جان سے پیاری ”بیا“ کے نام


جدائی کا غم اگر اتنا گہرا اور پر اذیت نہ ہوتا تو اللّٰہ کے پیغمبر حضرت یعقوب علیہ السلام اپنے پیارے بیٹے حضرت یوسف علیہ السلام کی جدائی میں اتنا گر یہ نہ فرماتے کہ ان کی آنکھوں کی روشنی ہی جاتی رہتی۔

جب زندگی جیسے قیمتی شخص کی جدائی کا کاری زخم دل پر لگ جاتا ہے تو وہ زخم شفا یاب نہیں ہو پاتا۔ برس ہا برس بعد بھی ایک گہرا درد اک مسلسل ٹیس کی صورت اپنے ہونے کا احساس یقیناً دلاتا رہتا ہو گا۔

اور جب جدائی کسی جان سے پیارے رشتے کی ہو اور دائمی بھی ہو پھر نہ تو اس تکلیف اور اذیت کا مداوا ہو سکتا ہے اور نہ ہی یہ کسی انسان کے خود کے اختیار میں ہوتا ہے۔

ایسے زخموں پر صبر کرنے کا حکم خدا کی طرف سے ہے۔ بے شک صبر کرنا بہت مشکل ہے، مگر اس کے اجر کا وعدہ بھی خدائے مہربان کی طرف سے ہے۔ کیونکہ صبر اختیار کرنا آسان نہیں ہوتا اس لئے اس کا اجر بے حساب ہے اور بے شمار ہے۔

انسان سب ایک جیسے حالات سے گزرتے ہیں ہر ایک اپنے دل میں کسی نہ کسی پیارے کی جدائی بیماری یا تکلیف کے غم کو خاموشی سے سہ رہا ہوتا ہے شاید اس لئے ہر انسان ہمدردی کے لائق ہے ہر ایک شخص تسلی کا مستحق ہے۔

کہیں پڑھا تھا کہ سب سے مشکل جنگ وہ ہوتی ہے جو ایک انسان خود اپنے آپ سے لڑتا ہے۔ اب سمجھ آتی ہے کہ واقعی ہر انسان کہیں نہ کہیں خود سے ایک جنگ لڑ رہا ہوتا ہے۔ کوئی اپنے بچوں کی بھوک پیاس یعنی غربت کی جنگ لڑنے میں مصروف ہے۔ تو کوئی اپنے کسی پیارے کی بیماری کی وجہ سے دل ہی دل میں پریشان ہے اور کوئی انہونی اور ناگہانی کے وقوع پذیر ہو جانے کے بعد کے کرب کو اپنی روح پر جھیل رہا ہوتا ہے۔

ہم میں سے بہت سے لوگ روز آفس جاتے ہیں

یا پھر روزی روٹی کے لئے کہیں اور کام کرتے ہیں۔ وہاں بظاہر سب نارمل انداز میں اپنے کام نمٹا رہے ہوتے ہیں۔

ایسے میں کسی سے کام کے دوران خلاف معمول کوئی غلطی ہو جائے اور بار بار سر زد ہو رہی ہو لوگ عموماً اسے ڈپٹ دیتے ہیں یا کڑوی کسیلی طنزیہ گفتگو کرتے ہیں۔ کوشش کریں ایسا نہ ہو اس شخص کو جھڑکی مت دیں اسے بٹھا کر اس کی احوال پرسی کریں۔ ہو سکتا ہے وہ بھی اپنے کسی پیارے کی جدائی کی اذیت ناک کیفیت کے خلاف خود سے جنگ میں مصروف ہو۔ اپنوں کی جدائی کے کرب کو اپنی ذات پر خاموشی سے سہنا بالکل بھی آسان نہیں ہوتا۔

کوئی ماں باپ کے بچھڑ جانے کے غم کو رو رہا ہوتا ہے تو کوئی بہن بھائی جیسے محبت بھرے رشتوں کی دائمی جدائی کے زخم دل میں چھپائے معمول کے کام نمٹا رہا ہوتا ہے، تو کوئی اولادوں کے صدمے اٹھائے پھر رہا ہوتا ہے۔ انسان کے اندر کی کیفیت بھانپ سکنے کا کوئی پیمانہ نہیں ہوتا اس کے لئے صرف احساس کی زباں سے آشنائی ہونی چاہیے۔ اگرچہ اب دوسروں کے لئے احساس اور دلجوئی جیسے جذبے ناپید ہو چکے ہیں مگر اب بھی اگر رواداری برتی جائے تو اس سے زیادہ خوب صورت اور کوئی چیز نہیں ہو سکتی۔

مجھے یہ ساری باتیں یہاں لکھنے کی ضرورت اس لئے بھی محسوس ہو رہی ہے کہ میں نے حال ہی میں اپنی جان سے پیاری، ذہین، اندر اور باہر سے یکساں طور پر حسین، سب کے خوابوں میں رنگ بھرنے والی، سب کی مدد پہ ہر دم آمادہ رہنے والی نرم رو اور نرم مزاج، زندگی سے بھرپور، جواں سال بہن کا جانا دیکھا ہے۔ اور اس کی جدائی کے صدمے سے دو چار رہتے رہتے سماج کے بھدے اور بد رنگ چہرے سے بھی تھوڑی آشنائی حاصل کی ہے۔ جب میرے ایک بھائی اور بہن کو محض ایک ہفتے کے بعد ہی ان کے دفاتر سے بلاوا آ گیا کہ ”اب آ جائیں آفس کے کام بھی تو کرنے ہیں“ ۔ میں جانتی ہوں کہ ہمارے ملک میں جابز کا ملنا آسان نہیں ہے ہر کسی کو گھر دیکھنا ہے۔

زندہ رہنے کے اسباب کرنے ہیں۔

میں یہ بھی جانتی ہوں کہ جب کوئی بے حد اپنا دنیا سے چلا جاتا ہے تو اتنی آسانی سے نہ یقین آتا ہے نہ ہی صبر۔ ایک بہت پیارا رشتہ جسے آپ اپنے ہاتھوں سے زمیں کے حوالے کر آتے ہیں جس کے لئے کبھی آپ نے سوچا بھی نہیں ہوتا اور اس تلخ حقیقت کا ادراک ہونے کے باوجود بھی دل یقین کرنے کو تیار نہیں ہوتا۔

ماننے کے لئے تیار نہیں ہوتا

آپ اس کو بلا کر اسے آفس کی ذمہ داریاں سونپنا چاہ رہے ہیں۔ اس کو سپیس دینے کی بجائے آپ اپنے کاروباری نفع نقصان کا سوچ رہے ہیں۔

کبھی کبھی دنیاوی مال و اسباب کی جگہ انسانیت کا چناؤ بھی کر لینا چاہیے اس سے روح خوش ہوتی ہے، اور اس نیکی سے آپ کو جو تسکین اور دعائیں ملتی ہیں وہ شاید ہر عبادت سے بڑھ کر ہوتے ہیں۔ اس لئے لواحقین کے صدموں کو سمجھنے کی کوشش کریں۔

ان کی تکلیف کے وقت میں دلاسا دینے کے لئے دفاتر کا کام شارٹ سٹاف مینجمنٹ کے ذریعے بھی تو مینیج کیا جا سکتا ہے۔

اس کے لئے انہیں زیادہ نہیں محض دو ہفتوں کی رخصت تو عنایت کی جا سکتی ہے۔

ہر شخص کبھی نہ کبھی کسی بہت عزیز رشتے کو ہمیشہ کے لئے کھو دیتا ہے۔ چاہے وہ کسی ادارے کا باس ہو یا اسٹاف، زندگی میں موت کا دھڑکا سب کے ساتھ ہوتا ہے، ہر ایک کے ساتھ جان سے پیاروں کو کھونے کے خدشات لگے رہتے ہیں۔ تو اس کرب اور صدمے سے وہی واقف ہوتے ہیں جو اس غم سے گزر چکے ہوں یا پھر آپ کو اللّٰہ نے ایک اچھا دل دے رکھا ہو۔

یہ بات بھی سب جانتے ہیں کہ اپنوں کی جدائی گھن کی طرح روح کو چاٹ جاتی ہے۔ جن کے بغیر زندگی کا تصور بھی نہ کیا جا سکتا ہو وہ اگر آپ کو ہمیشہ کے لئے چھوڑ جائیں تو یہ دنیا بالکل اچھی نہیں لگتی۔ جینے کا مصرف ختم ہوتا دکھائی دیتا ہے اس دنیا میں کہیں بھی دل نہیں لگتا۔

اس لئے خدارا! آسانیاں بانٹیں لوگوں میں خیر تقسیم کرنے کی کوشش کریں۔ اس سے خدا آپ کے مشکل وقت میں آپ کے لئے بھی آسانیاں پیدا کرے گا۔

جانے والے تو خدا کی رحمتوں کے سائے میں چلے جاتے ہیں مگر جنہیں چھوڑ کر جاتے ہیں انہیں زندگی کا سفر دوبارہ زیرو سے شروع کرنا پڑتا ہے۔

انہیں چاہے صبر کی جتنی تلقین کی جائے صدمے کے اثر سے نکلتے نکلتے شاید زندگی کا آخر آ جاتا ہے ۔

اس انسان کی ساری زندگی خود کو یہ یقین دلاتے دلاتے ہی گزرتی ہے کہ جو بچھڑ گئے ہیں وہ واقعی جا چکے ہیں۔ ان کے بغیر اب کوئی تہوار، تہوار نہیں لگے گا، کوئی عید، عید نہیں ہو گی۔ بس ایک رسم ہو گی جو چاہے ان چاہے نبھانا پڑے گی۔ جیسے بہت کوشش کر کے زندگی، نبھانا پڑے گی۔

اب نہ ان کی آہٹیں ہوں گی نہ آوازیں، پھر آپ کا نام ساری زندگی اس پیار بھری صدا کو ترسیں گے۔ کیونکہ ہمارا نام پیار سے پکارنے والے اب خاموشی اوڑھ کر ابدی نیند سو چکے ہیں۔ جن کے ہوتے ہوئے کوئی غم، غم نہ لگتا تھا اب ان کے مہربان وجود کو گھر کے در و دیوار ترسیں گے۔ ان کا ہونا ایک خواب بن جائے گا جو تعبیر کی سچائی کو ترستا رہے گا۔ وہ اب جا چکے ہیں کبھی بھی واپس نہ آنے کے لئے۔ اب ان کی یادوں کے سرمائے کو سینت سینت کر رکھنا پڑے گا جو زندگی بتانے میں مدد دے گا۔ اپنی جان جیسی پیاری بہن کی محبت میں لکھی ہوئی میری اپنی تخلیق شدہ نظم کا کچھ حصّہ یہاں درج کر رہی ہوں۔

جان سے پیاری، صبح جیسی
روشن روشن آنکھوں والی
میں نے ایسا کب سوچا تھا؟
تیرے بن بھی جینا ہو گا
زہر جدائی پینا ہو گا
کان ترستے رہتے ہیں اب
تیری باتیں سننے کو
کیسے بھولیں گے ہم تیرا
نرم ہواؤں جیسا لہجہ
سارا وقت یہی ہوتا ہے
تیری یاد میں روتے ہیں ہم
تیری یاد میں جاگتے ہیں اور
تیری یاد میں سوتے ہیں ہم
دن کے سارے پہروں پر
تیری سوچیں لکھتے ہیں ہم
راتیں گہری، لمبی راتیں
تیرے بعد ڈراتی ہیں اب
اتنی چپ ہیں، اتنی چپ ہیں
چپ کا شور مچاتی ہیں اب
ہم نے سنا ہے اور دیکھا ہے
سب نے جانا ہوتا ہے پر
ایسا بھی کیا جلدی جانا
کچھ نہ کہنا کچھ نہ بتانا
ایسا بھی کیا جلدی جانا؟
ابھی تو ہم نے سنگ چلنا تھا
ہر اک خواب میں رنگ بھرنا تھا
تیرے خوش امید دلاسے
نرم تسلی جیسی راحت
کیسے ڈھونڈیں کدھر تلاشیں
تپتی جھلستی دھوپ میں کیسے
ہم کو تنہا چھوڑ گئی ہے
جان سے پیاری اچھی ”بیا“
سب کے دل ہی توڑ گئی ہے
موسم تیرے ہونے سے تھے
خوشبو والے خوشیوں والے
بارش کا یہ موسم بھی اب
دل کو چھو نہیں پاتا ہے
بس تیری یاد دلاتا ہے
اب تو فقط اک دھوپ کڑی ہے
ہجر کی کالی چادر اوڑھے
جیون کے اس دھوپ سمے میں
جینا ہے بس اس لمحے تک
جب تجھ سے پھر ملنا ہو گا
لیکن اس بے مہر سفر میں
جانے کتنا چلنا ہو گا؟
سوچتی رہتی ہوں اب ہر دم
صبح مزاج لوگوں کا بھی
شام کا سورج ڈھلتا تو ہے
چاہے جتنا زندہ ہو وہ
خواب بھی آنکھ کا مرتا تو ہے
جینے کے سب ڈھنگ سکھا کر
ہم میں اپنے رنگ سما کر
خوشبو اوڑھ کے سو گئی ہے تو؟
جان سے پیاری اچھی ”بیا“
کیا واقعی ہم سے کھو گئی ہے تو؟


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments