دوستوئیفسکی کے بے چارے لوگ
اس کائنات کا واحد جاندار یعنی ”انسان“ وہ مخلوق ہے جس کی مٹی احساسات اور جذبات سے گندھی ہے۔ شاید قدرت نے خوشی، احساس، غم، تکلیف، بے بسی، محرومی جیسے جذبات انسان کو کسی تحفے کے طور پر عنایت کیے ہیں۔ فطرت نے جہاں اسے ذہانت، شعور اور علم و عقل جیسی صلاحیتیں سے نوازا گیا، وہیں اس پر غربت، بے بسی اور لاچاری جیسے عفریت کو بھی مسلط کر دیا۔ انسان چاہے جس خطے سے بھی تعلق رکھتا ہو ان مسائل سے بھاگ نہیں سکتا۔ شاید اسی لیے غربت زدہ نچلے طبقے کے انسانوں کی پسماندگی کی ایک داستان ”فیودر میخائلووچ دستوئیفسکی“ نے ”بے چارے لوگ“ کی شکل میں لکھی۔
دستوئیفسکی نے پہلے پہل انجنئیرنگ کو ذریعہ معاش بنایا مگر تخلیقی صلاحیتوں نے ان کا رخ ادب کی جانب موڑ دیا۔ جن مصائب و آلام کا ذکر اس کی کتاب ”بے چارے لوگ“ میں ہے وہ کہیں نہ کہیں اس کی ذات کے کرب کو بھی نمایاں کرتے ہیں۔ دوستوئیفسکی نے اپنی زندگی میں بے شمار مصائب کا سامنا کیا۔ ترقی پسند حلقے سے تعلق کی بنا پر انہیں جیل جانا پڑا اور سزائے موت کا فیصلہ بھی سنایا گیا۔ مگر یاوری قسمت سے موت کی سزا دس سالہ جلاوطنی میں بدل گئی۔
دوستوئیفسکی کے ناول ان کی ذات سے جڑے مسائل کو اپنے کینوس پر سمیٹے ہوئے ہیں۔ ان کے ایک ناول ”بے چارے لوگ“ کا ترجمہ ظل حسنین نقوی المعروف ظ انصاری نے کیا ہے، جو اردو کے نام ور ادیب، محقق، نقاد اور مترجم ہیں۔ دیگر زبانوں سے محبت اور لگاؤ کی وجہ سے ظ انصاری انگریزی، فارسی اور روسی زبانوں کے کئی فن پاروں کو اردو ترجمے میں منتقل کرچکے ہیں۔ دوستوئیفسکی کے علاوہ انہوں نے بہت بڑے بڑے نام جن میں کارل مارکس، فریڈرک، اینگلز، لینن، چیخوف اور پشکن کی تصانیف کو بھی اردو ترجمے کا روپ دیا۔
”بے چارے لوگ“ خطوط کی طرز پر لکھا جانے والا ایک شاندار ناول ہے۔ یہ دوستوئیفسکی کا پہلا ناول ہے جو اپنے موضوع اور ہیئت کی بنا پر زبان زد عام ہوا۔ ناول میں غربت اور اس سے پیدا ہونے والے حالات کی بے بسی، انسانوں کی کسمپرسی اور معاشرے کے پسے ہوئے لوگوں کو موضوع بنایا گیا ہے۔ کہانی خطوط کی صورت میں دو کرداروں ”واروارا الیکسئی ونا“ اور ”ماکاردے وشکن“ کے درمیان گھومتی ہے۔ الیکسئی ونا ایک معمولی کلرک تھا جس کی قلیل آمدنی اس کے اخراجات کے لیے ناکافی تھی۔ جبکہ دوسرا کردار ماکاردے وشکن ایک ایسی لڑکی کا ہے جسے مشکل حالات کی بنا پر اپنے والدین کے ہمراہ آبائی گھر چھوڑ کر پیٹرس برگ منتقل ہونا پڑتا ہے۔ جہاں کچھ عرصے بعد اس کے باپ اور پھر ماں کا انتقال ہوجاتا ہے۔
ماکاردے وشکن کے ساتھ ”پوکروفسکی“ کا کردار بھی خاصا اہم کردار ہے۔ پوکروفسکی کو ادب سے بہت لگاؤ تھا یہ دبلا پتلا سا لڑکا جس کی دنیا صرف اس کی کتابیں تھیں۔ ناول میں نہ صرف غربت کی بے بسی کو ہی نہیں بیان کیا گیا ہے بلکہ رشتوں کی بے اعتنائی کو بھی موضوع بنایا گیا ہے۔ پوکر کی ماں کا مر جانا، پھر باپ کی دوسری شادی اور اپنے فرائض سے غافل ہو جانے کے اس واقعے نے باپ بیٹے کے رشتے میں نفرت کی دیوار کھڑی کردی تھی۔ پوکروفسکی کے باپ کو جب اپنی غلطی کا احساس ہوتا ہے تو وہ ہر ممکن کوشش کرتا ہے کہ وہ اپنے بیٹے سے تعلقات بحال کر سکے۔ مگر قدرت کو کچھ اور ہی منظور ہوتا ہے۔ ایسی تکلیف سموئے ناول کا ایک حصہ دیکھیے :
”کتابوں کے دوسرے اسٹال پر قریب ہی کیا دیکھتی ہوں کہ پوکروفسکی کے باپ بڑے میاں کھڑے ہیں اور چار پانچ کتب فروشوں نے انہیں گھیر رکھا ہے اور سب ان کی پائی نکلوا لینے پر تلے ہوئے ہیں۔ ہر ایک اپنی اپنی کتابیں ان پر جھونکے دے رہا ہے اور کتابیں بھی کیا کیا تھیں۔ میں جب ان کے پاس پہنچی اور پوچھا کہ وہ یہ کیا کر رہا ہے تو بوڑھا بے چارہ بہت خوش ہوا۔ وہ مجھے جی جان سے چاہتا تھا، شاید اپنے بیٹے پیتینکا سے کم مجھ سے پیار نہ کرتا ہو گا۔“
پوکروفسکی کی موت کے بعد ماکاردے وشکن کی ماں کی موت ناول میں ایک المناک فضا پیدا کرتی ہے۔ یہاں قریبی رشتوں کی ازلی جدائی اور موت جیسے المیے کو موضوع بنا کر انسانوں کی بے بسی کو بیان کیا گیا ہے۔ انسان کم وسائل میں زندگی بسر کر سکتا ہے مگر احساس، محبت اور تحفظ کے بغیر اس کا گزرا مشکل ہوتا جاتا ہے۔ چنانچہ اسی احساس کے تحت الیکسئی ونا اور ماکاردے وشکن کے درمیان باپ بیٹی کا رشتہ پروان چڑھتا ہے۔ جہاں دونوں ایک دوسرے کی ضروریات کا خیال رکھتے ہیں۔ الیکسئی ونا اپنی معمولی آمدنی کو خود پر خرچ کرنے کی بجائے ماکاردے وشکن کے لیے تحائف خریدتا ہے۔ محبت، احساس اور رشتوں کی تلاش میں یہ دونوں کردار ایک دوسرے سے جڑ جاتے ہیں۔ یہاں مصنف نے بہت خوبصورتی سے انسانی نفسیات اور ایثار و قربانی جیسے جذبات کی سچائیوں کو قاری پر آشکار کیا ہے۔
ناول میں ایک واقعہ ایسا آتا ہے جب الیکسئی کی جیب میں اتنے پیسے تھے کہ وہ صرف بنیادی ضروریات پوری کرسکے مگر اس کا ہمسایہ ”گورشکوف“ اس سے مدد مانگنے آتا ہے۔ یہاں قاری یہی سوچتا ہے کہ ماکاردے انکار کردے ان پیسوں سے اپنا پھٹا پرانا لباس درست کروا لے اور کئی ماہ کا کرایہ ادا کردے تاکہ مالکن اسے اطمینان سے رہنے دے مگر ماکاردے گورشکوف کو بیس کوپک عنایت کر دیتا ہے۔ اپنی ضروریات کو ترک کر کے دوسروں کی فریاد پران کی مدد کرنے والے بے چارے لوگ اپنے ظرف میں بلند ہو جاتے ہیں۔ اس حوالے سے ناول کا ایک حصہ ملاحظہ کیجیے :
” یہ سننا تھا کہ میرا دل دہل گیا۔ ہاں واقعی مجھے خیال آیا کہ اس شخص کی حالت مجھ سے بھی بدتر ہے۔ میرے پاس اس وقت بیس کوپک تھے اور آنے والی کل کی سخت ضرورتوں کے لیے انہی بیس کوپک کا سہارا تھا۔ ’نہیں‘ میں نے کہا۔ میرے پاس سچ مچ کچھ نہیں ہے۔ مگر وہ بولا ’میرے بزرگ ماکارا الیکسئی وچ آپ کے جو جی میں آئے کہیے مگر مجھے کم سے کم دس کوپک کا سکہ ضرور عنایت کر دیجیئے۔ میں نے خانے سے بیس کوپک نکالے اور اسے دے دیے، اسے بیس کوپک بھی دینا تو عمل خیر ہے میری پیاری وارنکا“
ناول میں غربت، غربت میں جکڑے لوگوں کی بے بسی، غربت سے پیدا ہونے والے حالات، رشتوں کی بے اعتنائی، انسانی نفسیات، ایثار و قربانی اور احساس جیسے جذبات، انسانی استحصال اور ایک معمولی کلرک کی ضروریات زندگی کے لیے کی جانے والی جدوجہد کو موضوع بنایا گیا ہے۔ یہ موضوعات کسی بھی معاشرے کے نچلے طبقے کے انسانوں کی بے چارگی اور بے بسی کی عکس کشی کرتے ہیں۔
ناول میں منظر کشی بہت عمدہ انداز سے کی گئی ہے۔ قاری بعض واقعات کو پڑھ کر تاسف آور اداسی میں مبتلا ہوجاتا ہے۔ ناول کا پلاٹ خطوط کی طرز پر ہے۔ جہاں دونوں مرکزی کردار خطوط کے ذریعے اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہیں۔ ترجمہ انتہائی سادہ اور سلیس ہے جسے پڑھ کر قاری لطف اندوز ہوتا ہے۔ ادب کے شائقین کو عالمی ادبیات کے اس گراں قدر فن پارے کا مطالعہ ضرور کرنا چاہیے۔
- دوستوئیفسکی کے بے چارے لوگ - 24/10/2024
Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).