پاکستانی دانشمندوں کی ”ہمدلی برائے پاکستانی بہاری محصورین“ اور ٹرمپ کا امریکہ


متحدہ ہندوستان سے سابقہ مشرقی پاکستان ”ہجرت“ کرنے والے ”پاکستانی بہاریوں“ کے مسئلے کے حوالے سے ایک ہمدلی یعنی ایمپیتھی پر مبنی سیاسی حل کیا ہو سکتا ہے؟ (ہجرت کو واوین میں اس لیے لکھا کہ میرے مطابق وہ ہجرت نہیں تھی بلکہ وہ بہاری اپنا حق، اپنے ووٹ کا پھل سمجھ کر اپنے گھر آئے تھے۔ ) یہ سوال خود سے اور کئی جانے مانے پاکستانی اساتذہ، دانشوروں، حساس ادیبوں، شعرا، سیاسی کارکنوں اور لیڈروں، انسانی حقوق، بچوں کے حقوق، لبرل ازم اور فیمِنسٹ اقدار کے علمبرداروں سے کرتے کرتے میں بوڑھی ہو رہی ہوں۔ چھپن سال کی عمر میں بھی اس محاذ پر لڑنا چاہتی ہوں جہاں ہار یقینی ہے ؛ پھر جیتی تو میں وہاں بھی نہیں جہاں پر بہت سے ”بڑے“ اور ”بھلے“ لوگوں نے مجھے دیکھ کر رشک کیا، شاید حسد بھی۔ عقل اور فہم کی کمی اور ایموشنل ذہانت کی عدم دستیابی کا ہمیشہ سے ہی شکار رہی ہوں۔ شاید اسی وجہ سے ہمت ابھی بھی کچھ باقی ہے۔ بات کا آغاز کیا تھا ایک سوال سے۔

ہمدلی۔ ہمدردی نہیں ہے اور اردو زبان اور کسی بھی پاکستانی زبان اور بولی میں انگریزی کے اس لفظ بلکہ نظریے جس کو ایمپیتھی کہتے ہیں کوئی عادلانہ متبادل نہیں ہے۔ ہارورڈ یونیورسٹی والے تو کہتے ہیں کہ ایمپیتھی اگر قدرتی طور پر موجود نہیں ہو تو بھی سیکھی جا سکتی ہے۔ اپنے بے وقعت لفظوں کو کئی بار اس مطالبے میں ڈھالا کہ پاکستان کی سول سروس اکیڈمی، کاکول اکیڈمی، ایلیٹ ایکٹیوسٹس اور ادبی حلقوں میں اس کو سکھانے اور پڑھنے کی اشد ضرورت ہے۔

میں خوابوں میں نہیں رہتی۔ یہ جانتی ہوں، مانتی ہوں اور لکھ بھی چکی ہوں کہ بہاری کمیونٹی کے بارے میں جو خیالات جدی پشتی پاکستانیوں کے ہیں وہ ان کے پرزم سے ٹھیک ہیں۔ شاید میں بھی اگر سندھی، بلوچ، پشتون یا پنجابی ہوتی تو ایسا ہی سوچتی یا ایسے ہی خیالات کا پرچار کرتی۔ ہاں، مجھے ایسے لوگوں کی سلیکٹو انسان دوستی پر اب بھی حیرت ہوتی ہے۔ ان کو دوسری قومیتوں کے حق کے لئے احتجاج کرتے اور صوفی اقدار کا دھول بجاتے دیکھ کر ان کے دو رنگی نظریات پر دکھ ہوتا تھا اور اب بھی ہے، لیکن میں یا مجھ جیسے کر بھی کیا سکتے ہیں، سوائے اپنی کمیونٹی کے نوجوانوں کو سمجھانے کے کہ پاکستان سے محبت کرو مگر یہ جان کر کہ یہ ہمارا نہیں ہے۔

خود کو کئی بار سمجھایا کہ بہاری المیے کے حوالے سے کچھ بھی لکھنے کا کیا فائدہ؟ مگر پھر سوچتی ہوں کہ جتنی سانسیں رہ گئی ہیں وہ اس کاز، اس مقصد کی نذر کر دوں۔ منافقت، فیک نیوز اور ڈس انفارمیشن کے اس دور میں کچھ سچ بتا کر جاؤں، خاص طور پر اپنے ان پیارے ترقی پسند، لبرل، کمیونسٹ، سوشلسٹ، فیمِنسٹ وغیرہ وغیرہ کی برانڈنگ کے ساتھ اپنا نام اور مقام بنانے والوں کے لیے جو آج تک باوجود مجھ سے دوستی ہونے کے اور بظاہر بہت احترام دینے کے میرے کرب کو سمجھ بھی نہ سکے۔ جو لوگ گالم گلوچ کرتے ہیں، عامیانہ زبان استعمال کرتے ہیں، ہمیں پیار سے مختلف ناموں سے بلاتے ہیں جیسے مہاجر، مٹروے، ننگے، بھوکے، پودینے کے باغ والے، اور نجانے کیا کیا۔ ان سے کوئی تکلیف محسوس نہیں ہوتی، بس اس حوالے سے اچھے دوستوں کی عداوت اور بے حسی سے ملنے والے رنج و ملال کا درجہ کچھ اور ہے۔

پیارے، سچ مچ پڑھے لکھے دوستوں میں سے ایک کا جواب یہ آیا کہ ”مجھے نہیں لگتا کہ وہ پاکستانی بہاری پھنسے ہوئے ہیں؛ وہ مشرقی بنگال میں نقل مکانی کر کے آئے تھے اور انہیں اپنی سرزمین کے طور پر اسے تسلیم کرنا چاہیے۔ بنگلہ دیش کی ریاست کو بھی انہیں اپنے برابر کے شہری کے طور پر تسلیم کرنا چاہیے۔ وہ کبھی بھی آج کے پاکستان کا حصہ نہیں تھے، اس لیے انہیں بنگلہ دیش میں پھنسے ہوئے نہیں کہا جا سکتا۔ وہ کسی نظریے یا سیاسی جذبات کے تحت نہیں آئے تھے، وہ محض ایک سرزمین پر آئے تھے جو مشرقی بنگال تھا اور بعد میں بنگلہ دیش بن گیا۔ انہیں اس سرزمین کے ساتھ اپنی سیاسی وفاداری کا اظہار کرنا چاہیے تھا۔ شاید وہ دو قومی نظریے کی بیان بازی کے شکار ہیں۔ میں ان کے انسانی اور سیاسی حقوق کے حق میں بات کروں گا لیکن ان کی پاکستان ہجرت کی حمایت نہیں کروں گا، کیونکہ اس سے سندھ پر آبادیاتی، اقتصادی اور سیاسی بوجھ پڑے گا۔ حل کو حقیقت پسندانہ، عقلی اور بین الاقوامی انسانی حقوق اور پناہ گزینوں کے چارٹر کے مطابق ہونا چاہیے۔“

اب بنگلہ دیش کو کون قائل کرے گا کہ وہ جن کو میں محصورین لکھتی ہوں وہ عشاق پاکستان کی چوتھی نسل کو وہ برابری کی بنیاد پر شہریت دے۔ ان کے بزرگوں سے کی گئی ناقابل یقین اور ناقابل تلافی زیادتیوں پر معافی مانگے۔ بھلا قتل عام، کاروبار کی تباہی، شناخت کی بربادی، عزت کی نیلامی، حاملہ عورتوں تک کے ریپ کا کیا تدارک ہو سکتا ہے؟ بہار کے مسلمان 1946 میں قتل ہوئے، سید امام نے ڈاکٹر خان کو صوبہ سرحد جا کر خون آلود کپڑے تک دکھا دیے۔ تب جا کر وہاں سے ہارنے والی مسلم لیگ جیت گئی۔ 1947 میں ان بدنصیب بہاریوں نے پاکستان ہجرت کی تھی مشرقی پاکستان ہجرت نہیں کی تھی۔ جناح صاحب نے بہار، یو پی وغیرہ کے سرکاری ملازمین کو مشرقی پاکستان جانے کا حکم دیا تھا۔

پودینے کے باغ یا حویلی کے کلیم پر ہمارے کئی پاکستانی شہرت یافتہ انسان دوست کالم نویس اور دانشور پھبتی کستے رہے ہیں، لیکن وہ یہ نہیں بتاتے کہ مشرقی پاکستان میں بس جانے والوں کو کوئی کلیم نہیں ملا۔ عام لوگ جن میں زیادہ تر بہاری تھے، انہوں نے اپنی زندگی محنت کر کے بنائی تھی۔ بنگالیوں کے ساتھ بھی گھل مل گئے تھے، بنگلہ زبان بھی سیکھی اور آپس میں شادیاں تک ہوئیں۔ لیکن بنگالی لوگوں کی محرومی کا تو چرچا ہوا، مگر مکتی باہنی نام کے قہر کی کوئی بات نہیں کرتا جب ویسٹ پاکستانی اشرافیہ کے ظلم کا بدلہ نہتے بہاریوں یا غیر بنگالی اردو اسپیکرز سے لیا گیا۔ میڈیا بلیک آؤٹ بھی ہوا۔ خود ساختہ فیلڈ مارشل جنرل ایوب خان کو کوئی دوش نہیں دیتا یا جرات نہیں رکھتا۔ بھٹو صاحب شہید ہیں۔ ان کے دور میں چند ہزار پاکستانی بہاری جو ایک مخصوص پیمانے پر پورے اترتے تھے، یہاں آ گئے تھے۔ وہ کمسن لڑکے جو پاکستانی فوج کے ساتھ لڑے، کٹ مرے، جو بچے جو اپاہج ہوئے، جو خاندان سے بچھڑ گئے وہ بے سرو سامان رہے یا خیرات کرنے والوں کے لیے وسیلہ ثواب بن گئے۔ ان کا ذکر نہ نصاب میں ہے نہ ہی میں سٹریم میڈیا میں۔

جنرل ضیاء نے صلہ حب الوطنی شہریت چھین کر دے دیا۔ جنرل نیازی نے ہتھیار ڈالے اور کتابیں موجود ہیں کہ ہزار میل دور کی جنگ کون جیت پاتا؟ چہ خوب۔ ان کو اور فوجی قیدیوں کو بلا لیا۔ نیازی نے الیکشن بھی لڑا اور اکیس توپوں کی سلامی لے کر اس دار فانی سے کوچ کیا۔

کسے وکیل کریں، کس سے منصفی چاہیں؟

ہمارا کوئی وطن نہیں۔ میرے بدن کی مٹی کے علاوہ کوئی مٹی میری نہیں۔ یہ نکتہ میں پنجاب میں مار کھا کر صرف بیس سال کی عمر میں سمجھ چکی تھی اور اس دکھ کو ایک نظم وطن میں جلاوطنی کا پہناوا دے چکی ہوں۔

میں بھی کیا رونا لے کر بیٹھ گئی ہوں؟ دور حاضر کی بات کریں۔ بہاریوں کا، ان ”محصورین“ کا اللہ مالک۔ ٹرمپ کو امریکہ کا دوسری بار صدر بننے پر مبارک باد دیں۔ وہ امریکہ جہاں سب جانا چاہتے ہیں، وہاں یا کینیڈا اور اس طرح کے ممالک میں امیگرنٹس کے حقوق کی آواز بننے والے پاکستان میں ڈیموگرافی اور معاشی بوجھ کی بات کرتے ہیں اور رائٹس کے لیے مزاحمت کرنے پر ایوارڈ اور فنڈز بھی حاصل کرتے ہیں۔ تین لاکھ پاکستانی بہاری، بنگلہ دیش کے اذیت خانے نما کیمپوں میں رہنے والے در بدر بہاری خاندانوں، ان کے بچے بچیوں کے لیے کسی کے دل میں جگہ نہیں۔ ان کے بزرگوں سے سخت غلطی ہوئی۔ غلطی کی گناہ کی معافی مل جاتی ہے لیکن ان کی غلطی ان کا گناہ بلکہ جرم یعنی پاکستان سے محبّت ہرگز قابل معافی نہیں۔ چیرس۔

سوچتی ہوں آج کے پاکستان کے کچھ حصّوں میں امن نہیں ہے۔ اس کو حقوق کی جنگ کہیں یا دہشت گردی جانیں یا دشمن ملکوں کی سازش سوال یہ ہے کہ اگر کوئی حصّہ صحیح یا غلط اسباب کے تحت الگ ملک بن جاتا ہے تو کیا پاکستان اس کو آنکھ جھپکتے ہی تسلیم کر لے گا؟ وہاں ان لوگوں کو جو پاکستانی فوج کا ساتھ دیں گے بے یار و مددگار چھوڑ دے گا اور بقیہ پاکستان کے دانشور یہ بھاشن یہ فیصلہ دیں گے کہ وہ پاکستانی نہیں ہیں انھوں نے مقامی لوگوں سے بے وفائی کی ادھر ہی رہیں یہاں نہ آئیں ہم پر بوجھ نہ بنیں ہمارے ساتھ سیاست میں ریاست میں حقدار نہ بنیں یہی فلاں فلاں چارٹر کہتا ہے وغیرہ وغیرہ۔

یہ وقت ہے کہ ہم ان مشکل سوالات کا سامنا کریں جن سے ہم طویل عرصے سے بچتے آ رہے ہیں۔ قانون پر بھی بات کرنی چاہیے۔ ایک وقت تھا غلامی، نسل پرستی، نسلی اور صنفی امتیاز بھی قانونی طور پر جائز تھا کالونائزیشن (استعمار) بھی قانونی تھا۔ کوئی بھی جواز انسانی حقوق اور ہمدلی سے مطابقت نہیں رکھتا۔

بہاری کمیونٹی کا دکھ انصاف اور مساوات کے حصول میں ایک نظرانداز شدہ پہلو نہیں بن سکتا۔ سوال یہ نہیں کہ ہم ان کے لیے کیا کچھ کر سکتے ہیں، بلکہ یہ ہے کہ ہم کب انہیں دیکھنے کا فیصلہ کریں گے؟

پس تحریر : اپنے مہذب دوستوں سے کوئی گلہ نہیں ہے وہ انسانی حقوق کو مانتے ہیں لیکن وہ حقیقت پسند بھی ہیں۔ شاید کبھی وہ اس مشکل مکالمے کا آغاز کر دیں امن کی خاطر اور ہمارے زخموں کا مُداوا بھی ہو جائے۔ شاید۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments