”آنکھ اور اندھیرا“ کا کرداری مطالعہ


سیدہ عفرا بخاری نے افسانے تخلیق کرنے کا آغاز ساٹھ کی دہائی میں ”لیل و نہار“ سے کیا اور پھر اُردو افسانے کے سنجیدہ قارئین کے قلب و ذہن کو طویل عرصے تک متاثر کرتی رہیں۔ اپنے عہد کے مؤقر جرائد، جیسے سویرا، سیپ، نقوش، ادب لطیف، ماہِ نو اور فُنون نے ان کے افسانوں کو اپنے صفحات کی زینت بنایا۔ ان کا پہلا افسانوی مجموعہ ”فاصلے“ کے عنوان سے 1964 ءمیں میری لائبریری، لاہور سے شائع ہوا تھا اور ”آنکھ اور اندھیرا“ 2009 ءمیں سانجھ پبلی کیشنز، لاہور نے شائع کیا ہے۔ اس کے علاوہ، ”نجات“ ، ”ریت میں پاؤں“ ، ”لکڑیوں کا گٹھا“ اور ”سنگِ سیاہ“ بھی ان کے افسانوں کے مجموعے ہیں جو ان کی فنِ افسانہ نگاری پر مہارت کی دلیل ہیں۔ 1964 ءسے 2021 ء تک ایک طویل تخلیقی سفر ہے جس میں انھوں نے انسانی نفسیات، سماج کی ناہمواریوں اور فرد کی باطنی پیچیدگیوں کو فنکارانہ مہارت سے افسانوں کا موضوع بنایا ہے۔ ان کا مُشاہَدہ اتنا عمیق ہے کہ وہ اپنے کرداروں کے باطن میں اُتر کر ان کی اصلیت کا کھوج لگا لیتی ہیں۔ تجریدی افسانوں کے برعکس، انھوں نے کہانیوں کا مواد خارجی ماحول سے کشید کیا ہے۔ تخلیق کے چرخے پر تجرِبات و مُشاہَدات کے سہارے، کہانیاں کاتنے کا جو جوکھم انھوں نے اٹھایا ہے، وہ اُردو افسانے میں تادیر یاد رکھا جائے گا۔ ان کے افسانوں کی فضا چوں کہ مقامی اور روز مرہ زندگی کی عکاس ہے اس لیے قاری خود کو غیر مانوس یا بیزار کن فضا میں اُلجھا ہوا، محسوس نہیں کرتا۔ یہی وجہ ہے کہ ان کے افسانوں کے کردار بھی ٹائپ نہیں ہیں۔ اُنھوں نے معاشرے کے ایسے کردار چُنے ہیں جنھیں حالات کا جبر دن بہ دن ذلت و خواری کی جانب دھکیل رہا ہے۔ وہ حالات سے نبرد آزما ہونے کی کوشش کرتے ہیں لیکن وقت اور حالات کے جبر کے سامنے کس کی چلتی ہے؟ یوں وہ بے بسی کا مرقع بن جاتے ہیں۔

جیسے ”آنکھ اور اندھیرے“ کی فرخندہ، ”ہدف“ کا سویپر، ”کمبل کا سوراخ“ کا سراج اور ”اپنا سا منھ“ کی نفیسہ وغیرہ، اس کی بہترین مثالیں ہیں۔ کچھ کرداروں پر مصنفہ نے خاص محنت کی ہے جس سے وہ قاری کے ذہن پر ایسے نقش ہوتے ہیں جنھیں بھلایا نہیں جا سکتا۔ افسانہ ”ہدف“ کا سویپر اس کی بہترین مثال ہے۔ اس کا انتخاب ایسے طبقے سے کیا گیا ہے جسے ہمیشہ حقارت اور کراہت بھری نظر سے دیکھا جاتا ہے۔ شہر کے آوارہ کُتوں کو تلف کرنا اور دفتر میں موجود چوہوں کو مارنا، اس پر اُسے خاص دسترس حاصل ہے۔ انھیں مارتے ہوئے وہ ظالم اور سفاک بن جاتا ہے۔ خود گالیاں کھانے والا، اُنھیں گالیاں دیتا ہے۔ وہ ساری سختی جو خود برداشت کرتا ہے، اسے نیچے کتوں اور چوہوں پر منتقل کر دیتا ہے۔ اس سے، شاید اسے کوئی نفسیاتی تسکین میسر آتی ہو۔ ملازمت سے ریٹائر ہونے کے بعد وہ اپنی بہو کے ہاتھوں ذلت اور نفرت کا سامنا کرتا ہے جیسے تذلیل اس کے مقدر میں لکھ دی گئی ہو۔ ”چٹی“ کے ساتھ اس کا سلوک، اس کی شخصیت کی کئی اور پرتوں سے پردہ وا کرتا ہے۔ مذکورہ کردار قاری کو کہانی سے نہ صرف جوڑ کر رکھتا ہے بلکہ اس کے احساسات کو بھی متحرک کرتا ہے۔

عفرا بخاری کا یہ کردار، ہمیں کرشن چندر کے افسانے ”کالو بھنگی“ کی یاد دلاتا ہے۔ ”آخری بیان“ کی لاوارث بچی گُل پری جو ذہنی خلفشار اور بے چینی کا شکار ہے، عام کرداروں سے ہٹ کر ہے۔ اس جیسے پیچیدہ کردار پر افسانہ تخلیق کرنا مہارت کا کام تھا جسے خوب صورتی سے نبھایا گیا ہے۔ واقعات کی ترتیب اور ان کا بیان اس انداز سے موجود ہے کہ تجسس برقرار رہتا ہے اور افسانے کے آخر میں جب حقائق سامنے آتے ہیں تو قاری حیرت زدہ رہ جاتا ہے۔ افسانہ ”بے قابو“ کا کردار بے حس اور انتہائی غیر ذمہ دار شخص کے طور پر دکھایا گیا ہے۔ کہانی کے آغاز میں ڈراؤنے خواب سے قاری پر اس کے خد و خال واضح کیے گئے ہیں۔ خواب ٹوٹنے سے قاری کو اطمینان ہوتا ہے کہ عجیب و غریب صورتِ حال، جس کا بیان جاری تھا، وہ خواب کی کیفیت تھی۔ خواب سے جاگنے پر اسے پیغام موصول ہوتا ہے کہ اسے کسی جگہ پہنچنا ہے۔ لیکن وہ غیر ضروری کاموں میں الجھ کر، وہاں نہیں پہنچتا۔ مختلف کاموں میں خود کو اُلجھا کر، ٹال مٹول کرتا ہے۔

یہ دراصل تاخیری حربے ہیں جو اس کی غیر ذمہ داری کو ظاہر کرتے ہیں۔ اس کردار میں بزدلی کا عُنصر ہے جو ابتر حالات کا سامنا کرنے سے گھبراتا ہے۔ افسانوی مجموعے کے مجموعی جائزے سے معلوم ہوتا ہے کہ مرد کردار زیادہ تر خود غرض، لالچی اور بے حس ہیں۔ مثلاً چھینٹ ”کا کردار اتنا لالچی اور خود غرض ہے کہ بیوی کے حق مہر کے اڑھائی ہزار روپے دبا جاتا ہے اور نان نفقے کا احسان جتاتا رہتا ہے۔“ اپنا سا منھ ”میں خاوند کے کردار کو بھی لالچی اور بے حس دکھایا گیا ہے جو صرف بیوی کی تنخواہ پر نظر رکھتا ہے۔ کہیں کہیں یوں بھی محسوس ہوتا ہے کہ ان کرداروں کی تشکیل میں عورت کا یہ احساس پوشیدہ ہے کہ صنفی تفریق کے معاشرے میں مرد عورت کے ساتھ کمینگی سے باز نہیں آتا۔ وہ تمام عمر اُن اصولوں کی پاسداری کرتا ہے جو اس نے عورت کو حاشیے پر دھکیلنے کے لیے سماجی اور ثقافتی سطح پر رائج کر رکھے ہیں۔

سیدہ عفرا بخاری نے جتنے بھی نسائی کردار تشکیل دیے ہیں وہ خود فریبی میں مبتلا ہیں۔ ان میں مرد سے وفا اور اولاد کے حوالے سے مامتا کا جذبہ نمایاں ہے۔ افسانہ ”چھینٹ“ میں جو ماں کا کردار تمام عمر بستر پر خوب صورت لحاف کا خواہاں رہتا ہے لیکن جب اس کا بیٹا اس کے لیے بیرون ملک سے کمبل بھیجتا ہے تو وہ اسے اپنی بیٹی کے لیے سنبھال لیتی ہے۔ اسی طرح ”پناہ گاہ“ کی پھوپھی کو طلاق یافتہ دکھایا گیا ہے لیکن اس کی وفاداری اپنے شوہر سے جُڑی ہوئی ہے۔ وہ کسی اور خاتون سے بیاہ رچا کر زندگی کے مزے لوٹ رہا ہے، اور اُسے اس کی ذرہ برابر فکر نہیں ہے۔ مذکورہ کرداروں کے علاوہ کئی اور ایسے کردار ان افسانوں میں موجود ہیں جو قاری کو متن کے ساتھ جوڑ کر رکھتے ہیں اور اپنے ساتھ ہنسی، خوشی، غم اور دیگر جذبات کا تجربہ کرنے پہ مجبور کرتے ہیں۔

عفرا بخاری نے ایسے کردار تخلیق کیے ہیں جو ہمارے ارد گرد موجود افراد کے مانند ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ان میں خوبیاں اور خامیاں دونوں موجود ہیں یوں وہ مثالی سے زیادہ حقیقی کردار کہلانے کے مستحق ہیں۔ ان کرداروں میں تنوع، گہرائی اور نفسیاتی پیچیدگی جیسے عناصر نمایاں ہیں۔ ان کرداروں میں جہاں محبت، قربانی اور خود اعتمادی کا جذبہ موجود ہے، وہیں بغاوت، جرات، سادگی اور معصومیت بھی موجود ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments