گاندھی اور ٹیگور کی سماجی رفاقت اور نظریاتی رقابت کی کہانی
بیسویں صدی میں مشرق کی ان شخصیات کی فہرست میں، جو مغرب میں بہت مقبول ہوئیں، موہن داس گاندھی اور رابندرا ناتھ ٹیگور کے نام سنہرے حروف میں لکھے جائیں گے۔ گاندھی نے مارٹن لوتھر کنگ جونیر جیسے سیاسی رہنماؤں اور ایرک ایرکسن جیسے ماہرین نفسیات کو بہت متاثر کیا۔ ایرکسن نے گاندھی کی ذات اور نظریات پر ایک ضخیم کتاب مرتب کی جس کا نام GANDHI’S TRUTH ہے۔ رابندرا ناتھ ٹیگور وہ واحد ہندوستانی ادیب ہیں جنہیں اپنی نظموں کی کتاب گیتانجلی پر ادب کے نوبل انعام سے نوازا گیا۔
ان دو دانشوروں کی کہانی سماجی رفاقت اور نظریاتی رقابت کی دلچسپ کہانی ہے۔ دونوں سماجی انصاف اور آزادی کو اپنے آدرش سمجھتے تھے لیکن ان مقاصد کو حاصل کرنے کے لیے انہوں نے جو راستے اختیار کیے وہ بہت مختلف تھے۔ بظاہر دونوں ایک دوسرے کو عزت و احترام سے ملتے تھے لیکن در پردہ ایک دوسرے سے شدید نظریاتی اختلاف رکھتے تھے اور جب کبھی وہ ان اختلافات کا بر سر عام اظہار کرتے تو وہ ہندوستان کی سیاسی فضا میں ارتعاش پیدا کرتے۔
میں نے ان دونوں عظیم شخصیات کے پراسرار اور پیچیدہ رشتے کی تفہیم کے لیے ان کی سوانح عمریوں کا سنجیدگی سے مطالعہ و تجزیہ کیا۔ ان سوانح عمریوں سے میں نے یہ جانا کہ ان دونوں رہنماؤں کی پہلی ملاقات انیس سو پندرہ میں اور آخری ملاقات انیس سو چالیس میں ہوئی۔ ان کا رشتہ ربع صدی کا رشتہ تھا۔ اس ربع صدی میں ان کے رشتے میں بہت سے اتار چڑھاؤ آئے۔ ان پچیس برسوں میں کبھی بھی ان دونوں نے مل کر کام نہیں کیا۔ وہ دریا کے ان دو کناروں کی طرح تھے جسے خیر اندیشی کے پل نے ملا رکھا ہو لیکن کبھی کبھار وہ پل حالات کی ستم ظریفی سے زور زور سے ہچکولے کھانے لگتا جیسے وہ کسی سیاسی اور نظریاتی زلزلے کا شکار ہو گیا ہو۔
انیس سو پندرہ میں جب دونوں شخصیات کی پہلی ملاقات ہوئی اس وقت تک دونوں اپنے اپنے مکتب فکر کے معزز و محترم رہنما بن چکے تھے۔ ان کے ارد گرد ان کے مداح بھی تھے، شاگرد بھی اور پیروکار بھی۔ گاندھی جنوبی افریقہ میں اپنے ٹالسٹائی فارم کو چھوڑ کر واپس آ گئے تھے تا کہ وہ ہندوستان کی آزادی کی جدوجہد میں فعال کردار ادا کر سکیں۔ گاندھی نے جب ٹیگور سے اس خواہش کا اظہار کیا کہ وہ اپنے پیروکاروں کے ساتھ آ کر ان سے ملنا چاہتے ہیں تو ٹیگور نے بڑے احترام سے اپنے دل اور اپنی درسگاہ شانتی نکیتن کے دروازے کھول کر انہیں آنے اور کچھ دیر رہنے کی دعوت دی۔
گاندھی کو شانتی نکیتن کے قیام کے دوران بہت جلد احساس ہو گیا کہ دونوں رہنماؤں کا درس و تدریس کا انداز اور طریقہ کار بہت مختلف ہے۔
گاندھی کی آمد سے پہلے شانتی نکیتن میں برہمن باقی ذاتوں سے علیحدہ کھانا کھاتے تھے۔ گاندھی نے مشورہ دیا کہ سب طلبا و طالبات کو ذات پات کی تفریق سے بالاتر ہو کر اکٹھے کھانا کھانا چاہیے۔ گاندھی نے جب ٹیگور کو یہ مشورہ دیا تو ٹیگور نے اس مشورے کو بڑی خوشدلی سے قبول کیا کیونکہ وہ بھی سماجی برابری کے اصول پر یقین رکھتے تھے۔
گاندھی اپنی مدد آپ کے فلسفے پر یقین رکھتے تھے۔ اس لیے انہوں نے شانتی نکیتن کے اساتذہ کو مشورہ دیا کہ وہ شانتی نکیتن کے نوکروں چاکروں اور باورچیوں کی چھٹی کرا دیں اور طلبا و طالبات کو یہ سکھائیں کہ وہ اپنا کھانا خود پکائیں اور کھائیں۔
ٹیگور نے گاندھی کے احترام میں ان کا مشورہ وقتی طور پر قبول کر لیا لیکن جب گاندھی چلے گئے تو وہ واپس اپنے پرانے طریقہ کار پر لوٹ آئے۔ یہ علیحدہ بات کہ گاندھی کی یاد میں انہوں نے مہینے میں ایک دن مختص کر دیا جب شانتی نکیتن کے طلبا و طالبات اپنا کھانا خود پکاتے اور کھاتے تھے اور اس دن کو ”گاندھی کا دن“ کہہ کر پکارتے تھے۔
انیس سو اکیس میں گاندھی اور ٹیگور کی دوسری ملاقات ہوئی۔ اس ملاقات میں گاندھی ٹیگور کو اپنا سماجی و سیاسی فلسفے سے قائل کرنے آئے تھے۔ اس ملاقات میں دونوں رہنماؤں میں طویل مکالمے ہوئے اور ان کے ڈھکے چھپے تضادات سطح پر آ گئے۔
گاندھی نے ٹیگور کو قائل کرنے کی کوشش کی کہ ہندوستانی برطانیہ کی تمام مصنوعات کا بائیکاٹ کر دیں تا کہ برطانیہ کو مالی و معاشی نقصان ہو۔ اس طرح برطانوی حکومت کی طاقت کم ہوگی اور اس پر سیاسی دباؤ بڑھ جائے گا۔
گاندھی نے ٹیگور کو بتایا کہ انہوں نے برطانیہ کے خلاف ملک گیر پر امن احتجاج شروع کر دیا ہے جو ہندوستان کی آزادی کے لیے ناگزیر ہے۔
ٹیگور نے گاندھی سے اختلاف کرتے ہوئے کہا کہ آپ ہندوستانیوں کو برطانوی حکومت سے خلاف اکسا اور بھڑکا رہے ہیں۔ اس تحریک میں خطرہ یہ ہے کہ جس دن برطانوی حکام ہندوستان سے چلے جائیں گے اس کے بعد ہندوستانی عوام و خواص مسلمان سکھ اور ہندو ایک دوسرے سے لڑ پڑیں گے اور یہاں خون کی نہریں بہہ جائیں گی۔ یہ سب لوگ ایک دوسرے کی گردنیں کاٹ ڈالیں گے۔
ٹیگور کا جواب سن کر گاندھی بہت برہم ہوئے اور ٹیگور سے پوچھا اگر آپ میرے حل سے متفق نہیں تو اس کا متبادل کیا ہے آپ کے پاس ہندوستانی مسئلے کا کیا حل ہے؟
ٹیگور نے کہا آپ انقلاب پر ایمان رکھتے ہیں میں ارتقا پر یقین رکھتا ہوں۔ آپ سیاست سے اور میں تعلیم سے سماجی تبدیلی لانا چاہتا ہوں۔ آپ برطانیہ سے نفرت سے اور میں مختلف قوموں کی باہمی محبت سے اپنے مقاصد حاصل کرنا چاہتا ہوں۔
جب گاندھی کچھ اور برہم ہوئے تو ٹیگور نے اپنے گھر کی بالکونی سے پردہ اٹھایا اور گاندھی سے کہا کہ آپ خود آ کر دیکھیں۔ محلے سے ایک جلوس گزر رہا ہے اور لوگ جنونی درویشوں کی طرح دھمال ڈال کر چیخ رہے ہیں۔
ٹیگور نے گاندھی سے کہا کہ آپ بخوبی جانتے ہیں کہ ہمارے عوام بہت جذباتی لوگ ہیں۔ آپ ان کے جارحانہ جذبات کو اپنے غیر جارحانہ اصولوں اور آدرشوں سے زیادہ عرصے تک کنٹرول نہیں کر پائیں گے اور حالات آپ کے قابو سے باہر ہو جائیں گے۔ یہ جذباتی لوگ ایک دن بہت تباہی پھیلائیں گے۔
ٹیگور نے ایک مشفق استاد کی طرح گاندھی کو سمجھاتے ہوئے کہا کہ سماجی تبدیلی کا عمل سکولوں سے شروع ہوتا ہے۔ ہمیں چاہیے کہ ہم سارے ملک میں ایسے سکول بنائیں جہاں ہندو مسلم عیسائی اور سکھ بچے اکٹھے تعلیم حاصل کریں اور ایک دوسرے کے دوست بنیں اس طرح وہ پر امن طریقے سے ایک دوسرے کے ساتھ رہنا سیکھیں گے۔ اس طرح اعلیٰ تعلیم و تربیت سے جو سماجی تبدیلی آئے گی وہ پرامن بھی ہوگی اور دیرپا بھی۔ آپ جو ہندوستان میں انقلاب برپا کرنا چاہتے ہیں وہ سیاسی تبدیلی متشدد بھی ہوگی اور عارضی بھی۔
ٹیگور کی باتیں سن کر گاندھی نے طنز سے کہا کہ آپ جو تبدیلی لانا چاہتے ہیں اس کے لیے ایک صدی چاہیے اور ہمارے پاس اتنا وقت نہیں ہے۔ ہم جلد انقلاب لانا چاہتے ہیں۔
اس ملاقات کے بعد گاندھی ٹیگور سے ناراض ہو کر چلے گئے اور دونوں کی دوستی میں ایک تشنج کی سی کیفیت پیدا ہو گئی۔ دونوں نے فیصلہ کیا کہ وہ اپنے اختلافات سے عوام کو بھی آگاہ کریں گے۔
انیس سو بائیس میں ٹیگور نے بنگالی پریس میں ایک مضمون لکھا جس میں انہوں نے عوام کو بتایا کہ گاندھی کی پرامن تحریک میں تشدد مخفی ہے۔
اتفاق سے ٹیگور کے مضمون کے چھپنے کے دو دن بعد گاندھی کے ایک جلسے میں ہنگامہ برپا ہو گیا اور گاندھی کے پیروکار پولیس سے لڑ پڑے۔ پولیس نے جلسے میں گولی چلا دی اور گاندھی کے پیروکاروں نے بائیس پولیس افسروں کو، جنہوں نے گولی چلائی تھی زندہ جلا دیا۔
گاندھی اس تشدد سے بہت دکھی ہوئے لیکن پانی سر سے گزر چکا تھا۔ گاندھی پر اشتعال انگیزی اور غداری کا مقدمہ چلا اور انہیں برطانوی عدالت نے چھ سال کی قید کی سزا سنائی۔
گاندھی جب ٹیگور کے نظریات سے دلبرداشتہ ہوئے تو انہوں نے ٹیگور کے خلاف ایک مضمون چھپوایا جس کا عنوان ”سنتری“ تھا۔ انہوں نے لکھا کہ جس طرح ایک سنتری حکومت کی کسی بلڈنگ کے باہر خاموش کھڑا رہتا ہے اور کچھ نہیں کرتا اسی طرح ٹیگور بھی عوام پر سب مظالم دیکھتے ہیں لیکن خاموش رہتے ہیں کچھ کرتے نہیں۔
گاندھی اور ٹیگور کے اختلافات اس دور میں کچھ اور بڑھ گئے جب گاندھی نے عوام کی طرح ٹیگور کو بھی مشورہ دیا کہ وہ چرخہ کاتیں اور اپنے کپڑے خود بنائیں۔ ٹیگور نے مسکراتے ہوئے کہا کہ ہر انسان کو وہ کام کرنا چاہیے جس میں وہ مہارت رکھتا ہو۔ انہوں نے کہا میرے لیے بچوں کو پڑھانا چرخہ کاتنے سے زیادہ اہم اور بامعنی ہے۔
ٹیگور کا موقف تھا کہ گاندھی چرخہ کاتنے کے درپردہ سائنسی ترقی کی مخالفت کر رہے تھے۔ ٹیگور نے گاندھی سے کہا کہ جب بیسویں صدی میں سائنس اور ٹکنالوجی نے اتنی ترقی کر لی ہے کہ مشینیں بہت اچھے کپڑے بنا رہی ہیں تو ہمیں چرخے سے کپڑے بنانے کی کیا ضرورت ہے۔
گاندھی اور ٹیگور کے فلسفوں میں ایک اور واضح اختلاف تھا۔
گاندھی کا زندگی کے بارے میں رویہ مذہبی تھا جبکہ ٹیگور کا رویہ سائنسی تھا۔
جب ہندوستان میں زلزلہ آیا تو گاندھی نے کہا
”خدا نے ہمیں گناہوں کی سزا دی ہے“
ٹیگور گاندھی کے اس رویے سے بہت برہم ہوئے۔ انہوں نے بیان دیا کہ زلزلہ قوانین فطرت کی وجہ سے آیا ہے اس کا ہمارے گناہوں سے کوئی تعلق نہیں کیونکہ اس زلزلے بہت سے معصوم بچے بھی ہلاک ہوئے ہیں۔
گاندھی اور ٹیگور کے نقطہ نظر میں ایک اور اختلاف یہ تھا کہ گاندھی مغربی معاشرت سے نفرت کرتے تھے جبکہ ٹیگور مغرب سے اختلاف کے باوجود اس کا احترام کرتے تھے۔
ٹیگور کا رویہ طالب علمانہ جبکہ گاندھی کا رویہ مبلغانہ تھا۔
ٹیگور دوسروں سے سیکھنا جبکہ گاندھی دوسروں کو سکھانا چاہتے تھے۔
ٹیگور مکالمے پر جبکہ گاندھی تبلیغ پر یقین رکھتے تھے۔
ٹیگور انسانیت کے مستقبل کی طرف جبکہ گاندھی ماضی کی طرف دیکھتے تھے۔
جہاں تک دونوں کی شخصیت کا تعلق ہے ٹیگور گاندھی سے زیادہ منکسرالمزاج تھے۔
ٹیگور مغرب سے جدید علوم سیکھنا چاہتے تھے جبکہ گاندھی مغرب کو مشرقی علوم سکھانا چاہتے تھے۔
وقت کے ساتھ ساتھ دونوں رہنماؤں کی سوچ اور شخصیت میں تبدیلی اور باہمی تضادات میں کمی آئی۔ دھیرے دھیرے ان کے رشتے کا تشنج کم ہوا۔ آہستہ آہستہ ان کی رقابت کم ہوئی اور رفاقت پھر بڑھ گئی۔
ٹیگور کی وفات سے ایک برس پیشتر انیس سو چالیس میں گاندھی ایک دفعہ پھر ٹیگور سے ملنے شانتی نکیتن گئے۔ ٹیگور نے ان کا بڑے احترام سے استقبال کیا۔
اس آخری ملاقات میں گاندھی نے ٹیگور کی درسگاہ کی دل کی گہرائیوں سے تعریف کی کیونکہ شانتی نکیتن اس وقت تک ستیہ جیت رے جیسے فلم ساز اور اندرا گاندھی جیسے سیاسی رہنما پیدا کر چکی تھی۔
ٹیگور نے گاندھی سے کہا کہ ان کی زندگی کی شام آ گئی ہے اور ان کی خواہش ہے کہ ان کی وفات کے بعد گاندھی ان کی درسگاہ کا خیال رکھیں۔
گاندھی نے بھی وہ ذمہ داری بڑی خوش دلی سے قبول کر لی۔
جاتے وقت گاندھی نے ٹیگور سے کہا کہ وہ شانتی نکیتن کو ہمیشہ اپنا دوسرا گھر سمجھتے رہے ہیں اور اب اس ملاقات کے بعد ان کا شانتی نکیتن سے رشتہ اور بھی گہرا ہو گیا ہے۔
وہ ملاقات گاندھی اور ٹیگور کی آخری ملاقات تھی۔ اس ملاقات کے ایک برس بعد انیس سو اکتالیس میں ٹیگور اور آٹھ سال بعد انیس سو اڑتالیس میں گاندھی جہان فانی سے کوچ کر گئے۔ گاندھی کی زندگی کا آخری المیہ یہ تھا کہ ایک پرامن سیاسی رہنما کو اس کے ایک پرتشدد پیروکار نے بر سر عام قتل کر دیا۔
میرے لیے یہ دلچسپی کی بات ہے کہ ہندوستان کے بہت سے ادیب شاعر سیاسی رہنما اور دانشور جو جوانی میں گاندھی کے پرستار تھے وہ بڑھاپے میں ٹیگور کے مداح بن گئے۔ ان شخصیات میں سے ایک جواہر لعل نہرو تھے۔ نہرو نے انیس سو اکسٹھ میں جب وہ ہندوستان کے وزیر اعظم تھے کہا تھا کہ میں انیس سو اکیس میں گاندھی سے زیادہ متاثر تھا لیکن پھر میں نے ٹیگور کی تخلیقات کا مطالعہ کیا اور اب انیس سو اکسٹھ میں میں ٹیگور سے گاندھی سے کہیں زیادہ متاثر ہوں۔
گاندھی اور ٹیگور دونوں نے اپنے اختلافات کے باوجود اپنی شخصیت اور فلسفہ حیات سے نہ صرف ہندوستان بلکہ ساری دنیا کے لوگوں کو سماجی اور سیاسی طور نئے انداز سے سوچنے کی دعوت دی۔ گاندھی نے سماجی کارکن اور سیاسی رہنما کی حیثیت سے اور ٹیگور نے شاعر اور دانشور کے حوالے سے۔
۔
REFERENCES
MOHANDAS GANDHI: AUTOBIOGRAPHY THE STORY OF MY EXPERIMENTS WITH TRUTH BOSTON PRESS BOSTON USA 1993
DUMA KRISHNA AND ANDREW ROBINSON: RABINDRANATH TAGORE THE MYRIAD MINDED MAN BLOOMSBURRY PUBLISHING LONDON UK 1995
- فلسطین کے قومی شاعر: محمود درویش - 03/12/2024
- حماس کے سپہ سالار یحییٰ سنوار - 29/11/2024
- فلسطین اور اسرائیل کی جنگ کی دردناک کہانی۔ دوسری قسط - 26/11/2024
Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).