ناول ”اندھیرا خواب“ کا موضوعاتی تجزیہ


انسان کے تمام کارفرما عوامل کے پیچھے دماغ اور اس کی پیچیدگیاں ہیں۔ سگمنڈ فرائیڈ کے نزدیک انسانی دماغ شعور، لاشعور اور تحت الشعور میں بٹا ہوا ہے۔ کسی بھی انسان کے گرد انجام پانے والے پسندیدہ اور ناپسندیدہ عوامل یا تو اس کے شعور کا حصہ بن جاتے ہیں یا پھر کہیں لاشعور میں پناہ لیتے ہیں۔ مگر وقتاً فوقتاً اس کا لاشعور اور ماضی اسے اپنے ہونے کا احساس دلاتا رہتا ہے۔ یہ تو طے ہے کہ انسان کبھی بھی اپنے لاشعور سے بھاگ نہیں سکتا اور اسے اپنے ماضی کو اپنے ساتھ لے کر جینا پڑتا ہے۔ کوئی بھی تخلیق کار جب کردار تخلیق کرتا ہے تو اس کردار کے اندر اتر جاتا ہے اور اس کی ذہنی سطح، نفسیاتی تجزیہ اور اس کے مسائل کو اپنی تخلیق کا حصہ بنا کر کسی معاشرتی حقیقت کو واضح کرتا ہے۔ یہ بھی ممکن ہے کہ تخلیق کار اپنی ذہنی الجھنوں کو کسی کردار کے روپ میں پیش کردے۔

اسی طرح کتابوں کی الماری سے حجاب امتیاز علی کا ناول ”اندھیرا خواب“ اٹھاتے ہوئے سوچا کہ اس کتاب کو پڑھنے کے ساتھ اس کے پھٹے سرورق اور صفحات کو بھی درست کرنے کی ضرورت ہے۔ ناول میں مصنفہ نے مرکزی کردار کی ذہنی پیچیدگیوں کو موضوع بنایا ہے۔ کہانی میں صوفی اور روحی دو اہم کردار ہیں۔ صوفی کا کردار نفسیاتی مسائل کی عکاسی کرتا ہے جبکہ روحی کا کردار گویا مصنفہ خود ہے جو صوفی کی پیچیدہ صورتحال کا نفسی تجزیہ ہمارے سامنے رکھتی نظر آتی ہے۔ کہانی کے آغاز میں صوفی اپنے منگیتر اور محبوب ریحانی کی سرخ نکٹائی دیکھ کر وحشت اور غصے میں مبتلا ہوجاتی ہے۔ صوفی کی اس ذہنی کشمکش کی وجہ اس کے بچپن کی نارسائی اور نفرت تھی جو اسے اپنے محبوب باپ کی جانب سے ملی تھی۔ صوفی کا باپ نشے میں چور ہو کر اس کی ماں کو مارتا اور اسے کھلونوں کی طرح اچھالتا تھا۔ اس خوف، وحشت اور نفرت سے صوفی کبھی نہیں نکل پاتی۔ اسی طرح سرخ رنگ کو عموماً غصے اور اشتعال کے ساتھ منسلک کیا جاتا ہے۔ جبکہ سیاہ رنگ اندھیرا، عدم تحفظ اور ڈر کی علامت سمجھا جاتا ہے۔ ذہنی اور نفسیاتی الجھنوں کا شکار لوگ کسی مخصوص رنگ کو دیکھ کر مختلف کیفیات کا شکار ہو جاتے ہیں۔ جیسے ناول میں صوفی سرخ رنگ کو دیکھ کر دیوانگی کے عالم میں مبتلا ہوجاتی ہے۔

یہاں مصنفہ نے بہت عمدگی سے انسان کی شخصیت پر اثر انداز ہونے والے عوامل بیان کیے ہیں۔ کسی بھی بچے کی پہلی پناہ گاہ ماں کی گود اور باپ کی بانہیں ہوتی ہیں۔ ماں اور باپ کا رویہ اور ان کے روز مرہ کے معمولات بچہ دیکھتا ہے اور پھر وہ انہیں عادتوں اور رویوں کے مطابق ڈھل جاتا ہے۔ بچپن کے نقوش سے انسان ساری زندگی چھٹکارا نہیں حاصل کر پاتا۔ ناول سے اقتباس ہے کہ

” نقش اول بگڑ چکا، نقش ثانی پر کون بھروسا کرے؟ اسے ریحانی پر اعتماد نہیں۔ اسے کسی مرد کی محبت پر اعتماد نہیں۔ عالم طفلی میں اس کے محبوب نے اس کا شیشہ دل چکنا چور کر دیا اب جوانی میں ریحانی جیسے باپوں پر کون اعتماد کرے؟ طفلی کے زلزلے نے اس کے شباب کی عمارت کو مسمار کر دیا۔ اب اس خشک اور بنجر زمین پر کوئی پودا نہیں آگے گا۔ کوئی پھول نہیں کھلے گا۔“

انسان کے ماضی میں انجام پانے والے ناپسندیدہ افعال لاشعور سے نکل کر انسان کے سامنے آ کھڑے ہوتے ہیں اور انسان اپنی ہی ذات کی کشمکش میں مبتلا ہو کر رہ جاتا ہے۔ صوفی کو بچپن میں جہاں سے محبت اور توجہ کی توقع تھی وہاں سے ایسے جذبات کا اظہار نہ پا کر وہ ساری زندگی محبت اور اعتبار جیسے احساسات سے محروم ہو جاتی ہے۔ اسے کبھی اپنے منگیتر کی محبت پر یقین نہیں آتا اور وہ ہر لمحے بے وفائی اور جدائی کے وہم میں مبتلا نظر آتی ہے۔ ناول میں روحی کے کردار کے ذریعے مرکزی کردار صوفی کی نفسیاتی صورتحال کو پیش کیا گیا ہے۔ بچپن میں صوفی کو جن حالات کا سامنا ہوتا ہے وہ اس کے ذہن پر نقش ہو کر رہ جاتے ہیں۔ صوفی جیسے کئی کردار ہمارے معاشرے میں موجود ہیں جن کے ذہنی مسائل کے اسباب گھر کا سخت ماحول، والدین کی غفلت یا پھر والدین کی نفرت و حقارت ہے۔ بچے وقت کے ساتھ بچپن کے حالات و واقعات بھول جاتے ہیں مگر ان کے اثرات انسان کی شخصیت جزو لاینفک بن جاتے ہیں۔ پھر وہ یہی جذبات اور احساسات اپنے اردگرد کے دیگر لوگوں میں منتقل کر دیتے ہیں۔ ناول سے ایک اقتباس ہے کہ

”بچے کے دل میں انواع و اقسام کے اندیشے ہوتے ہیں۔ اس لیے وہ والدین یا متعلقین کو محبت کی کسوٹی پر پرکھنا چاہتا ہے۔ بچے کی طرف سے یہ والدین کی آزمائش کا زمانہ ہوتا ہے۔ ایسے نازک موقع پر جب متمدن والدین اس کی بامعنی شرارتوں پر اسے جھٹکتے اور اعلی تربیت کی کڑوی گولی اسے نگلواتے ہیں تو اس کی امیدوں اور آرزوؤں کا پری محل یکلخت مسمار ہو کر گر پڑتا ہے۔ بالفاظ دیگر بچے کو سخت ذہنی دھچکا پہنچتا ہے اور اسے یقین ہو جاتا ہے کہ وہ دنیا میں تنہا ہے۔ کوئی اس سے محبت نہیں کرتا اور بعض وقت محرومی محبت کا یہ احساس اسے تمام عمر پریشان رکھتا ہے۔ وہ بچپن کے اس ذہنی صدمے کی تفصیلات تو بھلا ڈالتا ہے مگر اس کا کردار بدل جاتا ہے۔ جس کا نتیجہ عام طور پر یہ ہوتا ہے کہ وہ بالغ ہو کر زندگی میں کسی پر اعتماد نہیں کرتا۔“

ناول میں دلچسپ موڑ تب آتا ہے جب صوفی روحی اور ڈاکٹر گار کے ہمراہ کیباس جاتی ہے جہاں راستے میں اس کی ملاقات ایک نشئی (انجم) سے ہوتی ہے۔ شراب کی مہک اسے اپنی جانب متوجہ کرتی ہے اور اس پر عجیب وحشت پن چھا جاتی ہے۔ دوسری بار اسی دیوانگی کے زیر اثر صوفی انجم کو تھپڑ رسید کرتی ہے۔ کچھ عرصے بعد ڈاکٹر گار سینی ٹوریم سے بھاگے اس مریض ( انجم) کو انسانیت کے تحت اپنے گھر لے آتے ہیں۔ یہاں انجم کی زندگی کے تاریک گوشے مصنفہ نے بہت عمدہ انداز میں عیاں کیے ہیں۔ انجم کو بچپن میں ماں کی محبت نہیں ملتی اور بعد میں اپنی محبوبہ سے ٹھکرائے جانے کے بعد اسے عورتوں سے نفرت ہوجاتی ہے۔ انجم کا کردار اپنی ذات سے فرار انسان کا کردار ہے جو مختلف چیزیں چرانے کے الزام میں جیل جاتا ہے اور شراب کے نشے میں دھت وہ اپنی زندگی کے آخری ایام کا منتظر تھا۔

مصنفہ نے اس کردار کے ذریعے معاشرے کے دھتکارے ہوئے لوگوں کی نمائندگی کی ہے۔ انسان کو اچھی زندگی گزارنے کے لیے کھانے پینے اور رہائش کے ساتھ ساتھ محبت، تحفظ اور توجہ کی بھی ضرورت ہوتی ہے۔ جب انسان گھر سے محبت کی تلاش میں ناکام ہوجاتا ہے تو اسے باہر تلاش کرتا ہے۔ باہر کی دنیا سے بھی ناکامی حاصل کرنے کے بعد وہ اپنی ذات اور نفع و نقصان سے بیگانہ ہوجاتا ہے، یہی صورتحال انجم کی تھی۔ وہ دنیا کی نفرت اور حقارت کا بدلہ اپنے آپ سے لیتا ہے۔ پھر اسے کوئن فرق نہیں پڑتا کہ وہ اپنے یا پھر دوسرے لوگوں کے ساتھ کس طرز پر برت رہا ہے۔ ناول سے ماخوذ ہے کہ

” انسانی زندگی میں تحفظ کا احساس ایک نعمت عظمیٰ ہے اور انسان کو یہ خوشگوار احساس اس وقت ہوتا ہے جب اسے معلوم ہو کہ اس کے دکھ میں کوئی شریک ہے۔ اس کی ہنسی پر کوئی خنداں ہے۔ ایک بچہ اس وقت تک دودھ کا گھونٹ اپنے حلق سے نیچے نہیں اتار سکتا جب تک اسے اس قسم کے تحفظ کا احساس نہ ہو کہ اس کی شرارتوں اس اور کی محبتوں کو خوش آمدید کہنے کے لیے اس کی آرزؤں کے پس منظر میں مادریت موجود ہے۔ بدقسمتی سے جب یہ خوشگوار احساس مٹ جائے تو وہ اپنے آپ سے خفا ہو جاتا ہے اور اسی جھنجھلاہٹ میں وہ شراب پیتا ہے، بیمار پڑتا ہے۔ چور اور ڈاکو بن کر معاشرتی مجرم بن جاتا ہے۔“

اسی طرح حجاب امتیاز علی نے جیل کے ماحول کو بھی شامل موضوع کیا ہے۔ کسی بھی مجرم کو جیل میں رکھنے کا مقصد اس کی ذہنی اور معاشرتی اصلاح ہونی چاہیے۔ معاشرے میں جیل خانے جرائم کو کم کرنے کے لیے ہونے چاہیے اور اس کے لیے ضروری ہے کہ مجرموں کی اصلاح کرنے کی بھرپور کوشش کی جائے۔ ان کے جرم کے پیچھے کار فرما عوامل کو مدنظر رکھتے ہوئے ان کے ذہنی اور نفسیاتی علاج کا بندوبست کیا جائے۔ مگر بدقسمتی سے کوئی مجرم جیل میں جائے تو وہ جرم کے مزید کارآمد طریقے سیکھ کر باہر کی دنیا میں قدم رکھتا ہے۔

ناول ”اندھیر خواب“ میں جیسے جیسے صوفی کی انجم سے ہمدردی محبت میں بدلتی ہے انجم دوبارہ صحت مند ہونے لگتا ہے۔ صوفی کی یہ ہمدردی اور محبت محض اس لیے تھی کہ لاشعور میں چھپا باپ کا کردار اور صوفی کی محرومیاں شعور میں وارد ہوجاتی ہیں۔ انسان کی محرومیاں اسے ہمیشہ ستاتی ہیں اور ماں یا باپ کے روپ کی جھلک اگر کہیں اور نظر آئے تو انسان فوراً ان کی محبت میں پناہ لینے کا خواہش مند بن جاتا ہے۔ یہاں صوفی عجیب کشمکش میں مبتلا نظر آتی ہے۔ ایک طرف اس کا منگیتر ریحانی اور دوسری جانب انجم سے ہمدردی کا جان لیوا احساس۔ صوفی اس جذبے کو تسلیم کرنے سے انکار کر دیتی ہے کہ اسے انجم سے لگاؤ ہے جبکہ دل ہی دل میں وہ اس احساس پر نادم ہے۔ جونہی صوفی اور ریحانی کی شادی کے دن قریب آتے ہیں صوفی کا پاگل پن اور جنون بڑھنے لگتا ہے۔ وہ دوسروں کے سامنے تو دور کی بات خود اپنے آپ سے اقرار نہیں کر پاتی کہ اسے انجم سے محبت ہو چکی ہے۔

حجاب امتیاز علی اس ناول میں انسانی دماغ اور معاشرتی اقدار کی پاسداری میں جھڑنے والی ایک لاحاصل جنگ جیسے وسیع موضوع کو ناول میں سمیٹتی نظر آتی ہیں۔ انسان کے دماغ میں جس طرح معاشرے کی روایات اور اقدار کو محفوظ کر دیا جاتا ہے وہ تادم مرگ ان کی پاسداری کرتا ہے۔ کبھی کبھی وہ ایسے دوراہے پر آ کھڑا ہوتا ہے جہاں ایک جانب دماغ کے حکم اور ناآسودہ خواہشات جبکہ دوسری جانب معاشرتی پابندیاں موجود ہوتی ہیں۔ جب وہ دونوں میں سے کسی ایک کو چننے کی صلاحیت کھو دیتا ہے تو اپنی ذات سے فرار حاصل کر لیتا ہے۔ یہ فرار بیماری، حواس سے بیگانی یا کسی بھی صورت میں ہو سکتا ہے۔ جیسے ناول کے اختتام پر صوفی درد گلو اور جنونی کیفیت میں مبتلا ہونے کے بعد اپنی تمام تر اذیتوں اور خواہشوں سے چھٹکارا پا لیتی ہے۔

المختصر یہ کہ ناول ”اندھیرا خواب“ انتہائی دلچسپ ناول ہے۔ ناول میں صوفی، روحی، ڈاکٹر گار، دادی، انجم اور ریحانی کے کردار ملتے ہیں۔ روحی کے کردار میں مصنفہ خود باتیں کرتے اور مکالمے تخلیق کرتے موجود ہے اور صوفی کے کردار کی اندرونی توڑ پھوڑ کو منظر عام پر لاتی ہے۔ ناول کی زبان سادہ اور سلیس ہے البتہ ایسے بہت سے جملے ہیں جنہیں پڑھ کر دوبارہ پڑھنے کو جی چاہتا ہے۔ ناول ”اندھیرا خواب“ ضرور پڑھیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments