انگریز اور لاہور
لاہوریوں کی تو بات کیا کریں۔ ہم دوسرے شہروں کے لوگ بھی کسی نہ کسی حوالے سے لاہور کے رومانس میں مبتلا رہے ہیں۔ اس لئے یہ تو طے ہے کہ ہم سب کو پروفیسر عزیز الدین کی کتاب کولونیل لاہور پڑھ کر بہت مزہ آئے گا۔ یہ کتاب دراصل ان کے 1990 کے عشرے میں لکھے جانے والے مضامین کا مجموعہ ہے جسے ان کے چھوٹے بھائی محمد تحسین نے کتابی شکل دی ہے اور اس کا تعارف وجاہت مسعود نے کرایا ہے۔ ان کے بقول ’وہ اور ان کی نسل پروفیسر عزیز الدین اور ان کے رفقا کی احسان مند ہے جنہوں نے سیاہ ترین دنوں میں بھی انصاف، عقل و خرد، آزادی اور انسانی حقوق کا پرچم سر بلند رکھا۔ انہوں نے اس کتاب میں انگریزوں کے سو سالہ دور میں لاہور کے ارتقائی سفر کی داستان قلم بند کی ہے۔ ‘
لاہور کے ادیبوں کے افسانوں میں مال روڈ کا ذکر اکثر پڑھنے کو ملتا ہے۔ اس کتاب کے پہلے باب میں نیپئر کے مال کی بے حد دلچسپ کہانی پڑھنے کو ملتی ہے۔ دوسرا باب لاہور کے باغات کے بارے میں ہے، بادامی باغ کی تاریخ اور پرانے لاہور کے ارد گرد لگائے جانے والے باغات کا ذکر۔ موچی دروازے اور دہلی گیٹ کے باہر کے باغات میں عوامی اجتماعات ہوا کرتے تھے۔ پرانے لاہور کے باہر باغات میں لوگ تفریح کے لئے آیا کرتے تھے۔ یہاں پہلوانوں کے اکھاڑے بھی ہوتے تھے۔ گھاس کے قطعات پر بیٹھ کر پنجابی شعرا اپنے کلام سے سامعین کا دل گرماتے تھے۔ لوگ شطرنج بھی کھیلتے تھے اور درختوں کی چھاؤں میں سستاتے بھی تھے۔ کبھی تو اسکولوں کے طلبہ کے امتحانات بھی ان ہی باغوں میں ہوتے تھے۔ انگریزوں کے زمانے میں بنائے جانے والا سب سے بڑا باغ لارنس گارڈن تھا جو اب باغ جناح کہلاتا ہے۔ انگریزوں نے منٹو پارک بھی بنایا جہاں اب مینار پاکستان ایستادہ ہے۔ مغلوں کے زمانے کے شالامار باغ سمیت دیگر باغات کی بھی انگریزوں نے اچھی دیکھ بھال کی۔
قدیم لاہور جدید تعلیم کا گہوارہ تھا۔ انگریز حکومت کے علاوہ مشنریز نے بھی تعلیمی ادارے قائم کیے۔ گورنمنٹ کالج اور فورمین کرسچن کالج لاہور کے قدیم ترین ادارے ہیں۔ پنجاب کے قدامت پسند اور قوم پرست حلقے مشنری تعلیمی اداروں کو شک و شبہ کی نظر سے دیکھتے تھے۔ اس لئے ہندو، مسلم اور سکھ تنظیموں نے اپنے تعلیمی ادارے قائم کیے، جیسے دیانند آیور ویدک کالج، سنتان دھرم کالج، اسلامیہ کالج اور دیال سنگھ کالج وغیرہ۔ پنجاب انگریز حکومت کے لئے اہمیت رکھتا تھا اس لئے اس نے یہاں تعلیم پر بہت توجہ دی۔
لاہور کے ہالز بھی قابل ذکر ہیں : بارہ دری ہال، لاجپت رائے ہال، برکت علی محمڈن ہال، برٹ ہال اور لارنس اور منٹگمری ہال وغیرہ۔ انگریزوں نے بہت سی لائبریریاں بھی بنائیں۔ پنجاب پبلک لائبریری خاص طور پر قابل ذکر ہے۔ دس اپریل 1862 کو لاہور کے شہریوں نے پہلی مرتبہ ریل گاڑی دیکھی۔
مغلوں اور سکھوں کے بعد انگریزوں کا نظام انصاف سامنے آیا اور ڈپٹی کمشنرز اور سب ڈویژنل افسران مقدمات نمٹانے لگے۔
لاہور تعلیمی اداروں کے ساتھ ساتھ ادبی جرائد اور اشاعت گھروں کے لئے بھی مشہور تھا جیسے تاج کمپنی، قومی کتب خانہ اور دارالاشاعت پنجاب وغیرہ۔ مال روڈ پر واقع وائی ایم سی اے ہال میں حلقۂ ارباب ذوق کے اجلاس ہوتے تھے۔ بہت سے مشہور ادیب اور شاعر لاہور میں رہتے تھے۔ 1947 تک لاہور سے بائیس ادبی جرائد شائع ہوتے تھے جیسے ہمایوں، عالمگیر، ادبی دنیا، ادب لطیف وغیرہ۔
انگریزوں نے بہت سے کلب بھی بنائے، پنجاب کلب، لاہور جمخانہ وغیرہ۔ خاموش فلموں کے دور میں لاہور میں فلمی صنعت کی آمد ہوئی۔ پھر ٹاکیز کا دور آیا اور لاہور میں فلمی اسٹوڈیوز بنے۔ فلمی ستارے سامنے آئے۔ کالجوں کے ڈرامیٹک کلبوں سے با صلاحیت اداکار سامنے آئے۔ مصوری کی روایت پہلے سے تھی۔ انگریزوں نے میو اسکول آف آرٹس کے ذریعے مغربی مصوری متعارف کرائی۔ اس زمانے کی ایک مشہور مصورہ امریتا شیر گل تھیں۔ یہاں بہت سے مشہور گلوکار بھی تھے۔ محمد رفیع لاہور سے ہی بمبئی گئے تھے۔ لاہوری کشتی کے بہت شوقین تھے اور یہاں بہت سے اکھاڑے تھے۔ لاہور کا مشہور ترین دنگل 1923 میں منٹو پارک میں گونگا پہلوان اور امام بخش رستم ہند کے درمیان ہوا تھا۔
انگریزوں کے دور میں پانچ نوبل انعام یافتگان کا تعلق کسی نہ کسی طرح لاہور سے رہا۔ ان میں رڈیارڈ کپلنگ، سبرا منیان چندر شیکھر، آرتھر ایچ کامپٹن اور ہرگوبند کھرانہ اور جھنگ سے لاہور پڑھنے کے لئے آنے والے ڈاکٹر عبدالسلام شامل ہیں۔
انگریزوں کے دور میں لاہور کے لئے گراں قدر خدمات انجام دینے والے مقامی لوگوں اور اداروں میں سردار دیال سنگھ، سر گنگا رام اور انجمن حمایت اسلام شامل ہیں۔
1857 کی جنگ آزادی کے بعد پنجاب میں جو مزاحمتی کردار سامنے آئے۔ ان میں سر فہرست احمد خان کھرل ہیں۔ 1907 میں انگریزوں نے رسوائے زمانہ ’پنجاب نو آبادیاتی بل متعارف کروایا۔ اس قانون کے خلاف احتجاجی تحریک چلانے والوں کے رہنما لالہ لاجپت رائے اور سردار اجیت سنگھ تھے جو بھگت سنگھ کے انکل (انگریزی میں ددھیال ننھیال کی تفریق نہیں ہوتی) تھے۔ اس زمانے میں لاہور سے کئی اخبارات اور رسائل نکلنا شروع ہوئے جن میں ہفت روزہ پنجابی اور زمیندار اخبار شامل تھے۔ اپریل 1919 میں انگریزوں کے خلاف احتجاجی مظاہرے شروع ہوئے اور سولہ اپریل کو لاہور میں مارشل لا لگا دیا گیا۔ یہ ہندوستان کی تاریخ کا پہلا مارشل لا تھا۔ لوگوں کو کوڑے، قید اور جرمانوں کی سزائیں سنائی گئیں۔ اس کے گیارہ سال بعد بھگت سنگھ اور اس کے ساتھیوں نے ”انقلاب زندہ باد“ کے نعرے لگاتے ہوئے پھانسی کے پھندے کو چوما۔ لاہور سے محبت کرنے والے ہر شخص کو یہ کتاب ضرور پڑھنی چاہیے۔
- خواب، محبت اور زندگی (4) - 25/03/2025
- خواب، محبت اور زندگی (3) - 25/03/2025
- خواب، محبت اور زندگی( 2 ) - 23/03/2025
Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).