پارسی: ایک چھوٹی سی برادری
پارسی ان زرتشتیوں کو کہا جاتا ہے جو برِّصغیر پاک و ہند میں ایرانی پناہ گزینوں کی اولاد ہیں۔ یہ زرتشی مذہب کے لوگ چھٹی صدی عیسوی میں ایران پر ہونے والے حملے عربوں کے قبضے کے بعد وہاں سے ہجرت کر کے ہندوستان پہنچے اور وہیں آباد ہو گئے۔ پارسیوں نے تاریخی طور پر جنوبی ایشیا کی سماجی، اقتصادی اور ثقافتی ترقی میں نمایاں کردار ادا کیا ہے۔ پاکستان کے خطے میں ان کی وراثت ان کی قومی تعمیر اور معاشرتی فلاح و بہبود کے عزم کا مظہر ہے۔ بیسویں صدی میں ہندوستان کی تقسیم کے بعد جب ایک طرف سیکولر ہندوستان اور دوسری طرف مسلم اکثریتی پاکستان وجود میں آیا، تو کئی پارسیوں نے پاکستان میں رہنے کا فیصلہ کیا اور اس ملک کی ترقی میں اہم کردار ادا کرتے رہے۔
پارسی برادری تجارت اور صنعت کے میدان میں صف اول میں رہی ہے۔ وہ صنعت کار اور تاجر کے طور پر نمایاں مقام رکھتے ہیں اور انہوں نے ایسی صنعتیں قائم کیں جنہوں نے ملکی معیشت کو مستحکم کیا۔ ان میں سب سے نمایاں نام جمشید نسروانجی مہوٹا کا ہے جنہیں ”بابائے کراچی“ کہا جاتا ہے۔ وہ 1933 سے 1934 تک کراچی کے پہلے منتخب میئر رہے اور اس دوران کراچی کو ایک چھوٹے سے بندرگاہی قصبے سے ایک جدید شہر میں تبدیل کرنے میں اہم کردار ادا کیا۔ ان کی قیادت میں سڑکوں، نکاسی آب، اور تعلیمی اداروں کی ترقی ہوئی جس سے کراچی کے مستقبل کی بنیاد رکھی گئی۔ پارسیوں کی ملکیت میں چلنے والے کاروبار، جیسے شپنگ اور ٹیکسٹائل کی صنعتیں، ملازمت کے مواقع فراہم کرتی رہیں اور ملک کی اقتصادی ترقی میں مددگار ثابت ہوئیں۔
پارسی برادری سماجی فلاح و بہبود اور کمیونٹی سروس میں بہت سرگرم رہی ہے۔ ان کی فلاحی سرگرمیوں نے تعلیم، صحت اور دیگر سماجی مسائل کے حل میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ پارسی برادری ہمیشہ سماجی انصاف اور برابری کے اصولوں پر یقین رکھتی رہی ہے، جو ان کے زرتشتی عقیدے میں گہرے طور پر جڑے ہوئے ہیں۔
ایدلجی ڈنشا ایک معروف مخیر شخصیت تھے، جنہوں نے کراچی میں ہسپتالوں، اسکولوں اور کمیونٹی سینٹرز کے قیام میں دل کھول کر عطیات دیے۔ لیڈی ڈفرن ہسپتال، جو انیسویں صدی کے اواخر میں قائم ہوا، آج بھی ان کے ویژن کی علامت ہے جو خواتین کے لیے معیاری طبی سہولیات فراہم کرنے کے لیے قائم کیا گیا تھا۔
پارسی برادری کی سماجی خدمات کی وجہ سے کراچی میں انہیں ”پارسی، تیرا دوسرا نام خیرات“ کے لقب سے یاد کیا جاتا تھا۔ جب کراچی کی آبادی میں اضافہ ہوا تو پانی کی قلت ایک بڑا مسئلہ بن گئی۔ جن کے پاس وسائل تھے، انہوں نے اپنے گھروں میں کنویں کھدوائے، جبکہ باقی لوگوں کو پانی کے لیے دور جانا پڑتا تھا۔ یکم جنوری 1861 کو، نوجا بائی، جو دادا بھائی شاپور جی کوٹھاری کی بیوہ تھیں، نے رتن تلاؤ پر پارسی برادری کے لیے ایک کنواں کھدوایا۔ بعد میں، 1869 میں، ایک سماجی شخصیت شاپور جی سوپار والا نے عوامی استعمال کے لیے ایک اور کنواں بنوایا اور اسے بلدیہ کے حوالے کر دیا۔ 1865 میں کراچی میں شدید بارشوں اور سیلاب کے بعد جب شہر میں ہیضے کی وبا پھیل گئی تو پارسی کمیونٹی نے ایک بار پھر عوام کی مدد کے لیے قدم بڑھایا اور کپڑے، خوراک اور دوائیں تقسیم کیں۔ ایک نمایاں پارسی شخصیت ہورموس جی سہراب جی کوٹھاری تھے، جو فوج کے ایک کامیاب ٹھیکیدار ہونے کے ساتھ ساتھ ایک مخیر انسان بھی تھے۔
پارسی برادری تعلیم کے میدان میں بہت متحرک رہی ہے اور انہوں نے پاکستانی عوام کو تعلیمی سہولیات فراہم کرنے میں اہم کردار ادا کیا۔ کراچی میں واقع ماما پارسی گرلز سیکنڈری اسکول اور کچھ اور پارسیوں کے اسکول نسلوں سے پارسیوں اور غیر پارسیوں کو معیاری تعلیم فراہم کرتے آئے ہیں۔ برطانوی دور میں قائم شدہ ”پرنس آف ویلز انجینئرنگ کالج“ کو 1924 میں نادر شاہ ایدلجی ڈنشا نے خرید لیا جسے ان نام کے سے منسوب کر دیا گیا۔ بعد میں ان کے خاندان نے ادارے کی ترقی کے لیے بڑی مالی امداد فراہم کی اور یہ کالج پاکستان کی سب سے قدیم انجینئرنگ یونیورسٹی ”این ای ڈی انجینئرنگ یونیورسٹی“ میں تبدیل ہو کر مشہور ہوا۔
پارسی برادری نے پاکستان کی ثقافت، ادب اور صحافت میں بھی اہم کردار ادا کیا۔ کراچی، جو کہ پارسیوں کا ایک بڑا مرکز رہا ہے، وہاں ان کی سرپرستی میں موسیقی، تھیٹر اور فنون لطیفہ کو فروغ حاصل ہوا۔ بلوچستان میں انگریزی صحافت کی بنیاد بھی پارسیوں نے رکھی۔ مارچ 1888 میں ایک پارسی شخصیت، نوسروان جی مانچر جی نے وکٹوریہ پریس قائم کیا، جو ”بلوچستان ایڈورٹائزر“ ، ”بارڈر ویکلی نیوز“ ، ”بلوچستان گزٹ“ اور ”ڈیلی بلیٹن“ جیسے اخبارات شائع کرتا رہا۔ یہ پریس 1935 میں کوئٹہ میں آنے والے شدید زلزلے کی وجہ سے تباہ ہو گیا۔ معروف پارسی کالم نگار اردشیر کاؤس جی ایک بے باک صحافی تھے جو پاکستان میں بدعنوانی اور ناقص حکمرانی کے سخت ناقد تھے۔ ان کے کالمز ملک کے قدیم ترین انگریزی اخبار ”ڈان“ میں شائع ہوتے رہے۔ 1973 میں وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو نے انہیں پاکستان ٹورازم ڈویلپمنٹ کارپوریشن (پی ٹی ڈی سی) کا منیجنگ ڈائریکٹر مقرر کیا، لیکن 1976 میں انہیں 72 دن کے لیے جیل بھیج دیا گیا، جس کی کوئی وجہ آج تک نہیں بتائی گئی۔ بپسی سدھوا ایک مشہور انگریزی ناول نگار تھیں، جن کا انتقال چند ہفتے قبل 25 دسمبر 2024 کو ہوا۔ ان کے ناولوں کی کہانیوں پہ انڈو کینیڈین فلم ساز دیپا مہٹا نے دو فلمیں بھی بنائیں۔ ان کے مشہور ناولوں میں ”آئس کینڈی مین“ ، ”واٹر“ ، اور ”کرو ایٹرز“ شامل ہیں۔ انہیں 1991 میں ”ستارۂ امتیاز“ سے نوازا گیا۔
پارسی برادری ہمیشہ بین المذاہب ہم آہنگی اور پرامن بقائے باہمی کی داعی رہی ہے۔ ان کا فلسفہ ”نیک سوچ، نیک الفاظ، نیک اعمال“ پاکستانی معاشرے میں ان کی مثبت خدمات کا عکاس ہے۔
پارسی برادری آج کئی چیلنجز کا سامنا کر رہی ہے، جن میں کم شرح پیدائش اور پاکستان میں مذہبی انتہا پسندی کے باعث ہجرت شامل ہیں۔ تاہم، ان کی میراث
پاکستان میں پارسی برادری کی وراثت ترقی، خیرات، اور قومی تعمیر کی ایک درخشاں مثال ہے۔ پاکستان میں بہت کم لوگ ان کی نمایاں خدمات سے واقف ہیں۔ حکومتی با اثر حلقے زیادہ تر مسلم کمیونٹی کے قدامت پسند رجحانات رکھنے والے ہیروز کو سراہتے ہیں، جبکہ دیگر افراد کو شاذ و نادر ہی تعلیمی اور تاریخی کتب میں ذکر یا پذیرائی ملتی ہے۔
پاکستان میں پارسی برادری کی خدمات کو تسلیم کیا جانا چاہیے اور منایا جانا چاہیے، تاکہ ان لوگوں کو مناسب خراج تحسین پیش کیا جا سکے جنہوں نے عوام کی خدمت کی اور معاشرے میں شمولیت کی اہمیت کو اجاگر کیا۔
(یہ مضمون ’تم اپنے چراغوں کی حفاظت نہیں کرتے‘ کی نویں قسط ہے )
- پہلا قدم - 17/03/2025
- آج کے لات و عزّیٰ - 23/02/2025
- پارسی: ایک چھوٹی سی برادری - 07/02/2025
Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).