باچا خان: سیکولرازم کا داعی


muhammad suban gul

ایک ہندوستانی صحافی کو انٹرویو دیتے ہوئے باچا خان کہتے ہیں

” جواہر لال جی فرنٹیئر آئے تھے۔ ہمارے رضاکار اسلام زندہ باد اور نعرہ تکبیر کا نعرہ لگا رہے تھے۔ ہندوستان میں تو اس پر بہت جھگڑے ہوتے تھے۔ کہ یہ مسلمان کا نعرہ ہے۔ یہ سکھ نعرہ ہے۔ میں نے جواہر لال سے پوچھا۔

یہ کون ہے؟
انہوں نے کہا میں کیا جانوں؟
میں نے کہا یہ سکھ ہے ”

یہ تربیت خدائی خدمت گاروں کی تھی۔ باچا خان نے اپنی تحریک کی بنیادیں ڈالتے وقت نظریات درآمد نہ کی۔ بلکہ پختون دانش پر ہی بنیادیں استوار کی۔ ”یورپی تہذیب“ کے رگ رگ سے واقف تھے۔ نہ صرف بڑے تہذیبوں کا مطالعہ کیا تھا۔ بلکہ خود دیکھ کر آئے تھے۔

اس درویش پر یہ حقیقت آشکارا ہو چکی تھی۔ کہ اس مٹی میں عرب کی کھجور نہ اُگ پائے گی۔ اس مٹی میں وہی تخم کاشت کیا جا سکتا ہے۔ جو زمان کے گزرنے پر اپنی ارتقائی سفر اسی مٹی میں ہی طے کر پائی ہوں۔ نہ ہی اس مٹی میں ان عقائد و نظریات کا نشو و نما ممکن ہو سکے گی جو کہ یہاں کی نہ ہو۔ جس نے ارتقائی منزلیں اسی زمین پر رہ کر ہی طے کی ہو۔

باچا خان مذہب کو خدا اور انسان کے درمیان ایک رشتہ سمجھتے تھے۔ اب کبھی اس رشتے کو ابن مریم نے بیان کیا۔ کبھی اس رشتے کی نئی بنیادیں حضور عربی نے ڈالی۔ اسپنوزا کا تصور خدا ہو یا ہندوستان میں جنم لینے والے سکھ مت۔ یہ سب اس رشتے کو بیان کرنے کی مختلف جہتیں ہیں۔ ہر کسی کو اختیار کہ وہ جس کسی پر بھی یقین رکھیں یا اگر نہ بھی رکھے تو بھی اس سے وہ رشتہ متاثر نہیں ہونا چاہیے جو انسان کا انسان سے ہوں۔ یہی باچا خان کی سیکولر ازم تھی۔

گندھارا کے سپوت باچاخان کو جب اپنے خدائی خدمت گاروں کی تربیت کرنی تھی۔ تو ان میں سیکولر ازم کے اس چنگاری کو شعلہ بنانا تھا۔ جو اس مٹی میں ہزاروں سال سے موجود تھی۔ کپل وستو کے سدھارتھ کی تعلیمات سے روشن گندھارا تہذیب کے صدر مقام پشکلاوتی میں جنم پانے والے باچاخان کا مذہب امن کا مذہب تھا باچا خان کا مذہب انسانیت کا مذہب تھا۔

مذہب کے نام پر ہندوستان کو تقسیم کرنے والے گوروں نے جب اطالوی زبان کے ”ڈیوائیڈ ایٹ ایمپیرا“ یعنی پھوٹ ڈال کر حکومت کرو، پر سیاست کی داغ بیلیں ڈالنی شروع کی۔ تو سب سے بڑی رکاوٹ باچا خان کے دیس میں آئی۔

1946 کے انتخابات پاکستان یا ہندوستان کے نام پر کرنے والے کو شاید معلوم نہ تھا کہ عدم تشدد کے پیامبر نے اپنی قوم کی ذہنی سطح اتنی اونچی کی ہے، کہ مذہب کے نام پر ورغلانا فقط امرتسر اور کولکتہ میں ہی ممکن الحصول ہو سکے گیا، باچاخان کی پختونخوا میں نہیں۔

مذہب کے نام پر نفرت پھیلانے والوں کے خلاف باچاخان کا یہ تریاق ہمیشہ کارگر ثابت ہوا کہ ایک سکھ اللہ اکبر کا نعرہ لگاتا ہے اور خود باچاخان مندروں میں جاتے ہیں۔ جیل میں قرآن مجید کی تلاوت کے ساتھ گرو گرنتھ صاحب اور ویدوں کو پڑھنے والے باچا خان کو انگریز کبھی دھوکا نہ دے سکے۔

47 کی تقسیم کے بعد سامنے آنے والا ادب جو ہم تک راجندر سنگھ بیدی، سعادت حسن منٹو، عصمت چغتائی اور احمد ندیم قاسمی کے کاموں کے ذریعے پہنچی ہے۔ ان ہولناکیوں کا ذکر کرتی ہے۔ جو ہندوستان میں ہندوستانیوں کے اوپر گزری ہے۔ جو کہ اب ہندو، مسلم اور سکھ بن چکے تھے۔ ان کو پڑھ کر دل خون کے آنسو روتا ہے۔ ان ہولناکیوں سے باچا خان وقت سے بہت پہلے باخبر تھے۔ تبھی تو آخری وقت تک تقسیم کے خلاف تھے۔

اگرچہ پورا ہندوستان تقسیم کے اندوہناک مناظر میں کہیں گم ہو چکا تھا۔ ہر طرف قتل و غارت کا بازار گرم تھا۔ لوٹ مار اور جنسی تشدد یہاں تک کہ جان سے ہاتھ دو بیٹھنے والے فقط ایک نمبر بن کے رہ گئے تھے۔

نواں کلی کے تشدد میں اتنے لوگ مارے گئے۔ کلکتہ میں اتنے عورتوں کو جنسی تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔

امرتسر سے آنے والے قافلے میں اتنے لوگ دریغ آئے۔ مگر باچا خان کی دیس میں جتنے بھی ہندو سکھ عیسائی تھے۔ ان پر آنچ بھی نہ آئی۔ وجہ باچاخان اور خدائی خدمت گاروں کی تربیت تھی۔

پشاور سے جانے والی ہندوؤں سے آج بھی پوچھے۔ وہ فخر سے کہیں گے میں پشاوری ہوں۔
انیل کپور بی بی سی کی ایک انٹرویو میں میزبان سے پوچھتے ہیں۔
آپ کہاں سے ہیں؟
جی میں پشاور سے ہوں۔
اچھا میں بھی پشاور سے ہوں قصہ خوانی بازار سے۔
رشی کپور بتاتے تھے۔ میں چاہتا ہوں کہ رنبیر کبھی اپنے بچوں کو پشاور لے جائے۔
باچا خان کا دیس ایک سیکولر دیس تھا۔ یہ باچاخان کی تربیت تھی۔ یہ خدائی خدمت گاروں کی تربیت تھی۔

مولانا ابوالکلام آزاد ”انڈیا وینز فریڈم“ میں لکھتے ہیں کہ گاندھی جی بھی سردار پٹیل سے ملنے کے بعد کچھ اور ہی انداز میں باتیں کرتے تھے۔ جب ہر طرف سے یہاں تک کہ گاندھی اور نہرو کی طرف سے بھی تقسیم پر آمادگی ظاہر کی گئی۔ تب دور اندیش باچا خان نے تقسیم سے انکار کیا۔

عالمی طاقتوں کے ہاتھوں اپنے ایک ایک ساتھی کو پسپا ہوتے ہوئے دیکھ کر بھی باچا خان کے قدموں میں لرزش تک نہ آئی۔

پہلی بار نہ تھی کہ باچا خان اس سمت میں آگے بڑھ رہے تھے۔ جہاں پر وہ اکیلے تھے۔ دوسرے جنگ عظیم میں بھی پوری کانگرس ایک طرف اور بادشاہ خان دوسری طرف تھے۔ پوری کانگرس غلط ثابت ہوئی۔ باچاخان تاریخ میں سرخرو کھڑے رہے۔

باچاخان اور دوسری جنگ عظیم کے متعلق الگ بلاگ میں۔
زیر نظر تصاویر باچا خان کی مذہبی رواداری اور سیکولر نیچر پر شاہد ہے۔

 

 


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments