پر یوں نہ مریں گے ہم
ٹڑی پوندا ٹاریئین
جڈھن گاڑھا گل الومیان
تڈھن ملنداسین۔
فضا میں شیخ ایاز کی شاعری الّن فقیر کی سریلی آواز میں دلوں کو چھو رہی تھی۔
دسمبر کی سردی میں کوئٹہ سے آنے والی ہواؤں نے حیدرآباد کی راتوں کو خنک کر دیا ہے لیکن ایاز میلو کے چاروں پنڈال رات ایک بجے تک ہزاروں لوگوں سے کھچا کھچ بھرے ہوئے ہیں۔ حیدرآباد میں واقع سندھ میوزیم کے اطراف رات میں بھی دن کا سماں ہے۔ شام گہری اور سرد ہوتی جا رہی ہے لیکن پنڈال عورتوں بچیوں کے جمگھٹوں سے بھرتا چلا جا رہا ہے۔ کاروں، موٹرسائیکلوں اور رکشوں پر سوار پورے پورے خاندان میلے میں شرکت کی غرض سے کھنچے چلے آرہے ہیں۔
عوام کا جوش و خروش ہی نہیں بلکہ نظم و ضبط بھی قابل دید ہے۔ خانہ بدوش پنڈال کے وسیع و عریض اسٹیج پر سیف سمیجو، لال بینڈ، صنم ماروی، تاج مستانی جیسے باکمال گائیک شیخ ایاز کی رومانوی اور مزاحمتی شاعری کو موسیقی میں پِرو کر اپنی مدھر آوازوں سے ماحول کو گرما رہے ہیں۔ مرد عورت کی تفریق سے بے نیاز پورا پنڈال موسیقی کی دھن پر جھوم رہا ہے۔ جو کہتے ہیں کہ ہم رقص نہیں کر سکتے یا یہ بے حیائی ہے وہ جانتے نہیں کہ کائنات ہمہ وقت محو رقص ہے۔ یہ دریا، سمندر، ندیاں، نالے، پیڑ پودے، چرند پرند سب وجد میں ہیں۔ سندھو دھرتی رقص میں ہے۔
رقص کو ایاز میلو کے پہلے ہی سال ایک اہم اور قابل احترام جز بنانے کے لیے شیما کرمانی کا کلاسیکل رقص افتتاحی تقریب میں شامل کیا گیا تھا۔ ایاز میلو میں شرکت کرنے والوں کو احساس دلایا گیا کہ رقص فنون لطیفہ کی سب سے حسین اور حساس صنف ہے جس کے ذریعے انسان ہر قسم کے جذبات کا اظہار برملا کر سکتا ہے۔ عوام کی اسی شعور سازی کا نتیجہ تھا کہ تین روزہ ایاز میلو کے کسی سیشن یا پرفارمنس کے دوران کوئی سیٹی نہیں بجی، نہ کسی نے لچر جملے کسے، نہ ہوٹنگ ہوئی اور نہ کوئی دھینگا مُشتی دیکھنے میں آئی۔ خواتین کو ایک پنڈال سے دوسرے پنڈال تک جانے میں ایک جم عفیر سے گزرنا پڑتا تھا لیکن مجال ہے کہ کسی نے ہراساں کیے جانے کی ایک شکایت بھی کی ہو۔
ایک پورا پنڈال صرف کتابوں کے اسٹالوں سے سجایا گیا تھا جہاں پاکستان کے کئی بک پبلشرز قارئین کو رعایتی قیمتوں پر کتابیں بیچ رہے تھے۔
ایک اور پنڈال فوڈ کورٹ کا تھا جو کھانے پینے کے مزیدار لوازمات کے کئی اسٹالوں سے بھرا نظر آیا۔ یہاں گول میزوں کے ارد گرد کرسیوں پر بیٹھے ہر عمر کے افراد سردی کی شدت سے گھبرا کر گھر کا رخ کرنے کے بجائے چائے، کافی یا سوپ سے ٹھنڈ کو حتی الامکان کم کرنے کی کوشش میں مصروف تھے۔ دوسری جانب ایک پنڈال روایتی اور ثقافتی ملبوسات اور اشیاء کے اسٹالوں کے لیے مختص کیا گیا تھا۔
سندھ میوزیم کا سب سے بڑا پنڈال خانہ بدوش ہے جبکہ دوسرا ہال ممتاز آڈیٹوریم ہے جہاں تمام سیشن اور پرفارمنس جاری تھیں لیکن ایاز میلو کے ہر پنڈال میں بڑی بڑی ٹی وی اسکرینیں ان شرکاء کے لیے آویزاں تھیں جو میلو کے دوسرے پنڈالوں میں موجود تھے۔ تاکہ تمام لوگ پروگراموں سے بیک وقت محظوظ ہو سکیں۔
ایاز میلو پچھلے دس سال سے کامیابی کے ساتھ ہر سال دسمبر کے مہینے میں سندھ میوزیم حیدرآباد میں منایا جا رہا ہے۔
چند دہائی قبل شیخ ایاز ایک سندھی شاعر کے طور پر پہچانے جاتے تھے۔ سوشل میڈیا کے دور نے شیخ ایاز کی رومانوی اور مزاحمتی شاعری اور فلسفے کو بتدریج ملک کی عوام تک پہنچایا اور آج شیخ ایاز کی شاعری کا ڈنکا ہر جانب بج رہا ہے۔
سن 1923 میں شکارپور کے ایک متوسط گھرانے میں پیدا ہونے والے شیخ ایاز نے وکالت کے ساتھ ساتھ مختصر افسانے لکھنے شروع کیے اور پھر شاعری کی جانب پیش قدمی کی۔ ایاز کی شاعری کا پہلا مجموعہ بھنور بھری آکاس آمریت کی بھینٹ چڑھا اور پابندی کی نظر ہو گیا۔ اس کے بعد دیگر آنے والی کتابیں بھی اس وقت تک پابندی کا شکار رہیں جب تک آمریت کے پنجے ریاست میں گڑے رہے۔ لیکن جب یہ کتب منظر عام پر آئیں تو سندھ میں مزاحمتی ادب و شاعری کے نئے دور کا آغاز ہوا۔
شیخ ایاز نے اردو میں بھی شاعری کی اور کیا کمال شاعری کی۔ شیخ ایاز کا معرکتہ الارا کارنامہ ”شاہ جو رسالو“ کا منظوم ترجمہ ہے جس نے انھیں بین الاقوامی شہرت سے نوازا۔ شیخ ایاز نے منظوم ڈرامے بھی لکھے لیکن افسوس کہ ان کی تخلیقات کے تراجم اس پیمانے پر نہیں کیے گئے جس پائے کے وہ شاعر تھے۔ شیخ ایاز 28 دسمبر 1997 میں آسودہ خاک ہوئے لیکن ان کی ادبی تخلیقات امر ہو گئیں۔
شیخ ایاز کی یاد اور انھیں خراج تحسین پیش کرنے کے لیے سندھ یونیورسٹی کی دو پروفیسرز محترمہ عرفانہ ملاح اور امر سندھو صاحبہ کے علاوہ عرفانہ ملاح کی چھوٹی بہن ذکیہ اعجاز جو ایک مقامی کالج کی پروفیسر ہیں، نے ”ایاز میلو“ کی بنیاد 2015 میں رکھی اور پہلا ہی ایاز میلو منعقد کر کے میلہ لوٹ لیا۔ اس قافلے میں مزید اساتذہ کا اضافہ ہوا جن میں حسین مسرت اور ادی نسیم کے نام قابل ذکر ہیں۔ خواتین ایاز میلو کی روح رواں یہی خواتین ہیں۔
ایسے بڑے میلوں کے انعقاد کے لیے رقم بھی بڑی چاہیے ہوتی ہے۔ قابل تقلید و تعریف ہیں عرفانہ ملاح، امر سندھو اور ذکیہ اعجاز جنھوں نے 6 سال تک بنا سرکاری فنڈ کے خود ایاز میلو کی کفالت کی اور تمام مہمانوں کے سفری، رہائشی اور کھانے پینے کے خرچے اپنی جیب سے ادا کیے۔ بہرحال ساتویں سال سندھ حکومت کے کانوں تک ایاز میلو کے چرچے جب پہنچے تو سندھ کلچرل ڈیپارٹمنٹ نے میلو کے لیے گرانٹ کا بندوبست کیا۔
اس عوامی کاوش میں ان پروفیسر خواتین کے سنگ سینکڑوں مرد اور عورتیں مددگار ہر سال اپنی ان تھک محنت سے اسے ایک کامیاب فیسٹیول بناتے چلے آرہے ہیں۔
میلو شروع ہونے سے ایک ڈیڑھ ماہ پہلے ہی دو سو کے قریب رضا کاروں کو میلے کے اصول و ضوابط، مہمانوں کی آؤ بھگت، کسی ممکنا حادثے سے نمٹنے کی تربیت دی جاتی ہے۔
حال ہی میں منعقد ہونے والے ایاز میلو میں 24 ہزار سے زائد لوگوں نے شرکت کی۔ ملک بھر سے مختلف قومیتوں اور زبانوں سے تعلق رکھنے والے مندوبین کو مدعو کرنا اس میلے کی رنگارنگی میں چار چاند لگا گیا۔ 20 تا 22 دسمبر 2024 کے ایاز میلو کا بنیادی موضوع ”انتہا پسندی سے رواداری“ تھا۔ میلے کی افتتاحی تقریب کے بعد سینیئر صحافی زاہد حسین کی کتاب ”ڈائیلاگ ود ہسٹری“ کی تقریب رونمائی ہوئی۔ جبکہ دیگر پر مغز مذاکروں میں تھل اور چولستان کو دریائے سندھ سے نہروں کے ذریعے پانی کی ترسیل، خشک سالی، تعلیم، سندھ کے نوجوان اور ادبی منظر نامے میں خواتین کے کردار جیسے مسائل پر نور الہدی شاہ، نصیر میمن، جامی چانڈیو، روماسا چانڈیو، ڈاکٹر رفیق میمن، جاوید سومرو، ڈاکٹر ناظر محمود، شہزاد غیاث، عطیہ داؤد، انیس میمن اور عافیہ سلام نے سیر حاصل گفتگو کی۔
عہد رفتگاں کے سیشن میں محترمہ سعیدہ گزدر، محترم رشاد محمود اور جناب راحت سعید مرحوم کی ادبی و سیاسی خدمات پر بات کی گئی۔ کئی کتابوں کی رونمائی بھی ہوئی۔ مشاعرے اور موسیقی کی محفلوں نے میلے کو گل گلزار بنایا۔ میلے میں لاکھوں مالیت کی کتابیں فروخت ہونا اس امر کی علامت ہے کہ سندھ میں آج بھی کتاب خریدنے اور پڑھنے کی روایت زندہ ہے۔
نو سال سے ایاز میلو حیدرآباد میں سندھ اور دیگر صوبوں سے آنے والی عوام اور بالخصوص خواتین کو سیاسی، سماجی شعور کے ساتھ کھل کر سانس لینے کی فضا بھی فراہم کر رہا ہے۔ تاہم اس کے باوجود کچھ عناصر کی جانب سے سوشل میڈیا پر ایاز میلو اور اس کی روح رواں خواتین پر دشنام طرازی زوروشور سے جاری ہے لیکن بقول شیخ ایاز۔
”اس دریا میں جو دہشت ہے
اک دن محشر بن جائے گی
تو اور میں تو بس سندھو میں
اک لہر ابھارے جائیں گے
مرنا ہے ہر اک انسان کو
پر یوں نہ مریں گے ہم
ساتھی کوئی آگ لگا، شعلے بھڑکا
اک نئے کنارے جائیں گے ”
- میں نے کچھ غلط نہیں کیا: سیریز ایڈولینس پر ایک مختلف نقطہ نظر - 06/06/2025
- لیاری۔ مارا ماری سے کانا یاری تک - 02/06/2025
- نسلوں کے گھن چکر - 28/05/2025
Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).