’میں عجیب ہوں‘: ایک منفرد آپ بیتی


محمد عجیب سے میری پہلی بالمشافہ ملاقات چند سال پہلے برطانیہ کے علاقہ یارکشائر میں منعقدہ ایک تقریب میں ہوئی تھی۔ اتنے بڑے سیاسی عہدے پر براجمان رہنے کے باوجود وہ مجھے انتہائی سادہ سے انسان لگے۔ تقریب میں ان کی مدلل اور پُرمغز گفتگو سن کر اُن کی شخصیت کے کچھ پرت وا ہوئے۔ کچھ عرصہ بعد جب میں نے اُن پر لکھے جانے والی کتاب ”Muhammad Ajeeb۔ Rising above the ordinariness“ کا اردو میں ترجمہ کرنے کا بیڑا اٹھایا تو ان کی ابتدائی زندگی، برطانیہ میں آمد اور ان کی سیاسی زندگی کے بارے میں تفصیل سے جاننے کا موقع ملا۔

وہ مجھے سادہ طبیعت کے انتہائی مدبر، پُر عزم اور حوصلہ مند انسان لگے، جنھوں نے اپنی محنت سے وہ مقام حاصل کیا جس کو پانے کی لوگ آرزو کرتے ہیں۔ انھوں نے بچپن سے لے کر جوانی اور پھر عملی زندگی میں نسلی عدم مساوات، برادری سسٹم اور امیری غریبی کے فرق کو بڑے قریب سے دیکھا اور اس نظام میں تبدیلی لانے کے لیے بھرپور کوششیں کیں۔ اُن کی زندگی ایک مسلسل جدوجہد سے عبارت ہے۔ اُن کی زندگی کے ابتدائی حالات جاننے کے بعد جس بات نے مجھے سب سے زیادہ متاثر کیا وہ دور دراز پسماندہ دیہات میں بسنے والے ایک سنگ تراش کا ویژن ہے۔ مستقبل میں تعلیم کی اہمیت کا ادراک رکھنے والے سنگ تراش نے اپنے بیٹے کو سنگ تراشی سکھانے کی بجائے تعلیم کی روشنی سے بہرہ ور کرنے کا فیصلہ کیا۔ محمد عجیب کو اپنے سنگ تراش والد پر فخر ہے۔

یعقوب نظامی ایک نامور سفرنامہ نگار، سوانح حیات لکھنے والے اور بہترین نثر نگار ہیں۔ ان کی زندگی کا زیادہ عرصہ برطانیہ میں گزرا ہے۔ وہ اس لحاظ سے بڑے خوش قسمت ہیں کہ انھیں محمود ہاشمی جیسے منفرد ادیب اور محمد عجیب جیسی نابغہ روزگار شخصیت کی سرپرستی حاصل رہی ہے۔ ان کی بہت ساری کتب میرے زیر مطالعہ رہی ہیں۔ ان کے حال ہی میں شائع ہونے والے سفر نامہ ”دیکھ میرا کشمیر“ کی گورنمنٹ کالج میرپور میں منعقد ہونے والی تقریب رونمائی میں کتاب کے بارے میں اپنا لکھا مضمون بھی راقم نے پڑھا تھا۔ بڑی سادہ اور سہل زبان میں وہ اپنے دل کی بات کہہ دیتے ہیں، جو ٹھک سے جا کر سیدھی قاری کے دل کو لگتی ہے اور جو بات دل میں اتر جائے دماغ اسے فوراً سمجھ جاتا ہے۔ ان کی تحریر کی دوسری خاصیت یہ ہے کہ وہ کتاب میں قاری کی دلچسپی شروع سے لے کر آخر تک برقرار رکھتے ہیں۔

”میں عجیب ہوں“ برطانیہ کے پہلے ایشیائی، پاکستانی اور مسلمان لارڈ میئر جناب محمد عجیب کی سوانح حیات ہے۔ جو بیان تو انھوں نے خود کی ہے لیکن اُس کو تحریر کا روپ یعقوب نظامی نے دیا ہے۔ لاہور کے معروف اشاعتی ادارے الفیصل پبلشر کی شائع شدہ یہ کتاب 250 صفحات پر مشتمل ہے جس میں پندرہ سے زائد رنگین تصویروں والے صفحات بھی شامل ہیں۔ یعقوب نظامی اپنی اس کتاب کے بارے میں لکھتے ہیں

” یہ آپ بیتی کے ساتھ ساتھ جگ بیتی بھی ہے جس میں گاؤں کے طرزِ زندگی کے ساتھ ساتھ مسئلہ کشمیر اور برطانیہ میں آباد ایشیائی تارکین وطن کے مسائل اور 1947 ء کی جنگ آزادی کی جھلکیاں بھی دکھائی دیتی ہیں۔ “

یعقوب نظامی کی ہر کتاب میں آپ کو موقع و محل کی مناسبت سے مستند شعرا کے بڑے عمدہ اشعار اور رباعیات پڑھنے کو ملتی ہیں۔ یہ روایت اُنھوں نے اِس کتاب میں بھی برقرار رکھی ہے۔ یہ کتاب صرف سوانح عمری ہی نہیں ہے بلکہ ایک ایسے شخص کی زندگی کی لازوال داستان ہے جو ریاست جموں وکشمیر کے علاقہ اندرہل کے ایک چھوٹے سے گاؤں میں ایک غریب سنگتراش کے گھر پیدا ہوا اور اپنے عزم و ہمت اور محنت کے بل بوتے پر بیرون ملک میں اپنا ایک منفرد مقام بنایا۔ عملی زندگی میں یہ ایک ایسے کامیاب انسان کی کہانی ہے جو مسلسل جدوجہد سے عبارت ہے۔

میری خوش قسمتی ہے مجھے عجیب صاحب کا آبائی گھر دیکھنے کا اتفاق ہوا جو ایک کمرے کے مکان کی بجائے اب ایک ایسے خوبصورت گھر میں تبدیل ہو چکا ہے جس کی چھت پر کھڑے ہو کر آپ دریا جہلم کے بہتے پانی کا نظارہ کر سکتے ہیں۔ ویسے تو اس کتاب کے چودہ باب ہیں لیکن اس کتاب کے مطالعہ کے بعد اپنے طور پر میں نے اسے چھ ابواب میں تقسیم کیا ہے۔

پہلا حصہ کشمیر میں 1947 ء سے پہلے مہاراجہ کے دور کے حالات تحریک آزادی اور اس میں پیش آنے والے خونی واقعات، ان کے خاندانی پس منظر اور ان کے آبا و اجداد کی مختلف جگہوں سے نقل مکانی اور اندرہل میں بسنے پر محیط ہے۔

دوسرے باب میں ان کی ابتدائی تعلیم، اعلیٰ تعلیم کے لیے ان کی جدوجہد خود کماؤ اور تعلیم حاصل کرو، اعلیٰ تعلیم کے لیے کراچی منتقلی، کراچی میں قیام کے دوران تعلیم کے حصول میں درپیش مشکلات کے باوجود اعلیٰ تعلیم کی تکمیل، برطانیہ جانے کی تیاری میں پیش آنے والے واقعات ہیں۔ ان تفصیلات کو پڑھ کر آپ کو اندازہ ہو گا کہ وہ کتنا کٹھن وقت تھا۔ علاقہ میں کتنی غربت تھی۔ اپنی ابتدائی زندگی کے بارے میں بیان کرتے ہوئے اندرہل علاقہ کی تاریخ، جغرافیہ، علاقہ کے رہن سہن و بود و باش کی چھوٹی چھوٹی جزئیات کو بھی شامل کیا ہے۔ یعقوب نظامی نے اتنی سادہ زبان میں مقامی بول چال کے الفاظ کا برمحل استعمال کیا ہے جنھیں ایک عام فہم فرد بھی پڑھ اور سمجھ سکتا ہے۔

تیسرے باب میں اُن کے اپنے خاندان، شادی، بچوں کی تعلیم اور اُن کی شادیوں کی تفصیل، خاندان کے دیگر افراد کے بارے میں آپ کو جاننے کا موقع ملتا ہے۔ ان کے برطانیہ میں آباد ہونے اور ان کی شادی خانہ آبادی کے بارے میں پتہ چلتا ہے۔ پہلی دفعہ وطن واپسی کے حالات اور اپنی شادی کا ذکر کرتے ہوئے اُنھوں نے علاقہ اندرہل کے دیہات میں شادی بیاہ کی مختلف رسومات، اور شادی کے لوازمات کو تفصیل سے بیان کیا ہے۔

چوتھا باب ان کے برطانیہ پہنچنے، ابتدا میں ملنے والی مختلف نوکریوں اور اس دوران پیش آنے والے حالات و واقعات کو بڑی تفصیل سے بیان کرتا ہے۔ یہ واقعات اس تاریخ کا حصہ ہیں جو 50 کی دہائی میں برطانیہ پہنچنے والے ہر شخص کی کہانی ہے۔ انتہائی ناموافق حالات، برف باری، سخت سرد موسم اور بنیادی سہولتوں کا فقدان، زبان سے ناواقفیت، کھانے پینے اور رہن سہن میں تبدیلی اور ہنرمند نہ ہونے کے باوجود اُن تارکین وطن نے برطانیہ میں اپنے لیے جگہ بنائی، اس کی ساری تفصیل آپ کو اس باب میں ملے گی۔ محمد عجیب اس لحاظ سے خوش قسمت تھے کہ وہ اعلیٰ تعلیم یافتہ تھے۔ سمجھ بوجھ رکھتے تھے، انگریزی
زبان پر عبور حاصل تھا۔ مشکلات کے باوجود وہ آگے بڑھتے رہے۔ نوٹنگھم میں گزرے ابتدائی 15 سال اور پھر بریڈفورڈ منتقلی، بریڈفورڈ میں تارکین وطن کو درپیش مشکلات خصوصاً ً رہائش کے مسائل پر بڑی تفصیل سے روشنی ڈالی ہے۔ بریڈفورڈ میں انھوں نے اپنی کمیونٹی کی بہتری کے لیے کام کیے، سیاست میں حصہ لیا، کونسلر منتخب ہوئے اور پھر نسلی طور پر اپنے آپ کو سب سے اعلیٰ و ارفع سمجھنے والے برطانیہ کے ایک بڑی آبادی والے شہر بریڈفورڈ کے پہلے ایشیائی کشمیری نژاد پاکستانی مسلمان لارڈ میئر منتخب ہونے کا اعزاز حاصل کیا۔

پانچواں باب اُن کی عملی سیاست میں شمولیت، بریڈفورڈ میں بطور کونسلر اور لارڈ میئر منتخب ہونے کے بعد کی سرگرمیوں، برطانیہ میں تارکین وطن اور لوکل کمیونٹی اور تاجِ برطانیہ کے لیے ان کی خدمات پر ملکہ برطانیہ کی طرف سے کمانڈر آف برٹش ایمپائر حاصل کرنے پر محیط ہے۔

سیاست کے اتار چڑھاؤ کو سمجھنے اور سیاسی چیرا دستیوں کی سمجھ بوجھ رکھنے کی وجہ سے وہ عالمی سیاست پر گہری نظر رکھتے ہیں۔ حالات حاضرہ، پاکستان کے اندرونی سیاسی حالات اور آزادیِ کشمیر کے لیے کی کی گئی کوششوں پر تجزئیات بھی اس باب میں شامل ہیں۔ اپنے دوستوں اور ساتھیوں کے بارے میں آراء بھی اس باب میں شامل ہیں۔ عملی اور سیاسی زندگی میں اپنا ساتھ دینے والے قاضی اشتیاق احمد، ظفر تنویر، ڈاکٹر رامیندر سنگھ، اسلم لون، بابو عبدالحمید، بشیر احمد مغل اور محمد ریاض کا ذکر اُنھوں نے خصوصی طور پر کیا ہے

چھٹا اور سب سے اہم باب اُن کا نسل پرستی اور برادری سسٹم کے خلاف جدوجہد پر مبنی ہے۔ اسی باب میں اُنھوں نے مسئلہ کشمیر پر ایک انتہائی مدلل بحث کر کے اس کی حقیقت بیان کی ہے اور ساتھ ہی اس کا ممکنہ حل بھی پیش کیا ہے۔ پاکستان کے موجودہ حالات، برطانوی سیاست اور عالمی سطح پر امریکہ، یورپ اور مشرق وسطیٰ میں طاقت کے توازن پر سیر حاصل بحث کی ہے اور میرے خیال
میں اس کتاب کا سب سے اہم باب بھی یہی ہے۔

کتاب میں حالات و واقعات کی ترتیب اس طرح سے نہیں ہے بلکہ راقم نے اپنی سوجھ بوجھ کے مطابق جناب محمد عجیب صاحب کی زندگی کو ان چھ ابواب میں تقسیم کیا ہے۔

محمد عجیب صاحب کی ساری زندگی ایک جدوجہدِ مسلسل سے عبارت نظر آتی ہے۔ نامساعد حالات اور مشکلات کے باوجود وہ بڑے عزم و حوصلے سے آگے بڑھتے رہے۔ اندرہل میں ابتدائی تعلیم، کراچی میں کام کے ساتھ اعلیٰ تعلیم کے حصول اور پھر برطانیہ ہجرت کرنے میں پیش آنے والی ہر مشکل کو بڑی خندہ پیشانی سے برداشت کیا۔ برطانیہ پہنچ کر بھی یہ سفر رُکا نہیں بلکہ وہ اسی رفتار سے آگے بڑھتے رہے۔ برطانیہ میں تارکین ِوطن کے رہائشی مسائل کو حل کرنے اور انھیں اپنی ایک الگ شناخت بنانے کے لیے اُن کی راہبری کرنے کے ساتھ اُنھوں نے اِس بات کا اندازہ کر لیا تھا کہ اب برطانیہ ہی اُن کا وطن ہے اور اُنھیں اس ملک کے شہریوں کی طرح رہنا چاہیے۔ اسی بات کو لے کر اُنھوں نے مقامی عملی سیاست میں حصہ لیا اور اپنے حقوق کی جنگ لڑی۔ اِس دوران پیش آنے والے جو واقعات اُنھوں نے اِس کتاب میں بیان کیے ہیں ان کو پڑھ کر رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں۔ آج کی نئی نسل کو ان باتوں کا کوئی اندازہ ہی نہیں ہے کہ ان کے والدین کو یہاں سیٹل ہونے میں کون کون سی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔

عجیب صاحب کی نسلی مساوات کے لیے جدوجہد مجھے سب سے زیادہ اپنا گرویدہ بناتی ہے۔ بنیادی انسانی حقوق اور تارکینِ وطن کو برطانیہ میں درپیش نسل پرستی کے خلاف اُنھوں نے بہت کام کیا۔ وہ اپنے وطن اور عالمی سیاست کو گہری نظر سے دیکھتے ہیں۔ اُن کے تجزئیات بڑے فکر انگیز اور سچائی پر مبنی ہوتے ہیں۔ وہ نظام کی خرابیوں اور برائیوں کو اجاگر کرتے ہوئے ان کا ممکنہ حل بھی پیش کرتے ہیں۔ اللہ انھیں لمبی حیاتی دے۔

جب بھی آپ کسی شخصیت کی سوانح حیات، آب بیتی یا خودنوشت کا مطالعہ کرتے ہیں تو آپ اس شخصیت کی زندگی کی کامیابیوں کو مثال بنا کر اپنی زندگی بہتر بنانے کی کوشش کرتے ہیں۔ اسی طرح ایک ناکام شخص کی ناکامیوں سے سبق سیکھ کر اپنے آپ کو کامیاب بنانے کا راستہ تلاش کرتے ہیں۔ ہمیں اُن کے نظریات اور نقطہ ِنظر سے بہت کچھ سیکھنے کا موقع ملتا ہے۔

محمد عجیب صاحب نے ایک کامیاب ترین زندگی گزاری ہے۔ عملی سیاست میں وہ دنیا کے طاقتور ترین حکمرانوں اور عالمی شہرت یافتہ نامور شخصیات سے ملتے رہے ہیں۔ ایک پس ماندہ ترین علاقہ کے غریب گھرانے سے اٹھ کر برطانیہ جیسے ترقی یافتہ ملک میں اہم ترین عہدوں پر فائز ہونا اور سیاسی میدان میں کامیابی کے جھنڈے گاڑنا اُن کی زندگی کی اہم ترین کامیابیاں ہیں۔ اپنے ملک پاکستان اور آزاد کشمیر نے اُنھیں اعزازات سے نوازا۔ برطانیہ میں نسلی مساوات، امن و شانتی اور کمیونٹی کے لیے کی گئی ان کی خدمات پر پچھلے ایک ہزار سال میں بریڈفورڈ کی با اثر ترین شخصیات کی صف میں ان کا آٹھواں نمبر تھا۔ اس کے علاوہ برطانیہ میں دوسرے بے شمار اعزازات کے علاوہ برطانیہ کا قومی اعزاز کمانڈر آف برٹش ایمپائر ملنے سے ان کی عزت و وقار میں اور اضافہ ہوا۔

یہ کتاب پڑھ کو میں نے جو سبق سیکھا، میں اسے تین حصوں میں تقسیم کروں گا۔ ان کا سب سے بڑا کارنامہ ان کی نسل پرستی اور برادری ازم کے خلاف جنگ ہے۔ انھوں نے نسلی امتیاز اور تعصب کی بڑے واضح الفاظ میں تشریح کی ہے۔ 1947 ء سے پہلے مہاراجہ کے دور میں اور آزادی کے بعد ملک میں ذات برادری، قوم اور پیشہ کی بنیاد پر امتیازی سلوک اور برطانیہ کا اپنے آپ کو اعلیٰ و عرفہ سمجھ کر غیر سفید فاموں کو حقیر سمجھ کر اپنی کالونیوں اور تارکین وطن کے ساتھ نسلی امتیاز اور برے سلوک کو انھوں نے بڑے قریب سے دیکھا۔ انھوں نے آپ بیتی میں اس کا بڑی تفصیل سے ذکر کیا ہے۔ عملی زندگی میں انھوں نے نسلی تعصب اور نسلی امتیاز کے خلاف اپنی آواز بلند کی۔ سفید فام نسل پرستوں اور اپنے ہم وطنوں کا برادری ازم کی بنیاد پر مخالفت کا ڈٹ کر مقابلہ کیا جس کی پاداش میں انھیں سخت مشکلات کا سامنا بھی کرنا پڑا لیکن وہ اپنے موقف پر ڈٹے رہے اور ریس ازم کے خلاف جنگ جیتنے میں کامیاب ہوئے۔

انھوں نے اپنی سوانح عمری میں تارکین وطن کے برادری ازم کا برطانیہ کی سیاست میں استعمال اور اس کے ملک گیر نقصانات کا بھی جامع منظر نامہ پیش کیا ہے۔ ان کا نظریہ ہے کہ نسلی امتیاز اور برادری ازم کے خاتمہ سے معاشرے میں انتہائی مثبت تبدیلیاں آتی ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ تعلیم اور معاشی آسودگی ہمیشہ مثبت تبدیلیاں لے کر آتی ہے۔ ہم برادری ازم اور نسلی تعصب سے بالا تر ہو کر ایک اچھی زندگی گزار سکتے ہیں۔ اُن کی اس جدوجہد سے ہمیں یہ درس ملتا ہے کہ نسلی پرستی، برادری ازم، قومیت اور پیشہ کی بنیاد پر سلوک سے پاک معاشرہ انسانیت کی بھلائی کے لیے انتہائی اہم ہے اور ہمیں مل کر ایسا معاشرہ قائم کرنا چاہیے۔ انھوں نے عملی طور پر یہ کام کر کے دوسروں کے لیے راہ ہموار کی ہے۔

سبق کا دوسرا حصہ اپنے وطن کے متعلق ہے۔ محمد عجیب برطانیہ میں رہ کر کبھی اپنے وطن کو نہیں بھولے۔ انھیں دوسروں سے بڑھ کر اپنے وطن سے پیار ہے۔ وہ اپنے دیس کو ہندوستان کے چنگل سے آزاد دیکھنا چاہتے ہیں۔ وہ یہ سمجھتے ہیں کہ آج تک کسی نے بھی مسئلہ کشمیر کے پرامن حل کے لیے سنجیدہ کوشش نہیں کی۔ کشمیر کا مقدمہ کیا ہے۔ ؟ اس پر بات کرتے ہوئے انھوں نے کشمیر کی مختصر تاریخ بیان کرتے ہوئے مغلوں اور برطانوی راج میں کشمیر کی فروخت اور مہاراجہ کے دور میں مسلمانوں کی حالت زار، مہاراجہ کے ہندوستان سے الحاق، ہندوستانی فوجوں کی کشمیر میں آمد اور 1947 ء میں کشمیر کی آزادی پر بڑی تفصیل سے روشنی ڈالی ہے۔ مسئلہ کشمیر کا اتنا مدلل اور حالات و واقعات کی روشنی میں اتنا مکمل جائزہ میں نے کہیں نہیں پڑھا۔ انھوں نے جس انداز میں مسئلہ کشمیر پر پرمغز اور حقیقت پر مبنی بحث کی ہے اس سے مسئلہ کشمیر آسانی سے سمجھ میں آ جاتا ہے۔ انھوں نے اپنا نقطہ نظر بیان کیا ہے اور مسئلہ کشمیر کے پرامن اور ممکنہ حل پر قابل عمل تجاویز پیش کی ہیں۔

عالمی سیاست، امن و امان کی صورت حال، طاقت کے توازن، روس اور چین کی بدلتی صورت حال، پاکستان کے اندرونی حالات پر وہ گہری نظر رکھتے ہیں۔ اُن کے تجزئیات بڑے تحقیقی اور حقیقت پر مبنی ہوتے ہیں۔ آخر میں اُنھوں نے برطانیہ میں صنعتی انقلاب اور دوسری جنگ عظیم کے بعد پیدا ہونے والی صورت حال، تارکین وطن کی آمد، برطانوی معاشرے کی موجودہ صورت حال اور سیاسی حالات کا تجزیہ کیا ہے۔ مشرق وسطیٰ، پاکستان کے حالات کا مختصر جائزہ پیش کیا ہے۔ نئی نسل کے لیے ایسی کتابیں مشعلِ راہ ثابت ہوتی ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).