سیاسی مقدمے، کل اور آج
ہمارے بچپن میں ایوب خان کا مارشل لا لگا تو اخبارات میں اور گھر میں بڑوں کی سیاسی گفتگو میں ایک لفظ ”ایبڈو“ پڑھنے اور سننے کو ملا کچھ عرصہ بعد اس کا مطلب سمجھ میں آیا کہ ایوب خان نے سیاست دانوں اور ان کی سرگرمیوں پر پانچ سال کے لئے پابندی لگا دی ہے۔ سیاست دانوں کو اختیار دیا گیا تھا کہ یا تو وہ رضاکارانہ طور پر اپنی سیاسی سرگرمیاں چھوڑ دیں یا پھر حکومت کی تادیبی کارروائی کا سامنا کریں۔ اس خوف ناک قانون کو صرف ایک سیاست دان چوہدری ظہور الہٰی نے چیلنج کیا تھا، اور اس ”جرم“ پر انہیں جیل کی ہوا کھانی پڑی تھی۔ 1970 کے انتخابات میں انہوں نے پاکستان مسلم لیگ کے ٹکٹ پر قومی اسمبلی کی نشست جیتی تھی 1971 میں ہم اپنے مشرقی بازو سے محروم ہو گئے تو ذوالفقار علی بھٹو بچے کھچے پاکستان کے سربراہ بنے۔ انہوں نے فلور ملز سمیت بہت سی صنعتوں کو قومیا لیا۔ ان ہی دنوں بھٹو کے حکم پر حزب اختلاف کے جن نو رہنماؤں کو بزور قوت اسمبلی سے باہر نکالا گیا، ان میں ظہور الہٰی بھی شامل تھے۔ ان پر بہت سے مقدمے بنائے گئے جن میں سب سے مشہور بھینس کی چوری کا مقدمہ ہوا، لوگ اس کے ذکر پر ہنستے تھے اور یہ ہماری سیاسی تاریخ کا ایک لطیفہ بن گیا۔
ایک اور مقدمہ جو مشہور ہوا، وہ شیخ رشید کی لال حویلی سے کلاشنکوف ملنے کا تھا، عوام نے اسے بھی لطیفہ ہی قرار دیا تھا اور ماضی قریب میں تو ایسی بہت سی مثالیں سامنے آئیں، کبھی سیاستدانوں کی گاڑیوں سے شراب تو کبھی چرس ملنے کی خبریں اخبارات اور چینلز پر نشر ہوئیں۔ ویسے تو شروع سے صحافیوں کو تنقید کے جرم میں بے روزگاری یا مقدمات کا سامنا کرنا پڑا ہے لیکن سوشل میڈیا کے آنے کے بعد بات بڑھ گئی ہے اور مقدمات کی بجائے بات ”اٹھا لئے جانے“ اور ”غائب کر دینے“ تک پہنچ گئی۔ کچھ صحافیوں اور سیاسی کارکنوں کو تو ملک سے بھاگنا پڑا ہے۔ لیکن اس وقت ہمارا موضوع صحافیوں اور سیاستدانوں پر بنائے جانے والے وہ مقدمات ہیں جو لطیفے کی شکل اختیار کر جاتے ہیں۔
اس سلسلے میں تازہ ترین لطیفہ مشہور صحافی مطیع اللہ جان پر بنایا جانے والا پولیس کا مقدمہ ہے۔ پولیس کے مطابق انہوں نے ایک پولیس اہل کار پر اپنی گاڑی چڑھا دی، اس سے سرکاری رائفل چھین کر پولیس والوں پر تان لی (واہ۔ واہ، بالکل ہالی وڈ یا بالی وڈ کی کسی فلم کا سین لگ رہا ہے ) اور جان سے مارنے کی دھمکیاں دینا شروع کر دیں۔ ان کی گاڑی میں سیٹ کے نیچے سے ایک شاپر ملا جس میں 246 گرام آئس (منشیات) تھی۔ میں نے مطیع اللہ جان کو ٹی وی چینلز یا یو ٹیوب پر ہی دیکھا ہے لیکن پولیس کی ایف آئی آر پڑھنے کے بعد مجھے وہ جیمز بانڈ یا گاڈ فادر نامی کتاب اور فلم کا کوئی کردار لگنے لگے ہیں۔ زیادہ پرانی بات نہیں جب انہیں شمالی علاقہ جات کی سیر کے لئے لے جایا گیا تھا اور شکر ہے کہ صحیح سلامت واپس پہنچا دیا گیا تھا۔ پہلے اس طرح کی خبروں پر خون کھولا کرتا تھا، بلڈ پریشر ہائی ہو جاتا تھا لیکن اب تو یہ سب کچھ وطن عزیز میں ہو رہا ہے، ایک لطیفہ ہی لگتا ہے، شاید کچھ ایسی ہی کیفیت چچا غالب کی رہی ہو گی جب انہوں نے کہا تھا:
بازیچۂ اطفال ہے دنیا میرے آگے
ہوتا ہے شب و روز تماشا میرے آگے
انسانی حقوق کے ایک کارکن کے بقول ”جب پولیس ایک جانے مانے صحافی کے خلاف اس قسم کا مقدمہ بنا سکتی ہے تو عام سیاسی کارکنوں کے ساتھ کیا کرتی ہو گی“ ۔ ایک اور سینئیر انسانی حقوق کے کارکن نے اس کے جواب میں اسی گروپ پر لکھا ”بھائی، سب جانتے ہیں۔ ان کو پولیس نے اٹھایا اور ان پر منشیات رکھنے کا جھوٹا مقدمہ درج کر دیا۔ ہم ان کی گرفتاری اور منشیات رکھنے کا بے بنیاد مقدمہ درج کرنے کی شدید الفاظ میں مذمت کرتے ہوئے ان کی فوری رہائی کا مطالبہ کرتے ہیں۔ ساتھ ہی اس طرح کا جھوٹا مقدمہ قائم کرنے والے اہل کاروں کے خلاف قانونی کارروائی کا بھی مطالبہ کرتے ہیں“ ۔ ظاہر ہے صحافی تنظیمیں اور انسانی حقوق کا دفاع کرنے والے اس واقعے پر احتجاج کریں گے۔ پاکستان کی ستتر سالہ تاریخ میں جو کچھ ہوتا رہا ہے، اس کے بارے میں بہت سنجیدہ اور دانشورانہ تبصرے اور تجزیے ہوتے رہے ہیں لیکن ہمیں تو بقول فورمین شو والوں کے یہی لگ رہا ہے کہ ’ہم ایک سنگین مذاق کی لپیٹ میں ہیں‘ ۔
اب دیکھئے نا جب پولیس ہمیں یہ یقین دلانے کی کوشش کرے گی کہ مطیع اللہ جان جیسا مرنجاں مرنج صحافی پولیس پر بندوق تان لیتا ہے اور منشیات لے کر گھومتا پھرتا ہے اور ایک پولیس والے پر گاڑی چڑھا دیتا ہے تو ہنسی نہیں آئے گی تو اور کیا ہو گا۔ یہ خبر (لطیفہ) مختلف واٹس ایپ گروپس پر گردش کر رہی ہے اور لوگوں کو حمایت علی شاعر یاد آ رہے ہیں جنہوں نے کہا تھا:
ابھی تو کچھ نہیں ہوا، ابھی تو ابتدا ہے یہ
ابھی وہ وقت آئے گا کہ ساری قوم روئے گی
- سیاسی مقدمے، کل اور آج - 29/11/2024
- شہناز اور مصطفیٰ زیدی کی کہانی - 24/11/2024
- سعیدہ گزدر: خود فراموشی کے ماہ و سال - 09/11/2024
Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).