نادار لوگ: معاشرتی استحصال کا نوحہ


اردو ادب میں ناول نگاری کے معتبر ناموں میں عبداللہ حسین کو نمایاں مقام حاصل ہے۔ وہ اردو کے نامور ادیب، صحافی، افسانہ نگار اور تاریخی ناول نگار تھے۔ ان کا اصل نام محمد خان تھا، لیکن وہ عبداللہ حسین کے قلمی نام سے شہرت رکھتے تھے۔ ان کی وجہ شہرت معروف ناول ”اداس نسلیں“ ہے۔

نادار لوگ عبداللہ حسین کا ایک شاہکار تاریخی ناول ہے، جو 1947 ء سے 1974 ء کے درمیانی عرصے کے واقعات پر محیط ہے۔ اس ناول میں کئی اہم موضوعات کا احاطہ کیا گیا ہے، جن میں قیامِ پاکستان سے قبل ہندو مسلم تعلقات، قیام کے بعد سیاسی و سماجی مسائل، اشرافیہ کا رعایا سے غیر انسانی سلوک، مزدوروں کا استحصال، مشرقی پاکستان میں عسکری کارروائی، سقوطِ ڈھاکہ کے اثرات، مارشل لاء، صحافتی زوال اور بلوچستان میں فوجی آپریشن جیسے موضوعات شامل ہیں۔ مصنف نے کئی تاریخی واقعات اور ملک و قوم کے مسائل پر قلم اٹھایا۔ یہ ناول 1997 ء میں شائع ہوا اور اسے اداس نسلیں کا تسلسل کہا جاتا ہے۔

ناول کا مرکزی کردار اعجاز ہے، جو قیام پاکستان کے بعد ناجائز الاٹمنٹ اور بندر بانٹ کا عینی شاہد ہے۔ اعجاز ایک اسکول ماسٹر ہے اور سیاست میں دلچسپی رکھتا ہے۔ مارشل لاء کے دوران اس پر حکومت مخالف سرگرمیوں کا الزام لگا کر اسے ملازمت چھوڑنے پر مجبور کیا جاتا ہے۔ ناول میں اعجاز کے ذریعے بھٹہ مزدوروں کے مسائل اور ان کے استحصال کی بھرپور عکاسی کی گئی ہے۔ مزدوروں کی یونین کے نام پر ان کا استحصال ان کے اپنے ہی محسن کرتے ہیں۔ قیامِ پاکستان کے بعد اشرافیہ، انگریزوں کے ساتھ مل کر بھٹہ مزدوروں کا استحصال جاری رکھتی ہے، اور ملک کی باگ ڈور قائدِاعظم کے نظریات کے برعکس کم ظرف افراد کے ہاتھوں میں چلی جاتی ہے۔

بھٹہ مزدوروں کو نسل در نسل غلام بنا دیا جاتا ہے۔ اگر کوئی مزدور بھاگنے کی کوشش کرے تو دوسرا بھٹہ مالک اسے پیشگی رقم دے کر پھر سے غلامی میں جکڑ لیتا ہے۔ مزدور سادہ، کم علم اور اپنی قسمت کا لکھا سمجھ کر دن رات محنت کرتے ہیں، مگر اپنے حقوق کے لیے آواز نہیں اٹھاتے۔ اشرافیہ انہیں تعلیم سے بھی دور رکھتی ہے تاکہ وہ غلامی سے آزاد نہ ہو سکیں۔ ابتدا میں کنیز اپنے حق کے لیے مزاحمت کرتی ہے، مگر آخر کار مفاہمت کر لیتی ہے۔ اعجاز مزدوروں پر ہونے والے جبر کے خلاف مزاحمت کرتا ہے اور سیاسی جماعتوں کے جلسے جلوسوں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتا ہے، مگر جلد ہی سیاسی چالاکیوں سے تنگ آ کر اپنی پسندیدہ حکومت سے مایوس ہو جاتا ہے۔

اعجاز ایک صحافی بن کر ملکی حالات پر تجزیے لکھتا اور اپنا رسالہ نکالتا ہے۔ ایک دن اسے ایک خفیہ رپورٹ ملتی ہے جسے وہ کچھ عرصہ سنبھال کر رکھنے کے بعد شائع کر دیتا ہے۔ یہ رپورٹ حمود الرحمٰن کمیشن رپورٹ تھی، جو جسٹس حمود الرحمٰن کی سربراہی میں سانحہ مشرقی پاکستان کے بارے میں تحقیقات کے بعد تیار کی گئی تھی۔ اس رپورٹ میں سقوطِ ڈھاکہ کے ذمہ دار عسکری کرداروں کو بے نقاب کیا گیا تھا، جس کی پاداش میں اسے گرفتار کر لیا جاتا ہے۔ رہائی کے بعد بھی اعجاز اپنے بھائی سرفراز سے اپنی اذیت ناک داستان بیان نہیں کرتا بلکہ اسے نہ تو سرفراز کے کورٹ مارشل اور ملازمت چھوڑنے کے بارے میں جاننا ہے اور نہ اپنے بارے میں بتانا ہے۔ اعجاز کا سرفراز سے مکالمہ ملاحظہ فرمائیں :

”دیکھ سرفراز، اعجاز بولا، تیرا اور میرا خون کا بندھن ہے، ہم ایک ہی ماں اور باپ کی نشانیاں ہیں، مگر اپنے اپنے کاموں میں ہم مرضی کے مالک ہیں اور نتیجوں کے ذمہ دار ہیں۔“

سرفراز جب اس کی تحریریں پڑھتا ہے تو قاری کی طرح اس کے بھی رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں۔ ناول میں آمریت کے دور میں صحافیوں پر ہونے والے مظالم کو موثر انداز میں پیش کیا گیا ہے۔ یہ تاریخی المیہ ہے ہر آمریت کے دور میں صحافیوں کے ساتھ بہت ظلم کیا جاتا ہے۔ آمرانہ نظام میں مقتدرہ صحافتی تنظیموں کو مکمل کنٹرول میں رکھتی ہے۔ سچ کہنے والوں کو اعجاز کی طرح سزائیں دی جاتی ہیں۔ حمود الرحمٰن کمیشن رپورٹ کے بارے میں عنایت اللہ رقم طراز ہیں کہ:

”حمود الرحمٰن کمیشن رپورٹ کو کیوں پردے میں رکھا گیا؟ پھر اس کو غائب ہی کیوں کر دیا؟ اگر بھٹو مرحوم مخلص ہوتے تو وہ حمود الرحمٰن کمیشن رپورٹ عوام کے سامنے رکھ دیتے۔“

ناول کا دوسرا اہم کردار اعجاز کا بھائی سرفراز ہے، جو فوج میں کیپٹن کے عہدے پر فائز ہوتا ہے اور مشرقی پاکستان میں تعینات کیا جاتا ہے۔ اس کردار کے ذریعے جنگ کے مناظر کے بجائے قید کی سختیوں کو نمایاں کیا گیا ہے۔ سرفراز تین سال تک جنگی قیدی رہتا ہے اور قیدیوں کے شب و روز، فرار کے منصوبے اور بھارتی قید میں غیر انسانی سلوک کو خطوط کے ذریعے بیان کرتا ہے۔ بھارت میں قیدیوں کو نہایت نامناسب کھانے دیے جاتے اور انہیں سخت نگرانی میں رکھا جاتا ہے۔

ایک موقع پر قیدیوں سے خطاب کے لیے بدر الدین نامی رہنما آتا ہے، جو گمراہ کن باتیں کرتا ہے، جس پر سینئر افسر اس سے الجھ پڑتا ہے۔ ناول میں بھارتی رہنماؤں کی ذہنیت اور ان کے تعصب کو بھی واضح کیا گیا ہے۔

ناول میں سقوطِ ڈھاکہ کے جنگی مناظر حذف کیے گئے ہیں تاہم سرفراز کے خطوط کے ذریعے سے جنگی قیدیوں کی روزمرہ کی زندگی کو پیش کیا ہے۔ ناول آمریت کے دور میں قانون کی معطلی، آزادیٔ اظہار پر قدغن اور کمزور طبقے کے استحصال کو موثر انداز میں پیش کرتا ہے۔

”اعجاز کہتا ہے کہ وزیر اعظم کے قتل، دو جنگوں، دو مارشل لاء اور تیسری جنگ کیوں ہوئی ہمارے علم میں نہیں۔ اس کی کیا وجہ ہے؟ اس کے نتیجے میں آنی والی مصیبتوں کا کون ذمہ دار تھا؟ ہم بس اندھیرے میں ہی ڈھونڈ رہے ہیں۔ ہمارا المیہ ہے ایک افواہ کے پیچھے لگتے ہیں پھر دوسری افواہ کے آنے سے اس کے پیچھے لگ جاتے ہیں ہم محض الجھے ہوئے ہیں۔“

ناول آمریت کے دور میں قانون کی معطلی، آزادیٔ اظہار پر قدغن اور کمزور طبقے کے استحصال کو موثر انداز میں پیش کرتا ہے۔ اس میں سرمایہ دارانہ نظام، فوجی آمریت، صحافتی دباؤ اور عوامی استحصال کو موضوع بنایا گیا ہے۔ اسلوب کے لحاظ سے یہ ناول اداس نسلیں سے زیادہ پختہ ہے، جس میں بیانیہ، خطوط اور حذف کی تکنیک کو بخوبی استعمال کیا گیا ہے۔ اس کا دائرہ کار نہایت وسیع ہے، جو اسے اردو ادب کا ایک قابلِ ذکر ناول بناتا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments