالت میں قتل ثابت ہو گیا لیکن امریکہ کی طرف سے ریمنڈ ڈیوس کی رہائی کے لیے کافی دباؤ تھا، اتنا دباؤ کہ اس کیس کے متعلق اس وقت کے آرمی چیف جنرل اشفاق پرویز کیانی اور امریکی آرمی چیف مائیک مولن کے درمیان عمان میں ملاقات ہوئی، کہ کیسے پاکستانی نظامِ عدالت میں کوئی رستہ تلاش کیا جائے کہ ریمنڈ ڈیوس کی رہائی ممکن ہو۔
چنانچہ خلائی مخلوق اور اس کے اس وقت کے سربراہ شجاع پاشا صاحب حرکت میں آئے، اور 16 مارچ 2011 کو عدالتی کارروائی شروع ہونے سے پہلے جج نے صحافیوں سمیت غیر متعلقہ افراد کو وہاں سے نکال دیا، ایک شخص جو اس عدالتی کارروائی میں حاضر رہے وہ شجاع پاشا تھے۔
جج نے عدالت کارروائی آگے بڑھاتے ہوئے ڈرامائی انداز میں عدالت کو شرعی عدالت میں تبدیل کر دیا، اور 18 ورثا (جن کو عدالت کے باہر کوٹ لکھپت جیل میں گن پوائنٹ پہ رکھا گیا تھا، ان کے گھروں کو تالے لگا دیے گئے تھے اور موبائل فون چھین لیے گئے تھے کہ وہ 30 ہزار ڈالر کا خوں بہا قبول کریں ورنہ۔ ۔ ۔) کو ایک ایک کر کے دیت کے لیے بلایا گیا، ورثا رسید لیتے، دستخط کرتے اور باہر نکل جاتے۔
یوں ریمنڈ ڈیوس کی اس مقدمے میں گلو خلاصی ہوئی اور وہ عدالت کے عقبی دروازے سے نکل کر سیدھا لاہور ائرپورٹ پہنچے، جہاں ایک طیارہ پہلے سے ان کا منتظر تھا، اور بقول اس وقت کی امریکی وزیر خارجہ ہیلری کلنٹن کے دیت کی رقم بھی امریکہ نے ادا نہیں کی۔
دوسرا واقعہ خان صاحب کے دورِ حکومت کا ہے جب اگست 2019 میں صلاح الدین نامی ایک پاگل شخص نے اے ٹی ایم مشین کو توڑ کر اپنا کارڈ نکالا اور اے ٹی ایم میں لگے کیمرے کی طرف عجیب و غریب منہ بنا کر نکل گیا، بینک مینجر نے پولیس کو اے ٹی ایم مشین کو توڑنے کی ایف آئی آر درج کروائی، ویڈیو وائرل ہوئی تو رحیم یار خان پولیس نے صلاح الدین کو گرفتار کر لیا، اور دورانِ حراست اتنا تشدد کیا کہ وہ موت کی وادی میں جا پہنچا، صلاح الدین کے والد کو اس خبر کی اطلاع میڈیا سے ہوئی، ان کا کہنا تھا کہ وہ ذہنی مریض تھا، اور ہم نے گھر کا پتہ اور فون نمبر اس کے بازو پہ کندہ کروایا ہوا تھا، پولیس نے اسے دیکھنے کی بھی زحمت نہ کی۔
صلاح الدین کی دورانِ حراست موت کو لے کر میڈیا پہ کافی واویلا ہوا اور متعلقہ پولیس اہلکاروں کے خلاف مقدمہ درج ہوا، فارنزک رپورٹ میں حراستی تشدد ثابت ہو گیا، ملوث اہلکاروں کو سزا ہوئی اور جیل چلے گئے، جسے بعد میں کالعدم تنظیم کے سربراہ حافظ سعید نے ثالثی کرا کے معاف کرا دیا، اس سب میں ریاست نے مدعی بننے، یا کسی طرح کے بھی پولیس ریفارمز کی طرف آنکھ اٹھا کر دیکھنا بھی اپنی توہین سمجھا۔
اگلا واقعہ جنوری 2019 کا ہے، جس میں ساہیوال ٹول پلازہ کے قریب سی ٹی ڈی کے اہلکاروں نے کمسن بچوں کے سامنے بلکہ ایک کمسن بچی سمیت چار افراد کو بھون دیا۔ واقعے کی ویڈیو وائرل ہوئی جس میں سی ٹی ڈی اہلکاروں کو گاڑی کے سامنے سے گاڑی میں بیٹھے افراد پہ فائرنگ کرتے دیکھا جا سکتا تھا۔
ہاہا ہوہو ہوئی، مقدمہ چلا، انسدادِ دہشت گردی کی عدالت میں واقعہ کے تمام 26 گواہان مُکر (ہوسٹائیل ہو گئے ) گئے اور عدالت نے ویڈیوز کو بھاڑ میں ڈالتے ہوئے واقعہ میں ملوث 6 اہلکاروں کو یہ کہتے ہوئے بری کر دیا کہ ثبوت ناکافی ہیں۔ اس پر بھی ریاست نے اتنا سوال کرنا بھی مناسب نہیں سمجھا، کہ جب گاڑی کو روک ہی لیا تھا تو فائرنگ کرنے سے پہلے کم از کم کمسن بچی کو تو اتار لیتے، باقیوں کو تو چلو ہم دہشت گرد ڈکلیئر کر لیتے مگر یہ بچی۔
اس سے اگلا واقعہ سندھ دھرتی کا ہے، نومبر 2021 میں ملیر میمن گوٹھ کے ناظم جوکھیو نے عرب شکاریوں سے شکار کے پرمٹ کے بارے میں پوچھا تو، عرب شکاری اور ناظم جوکھیو کی آپس میں تلخ کلامی ہونے لگی، جس پہ ناظم جوکھیو نے فیسبک لائیو پہ ویڈیو بنانا شروع کی، عرب شکاری نے ان سے ان کا موبائل چھین لیا، جسے بعد میں ناظم جوکھیو کے دوست کے حوالے کر دیا کہ اسے واپس کر دینا۔
عرب شکاری نے اس واقعہ کی اطلاع پیپلز پارٹی سے تعلق رکھنے والے وہاں کے صوبائی اسمبلی کے ممبر جام اویس گہرام اور ان کے بھائی جام عبد الکریم (ممبر قومی اسمبلی) کو دی۔ جام اویس گہرام نے ناظم جوکھیو کو ویڈیو ڈیلیٹ کرنے اور شیخ سے معافی مانگنے کا کہا، جس پہ ناظم نے ایک اور ویڈیو بنائی کہ اس پر ویڈیو ڈیلیٹ کرنے کے لیے دباؤ ڈالا جا رہا ہے۔ جس کے بعد جام اویس نے اپنے پی آر او کو کہا کہ ناظم جوکھیو اور اس کے بھائی افضل جوکھیو کو اس کے بنگلے پر لے آئیں۔
تشدد اور پٹائی کے دوران چار بچوں کے والد ناظم کی موت واقع ہو گئی، خبر سوشل میڈیا پہ پھیلی، مقدمہ درج ہوا، کئی دنوں کی تاخیر کے بعد مقدمے کا چالان پیش ہوا، مدعی (افضل جوکھیو) کی درخواست پہ عدالت نے دہشت گردی کی دفعات شامل کرنے کے لیے مقدمہ انسداد دہشت گردی کی عدالت کو بھیجا، لیکن پراسیکیوٹر جنرل آفس نے اسے لٹکائے رکھا، کیوں کہ انسدادِ دہشت گردی عدالت میں منتقلی کے بعد ورثا کا معافی کا حق ختم ہو جاتا ہے، ان تاخیری حربوں کے خلاف انسانی حقوق کی تنظیموں نے بھی زور لگایا لیکن کچھ ہاتھ نہ آیا، ان تاخیری حربوں کا مقصد ملزمان کو دباؤ ڈالنے کے لیے وقت دینا تھا۔
جام عبد الکریم گہرام چونکہ قومی اسمبلی کے رکن تھے اور ان دنوں خان صاحب کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک چل رہی تھی، اپوزیشن اپنے نمبر پورے کر رہی تھی اور ان کے لیے ایک ایک رکن اہمیت کا حامل تھا، لہذا جام عبد الکریم گہرام کو عدم اعتماد میں ووٹ دینے کے لیے پاکستان آنا تھا اس لیے ورثا پہ دباؤ ڈال کر صلح کے لیے راضی کیا گیا۔ جب جام عبد الکریم گہرام پاکستان پہنچے تب تک صلح نامہ عدالت میں جمع ہو چکا تھا۔ ناظم جوکھیو کی بیوہ شیریں جوکھیو نے یہ کہہ کر صلح کر لی کہ میں مقدمہ لڑنا چاہتی تھی لیکن سب نے ساتھ چھوڑ دیا، ان کے مطابق ان پہ اتنا دباؤ تھا کہ والدین نے کہا یا گھر چھوڑ دو یا صلح کرو، دوسرا کوئی آپشن نہیں اور نا ہی ریاست نے جام اویس گہرام کو اکیلے میں جا کر اتنا کہا کہ حضور سرداریاں سلامت! کوٹنا تو آپ کا ریاستی حق ہے، بس ذرا احتیاط کیا کریں کہ بندہ جان سے ہی نہ چلا جائے۔ ناظم جوکھیو کا قتل بھی عرب شکاریوں کو غیر قانونی شکار سے نہ روک سکا، جو بمطابق بی بی سی شکار کے پرمٹ کی رقم بھی پاکستان کو ادا نہیں کرتے اور کئی عرب شیخ و شہزادے پاکستان کے مقروض ہیں۔
اس سے اگلا واقعہ حال ہی میں ہونے والا ایک روڈ ایکسیڈنٹ ہے، جس میں نشے میں دھت ایک امیر زادی (نتاشہ) نے کارساز کے علاقے میں ایک بوڑھے باپ اور بیٹی کو کچل دیا، کیس عدالت پہنچا تو سزا سے بچنے کے لیے ملزمہ کو پاگل قرار دلوایا گیا اور آخر میں بات اسی معافی اور دیت پہ ختم ہوئی۔ اس پہ بھی ریاست نے اتنا بھی نہ کیا کہ ڈرائیونگ لائسنس کے لیے ذہنی صحت کا معیار ہی طے کر دیتی، سزا دینے سے تو رہی۔
ان ساری کہانیوں کا مقصد صرف اتنا ہے کہ اگر ”پنجاب کالج میں ہونے والا واقعہ“ سچ بھی ہوتا تو بھی آپ کیا بگاڑ لیتے؟ اس نظام میں جیت بلا آخر اشرافیہ ہی کی ہو گی۔
- پنجاب کالج کا واقعہ اگر سچ بھی ہوتا تو آپ کیا کر لیتے؟ - 23/10/2024
- ماہ رنگ کی خاموشی اور ڈوبنے والے کا مذہب - 29/08/2024
- اقبال کا خط اور دوسری طرف کا آرگومنٹ - 22/08/2024
Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).