ڈاکٹر ضیا الحسن: خوشبو جیسے لوگ ملے افسانے میں


ifham ul hassan

اورینٹل کالج میں ایم۔ اے اُردو کا پہلا روز تھا۔ کلاسز کا آغاز ہوا تو اساتذہ تشریف لاتے اور اپنے ابتدائی لیکچر میں طلبا و طالبات سے ان کا تعارف پوچھتے۔ پہلے روز یونہی دو تین لیکچر بیت گئے پھر ایک استاد تشریف لائے۔

خوبصورت پروقار چہرہ، خندہ پیشانی، جس پر بالوں کی لٹ دورانِ کلام گرے تو بڑھ سلیقے سے اس کو درست کرتے، زلف گھنی جس میں چاندی چمک رہی ہے، ماتھا شکن سے پاک، آنکھوں پہ نظر کا چشمہ لگائے اور ایک چشمہ سامنے شرٹ میں جمائے، سفید دھاروں والی نیلی شرٹ اور آف وائٹ پینٹ میں ملبوس نگاہیں جھکائے قدرے تیز قدم اُٹھاتے اسٹیج کے وسط میں رکھے دیو ہیکل میز سے ٹیک لگا کر کھڑے ہو گئے۔

ایک لمحہ کو توقف کیا اور فرمانے لگے میرا نام ضیا الحسن ہے۔ اور پھر بنا کسی کا تعارف پوچھے علم، کتاب اور روشنی پر گفتگو کرنے لگے۔

کہنے لگے کہ جو شخص مجھ سے تعلق کا خواستگار ہو اسے چاہیے کہ کتاب سے رشتہ استوار کرے کہ یہی وہ ذریعہ ہے جو اس کو میرا مقرب بنا سکتا ہے۔ کتاب سے جس کا جتنا مضبوط تعلق ہو گا اسی قدر مجھ سے تعلق ہو گا۔ اس کے علاوہ باقی سب لوگ حاشیے پر بھی نہیں رہیں گے۔ اس کے بعد کئی اور باتیں ہوئیں۔

جب کلاس ختم ہوئی تو مجھ سمیت تمام لوگ انگشت بدنداں تھے کہ یا الٰہی یہ کیا ماجرا ہے کہ یہ استاد تو سب سے مختلف اور الگ تھے۔ پوری کلاس میں ان کے کہے الفاظ گونج رہے تھے اور ہم تھے کہ ایک ایسے سحر میں مبتلا تھے کہ گویا ساکت ہیں۔

پھر یوں ہوا کہ ہر دوسرے روز جب کبھی ڈاکٹر ضیا الحسن کا لیکچر ہوتا تو سبھی لوگ وقت سے پیشتر کمرہ جماعت میں آن موجود ہوتے۔ ادب، شاعری، فکشن، تنقید پر کھل کر بات ہوتی۔ کلاسیکی شاعری کا پرچہ ہمیں پڑھاتے تو یوں محسوس ہوتا کہ ولی سے اقبال تک یکساں کمال گفتگو فرمائے۔ دفتر میں راشد، جیلانی کامران اور نیئر مسعود کے فن پر بے تکان گفتگو ہوتی۔ علم کے موتی بہاتے، چُننے والے چُنتے۔ کئی مرتبہ مجھے ان پر اقبالؒ کا گماں گزرا یا شاید ہر بڑا آدمی ایک سا ہی ہوتا ہے۔ اقبال کی کوٹھی میں ہر وقت ملاقاتیں کا تانتا بندھا رہتا تھا اور ادب، سیاست، شاعری، فلسفہ، مذہب سمیت دنیا جہان کے موضوعات پر وہ بے تکان بولتے۔ ساتھ ہی حقہ کے کش لگاتے رہتے۔

ضیا صاحب کا دفتر بھی کچھ اسی نوع کا تھا کہ جب بھی گئے کرسی تلاش کی اور اس پر براجمان ہو گئے۔ کوئی نیا شخص ہو تو اس سے خود پوچھتے کہ کسی غرض سے آنا ہوا؟ کچھ لوگ دوسری جامعات سے آتے کہ فلاں موضوع پر کام کر رہا ہوں اس پر کتب یا رہنمائی درکار ہے۔ یہ بندہ درویش اس طرح رہنمائی فرماتے گویا ان کے نگرانِ مقالہ ہیں۔ اس طرح جو شخص جس مقصد کے لیے حاضر ہوا اپنی مراد پا کر واپس لوٹا۔ کئی مرتبہ دیگر جامعات سے ان کے استاد دوست اور پروفیسر، ادیب، شعرا تشریف لاتے تو ان کی گفت گو کا محور شعر و ادب ہی ہوتا۔ اپنے شاگردوں کا مبالغہ آمیز تعارف کرواتے جس کا مقصد شاگردوں کی حوصلہ افزائی ہوتا۔

مجھے یاد ہے کہ اورینٹل کالج میں داخلہ کے بعد جن لوگوں کا اول اول ساتھ رہا ان میں برادرم مشتاق احمد اور پھر خاور شہزاد تھے۔ مشتاق بھائی نے ضیا صاحب کے دفتر کی راہ دکھلائی اور خاور شہزاد اس راستے میں میرا رفیق رہا۔

ایم۔ اے کا زمانہ تو محض دفتر میں بیٹھے چائے پیتے اور سر کی گفت گو سنتے ہی بیت گیا۔ ایسے میں کبھی یہ خیال آیا کہ کوئی سوال کرنا چاہیے یا گفت گو میں شریک ہو جاؤں مگر اپنی کم علمی کے سبب ایسا خیال ہمیشہ ترک کرتے ہی بنی۔

ایک خواہش تھی کہ ایم۔ اے میں تھیسز آ جائے تو ضیا صاحب سے کروں یوں ان کی مزید قربت، وقت اور توجہ میسر ہو سکے گی۔ لیکن شائبہ خوبی تقدیر کہ تھیسز نہ آیا۔

البتہ ضیا صاحب کا پرچہ مزید توجہ سے پڑھنے لگا۔

جب انسان اول اول کسی کے سحر مبتلا ہوتا ہے اور اس سے محبت کرنے لگتا ہے تو پھر اس کی قربت کے بہانے تلاش کرتا ہے۔ اس کی نگاہوں میں رہنا چاہتا ہے اور اس کو نگاہوں سے اوجھل پا کر مضطرب ہو جاتا ہے۔ میں نے بھی یہی کیا۔

میں روزانہ کسی بہانے سر کے دفتر کے کئی کئی چکر کاٹنے لگا لیکن انہیں کام میں مشغول دیکھ کر یا سینئر دوستوں سے گفت گو میں منہمک دیکھ کر بھی کبھی تھوڑی دیر کو بیٹھ جاتا اور سر کی آواز اور صورت دیکھتا رہتا۔

ایک مرتبہ سرما کے موسم میں سر کچھ بیمار ہو گئے اور جب دو تین روز بعد اورینٹل آئے تو وہ ایک روشن دن تھا، دھوپ نکلی تھی اور آسمان بارش کے بعد صاف شفاف تھا۔ سر نے لان میں ہی کرسی منگوائی اور کینٹین سے سب کے لیے چائے بول کر کلاس پڑھنے لگے۔

اس روز غالب پر بات ہو رہی تھی۔ کہنے لگا غالب تو مصرعوں کے مصرعے مقدر Unsaid چھوڑ جاتا ہے۔
یہ شعر دیکھیے۔
مجھ تک کب ان کی بزم میں آتا تھا دورِ جام
ساقی نے کچھ ملا نہ دیا ہو شراب میں
پھر ایک اور شعر سنایا:
ہاں اہلِ طلب کون سنے طعنۂ نایافت
دیکھا کہ وہ ملتا نہیں اپنے ہی کو کھو آئے
ایک کے بعد ایک شعر اسی دھن میں سناتے۔

پھر غالب کی پوری غزل سنائی ’بازیچہ اطفال ہے دنیا مرے آگے‘ کیسے وہ ایک تخلیقی سطح سے انسانی سطح پر آتا ہے۔ تسلسل ہے اشعار میں۔ جیسے بلندی سے نشیب کی طرف بہہ رہے ہیں اشعار اور انسانی عظمت سے بے بسی و لاچارگی تک کا حال ہے۔

میں نے بہت لوگوں کو شعر پڑھتے سنا اور دیکھا ہے مگر جس قدر عمدگی سے ضیا صاحب شعر پڑھتے ہیں ویسا کسی کو کمال حاصل نہیں ہوا۔ وہ شعر پڑھتے جاتے اور معنی و مفہوم اور تاثیر سامنے والے کے دل پر اُترتی جاتی ہے۔

ہم یونہی بُت بنے سنتے رہے حتٰی کہ لیکچر کا وقت مکمل ہوا۔ اس روز پھر دوسرا کوئی لیکچر میں نے نہیں لیا۔ جی چاہا کہ ہم ساتھ بیٹھے رہیں، وہ بولتے ہیں ہم سنتے رہیں۔

ایسا کئی مرتبہ ہوا اور ہر بار میں نے پھر کوئی دوسرا لیکچر نہیں لیا۔
ان کے سنائے شعر دل و دماغ کے ساتھ ریشے ریشے میں عشق کی طرح سما جاتے ہیں۔
حنائے پائے خزاں ہے بہار اگر ہے یہی
دوام کلفتِ خاطر ہے عیش دنیا کا
غالب
اور
اقبال کا شعر۔
اس اندیشے سے ضبطِ آہ میں کرتا رہوں کب تک
کہ مغ زادے نہ لے جائیں تری قسمت کی چنگاری
ایسے سینکڑوں اشعار ہیں جو اب تک میرے ذہن میں گونج رہے ہیں۔

وہ ادب پڑھتے پڑھاتے ہی نہیں، ادب کو بسر کرتے ہیں۔ شاعری کرتے ہی نہیں اس کو جیتے ہیں۔ وہ مبلغ نہیں ہیں مگر کایا کلپ کر دیتے ہیں۔ جو کام انہیں محبوب ہے وہی کرتے ہیں اور ہمیں اسی کام کے عشق میں مبتلا کیے جاتے ہیں۔ وہ خود پڑھتے ہیں، انسانی وجود کی دریافت میں کتاب کو بنیادی مآخذ قرار دیتے ہیں۔ اسی پہ سننے والے کا ایمان بھی راسخ ہو جاتا ہے۔

یہ کمال تو کسی کسی کو ہی عطا ہوتا ہے۔

فیض پر گفتگو ہوتی تو اکثر فرماتے کہ فیض بنیادی طور پر رومانوی شاعر تھے۔ لیکن ترقی پسند نظریات کے سبب ان کے ہاں ایک خاص مقصدیت بھی ملتی ہے۔ وہ کسبی ہے، اس کا تخلیقی وفور رومانوی شاعری جیسا نہیں ہوسکا۔ فطری شعر کی بات ہی کچھ الگ ہے۔ اس ضمن میں فیض کی نظم ’رقیب سے‘ بطور حوالہ سناتے۔

کبھی اقبال پر بات ہوتی تو فرماتے کہ اقبال ایک GIANT ہے۔ اقبال کے فلسفہ عشق و خرد پر کیا شاندار گفت گو فرماتے۔ مسجدِ قرطبہ، ساقی نامہ اور کئی نظمیں سناتے اور سمجھاتے۔

ایک مرتبہ فرمانے لگے کہ اقبال کی پوری بانگِ درا سے بال جبریل کی پہلی غزل ’میری نوائے شوق سے شور حریمِ ذات میں‘ بلند اور اعلیٰ ہے۔ شکوہ جوابِ شکوہ مسدس حالی سے کئی گنا بہتر ہے۔ اقبال اپنے عہد سے واقف تھے، وہ بدلتے ہوئے حالات اور دنیا سے غافل نہ تھے۔ کئی زبانوں اور علوم پر دسترس رکھتے تھے سو ان کے ہاں ایک خطیبانہ لہجہ ہے جو ان کے اعتماد کی دلیل ہے۔ یہ بات ہمیں کم ہی شعرا کے ہاں نظر آتی ہے۔

میر، غالب، اقبال، یگانہ، راشد پر بے تکان گفت گو فرماتے۔ پریم چند، منٹو، انتظار حُسین، نیئر مسعود اور اسد محمد خان کے افسانوں پر بات کرتے۔

کبھی فرماتے کہ اُردو فکشن کا کُل اثاثہ بیس ناولوں سے زیادہ کا نہیں۔ یہی ناول ہیں بس۔ موجودہ ناولوں میں کئی چاند تھے سرِ آسماں، جندر اور غلام باغ پر تبصرہ ہوتا۔ ایسا تبصرہ کہ سننے والے مبہوت رہ جاتے۔ ایسے ہی کتنے موضوعات تھے جو ہم ان سے سنتے اور سر دھنتے رہتے۔ چائے کا دور چلتا رہتا۔ لوگ آتے جاتے رہتے۔ نشستیں پُر رہتیں۔

ایم۔ اے ہو گیا تو پھر ایم۔ فل میں داخلہ فقط اس لیے لیا کہ ان کی زیرِ نگرانی مقالہ لکھوں گا۔ اس میں بھی پیشِ نظر فقط یہی تھا کہ اسی بہانے ان کی قربت اور معیت میں کچھ وقت اور گزار سکوں گا۔ اب کہ میں ان کے دفتر جاتا تو سوال بھی کرتا، کبھی کوئی شعر بھی سناتا اور کبھی بس حال احوال دریافت کرنے تک ہی محدود رہتا۔ کبھی تو مجھے سمجھ ہی نہ آتی کہ کیا بات کروں۔ جہاں بھر کے موضوعات میرے ذہن میں ہوتے مگر ’لفظ سوجھا تو معنی نے بغاوت کر دی‘ کے مصداق میں لفظ کے تار و پود بُنتا رہتا، تالیفِ نسخہ ہائے وفا کرتا رہتا کہ موضوعِ سخن ہی بدل جاتا۔

ایسا کئی مرتبہ ہوا۔

پھر تھیسز کا مرحلہ آیا تو میں نے ضد کی کہ آپ ہی سے کرنا ہے۔ ان کے پاس پہلے سے لوگ موجود تھے مگر میرے بار بار کے اصرار پر انہوں نے میرا تھیسز بھی اپنے پاس رکھ لیا۔

یوں میں نے انہیں چند موضوعات بتائے اور پھر محبوب خزاں پر کام کرنا طے پایا۔ ابواب بندی کی اور انہیں دکھایا تو فقط یک لفظی تغیر کیا کہ غزل نگاری کی جگہ غزل گوئی لکھیں۔

پورے تھیسز کے دوران جب بھی ان سے کوئی مشورہ درکار ہوا ہو خندہ پیشانی سے اس مشکل کو یوں حل کر دیتے کہ جیسے وہ کوئی مشکل امر تھا ہی نہیں۔

تھیسز کے دوران مجھے ان کی شخصیت کے کئی ایسے پہلو دیکھنے کو ملے جو اب تک میری نگاہ سے پوشیدہ تھے۔ ایک استاد کی سب سے بڑی خوبی یہ ہوتی ہے کہ وہ اپنے شاگردوں کو فکری اور تنقیدی آزادی بخشے بالخصوص اگر وہ ایسے کسی مرحلے پر ہو کہ تحقیق و تنقید پر مبنی کسی موضوع پر کام کر رہا ہو۔ یہ خوبی میں نے ضیا صاحب کے علاوہ کم ہی لوگوں میں دیکھی ہے کہ وہ موضوع کے انتخاب سے لے کر ابواب بندی اور مقالہ کی تکمیل تک مقالہ نگار کی فطری طبع اور میلان کو پیشِ نظر رکھتے ہیں۔ ضروری ہو تو ہی حسبِ ضرورت اور بنیادی سی اصلاح کرتے۔ روک ٹوک ان کا شیوہ ہی نہیں۔ وہ آزاد فضاؤں کے متوالے ہیں اور انہیں فضاؤں میں سبھی کو اُڑتے دیکھنا چاہتے ہیں۔

میں جانتا ہوں کہ محبت میں معجزے ہوتے ہیں۔ میں نے اعجازِ محبت دیکھا اور بارہا دیکھا۔

کبھی اپنے محبوب استاد کو اپنے شہر اٹک کے دور افتادہ کالج میں اپنے روبرو تو کبھی کسی ایسی جگہ جہاں اتفاق سے گیا اور سامنے سر کو دیکھا۔ ہر بار خوشگوار حیرت ہوئی اور پھر بے پناہ اپنائیت و محبت سے ملے۔

ایک مرتبہ میں دو روز کے لیے لاہور گیا۔ شدید خواہش تھی کہ قدم بوسی کو حاضر ہو سکوں مگر سر ٹریفک کے مسائل کے باعث اورینٹل نہیں آ سکے۔

اگلے روز میں دکھی دل لیے واپس اٹک آ گیا۔ دو دن گزرے تو استادِ محترم کامرس کالج اٹک میں میرے روبرو کھڑے تھے۔ دل بھر آیا۔ بہت تپاک اور اپنائیت سے سینے سے لگایا اور تھپکی دی۔

میں نے انہیں کبھی کسی خواب میں دیکھا تو حقیقت معلوم ہوا، کبھی حقیقت میں ایسے دیکھا کہ اس پر کسی خوبصورت خواب کا گمان ہونے لگا۔

کیا کیا کچھ ہے جو بیان کیا جائے۔
زمان و مکاں اور حجاب و حضور کا فلسفہ سب بے معنی ہوا۔

ضیا صاحب اورینٹل کالج کے عاشق ہیں اور ہمیں اس عمارت کے در و بام سے عشق اس دوست کے توسط سے ہوا۔ مکان کو تو مکیں سے شرف ہے۔

مجھے لگتا ہے کہ اب اورینٹل کالج کی سُرخی ماند پڑے گی۔ پڑنی بھی چاہیے کہ عاشق کے بعد سچے محبوب کا یہی حال ہوا کرتا ہے۔

یہ تحریر مجھ پر قرض بھی تھی اور فرض بھی سو ایک مفصل تحریر پیشِ خدمت ہے۔ رات کے اس پہر دور کہیں اقبالؒ کے اشعار کی بازگشت سنائی دے رہی ہے۔
سکھلائی فرشتوں کو آدم کی تڑپ اس نے
آدم کو سکھاتا ہے آدابِ خداوندی


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments