سموگ، لاہور، شادی اور حکومتی لطائف
کبھی موسم بدلنے کا انتظار شدت سے ہوا کرتا تھا کہ خنک ہواؤں کی چہل قدمی ذہنی سکون کا باعث ہوتی تھی۔ وقت دیکھتے دیکھتے قیامت کی طرح بدل گیا۔
فوگ کا رومان سموگ کی کالک میں بدل گیا لیکن یہ یک دم نہیں ہوا۔ ترقی کے نام پہ آئے زوال کی یہ تیس چالیس سالہ داستان ہے۔ یہ داستان پنجاب میں محو رقص ہے اور پنجاب کا دل اور نظام تنفس لاہور اس وقت دنیا کا سب سے فضائی آلودہ شہر بن چکا ہے
پنجاب کے دل کی دھڑکن اس وقت اپنے حسن کی حفاظت کے لئے لندن سے پنجاب کی ترقی کے قصے سنا رہی ہے۔ خود خوف سے بھاگ گئی ہے۔ سموگ سے جو بیماریاں جنم لے رہی ہیں ابھی اس کا کوئی نام نہیں ہے۔ اسے موت کی نشانیاں کہہ لیجیے۔ ہم بھی اسی نشانی میں مبتلا اس وقت یہ درد رقم کر رہے ہیں۔
بچوں کے لئے سموگ بہت نقصان دہ ہے۔ سکول بند ہو چکے ہیں۔ کیا بچے، سکول اور تعلیم دھواں چھوڑ رہے تھے؟ ورک ایٹ ہوم کا وقت ہو گیا ہے۔ کیا کام کرتے افراد دھواں چھوڑ رہے ہیں؟ بازاروں کا وقت آٹھ بجے تک ہو گیا ہے۔ کیا خریداری دھواں چھوڑ رہی ہے یا دکان دار دھواں دار ہو گیا؟ ہوٹلز کے اوقات کار پہ پابندی اور ان کو سیل کیا جا رہا ہے۔ کیا ان کا دھواں کسی فیکٹری سے زیادہ ہے؟ پارکس بند کر دیے گئے ہیں۔ کیا پارکس بھی سموگ کا سبب بنیں گے؟ ایک بیانیہ ہے درخت لگائیں، زندگی بجائیں، ایک عمل ہے کہ پارکس میں داخلے پہ پابندی ہے۔
اب تین ماہ یعنی نومبر دسمبر جنوری میں شادی پہ بھی پابندی لگا دی جائے گی۔ اسے پہلے بھی پنجاب کی شادی پابندی زدہ ہی ہے۔ دس بجے ہر حال میں ہال بند کر دیا جاتا ہے باقی صوبوں اور خاص طور پہ کراچی میں تو بھئی شادی دس بجے کے بعد شروع بھی نہیں ہوتی اور رات بھر چلتی ہے۔ گویا شادی بھی اچھا خاصا دھواں دار کام ہے وہ وقت دور نہیں جب جنازوں پہ بھی پابندی کا سوچا جائے گا کہ چار لوگوں کے اکٹھے ہونے سے سموگ بڑھتی ہے۔
جانتے ہیں یہ سب پابندیاں غریب غربا کے لئے ہیں۔ وہ ملز، فیکٹریاں جو لاہور شہر کی حدود میں بہت فخر اور شان سے دھواں چھوڑ رہی ہیں۔ حکومت نے ان کو بھی اپنی گرفت سے چھوڑا ہوا ہے کیونکہ یہ اندر کا لین دین نظام ہے۔ شیئر ہولڈرز شراب خانے کے یار ہوتے ہیں۔ گرچہ کبھی یہ فیکٹریاں شہر سے باہر ہی بنی تھیں مگر شہر کا جغرافیہ روز کی بنیاد پہ لاہور میں رہنے کے خواہش مندوں نے سستے داموں بڑھا کر مہنگے دام کی موت تک لا کھڑا کیا ہے لیکن ان پہ کوئی پابندی نہیں لگائی جا رہی، دانشوران شہر کے لب بھی سلے ہوئے ہوئے۔
پابندی غریب عوام کی بنیادی ضروریات پہ لگائی جا رہی ہے ہر آنے والی نسل کو باقاعدہ اقدامات سے کمزور کیا جا رہا ہے تاکہ وہ نظام کو سمجھ نہ سکیں اور اس کے خلاف کبھی کھڑے نہ ہو سکیں۔ نئی مادہ سی تہذیب جو شہر میں آ کر نئے بسنے والوں کی بدولت پروان چڑھی ہے وہ بھی اس سموگ میں گرچہ جلد دم توڑ دے گی مگر اس نے بھی فضا کو خود نقصان پہنچایا ہے۔ حکومتیں اس عیاشی پہ بھی خاموش رہی ہیں اور رہیں گی کہ یہ بھی شیئر ہولڈرز پالیسی ہے۔
یہ جو بھارت سے آتی سموگ کا لطیفہ حکومت نے چھوڑا ہے یہ خاصا بیوقوفانہ ہے کاش کوئی اچھی حس مزاح کا افسر ہی حکومت کے کام آ جاتا۔ پہلے وہ اس دماغ پہ چار حرفی سلام ہے جس نے یہ سوچا اور پھر ان کو تو سات ہزار توپوں کی سلامی ہے جنہوں نے اس بیانیے پہ دستخط کر کے اس کو شرف عزت بخشا اور بتایا کہ ہر شاخ پہ الو ہی بیٹھا ہے۔ بھارت کی سرحد سے آتی ہوا ملتان تک پہنچ گئی ہے۔ یہ بات بالکل ایسے ہی ہے جیسے بھارتی سیریز ”ہیرا منڈی“ کے نواب صاحب کے آم کے باغ بلوچستان کے صحرا میں اگ گئے تھے یا جنازہ دیکھ کر کوئی کلمہ پڑھ لے۔
دہلی سے ہمارا فاصلہ کتنا ہے؟ کم از کم اتنا جتنا لاہور سے اسلام آباد کا ہے۔ دہلی، امرتسر اور دیگر بھارتی شہروں کی سموگ کم ہے۔ ہمارا شمار صف اول میں ہوتا ہے تو کوئی کم سموگ والا ہمیں کیسے زیادہ سموگ دے سکتا ہے؟ اور فرض کر لیتے ہیں انڈیا پنکھے لگا کر بھی ہماری طرف سموگ بھیج رہا ہے تو کیا حکومت میں اتنا دم نہیں کے الٹے پنکھے انڈیا کی طرف رخ کر کے لگا دیے جائیں اور اپنی سموگ بھی، ان کی سموگ کے ساتھ واپس بھیج دی جائے؟ ہم ایٹمی پاور ہیں کیا ایٹمی پاور کند دماغ ہے؟ جن شہروں میں بھارتی سرحد نہیں لگتی وہاں سموگ کہاں سے جا رہی ہے؟ اور اگر قدرتی ہوا کا رخ ہی بھارت سے پاکستان کی طرف ہے تو خدا کا خوف کرو براہ راست بہتان فطرت پہ جا رہا ہے۔ یہ بھی دو قومی نظریہ بن جاتا ہے۔
سموگ کے دنوں میں پنجاب کی وزیر اعلیٰ کا پنجاب میں ہونا ضروری نہیں تھا۔ شیر کی بچی ہوتی تو یہاں بیٹھ کر اپنے عوام کے ساتھ حالات و فضا کی جنگ لڑتی۔ پرائے دیسوں میں بیٹھ کر خالی باتیں کرنے سے بھی سموگ میں اضافہ ہوتا ہے۔ قصہ مختصر یہ ہے کہ سموگ جان لیوا حد تک آ چکی ہے ائر پیوریفائر سسٹم بھی امیروں کے لئے ہے۔ غریب کی بنیادی ضروریات مشکل سے پوری ہو رہی ہیں۔ حکومتیں ایک عشرے سے باتوں کے سوا کچھ نہیں کر سکیں۔ ایک مصنوعی بارش کا ٹیکس بھی عوام کو دینا پڑ گیا تھا فرق اس سے بھی کوئی نہیں پڑا تھا۔
لاہور والی سموگ بڑھتی بڑھتی موت سے جنگ بن چکی ہے جس کا تاحال موت سے لڑنے کے سوا کوئی حل دکھائی نہیں دے رہا جو بھی اقدامات حکومت کی طرف سے مزید کیے جائیں گے وہ سب ذہنی اذیت کے سوا کچھ نہیں ہو گا اور ذہنی اذیت خود ایک بیماری ہے۔
- شادی شدہ عورت کا نشہ - 13/01/2025
- بشریٰ بی بی اپنے اصل ٹارگٹ تک - 27/11/2024
- سموگ، لاہور، شادی اور حکومتی لطائف - 16/11/2024
Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).