1 :اپنے پرائے کی جستجو: نیپال کی سیر


سرحدوں کی اپنی سائنس ہوتی ہے۔ سائنس ہوتی ہے یا پھر ان دیکھے خدا کے نمائندے ان کو ہر کچھ سال بعد گڈمڈ کر کے اپنے بنائے ہوئے انسانوں کو بے چین رکھتے ہیں۔ مغرب والوں نے ریاست ہائے متحدہ امریکہ اور یورپ دونوں میں سرحدوں کے روایتی تصور کو قریباً مٹا ہی دیا گیا ہے۔ ہاں مشرق پر جبر اور سرحدوں کے ردو بدل کی پالیسی پر مغرب اور ہمارے ہاں کے سامراجی خدا شاید اب بھی ایک صفحے پر ہیں۔ مغرب میں رہنے اور اس کو پرکھنے کے بعد ایک زبردست طلب تھی کہ اپنے خطوں کو پرکھا جائے۔ اپنے مریضوں کے کانفلکٹ پراسیس کرنے سے پہلے اپنے سوالوں کے جواب ڈھونڈے جائیں۔ کیوں تمام تر خوشحالی کے باوجود مغرب میں بسنے کا میری خوشی سے تعلق نہ تھا؟ وہ اس 796096 مربعہ کلومیٹر کی چاہ تھی یا پھر مذہبی ریاست میں رہنے کے تصور کا تعلق میری بے چینی کم کرنے سے تھا۔ یا یہ دونوں وجوہات تھیں؟ یا دونوں نہیں تھیں؟ سوالوں کے جواب کا اک حصہ یہاں رہنے اور کام کرنے پہ ملنا تھا۔ اک بڑے حصے کا جواب واہگہ بارڈر کے اس پار انتظار کر رہا تھا مگر وہاں تک پہنچنے کو ناممکن کر دیا گیا تھا۔ اسی سوال کی کھوج بنگلہ دیش لے گئی تھی اور تسلی بخش جوابات ملے بھی تھے۔ ایران اور عراق جانا بھی اسی جواب کو ڈھونڈھنے کی کڑی تھا۔ کہاں زبان بدلتی ہے، کہاں مکان بدلتے ہیں اور کہاں سے تہذیب کروٹ لیتی ہے؟ وہ انسان کی بنائی سرحدوں کے حساب سے ہوتا تو ہم ساگ اور مکئی کی روٹی کے بجائے دنبہ کڑاہی کے شوقین ہوتے۔ ہم تو شاید اس پورے خطے کو برتنے کے داعی ہیں۔ دل ناداں کو جادو بھرا بنگال بھی لندن اور پیرس سے زیادہ اپنا لگا تھا اور تہذیب سے جڑے ایران میں بھی امریکہ سے زیادہ لطف پایا تھا۔ یہی کھوج پھر نیپال لے آئی تھی۔

نیپال سے تعارف سقوط ڈھاکہ کی کہانیوں سے ہوا تھا، جب کئی ہم وطن یک دم خارجی ہو گئے تھے اور ان کو جادو بھرے بنگال سے بھاگنا پڑا تھا۔ بہت سوں نے یہ کام نیپال کے راستے کیا اور کئی ماہ پہاڑوں سے گھرے اس ملک میں گزار کر بھارت سے ہوتے ہوئے اسلام کے اصل گہوارے تک پہنچے جو اب مغربی پاکستان نہیں بلکہ صرف پاکستان تھا۔ بنگال، نیپال، چین اور ہندوستان وغیرہ ایک کونے میں عجیب طرح سے ملتے ہیں ؛ جیسے خاندان کی کسی شادی پہ روٹھے عزیز۔ جغرافیہ، تاریخ جتنا ہی عجیب ہوتا ہے۔ اک پرانا تعارف نیپال سے اپنے بچپن سے تھا کہ دنیا کی دوسری بڑی چوٹی تو قدرت نے وطن عزیز کے حصے میں ڈالی ہے مگر پہلی پر قبضہ نیپال کا ہے۔ سو کچھ تاریخ، کچھ جغرافیے، کچھ کلچر اور کچھ اجتماعی لاشعور کی کڑیاں سمجھنے، اک کانفرنس کے بہانے گریٹس (مفت) ویزہ لے کر نیپال پہنچ گئے۔

کٹھمنڈو یعنی لکڑی کا شہر۔ ہوائی اڈے کے جغرافیے کے متعلق کچھ اچھا نہ سن رکھا تھا اور ماضی قریب میں ایک ہوائی جہاز کے ہائی جیک کی تاریخ بھی تھی۔ کچھ برس پہلے وطن عزیز کے اک حساس بلکہ انتہائی حساس اور زود رنج ادارے کہ ایک کرنل صاحب بھی یہاں سے غائب ہو کر ملے تھے یا مل کر غائب ہوئے تھے۔ اعداد و شمار سازگار نہ تھے مگر سوالوں کے جواب بھی ضروری تھے۔ رات کے بارہ بجے کٹھمنڈو ہوائی اڈے کے اوپر تنے بادل ہمارے بادلوں سے چنداں مختلف معلوم نہ ہوئے تھے۔ بخارات کے ان ڈھیروں کو نیشنلزم بھاتا اور نہ مذہبی بیانیہ۔ ان سے برستی بارش بھی مذہب، قومیت اور سیاست کے جھمیلوں سے آزاد ہوتی ہے۔ سو پہلی نظر میں وہی احساس ہوا جو یونان، ایران اور بنگال جاکر ہوا تھا۔ مشرق والی وائب جس پر ہمارا شعور تو بری طرح ٹیون ہے ہی مگر لاشعور کے نہاں گوشے بھی اس کو پہچان کر قبولیت کی سند دیتے ہیں۔

پہلے روز کٹھمنڈو کے مضافات کھنگالنے کا ارادہ کیا۔ بختاپور اور نگر کوٹ کی راستے میں پہلے ہوائی اڈہ آیا۔ یہ اک منفرد ہوائی اڈہ ہے جو پہاڑوں اور آبادی میں پیوست محسوس ہوتا ہے۔ گھروں اور فلیٹوں سے بالشت بھر کے فاصلے پر جہازوں کی قطار موجود تھی۔ مقدس باگمتی دریا کٹھمنڈو اور آس پاس کے علاقوں کو سیراب کرتا ہے۔ عبادت گاہوں کا دریاؤں اور پانیوں سے رشتہ بہت پرانا ہے۔ شاید اتنا پرانا جب پانی کو ہی خدا سمجھا جاتا تھا۔ پانی ضرورت بھی ہے اور اس میں گلیمر بھی ہے۔ پیپسی کولا نام کے علاقے کے بعد سرحدی پل پار کر کے بختاپور میں انٹری دی۔ بازار خاص کر جنرل سٹور بالکل ہمارے ہاں کے جیسے تھے۔ زبان کا تو کوئی مسئلہ ہی نہ تھا۔ ہر کوئی ہندی جانتا تھا۔ لوکل زبان بھی دیوناگری رسم الخط میں ہندی کے قریب ہے۔ لباس بھی کچھ خواتین کا سکرٹ نما اور بیشتر کا شلوار قمیض اور دوپٹے پر مشتمل تھا۔ شلوار قمیض والیوں کے خد و خال ہندوستانی اور بنگالیوں سے مشابہہ اور سکرٹ والیوں کے چہرے پر چنگیز خان کے جینیاتی نقشے کی چھاپ نمایاں لگی۔ پھلوں کے ٹھیلے بھی بالکل ہمارے ہاں کے جیسے تھے۔ گھروں کی ہیت بھی ہمارے بڑے شہروں کے اندرون کے گھروں جیسی تھی۔ سڑکیں اور گلیاں بھی ہر قدم پر باور کراتیں کہ ہم مشرق میں ہیں اور ایک ہی رخ کی اسیری ہمارا خواب ہے۔ سکوٹر اور موٹر سائیکل مرد و زن کی عام سواری ہے۔ سوار اور پیدل دونوں کے چہروں پر زندگی کی رمق اپنے ہاں کے لوگوں سے کچھ زیادہ ہی لگی۔

بختاپور کو واپسی کے لئے چھوڑ کر پہاڑوں کی راہ لی۔ مری نما شہر نگر کوٹ منزل ٹھہرا۔ مطلع صاف رہا تو دنیا کی بلند ترین چوٹی بھی دکھنے کا امکان تھا۔ پہاڑ، جنگل، مکئی کے کھیت اور ان کے بیچ بستا اور مطمئن نظر آتا عام آدمی، یہ سب نگر کوٹ کے سفر میں ہمارے ساتھ تھے۔ مخصوص پہاڑی راستوں سے ہوتے ہم نگر کوٹ ویو پوائنٹ پر آئے۔ جنگل بھی ساتھ، دھوپ بھی، بادل بھی اور پہلے دیکھے ہوئے ہونے کا احساس بھی۔ چوٹی پر ایک ٹاور نصب جس کی ہولناک لوہے کی سیڑھیاں چڑھ کر اک طرف نگر کوٹ شہر کا نظارہ تو دوسری طرف ہمالیاز تھیں۔ بادلوں کے بیچ اک برف پوش چوٹی کو ماؤنٹ ایورسٹ بتلایا گیا اور ہم مانا کیے۔ شہر میں سبزہ، اوپر تلے بنے گھر اور ان پر کبھی چنگھاڑتا تو کبھی دھیمے سے ہاتھ رکھتا سورج دیوتا۔ یوں لگتا تھا کہ کسی بالی ووڈ کی فلم کا سماں ہے۔ شہری بابو کو بس کوئی الہڑ مٹیار ملنا باقی تھی جس کے ساتھ ون ڈے سٹرینڈ کے بعد اس نے کبھی نہ لوٹنے کے لئے واپس چلے جانا تھا۔ بختاپور تک واپسی مخالف راستے سے ہوئی۔ پہلے دیکھے ہونے اور برتنے کا احساس اک ڈھابے سے چائے پی کر قوی ہوا۔ ایسا ذائقہ تو بنگال اور ایران کی چائے کا بھی نہیں ہوتا۔ کتنی گردان کریں گے اس مشترک ہونے کے احساس کی۔ اس احساس میں قدرے کمی فوجی چھاؤنی نما علاقہ دیکھ کر ہوئی جو ہمارے ہاں کی چھاؤنیوں سے مختلف یعنی کمتر تھا۔

بختاپور: یہ ایک بارہ سو سال پرانا شہر ہے۔ یہ شہر کبھی چاولوں کی سرزمین تو کبھی بھگوانوں کی سرزمین ٹھہرتا رہا ہے۔ یہ دو سو سال سرزمین نیپال کا دارالحکومت رہا ہے۔ اس کے بعد دو سو سال نیپال بغیر دارالحکومت کے چلتا رہا یہاں تک کہ پرتھوی نارائن نے اسے 1769 میں فتح کر کے کٹھمنڈو کو دارالحکومت بنایا۔ 2005 تک یہاں بادشاہت تھی۔ انگریز نے کولونیل دور میں ہندوستانیوں کے ساتھ مل کر جدید اسلحہ بھی استعمال کیا پر انھیں فتح نہ کر پائے۔ اس بہادری کی یاد میں آج بھی انڈین اور برٹش آرمی میں نیپالیوں کا کوٹہ موجود ہے۔ مقامی آدمی نے بتایا کہ حکومت سپاہی بھیجتی نہیں بیچتی ہے۔ ہر طرف کرپشن کا دور دورہ ہے۔ یہی تو ہے وہ اپنا پن۔

بختاپور کا دہی اور خاص طرح کی مصوری مشہور ہے۔ ہاں سب سے زیادہ مشہور 2015 کا زلزلہ ہے۔ بختاپور قریباً 9 سال قبل ہوئی زمیں کی ہلچل سہ نہ پایا اور بیشتر حصہ خاک میں مل گیا۔ فنا سے درس بقا لیا۔ پھر بنا۔ بھگوان کے گھر بھی پھر سے بنے اور انسان کے گھر بھی۔ شیو جی کے مندر کی سیڑھیاں چڑھتے ہوئے سوچا کیے کہ زلزلے میں بختاپور کے واسیوں کی امید ہوں گے شیو جی مگر وہ تو خود متاثرین میں شامل ہو گئے تھے۔ پانچ چھتوں والا مندر لکشمی دیوی کا جس میں صرف پجاری جی جا سکتے یا ان کے اہل خانہ، اس کے باہر ہاتھوں میں ہاتھ ڈالے جوڑے تصاویر کھنچوانے میں مشغول تھے۔ اونچی عمارت جس کی چھت پہ چھت اور پجاری جی نالاں کہ نیپال میں لوگ مندروں کی عزت نہیں کرتے اور جوتوں سمیت سیڑھیاں چڑھ جاتے ہیں۔ ہر مندر کا اپنا بھگوان اور اپنی کہانی ہے۔ بختاپور سکوائر میں کئی فلموں کے گانے فلمائے گئے ہیں۔ ہماری موجودگی میں بھی کسی لوکل فلم کے گانے کی شوٹنگ چل رہی تھی۔ دو مندر آمنے سامنے سکوائر میں ؛ زلزلے کے پہلے دس سیکنڈ میں یہی دونوں مندر زمیں بوس ہوئے تھے۔ نطشے کے خدا کے مرنے کی اطلاع کتنی قبل از وقت تھی۔

بختاپور شہر کی وائب قدرے جہلم ٹائپ لگی۔ عورتیں گھروں کے باہر بیٹھی سویٹر بن رہ تھیں۔ نئی نسل بچے کم پیدا کرنے پہ تیار ہے مگر ابھی بھی لڑکا پیدا کرنا ضروری ہے۔ پھر وہی اپنا پن۔ ابھی تک کٹھمنڈو اور بختاپور میں کوئی پوش علاقہ نہ دکھا تھا۔ نگر کوٹ کے پاس چھاؤنی کا علاقہ بھی سادہ تھا۔ ڈرائیور نے بتایا کہ یہاں ہر شے مانگے کی ہے۔ کوئی انڈسٹری نہیں ہے۔ رات کٹھمنڈو کے علاقے تھیمل جاتے ہوئے دو چیزیں نمایاں تھیں۔ بے تحاشا ٹریفک اور ایچ بی ایل۔ ہمارا حبیب بینک نہیں، ہمالیہ بینک۔ تھیمل بازار طویل اور رش سے بھرپور تھا۔ اک دکاندار جانوروں کی تصاویر والی شال بیچنے سے انکاری ہو گیا کہ آپ پاکستان سے ہیں اور مسلم ہیں ؛اس چادر میں نماز نہیں ہوگی۔ واہ رہے نالج اور اس کا استعمال۔ پہاڑوں پہ بیشتر دکاندار، خواتین ہیں۔ چائے کا ڈھابہ ہو، کپڑوں کی دکان یا گروسری سٹور، ہر جگہ خواتین انتظام سنبھالے ہوئے ہیں۔

اگلی صبح کانفرنس کے ہوٹل یاک اور ییٹی پہنچے۔ یہ کٹھمنڈو کے دربار مرگ کا علاقہ تھا۔ صد شکر کہ کٹھمنڈو میں شاپنگ مال اور برینڈ کی دکانیں نظر آئیں۔ یاک اور ییٹی ہوٹل ہمارے سرینا سے بھی زیادہ ایلیٹ لگا۔ ہمارے مقالے میں ابھی وقت تھا سو خوابوں کے باغ کے راہ لی۔ گارڈن آف ڈریمز کے داخلی دروازے کے اندرونی حصے پہ عمر خیام کی رباعی انگریزی ترجمے کے ساتھ کندہ تھی۔ مشرق کے ایک حصے کا خیال مشرق ہی کے دوسرے حصے تک پہنچانے کے لئے مغرب کی زبان استعمال ہوئی تھی۔ ایشیا کے لوگ اپنے لوگوں سے ہی رابطے کے لئے کوئی زبان نہ بنا پائے یا شاید کچھ بنائی بھی مگر یہ پزل آج تک مکمل نہ ہو پایا ہے۔ بنگلہ دیش، پاکستان، نیپال، ہندوستان میں اردو/ ہندی سب ہی جانتے ہیں۔ ایران میں بھی فارسی والے کچھ سمجھ پاتے ہماری اور کچھ ہم ان کی بھی۔ پھر میری وہ پشتون مریضائیں بھی جن کو اردو سمجھ نہیں آتی اور ہم کسی تیسرے کے محتاج ہوتے ہیں۔ نیپال میں اب تک کوئی ایک بھی ایسا نہ ملا تھا جس سے کمیونیکیشن گیپ ہو۔ یہ لوگ سب محاورے بھی سمجھتے ہیں۔ کون اپنا ہے، کون پرایا ہے۔ دھرتی کا کون سا حصہ کسی کی ماں ہے تو کس کی صرف خالہ ہے۔ اور کسی کی تو ساس ہی بن جاتا ہے۔ عربستان کسی حد تک ہمارے لوگوں کے لئے ساس نما سرزمین رہی ہے۔ خوابوں کے باغ میں خواب ہی خواب میں ہم کہاں پہنچ گئے۔

1920 میں بنا یہ پارک راجہ جی کی تفریح بھی تھا اور مذہبی بے چینی کم کرنے کا راستہ بھی۔ یونانی خداؤں سے لے کر ہندو دیویوں دیوتاؤں تک یہاں ایستادہ تھے۔ پانچ چھتوں والے مندر پر کل کی گئی پجاری جی کے ساتھ گفتگو یاد آ گئی۔ کل جب بے انتہا کھڑی ڈھلوان والی سیڑھیاں چڑھ کر ہم لکشمی کے مندر پہنچے تو پجاری جی نے پہلے دھرتی ماں کا نام پوچھا اور پھر ہمارا نام دریافت کیا۔ ہم نے پاسپورٹ پر لکھا ملک اور نام بتلا دیا۔ کچھ منٹوں بعد پجاری جی نے ہم سے ان دیکھے خدا تک پہنچنے کا راستہ پوچھا یعنی دھرم کیا ہے ہمارا؟ ہم نے کہا ہم مسیحا ہیں اور وہ بھی نفسیاتی الجھنوں کے۔ یہی ہمارا کرم بھی ہے اور دھرم بھی ہے۔ لکشمی جی بھی اسی راستے سے ہم پر مہربان ہوتی ہیں۔ ہاں ہم خدا تک پہنچنے والے ہر راستے کا احترام کرتے ہیں۔ پجاری جی ہماری بات سے خوش ہوئے اور کہا کہ بالکل جس طرح ہم ایک انسان ہوتے ہوئے کسی کے باپ ہوتے، کسی کے بھائی اور کسی کے بیٹے ؛ اسی طرح خدا ایک ہی ہے اور ہر کوئی اسے اپنے زاویے سے دیکھتا ہے۔ مذہبی پیشوا سے ایسی بات کی توقع نہ تھی سو جی خوش ہوا۔

خوابوں کے باغ میں دو مالنیں کجرہ نہیں کوک رہی تھیں بلکہ گوڈی کر رہی تھیں۔ عام آدمی دراصل خواص کے خوابوں کا ایندھن ہوتا ہے۔ شالامار باغ کو بہتر کر دیں تو شاید اس کا تعلق بھی رومانوی خوابوں سے بن پائے۔ بارہ دریاں، راہداریاں، تالاب اور بیش بہا پودے اس باغ کو واقعی جنت کی شبیہ بنائے ہوئے تھے۔ شیو جی، گنیش جی، لکشمی جی سب کے بت ایستادہ کہ باغ میں آنے والوں کو حقیقی دنیا میں کچھ ملے نہ ملے خواب ضرور ان کے امیر ہو پائیں۔ کچھ خوابوں کا ایندھن جوڑ کر ہم نے بھی دوبارہ اصل خوابوں کی آماج گاہ یعنی یاک اور ییٹی کی راہ لی۔

دربار سکوائر میں ہارڈ راک کیفے میں رات کا کھانا کھایا۔ کتنے معاملات میں عام آدمی بھی ویسا اور خاص بھی ویسا ہی۔ وہی شیشہ اور سگریٹوں کے دھوئیں اڑاتی یوتھ جو ہمارے ملک میں بھی موجود ہے۔ ہر برانڈ کی دکان اس سڑک پر موجود تھی۔ دو دن سے گلہ تھا کہ عام خواتین تو شلوار سوٹ میں ملبوس دکھیں تو یہ مغربی ملبوسات کی دکانوں کا کیا مصرف ہے۔ دربار سکوائر کی مارکیٹوں اور کیفے میں ویسٹرن ماحول ہی ملا۔ سڑک پہ رات دس بجے بھی کسی فلم کی شوٹنگ چل رہی تھی۔

سوئمبھو مندر صبح کا پہلا پڑاؤ تھا۔ سات بجے کٹھمنڈو جاگ رہا تھا اور بیشتر لوگ ورزش میں مشغول تھے۔ سڑک کے کنارے، مندر کے آس پاس بلکہ مندر کے اندر، ہر جگہ کتے اونگھ رہے تھے اور انسان ورزش کر رہے تھے۔ اس مندر کو بندروں کا مندر بھی کہا جاتا۔ اندر باہر بندروں کی بہتات تھی۔ مندر ہندو اور بدھ مذہب مذاہب کا امتزاج تھا۔ کالی ماں بھی اور بدھا کے سٹوپا بھی۔ کتے اور بندر اپنے روزمرہ کے کاموں میں مشغول تھے اور بندی لگا کر ماتھا ٹیکتے انسان کسی اور کو اپنے کاموں میں حصہ دار بنانے کی پلاننگ سے یہاں آئے ہوئے تھے۔ مندر تک کافی سیڑھیاں چڑھ کر پہنچے۔ پاس ایک گروپ چائے پینے اور گپیں لڑانے میں مشغول تھا۔ نیپال میں مذہبی سختی زیادہ نہیں ہے سو بھگوان کافی کچھ برداشت کرلیتے ہیں۔ مندر سے اوپر بھی لکڑی کے گھر ہیں اور عوام بستی ہے۔ مندر سے پہاڑ، وادی اور وادی کے گھروں کا نظارہ بھی خوب تھا۔

کٹھمنڈو دربار سکوائر مذہب سے عبارت تھا۔ عام آدمی بھی مذہب سے عبارت تھا، سیاحت بھی مذہب سے عبارت تھی، ثقافت بھی مذہب سے عبارت تھی اور تجارت بھی مذہب سے عبارت تھی۔ بدھ مت، ہندو دھرم میں گھل کر شاید زیادہ افراد کی بے چینی کم کرنے کا سبب بن رہی تھی۔ پانیوں کی طرح کبوتروں کا بھی عبادت گاہوں سے رشتہ پرانا ہے اور قدرے عجیب بھی ہے۔ ان کو دانا ڈال کر، دیکھے اور ان دیکھے خدا کی خوشنودی لنک کر کے کسی مزدور کا خرچہ چلتا رہتا ہے۔ کالی ماں کی مورتی پورے طمطراق کے ساتھ سکوائر کے درمیان میں ایستادہ تھی۔ آس پاس چھوٹے مندروں کی اندر بھی بھگوان موجود ہیں۔ کوئی ان کو نہلا کر فلاح پا رہا تو کوئی ان کو ہار چڑھا کر بہتر محسوس کر رہا ہے۔ کچھ لوگ مندروں کی سیڑھیوں پر بیٹھ کر بڑے آرام سے اخبار پڑھ رہے تھے۔ بھگوان کے وجود کو پاس پا کر سہارا رہتا شاید اور اس کے ماننے والوں کی تباہیاں مچانے کی خبریں سہنا آسان ہوجاتا ہے۔

سکوائر کے آخر میں مذہبی حوالے سے ہی اک بڑا گھر لکڑی کا جس کے باہر گوشت پوست کا سپاہی حفاظت کے لئے ایستادہ ہے۔ سکوائر کے باہر عام گھر ہیں۔ جن میں عام لوگ بستے ہیں۔ یہ ماحول اندرون راولپنڈی کے ماحول سے کچھ بہتر ہی لگا۔ کئی منزلہ عمارتیں مختلف رنگوں کی دل کو لبھاتی ہیں۔ لکڑی کی بے تحاشا کھڑکیاں شاید یہاں کے فن تعمیر کا ایک اہم جزو ہے۔ عام آدمی کو چلتے پھرتے کام کرتے دیکھنا بھی بھگوانوں کو دیکھنے جتنا دلچسپ ہوتا ہے۔ اور کیوں نہ ہو، جن معاشروں میں خدا کسی بھی صورت میں ریلیونٹ، وہاں یہی عام آدمی تو اس کو ریلیونٹ رکھے ہوئے ہے۔ زبان، لباس، زندگی ڈھونے کا انداز مشرق کے عام آدمی میں کتنا مشترک ہے۔

اگلا پڑاؤ پاٹن تھا۔ اس سے ملتے جلتے نام کا شہر تو شاہراہ قراقرم پر ہمارے ہاں بھی ہے۔ پاٹن کو یہاں للت پور بھی کہتے ہیں۔ یہاں کا دربار سکوائر بھی حکومت اور مذہب سے ہی عبارت ہے۔ سولہویں اور سترہویں صدی میں بسا یہ شہر 1934 اور 2005 کے زلزلے میں خاصا متاثر ہوا اور پھر اقوام متحدہ اور امیر ممالک کے تعاون سے محل و مندر دوبارہ تعمیر کیے گئے کہ خدا اور بادشاہ دونوں کے مشرقی معاشرے میں وسائل محدود ہوتے ہیں۔

نیپال کا پیسہ کمانے کا واحد ذریعہ سیاحت ہے۔ ایک اچھے خاصے رقبے اور آبادی کا ملک صرف سیاحت پہ چل رہا ہے۔ کووڈ کی وبا میں پورا ملک وینٹیلیٹر پہ آ گیا تھا۔ 20 سال سے جمہوریت ہے۔ بہت سی شہادتوں کا خون پی کر آئی مگر اب لوگ اس سے بھی نالاں ہیں۔ انڈیا نے تینوں اطراف سے دبایا ہوا ہے۔ ہر بندے کا یہی شکوہ ہے۔ ان کو کسی اقبال نے نہیں سمجھایا کہ جرم ضعیفی کی سزا مرگ مفاجات ہے۔

بادشاہ کے پرانے محل کے مول چوک پہ قربان گاہ ہے جہاں گنگا جمنا کی مورتیاں نصب ہیں اور گئے دنوں میں 108 جانور قربان کیے جاتے تھے۔ اب جتنی غریب ملک کی گورنمنٹ کی توفیق ہے اتنے ہی ہو پاتے ہیں۔ یہاں حمام بھی تین طرح کے تھے۔ پہلا بے حد قیمتی اور خوبصورت بھگوانوں کی مورتیوں سے مزین؛ صرف ملکہ کے لئے پوجا سے پہلے اشنان کے واسطے۔ باہر شاہی حمام اور لباس تبدیل کرنے کی جگہ باقی محل واسیوں کے لئے اور محل سے کچھ دور سر بازار عام آدمی کے نشان کے لئے انتہائی عام بلکہ عامیانہ جگہ موجود تھی۔

پہلے سندری چوک تھا اور پھر قطار اندر قطار مندر تھے۔ حکومت اور خدا کا رشتہ بھی انسان کے پہلے حکومتی نظام سے لے کر وطن عزیز کو ریاست مدینہ بنانے تک بتلایا جاتا رہا ہے۔ یہاں بھی مشہور تھا کہ بادشاہ خدا سے ہم کلام ہو کر اپنی ہدایات بھیجتا تھا۔ وہ بیشتر اسی پر مبنی ہوتی تھیں کہ بادشاہ کی اطاعت ہی خدا کی اطاعت ہے۔ وقت کی اینٹی بائیوٹک کے ہاتھوں توہمات کے بہت سے بیکٹیریا نہیں مر پاتے ہیں۔ نگوڑے بہت ٹریٹمنٹ ریززٹنٹ ہوتے ہیں۔ انہی گلیوں میں گولڈن ٹیمپل نامی بدھسٹ مندر تھا۔ لکھا نہ ہوتا تو ہر گز معلوم نہ ہوتا کہ یہ بدھسٹ مندر ہے کہ کالا پینٹ اور طرز تعمیر بالکل ہندو مندروں والا تھا۔ مینڈیلا نامی پیٹرن والی گول پلیٹیں مختلف رنگوں سے مزین جگہ جگہ نصب تھیں۔ وہی مشرق کی عادتیں اور بے چینی کم کرنے کے طریقے۔

للتپور کی گلیاں ہوں کہ بختاپور کی یا پھر لاہور و ڈھاکا کی، اونچے مکان اور کھڑکیوں سے جھانکتے لوگ ایک نمایاں فیچر ہوتا ہے۔ نیپال میں پاکستان اور بنگال سے قدرے زیادہ خوشحال لوگ کھڑکیوں سے جھانکتے محسوس ہوتے ہیں۔ اگر یہ میرا وہم نہیں ہے۔ یورپ کی گلیاں بھی بہت ناپیں اور کئی دیگر براعظموں کی بھی مگر مشرق کی گلیاں اور ان میں بستے لوگوں کی مکینیکس کا ایک اپنا رنگ ہے جو اور کہیں نہیں ملتا ہے۔ ایران سے ترکیہ پہنچتے پہنچتے بھی غائب ہوجاتا ہے۔ ایک تو یہ کارل ینگ اور اجتماعی لاشعور کہیں پیچھا نہیں چھوڑتے۔ ایک گلی کے کونے میں اسی کے پیٹے یا شاید نوے میں ایک مائی گیندے کے پھولوں کے ہار بنا رہی جو اس کا بوڑھا پیٹ اور کسی زائر کی بھگوان سے مراد دونوں کا حل تھے
(جاری ہے )


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments