عفیفہ اور شاعرِ مشرق: ایک معصومانہ عقیدت کی داستان
عفیفہ کے سب سے پسندیدہ شاعر علامہ اقبال ہیں۔ وہ بچپن میں سمجھتی تھیں کہ شاید علامہ اقبال نے شاعری کے کسی عالمی مقابلے میں ایشیا کے تمام شاعروں کو شکست دے کر ”شاعرِ مشرق“ کا ٹائٹل جیتا ہو گا۔ جیسے کوئی پوئٹری اولمپکس منعقد ہوا ہو، جس میں چین، جاپان، ایران، منگولیا اور ہندوستان وغیرہ کے شاعروں نے پسینہ بہایا ہو، مگر آخر میں علامہ اقبال کو سونے کا تمغہ مل گیا ہو، مگر ایک دن ان کی مما نے اس سادہ لوحی پر ان کو ٹوکا اور وضاحت کی۔ بیٹا، شاعروں کے مقابلے ایسے نہیں ہوتے جیسے پہلوانوں کے دنگل ہوتے ہیں۔ یہ کوئی کشتی کا اکھاڑہ نہیں تھا۔
یہ سن کر عفیفہ کو شدید دھچکا لگا۔ وہ کچھ دیر خاموش رہیں، جیسے دنیا کا سب سے بڑا دھوکہ کھایا ہو، پھر حیرت سے پوچھا مطلب یہ کہ شاعری میں کوئی باقاعدہ فائنل میچ نہیں ہوا تھا؟ کوئی ریفری نہیں تھا؟ کوئی جج نہیں تھے؟
مما نے سر پکڑ لیا اور کہا نہیں بیٹا، شاعری میں ووٹ ڈال کر یا کسی کو پنالٹی دے کر جیتایا نہیں جاتا۔
جب عفیفہ کے ابتدائی غم کچھ کم ہوئے، تو انہیں اگلا سوال ستانے لگا۔ چین، جاپان اور کوریا والے بھی علامہ اقبال کو شاعر مشرق مانتے ہیں یا نہیں؟ مما نے وضاحت دی بیٹا، وہ ممالک مشرق بعید میں آتے ہیں، اور ان سے یہ بعید نہیں کہ وہ علامہ اقبال کو شاعرِ مشرق تسلیم کرنے سے انکار کر دیں۔ یہ سن کر عفیفہ کا چہرہ غصہ کے مارے سرخ ہو گیا اور وہ جذباتی لہجے میں بولیں یہ تو سراسر پاپ ہے ایسے ممالک سے ہمیں فوراً سفارتی تعلقات ختم کر دینے چاہئیں۔
ایک دن، جب اسکول میں ”خودی کو کر بلند“ والی نظم پڑھائی گئی، تو عفیفہ نے ہاتھ کھڑا کر کے معصومیت سے سوال کیا۔ مس ٹیچر، یہ خودی کیا ہوتی ہے؟ کیا یہ کوئی ایسی چیز ہے جو ساہیوال سے مل سکتی ہے؟ ٹیچر نے کھنکار کر وضاحت دی،
نہیں بیٹا، یہ خودداری، عزتِ نفس اور بلند حوصلگی کی بات ہو رہی ہے۔
عفیفہ کچھ دیر سوچتی رہیں اور پھر سنجیدگی سے بولیں تو پھر خودی کو اتنا زیادہ کیوں بلند کریں کہ وہ ہاتھ ہی نہ آ سکے؟ کہیں یہ ہمارے ہاتھوں سے نکل کر امریکہ نہ چلی جائے۔
عفیفہ کو جب امی نے بتایا کہ علامہ اقبال دن رات ملت کے بارے میں سوچتے رہتے تھے اور وہ اس دوران حقہ بھی پیتے رہتے تھے تو عفیفہ نے ایک دم مما سے پوچھا
تو، اگر میں چیونگم چباؤں اور پاکستان کے حالات پر غور کروں، تو کیا میں بھی شاعرِ مشرق بن سکتی ہوں؟ مما نے گہرا سانس لیا اور کہا بس دعا کر بیٹا، تو شاعرِ چیچہ وطنی ہی بن جائے۔
ایک دن عفیفہ نے بھی پاکستان پر ایک نظم لکھی اور گھر والوں کو بڑے جوش و خروش سے سنائی:
پاکستان کی سڑکیں ہیں بڑی،
لیکن ان پر گڑھے ہیں کئی
بارش ہو تو شہر بن جاتا ہے تالاب،
واپڈا والے دیں بجلی کا سراب
ابو نے چہرے پر ہاتھ رکھ لیا اور بولے بیٹا، تم شاعرِ مشرق تو نہیں، لیکن شاعرِ بلدیہ شرقی ضرور بن سکتی ہو۔ عفیفہ فخر سے بولیں چلو، کسی نہ کسی مشرق کی شاعری تو میں بھی کر رہی ہوں۔
عفیفہ کو علامہ اقبال سے جنون کی حد تک لگاؤ تھا، مگر ان کی سمجھ میں ایک بات نہیں آتی تھی۔ اقبال نے جو مردِ مومن کی بات کی تھی، وہ آج کل کہاں ہیں؟ مجھے تو نظر نہیں آتے۔ ایک دن انہوں نے مما سے یہی سوال کر ڈالا امی، اقبال نے کہا تھا کہ مردِ مومن تلوار کی دھار پر چلتا ہے، لیکن یہاں تو لوگ موٹر سائیکل پر بھی پھسلے جاتے ہیں آخر وہ مردِ مومن کہاں ہیں؟ مما نے کچھ دیر سوچ کر جواب دیا بیٹا، مردِ مومن اب بھی ہوتے ہیں، مگر شاید ان کی تعداد آٹے میں نمک کے برابر ہو گی۔
عفیفہ کو ہمیشہ لگتا تھا کہ علامہ اقبال نے شاہین کے متعلق صرف شاعری کی، لیکن اگر وہ شاہین بننے کا کوئی نسخہ، کوئی خوراک، کوئی پراپر ڈائیٹ پلان بھی بتا دیتے، تو آج کے نوجوانوں کے لیے آسانی ہو جاتی۔ امی اقبال نے شاہین کا اتنا ذکر کیا، لیکن کوئی خوراک بھی تجویز کر جاتے کم از کم کوئی خاص قسم کی دال، بادام، یا دودھ کا نسخہ تو دے دیتے جسے کھا کر شاہین بنا جا سکتا۔ امی نے ہنستے ہوئے کہا بیٹا، شاہین کسی کھانے سے نہیں بنتا، وہ خودداری، علم، اور محنت سے بنتا ہے۔ عفیفہ نے افسردہ ہو کر سر ہلا دیا اوہ! مطلب یہ کہ اس کے لیے کوئی پروٹین شیک نہیں ہے؟ تو پھر آج کے لڑکے کیسے شاہین بنیں گے؟ جم میں جا کر؟ امی نے زچ ہو کر کہا بیٹا، شاہین طاقت سے نہیں، کردار سے بنتا ہے۔
عفیفہ کو ہمیشہ شبہ تھا کہ ”اقبال کا خواب“ شاید واقعی کسی خواب ہی کا نتیجہ تھا۔ ایک دن انہوں نے اپنے ابا سے سوال کر ڈالا ابو، اقبال نے پاکستان بنانے کا خواب دیکھا تھا، لیکن کیا وہ واقعی سوئے ہوئے تھے جب یہ خواب آیا؟ ابو نے جواب دیا نہیں بیٹا، وہ جاگ کر بھی پاکستان کے بارے میں سوچتے تھے۔ عفیفہ نے حیرانی سے کہا لیکن ابو، اگر وہ جاگ کر سوچ رہے تھے، تو پھر یہ خواب کیوں کہلاتا ہے؟ اسے تو پلان کہنا چاہیے تھا نا۔ ابو مسکرائے بیٹا، اصل میں انہوں نے ایک تصور دیا تھا۔ عفیفہ نے سر کھجایا اچھا، تو پھر پاکستان کے بننے میں ایک شاعر کا اتنا رول تھا تو کیا ہم اب بھی ملک کے فیصلے شاعروں سے کروا سکتے ہیں؟ ابو نے بات بدلنے کی کوشش کی، لیکن عفیفہ نے ضد پکڑ لی ابو، اگر اقبال نے واقعی خواب دیکھا تھا، تو کیا ہمیں کبھی کسی اور شاعر کو سلانے کی کوشش نہیں کرنی چاہیے؟ شاید کوئی اور بھی اچھا خواب دیکھ لے۔
- مونی کے جنگی کارنامے - 10/05/2025
- پرانے زمانے کے بابے اور معصوم عاشق - 02/05/2025
- مصری کا ڈبہ۔ ایک پراسرار داستان - 23/04/2025
Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).