بال نوتے اور نائی
بال، کھال، نوتے اور نائی کا گٹھ بندھن صدیوں پرانا ہے، کہنے کو تو ”بال کی کھال نکالنے“ کے محاورے کی پیدائش بھی کم و بیش صدیوں پرانی کہی جا سکتی ہے اور قوی خیال یہی ہے کہ نائی کے کام کے طریقے اور سلیقے کے عیوض نائیوں کے ہاتھ کی صفائی کو خراج عقیدت پیش کرنے کے ضمن میں ہی ”بال کی کھال“ والا محاورہ وجود میں آیا ہو گا، اس محاورے کی پیدائش کی علت و علل کو دیکھتے ہوئے ایک بات ضرور کہی جا سکتی ہے کہ محاورے کے دانش ور بھی تحقیق و جستجو میں اس وقت تک کسی بھی نتیجے کو حتمی شکل نہیں دیتے تھے جب تک وہ کسی بات کو اپنی دانش کی مکمل جانچ پڑتال پر پرکھ نہ لیں، اور شاید یہی تحقیق و جستجو اور عمیق نگاہ کی جوہر شناسی تھی کہ صدیوں بعد بھی اس دانش کی ضرب المثل اور محاورے جدید ٹیکنالوجی کے ہوتے ہوئے بھی نہ باسی ہوئے اور نہ ہی ان کی منزلت میں تا حال کمی دیکھی گئی ہے، گو اب بھی بہت سے جدیدیے نوجوان نسل کی ”انصافی“ دلیل کو پروپیگنڈا کر کے جھوٹ کے بام عروج پر ”بلی کے بھاگوں چھینکا ٹوٹے“ کے مصداق شہرت و بلندی حاصل کرنے کی خواہش کے رسیا دکھتے ہیں مگر سچ اور حقائق کے تاروں سے ٹنگا یہ چھینکا بلی کی خواہش اور لالچ کے باوجود ان سب کی حسرتوں پر پانی پھیرتا رہتا ہے مگر گرتا نہیں ہے اور یوں ”انصافی“ لاجک منہ کے بل پڑی کسی کونے کھدرے میں پڑی بلبلا رہی ہوتی ہے۔
خیر ہم بھی تمہید باندھنے اور اسے مضبوط کرنے کے چکر میں نائی کی خصوصیات کی تفہیم کے بجائے ”بلی“ اور چھیکے میں الجھ گئے حالانکہ اس کا نائی بال کھال اور نوتے سے کسی بھی قسم کا سمبندھ بنتا نہیں۔
ایک وقت تھا کہ شادی بیاہ کے پیغامات دور دراز عزیز رشتہ داروں تک پہنچانے کے لئے نائی کو ”نوتے“ یعنی خوشی کا پیغام لے جانے کے لئے چنا جاتا تھا اور یہی نائی بعد کو اس تقریب کا سالار باورچی بھی ہوتا تھا، جس کا اہم فرض کھانے میں لذت لانا بھی شرط تصور کیا جاتا تھا، گویا نائی ”ہر قسم کی حجامت“ کے لئے انتہائی قابل اعتبار سمجھا جاتا تھا اور لوگوں کے اعتماد پر پورا اترنے کی کوشش میں مجال کہ نائی کسی کے نرخرے پر استرے کا منفی استعمال کردے، بس یہی اعتبار نائی کے سامنے اچھوں اچھوں کی گردن زیر کرا دیا کرتا تھا، پھر زمانے کی کروٹ نے پیغام پہنچانے اور تقریبات کا کھانا پکوانے کا کام جب نائی سے لینا بند کر دیا تو نائی نے بھی اپنی سماجی درجہ بندی کرلی اور پھر مجال کہ نائی کو کوئی ”خلیفہ“ پکارے بغیر رہ جائے، بس سمجھ لیجیے کہ اگر زمانے کی تبدیلی کے بعد کسی نے بھی نائی کو با ادب ہو کر خلیفہ نا کہا تو اس کی گردن اڑانے یا بخشنے کا ذمہ دار بھی ”خلیفہ“ ہوا کرتا اور شاید کہ اب بھی ہے۔
ھم نے پچھلے سالوں میں چولستان کی سیر و تفریح کے دوران احمد پور شرقیہ سے آگے دراوڑ قلعے کے ایک گاؤں میں جب پڑاؤ ڈالا تو ہمارے کھانے پکانے کا تمام انتظام ”نائی“ ہی نے کیا تو ہم نے اس سے دریافت کیا کہ کیا گاؤں والوں میں ”نوتے“ پہنچانے کا کام بھی کرتے ہو تو اس نے اثبات میں سر ہلا دیا تو اس دم اس نائی نے ہمیں کچھ روز کے لئے ہمارے آبا و اجداد کے طور طریقوں کے زمانے میں پہنچا دیا، مگر کمبخت شہر کی زندگی کو کیا کہیے کہ اب یہاں نائی یا خلیفہ تو کجا اگر آپ بال کی کھال کھنچوانے والے کو ”ہیئر ڈریسر“ اور اس کی دکان کو نائی کی دکان کے بجائے ”بیوٹی سیلون“ نہ کہیں تو پھر آپ کے ”تھوپڑے“ اور گردن ناپنے کی سلامتی کے لالوں کے آپ خود ذمہ دار سمجھے جاتے ہیں۔
نائی کی اہمیت کے پیش نظر یاد آیا کہ ہماری عمر کے بیشتر احباب نائی کے ہاتھوں ”ختنہ“ یا مسلمانی کروائے جانے کے تجربے سے ضرور گزرے ہوں گے، کیا کمال اعتبار کے نائی تھے کہ مجال ”ختنہ“ کے دوران کوئی بے ایمانی کر کے کسی کی زندگی ناکارہ بنا دیں۔ ہر گز نہیں۔ گویا انسانی زندگی کی قیمت اور زندگی کی توانائی کے کس قدر پر تو تھے وہ پیشے کی قدرو قیمت سے آشنا نائی حضرات، اب تو جدید مشینی طریقوں کی ایجادات کے بعد نہ وہ نائی رہے نہ وہ ”ختنہ“ اور نہ مسلمانی کروانے کی تقریبات کا کلچر، اب تو بس سب چل سو چل ہے جناب۔
یقیناً بہت سارے احباب/قاری ہماری طرح تحریر کے بدلے بدلے انداز کو دیکھ کر شاید کسمسائیں مگر ہماری اس تحریر کے اشارے کنائیوں کی تفہیم ان ہمارے صحافی احباب تک ضرور ہو جائے گی جو جنرل ضیا کا آمرانہ دور دیکھ چکے ہیں اور ابھی تک بقید حیات ہیں، یہ لوگ اس دور میں کمال مہارت سے صحافت کی آزادی پر نہ سمجھوتہ کرتے تھے اور نہ خوف زدہ ہوتے تھے بلکہ صحافت کی آزادی کو برقرار رکھنے کا انوکھا اشارہ یعنی سنسرشدہ خبروں کی جگہ چھوڑ کر قاری کو بتا رہے ہوتے تھے کہ وہ جابرانہ دور کے ہوتے ہوئے بھی کسی سمجھوتے پر آمادہ نہیں اور شاید کم و بیش یہی صورتحال ”پھیکا ایکٹ“ کی صورت میں آج بھی کسی نہ کسی طرح صحافت اور قلم کی روانی کو جبرا روکنے کی کوشش میں مصروف ہے اور قلم کی آزادی کو چبا رہی ہے، جس سے اس بات کا احتمال زیادہ بڑھتا جا رہا ہے کہ آپ ناقابل اشاعت کی فہرست میں شمار نہ کر لئے جائیں۔
زمانہ اور ترقی معکوس کی لالچ سے پُر سرمایہ دارانہ چابک دستیوں نے ”نائی“ سے نوتے بھیجنے کی جگہ واٹس ایپ کے ذریعے پیغام رسانی کا جگاڑ نکال لیا ہے تو اب ہمارے بیچارے ”نائیوں“ نے بھی نوتے پہنچانے کی نوازشوں کا حل تلاش کر لیا ہے، اب گلی گلی اور محلے کی بنیاد پر صبح سویرے ایک عرصے سے گھر کی چوکھٹوں پر لاؤڈ اسپیکر سے یہ آواز بلاناغہ ہماری سماعتوں سے ٹکراتی ہے کہ ”بال دیدو اور ہزاروں روپے لے لو“ وغیرہ۔ اس آواز کو سنتے ہی تجسس ہوا کہ بال جس کی نہ کبھی پرواہ کی گئی اور نہ اسے اس قدر قیمتی جانا گیا کہ اس کی خریداری اس قدر مہنگے داموں کبھی ہو گی؟
سو ہمارے اندر صحافی کی حِس جاگی اور ہم اس کے اتنے مہنگے داموں فروخت کی جستجو کے سر ہو گئے، پھر کیا تھا بالوں کی قدر و قیمت کے ایسے ایسے جوہر ہمارے سامنے کھلے کہ ہم دنگ ہوئے بنا نہ رہ سکے، کھوجنا پر معلوم ہوا کہ ایک عرصہ پہلے پنڈی کے عوام نے حجامت کرؤانا محض اس وجہ سے چھوڑ دیا کہ ”مری بیوری“ سے متصل ”پنڈی“ کے بڑے گھر والوں کو جب بالوں کی قدر و قیمت کا اندازہ ہوا تو انہوں نے پنڈی، چکوال، جہلم۔ اور اس سے متعلقہ علاقوں میں زیادہ سے زیادہ بھرتیاں شروع کر دیں اور یوں ان مذکورہ علاقوں کے افراد میں اپنے بالوں کی سلامتی کی جدوجہد شروع ہو گئی اور ان علاقوں کے بالوں کو قیمتی جانتے ہوئے یہاں کے عوام نے اپنی حجامت کروانا ہی ترک کردی اور یہاں کی عوام نے اسی میں عافیت جانی کہ وہ کسی ”لشکر طیبہ، طالبان یا حزب تحریر میں پناہ لے کر کم از کم اپنے قیمتی بال تو بچا لیں، قیمتی بالوں کی خریداری کی یہ وبا جب دیگر شہروں میں پھیلی تو ادھا پنجاب بالوں کی حفاظت کرتے کرتے“ گنجا ”ہو گیا جہاں کٹے ہوئے بالوں کی فی کلو قیمت 25000 تک پہنچ گئی، اس منفعت بخش کاروبار میں پنجاب سے قلت کی بنا پر پھر“ نائی بھائیوں نے اپنے ہرکارے سندھ بلوچستان اور خیبر پختونخوا دوڑائے اور ممکن بنایا کہ ان جگہوں سے ارزاں قیمت پر کٹے بال خرید کر ”پنڈی“ کی مہنگی مارکیٹ میں فروخت کریں، وہ تو بھلا ہو بلوچستان کی جدوجہد کرنے والی خواتین کا کہ انہوں نے حقوق کی جدوجہد کے دوران سر سے چادر نہ اتاری وگرنہ شاید کہ وہ بھی گنجے ہو کر اپنی تحریک چلانے پر مجبور ہونے کے بجائے شرمندہ شرمندہ پھرتے اور شاید انہیں خیبر پختونخوا جیسے مواقع میسر نہ آتے کہ جو اپنے بالوں کی حفاظت کے لئے ”، طالبان“ کے نمک خوار ہی بننے پر مجبور ہو جاتے ہیں، اب جہاں تک سندھ کا تعلق ہے تو وہ تو ویسے ہی سر میں دھول ڈال کر نہروں کی حفاظت پر معمور ہیں اور بالوں کی قیمت سے بالکل نا اشنا۔
یہی وہ وجہ ہے کہ سندھ میں ”نائی بھائیوں کے ہرکارے گلی گلی یہ صدا لگاتے نظر آتے ہیں کہ“ بال فروخت کرو ”اور پیسے کماؤ، کیونکہ سندھ میں پی پی کی پالیسی کے تحت آسان پیسے کمانے کا چلن پچھلے سولہ سال سے ویسے ہی رائج ہے، سو اس بہتی گنگا میں نائی بھی نوتے دے دے کر ارزاں قیمت پر بال خرید رہے ہیں اور اس طرح آج کل نائیوں کی سندھ میں چاندی ہی چاندی ہے۔
- جنید حفیظ: لرزتا ہوا انصاف - 20/04/2025
- بال نوتے اور نائی - 14/04/2025
- رقص پابہ زنجیر ہی سہی - 28/03/2025
Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).