اُردو ادب سے شناسائی، اے آئی اور نیا ادبی چیلنج


میں تیسری یا چوتھی جماعت کا طالب علم تھا جب چندی پور سے چند کلومیٹر دور شیخ واہن کے علاقہ میں کسانوں کے لیے لگائے جانے والے سالانہ میلہ سے ایک روپیہ یا اُس سے کچھ زیادہ کی قیمت ادا کر کے بچوں کی کہانی کی کتاب ”ہیرا من توتا“ خرید کر لایا اور پھر رات کو کیروسین آئل پہ چلنے والی لالٹین کی روشنی میں اسے پڑھتا رہا۔ میرے تحت الشعور میں آج تک اس کا نام محفوظ ہے ایسے جیسے میری نانی امّاں مجھے ”پُھلاں شہزادی“ کے نام سے کہانی سنایا کرتی تھیں۔

شہزادی دیو کے محل میں قید تھی اور دریا کی طرف کھلنے والی کھڑکی سے روزانہ گلاب کا ایک پھول دریا میں پھینکتی تھی کہ کبھی تو اس کے بادشاہ باپ تک یہ اطلاع پہنچ جائے گی کہ وہ کہاں پہ قید ہے؟ پھر ایک شہزادہ اپنی کشتی پہ وہاں سے گزر رہا تھا، اوپر سے پھول گرا، اُس نے نگاہ اُٹھا کر دیکھا تو بس دیکھتا ہی رہ گیا۔ شہزادی کے حسن نے اُسے مدہوش کر دیا تھا۔

میرے کزنز ہر ماہ شہر سے جاسوسی ڈائجسٹ، سسپنس ڈائجسٹ اور عمران سیریز کی کتابیں خرید کر گاؤں لاتے۔ کیکر اور ٹاہلی کے درختوں کے نیچے بچھی چارپائی پہ میں ان کا مطالعہ کرتا۔ آپ کو ایک عجیب بات بتاؤں۔ جب پہلی بار عمران سیریز کا مطالعہ کیا تو میرے لاشعور نے اس وقت کے کرکٹ کے عالمی شہرت یافتہ کھلاڑی عمران خان کے چہرے کو میرے ذہن میں اس طرح سے بٹھا دیا کہ وہی عمران سیریز کا علی عمران ہے جو کبھی تو ایکسٹو کے حکم کے تابع چلتا ہے اور کبھی ایکسٹو کا نقاب اترتا ہے تو سامنے وہ خود ہوتا ہے۔

گورنمنٹ ایس ای کالج کا طالب علم بنا تو اندرون فرید گیٹ میں واقع نواب ہوٹل اور نگار ہوٹل جو دراصل بہاول پور کے پاک ٹی ہاؤس تھے وہاں پہ ادیبوں، افسانہ نگاروں، شاعروں اور صحافیوں کی محفل میں بیٹھنا شروع کر دیا۔ سینٹرل لائبریری بھی آنا جانا رہا۔ اُس وقت کی مشہور شاعرہ نوشی گیلانی کے بارے میں پتہ چلا جو مسلسل پروپیگنڈا کی زد میں تھیں۔

نوشی گیلانی نے ٹیبو کو توڑ کر مرد شعرا ء کے ساتھ اُٹھنا بیٹھنا اور مشاعروں میں اپنا کلام پڑھنا شروع کر دیا تھا بس وہی اس کا بہت بڑا جرم ٹھہرا۔ نوشی گیلانی نے بہت اچھی شاعری کی لیکن ایک تو لاہور سے دوری اور دوسرا مقامی پروپیگنڈا کا شکار رہنے کی وجہ سے اُسے وہ مقام نہ مل سکا جو پروین شاکر کو ملا تاہم یہ ایک حقیقت ہے کہ اُس کی چند نظمیں یا غزلیں اپنے مفہوم و معنی میں پروین شاکر کی شاعری سے آگے کی چیز ہیں۔ نوشی گیلانی سے واسطہ رکھنے والے ایک مرد شاعر نے بعد میں دعویٰ کیا کہ نوشی نے ان کا کلام اپنے نام سے شائع کرایا تاہم وہ اپنے اس دعوے کے حق میں کوئی ثبوت نہ پیش کر سکے۔

جب میں اسلامیہ یونیورسٹی بہاول پور کے شعبہ ماس کمیونیکیشن کا طالب علم تھا تو نوشی گیلانی شعبہ اردو میں بطور وزٹنگ لیکچرار پڑھانے آتی تھیں۔ غالباً اُس وقت وہ امریکہ سے واپس لوٹ چکی تھیں۔ لنچ ٹائم میں درختوں تلے ماما یوسف کی کینٹین پہ میں سموسے والے چنے چاول اور کولڈ ڈرنک کا لنچ کرنے جاتا (اُس وقت یونیورسٹی کینٹین پہ بس یہی کچھ ملتا تھا) تو نوشی بھی اپنے شاگردوں کے ہمراہ کسی نہ کسی میز پہ بیٹھی ہوتیں۔ بعد میں پتہ چلا کہ انھوں نے آسٹریلیا میں مقیم ایک پاکستانی نژاد بزنس مین سے شادی کر لی اور وہاں شفٹ ہو گئیں۔ اس عرصہ میں راقم کو اقبال اور غالب کی شاعری سے بھی تھوڑی بہت آشنائی ہوئی۔

اگر مجھ سے سوال پوچھا جائے کہ تمہاری نظروں میں مرزا غالب اور علامہ اقبال میں سے کون بڑا شاعر ہے؟ تو میرا جواب ہو گا بعض وجوہات کی وجہ سے مرزا غالب۔ دراصل میں علامہ اقبال کو بطور شاعر بیک وقت پسند اور ناپسند کرتا ہوں۔ ویسے اگر مرزا غالب اور میر تقی میر کا بھی تقابل کیا جائے تو میرے نزدیک میر تقی میر مرزا غالب کے مقابلے میں بہت ہی چھوٹے شاعر تھے۔

مجھے تسلیم ہے کہ اُردو ادب کی دنیا میں میر تقی میر کے چاہنے والے بہت ہیں اور میر ا درج بالا نقطہ نظر انہیں سیخ پا کر دے گا لیکن ان سے میرا ایک سوال ہے ”کیا خیال کی جو بلندی غالب کے ہاں پائی جاتی ہے وہ میر کی شاعری میں موجود ہے؟“ اب نوعمر لڑکوں سے ”نام نہاد عشق“ کو شاعری میں بیان کرنے کو خیال کی بلندی تو نہیں کہا جا سکتا۔

علامہ اقبال کی شاعری کے کچھ حصّوں کو ناپسند کرنے کی بڑی وجہ یہ ہے کہ مجھے شاعری میں ان کی طرف سے شاہین، عقاب یا باز کو بطور استعارہ استعمال کرنا بالکل اچھا نہیں لگا۔ آپ نے معصوم پرندوں کا شکار کرتے شاہین یا عقاب کی ویڈیوز دیکھی ہیں کس طرح سے وہ زندہ پرندے کے جسم سے گوشت نوچ رہا ہوتا ہے۔ کیا ہی اچھا ہوتا کہ اقبال اپنی شاعری میں شاہین یا عقاب پرندے کو عظمت کے نشان کے طور پہ پیش نہ کرتے۔ اس کا مطلب یہ بھی نہیں کہ اقبال اچھے شاعر نہیں تھے۔ ان کی بعض نظموں کو عالمی شہرت حاصل ہے۔ اقبال کو یہ کریڈیٹ جاتا ہے کہ مرزا غالب کی وفات کے بعد سے گزشتہ ڈیڑھ دو صدیوں کے دوران آنے والوں شاعروں کے بارے میں کہا جا رہا تھا کہ وہ غالب کے اندازِ شاعری کو ہی اپنائے ہوئے ہیں تو وہاں اقبال پہلے بڑے شاعر کے طور پہ سامنے آیا جس نے اپنا ذاتی منفرد انداز متعارف کرایا۔ بہرحال استعارہ شاہین یا عقاب کے حوالے سے یہ میرا ذاتی نقطہ نظر ہے، آپ کو حق ہے آپ اتفاق کریں یا اسے مسترد کر دیں۔

آج 25 نومبر 2024 کو ایک فیس بک پوسٹ نظروں کے سامنے گزری جس میں اعلان کیا گیا کہ کل بہاول پور میں ملک کے مختلف کونوں سے آنے والے ”مہان“ شاعروں کا مشاعرہ ہو گا۔ ناموں کی لسٹ دیکھی تو ایک دو کے سوا باقی سب پلانٹڈ شاعر تھے جن کی شاعری کا معیار بس یہ ہے کہ کسی لڑکی نے جینز پہن لی تو اس کی جینز کی تعریف پہ ہی پوری غزل لکھ دی۔ ان کی قسمت کہ مخصوص لابی نے انہیں ٹی وی چینلز اور سوشل میڈیا پہ پبلسٹی دلوا کر نوجوان نسل میں پاپولر کر دیا۔

ٹین ایجر نوجوانوں میں مقبول آج کل کے کئی ”چرسیے“ اور ”وِسکیے“ شعرا ء سے تو پروین شاکر کہیں زیادہ اونچے درجہ کی شاعرہ تھی۔ اپنی شاعری میں تو وہ بھی مرد عورت کی محبت والی روایتی شاعری سے باہر نہ نکل سکی لیکن بہرحال یہ حقیقت ہے کہ پروین شاکر نے دل کو چھو لینے والے جس خوبصورت انداز میں رومانس کو بیان کیا، یہ ”چرسیے“ اور ”وِسکیے“ شاعر ٹین ایجر نوجوانوں میں اپنی مقبولیت پہ اِترا تو سکتے ہیں لیکن وہ شاعری کے مقام میں پروین شاکر کی دھول کو بھی نہیں چھو سکتے۔

سال 2017 میں جب راقم بڑے شہروں کی خاک چھاننے کے بعد واپس بہاول پور لوٹا تو طبیعت میں شاعری کی طرف میلان ہو گیا۔ سب سے پہلے میں نے ایک نعت لکھی اور پھر اگست 2017 میں ہی ”روح کو موت نہیں“ کے عنوان سے ایک نظم لکھی۔

کائنات ہے اِک محبت یہ راز میں نے جانا
مجھے گر محبت ہے مجھے محبت کر نے دو
میں تم ہو تم میں ہوں رقصِ عشق میں
عکس اپنی ذات کا مجھ پر پڑنے دو
عشق ہوتا نہیں تابع ارادے کے
آگ لگ ہی گئی تو پھر جلنے دو
میرے دل کو ہر سُو خُدا نظر آتا ہے
جلووں کا مینہ مجھ پر برسنے دو
داخلہ لے ہی لیا جو مکتبِ عشق میں
کتابِ عشق کو ورق ورق پڑھنے دو
مجازی سے حقیقی کے سفر میں اکبر میاں
روح کو موت نہیں جسم کو مرنے دو

تاہم میں نے گنتی کی چند نظمیں لکھیں اور پھر افسانہ لکھنے کی طرف مائل ہو گیا۔ چند افسانے لکھے جو فیس بک کے مختلف افسانہ فورمز پہ شائع ہوتے رہے اور ہم سب ڈاٹ کام ڈاٹ پی کے پر بھی شائع ہوئے۔ پھر دل بلاگ لکھنے کی طرف آ گیا جس سے تاحال دل بھرا نہیں۔ مجھے تسلیم ہے کہ میری شاعری میں قافیہ ردیف اور وزن کا پورا خیال نہیں رکھا گیا۔

اور اب آرٹیفیشل انٹیلی جنس کا دور آ چکا ہے۔ آج کے ادیب کے سامنے اب سرمایہ داری نظام یا مارکسزم نئے چیلنجز نہیں رہے اور نہ ہی اب وہ اپنی نئی شاعری، نیا افسانہ اور نیا ناول ”عشق“ کے پرانے روایتی نظریہ کی بنیاد پہ لکھ سکتا ہے۔ سوال یہ ہے کہ ادیب کو نیا چیلنج کون سا درپیش ہے؟ یا یہ کہ اب اُردو ادب سمیت دنیا کی تمام زبانوں کا ادب کون سا نیا رخ اختیار کرنے جا رہا ہے؟

ایک چھوٹی سی مثال لیجیے۔ میرا شہر بہاول پور دوسرے شہروں بشمول لاہور، کراچی، کلکتہ، بمبئی اور ڈھاکہ وغیرہ کے مقابلہ میں ایک بہت ہی چھوٹا سا شہر ہے اور یہاں گنتی کی چند فیکٹریاں ہیں وہ بھی چھوٹے پیمانہ پہ سامان تیار کرتی ہیں۔ اب ہو یہ رہا ہے کہ چند فیکٹریوں کے مالکان نے چائنا کو آرٹیفیشل انٹیلی جنس پہ چلنے والے روبوٹس اور آلات کی فراہمی کے آرڈرز دے دیے ہیں۔ لا محالہ جب وہ تیار ہو کر بہاول پور کی فیکٹریوں میں پہنچیں گے تو مقامی لیبر کی اچھی خاصی تعداد کو نوکریوں سے فارغ کر دیا جائے گا۔ سوچیں کہ بڑے شہروں کا کیا حال ہو گا؟ اب تو یہ کہا جا رہا ہے کہ یہ جو آرٹیفیشل سپر انٹیلی جنس کو لانے پہ کام ہو رہا ہے تو جب وہ عملاً آ جائے گی تو انسان کے بطور فوجی لڑنے کا تصور ہی ختم ہو جائے گا یعنی دنیا بھر کی افواج میں بس اے آئی سے چلنے والے روبوٹس اور مشینیں ہی جنگیں لڑ رہی ہو ں گی۔ تو جب اے آئی کی وجہ سے کروڑوں کی تعداد میں انسان بے روزگار ہو جائیں گے تو کیا عشق و محبت کو بیان کرنے والا لٹریچر پڑھا جائے گا؟ میڈا بِھرا! جب پیٹ خالی ہو تو رومانس بھی اچھا نہیں لگتا۔

چلیں، آپ کہتے ہیں کہ نیا ادب دوبارہ سے مارکسزم اور کمیونزم کو پروان چڑھائے گا۔ تو کیا نئی ادبی تحریکیں اے آئی روبوٹس کے خلاف چلائی جائیں گی؟ اکبر شیخ اکبر کا خیال ہے کہ ایک طر ف اے آئی بہت ساری آسانیاں لے کر آ رہی ہے تو دوسرے طرف وہ کروڑوں انسانوں کے لیے بے روزگاری کا پیغام بھی لا رہی ہے اور یہ بے روزگاری اس وقت تک رہے گی جب تک انسانوں کی اکثریت اے آئی کی سِکلز اور ہنر کو سیکھ نہیں لے گی۔ اے آئی کی وجہ سے پیدا ہونے والی فراغت اور بے روزگاری بڑے پیمانہ پہ انسانوں میں اجتماعی ڈپریشن کو جنم دے گی۔ اب ادب اور ادیب کے سامنے نیا چیلنج یہ ہو گا کہ اپنی تحریروں کے ذریعہ نہ صرف اُس ڈپریشن یا مایوسی کو ختم کر کے انسانوں کو خوشی کا احساس دینا ہے بلکہ انھیں نبرد آزما نئے چیلنجز کا سامنا کرنے کے لیے ذہنی طور پہ تیار بھی کرنا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments