نفرت کی معیشت


Loading

پاکستان اور انڈیا کے تعلقات ہمیشہ سے کشیدگی، بداعتمادی اور دشمنی کے دائرے میں قید رہے ہیں۔ تقسیم ہند کے زخم، بار بار کی جنگیں، مسئلہ کشمیر اور سیاسی قیادتوں کی مصلحتیں دونوں ملکوں کے عوام کے ذہنوں میں ایک مستقل ”دشمن“ کا تصور راسخ کر چکی ہیں۔ مگر سوال محض یہ نہیں کہ تعلقات خراب کیوں ہیں؟ اصل سوال یہ ہے کہ دونوں ریاستوں نے اپنے اپنے عوام میں نفرت اور دشمنی کو کس طرح ایک انسٹیٹیوشنل عمل کے تحت پروان چڑھایا؟ اور اس نفرت کو کس طرح اپنے سیاسی و معاشی مقاصد کے لیے استعمال کیا؟ ریاستی سطح پر ”دشمن“ کی تشکیل کوئی حادثاتی عمل نہیں ہوتا ہے بلکہ اس دشمنی اور نفرت کے پیچھے ایک چھپی ہوئی معیشت ہوتی ہے۔

سب سے پہلے تو ہمیں ریاست کے حوالے سے اس بنیادی نقطے کو سمجھنے کی ضرورت ہے کہ ویسٹفیلین قومی ریاستیں اصل میں سرمایہ داری کی منڈیاں ہیں جہاں ریاست کا کردار قومی سرحدوں کے اندر سرمایہ، تجارت اور نجی مفادات کی حفاظت تک محدود ہو چکا ہے۔ یہ ریاستیں اب محض سیاسی خودمختاری کی محافظ نہیں بلکہ سرمایہ دارانہ نظام کے استحکام اور توسیع کے لیے ایک معاشی آلہ بن چکی ہیں جہاں قوانین اور ادارے سرمایہ دارانہ نظام کے لیے سازگار ماحول پیدا کرنے پر مرکوز ہیں نہ کہ عوامی بھلائی کے لیے۔ جدید دور کے سوشل سائنٹسٹ متفق ہیں کہ ریاست ایک انسانی ساختہ ادارہ ہے یعنی ایک سوشل کنسٹرکٹ نہ کہ کوئی مقدس وجود۔ ریاست کے ساتھ وابستہ تقدیس کے تصورات محض ماضی کی روایتی داستانوں کا حصہ ہیں جنہیں آج کے علمی و تنقیدی فہم نے مسترد کر دیا ہے۔ اس موضوع پر مزید تفصیل سے مطالعہ کے لیے میرا کالم ’ ”ویسٹفیلین قومی ریاست: سیٹلر کالونیلزم کا تسلسل“ ہم سب ویب سائٹ پر دستیاب ہے جس کا لنک ذیل میں درج ہے :

پاکستان نے اپنی قومی شناخت کو ”اسلام بمقابلہ ہندو انڈیا“ کے بیانیے میں ڈھالا جبکہ انڈیا نے ”سیکولرازم کے دشمن“ اور ”مذہبی شدت پسند“ کے طور پر پاکستان کو اپنے قومی نظریے کے مخالف کے طور پر پیش کیا۔ یوں دونوں جانب سے دشمن کا وجود ریاستی شناخت اور بقا کے لیے ایک ”لازمی خطرہ“ بنا دیا گیا۔ ایک ایسا خطرہ جو ریاستی ناکامیوں، اندرونی اختلافات اور عوامی محرومیوں سے توجہ ہٹانے کا مستقل ذریعہ بنتا رہا ہے۔

تعلیم، نصاب اور میڈیا کو نفرت کی ذہن سازی کا سب سے موثر آلہ بنایا گیا۔ پاکستان کے تعلیمی نصاب میں ہندو شناخت اور انڈین ریاست کو منفی انداز میں پیش کیا گیا جبکہ انڈیا میں مسلم حکمرانوں، ان کے دور حکومت اور پاکستان کی تخلیق کو تعصب بھری نگاہ سے دیکھا گیا۔ دونوں طرف کے میڈیا نے ہر کشیدگی کو ایک وجودی بحران بنا کر پیش کیا اور مخالف ریاست کو ایک ”شیطانی قوت“ کی صورت میں عوامی شعور میں بٹھایا۔ یوں عوام کی نئی نسلیں لاشعوری طور پر نفرت کے ساتھ پروان چڑھنے لگیں۔ اس لیے ہر شعبہ ہائے زندگی میں ایک دوسرے کے خلاف اس نفرت کا کھلم کھلا اور واضح اظہار کیا جاتا ہے۔

دونوں ممالک کی سیاسی قیادتوں نے بارہا داخلی بحرانوں سے توجہ ہٹانے کے لیے دشمنی بطور ”سیاسی سرمایہ“ کا استعمال کرتے ہوئے بیرونی دشمن کا کارڈ استعمال کیا۔ عام طور پر ہم یہ دیکھتے ہیں کہ جب بھی حکومتیں کرپشن، مہنگائی، بیڈ گورننس، عوامی مزاحمت یا داخلی سیاسی دباؤ کا شکار ہوتی ہے تو اچانک ”سرحد پار خطرے“ کی گھنٹیاں بجنے لگتی ہیں۔ عام طور پر حب الوطنی کا مطلب ریاستی بیانیے سے اندھی وابستگی بن جاتی ہے اور ہر اختلاف کو غداری تصور کیا جاتا ہے۔ پاکستان انڈیا کے درمیان حالیہ کشیدگی میں عوام کو تو چھوڑیے تعلیم یافتہ اسکالرز کے ہاں بھی حب الوطنی کا مطلب محض ریاستی پالیسیوں کی غیر تنقیدی تائید و حمایت بن کر رہ گیا ہے۔ جنگی جنون کے دور میں امن کے نعرے اور جنگ مخالف بیانیے دبا دیے جاتے ہیں جبکہ جنگ کا شور مچانے والے، نفرت بیچنے والے اور شدت پسند عناصر ابھر کر نمایاں ہو جاتے ہیں۔ دونوں ممالک کے درمیان دشمنی محض ایک سفارتی یا عسکری مسئلہ نہ رہی ہے بلکہ یہ ایک داخلی اور سیاسی حکمتِ عملی کا حصہ بن چکی ہے۔

دونوں ممالک میں عسکری دفاعی ادارے اس مصنوعی دشمنی کے سب سے بڑے فائدہ اٹھانے والے بن کر ابھرے ہیں۔ مثلاً دفاعی بجٹ میں بے تحاشا اضافہ ہوتا ہے، نئی اسلحہ ڈیلز کی جاتی ہیں۔ تعلیم صحت سوشل سیکٹر اور دیگر عوامی فلاح و بہبود کے منصوبوں کی بجائے قومی وسائل کا استعمال عسکری شعبے کی جانب کر دیا جاتا ہے۔ اور یہ سب کچھ خوف اور دشمنی کے جذبات کے سہارے حاصل کیا جاتا ہے۔ جب عوام خطرے کے احساس میں زندہ ہوں تو بدترین حکومتوں کو بھی بلا تنقید تقدیس اور غیر مشروط حمایت حاصل ہو جاتی ہے۔ اور پھر نفرت صرف ریاستی پالیسی کا نتیجہ نہیں ہوتی بلکہ یہ ایک گہرا نفسیاتی جبر بھی بن جاتا ہے۔ نفرت کے سائے میں رہنا، ”ہم“ اور ”وہ“ کی تقسیم فرد کے سیاسی، سماجی اور اخلاقی شعور کو بھی محدود بلکہ خاصیت تک تباہ و برباد کر دیتی ہے۔

حالیہ کشیدگی کے دوران اس کی واضح مثالیں ہمیں میڈیا اور سوشل میڈیا پر ہر روز دیکھنے کو مل رہی ہیں جہاں دلیل اور مکالمہ دفن ہو چکے ہیں، اور ان کی جگہ نفرت، تعصب اور جنگی جنون نے لے لی ہے۔ اور ایسے میں اختلافِ رائے کو غداری اور امن کی بات کو کمزوری سمجھا جاتا ہے اور یوں ایک پورا سماجی ماحول تیار کیا جا رہا ہے جو شعور کو مفلوج اور ضمیر کو مسخ کر دیتا ہے۔ وقت کے ساتھ ساتھ یہ تقسیم اتنی مضبوط ہو جاتی ہے کہ مکالمہ، ہمدردی اور مشترکہ انسانیت کے تصورات جرم بن جاتے ہیں۔ یوں ایک زندہ، متنوع اور آزاد ذہن ”محصور“ ذہن میں بدل دیا جاتا ہے۔

ریاستی پالیسیوں کی تشکیل میں ”سیکیورٹی ڈاکٹرائن“ ایک مرکزی کردار ادا کرتا ہے جس کے مطابق ریاست کو مسلسل بیرونی خطرے کا سامنا ہے۔ پاکستان میں انڈیا کو اور انڈیا میں پاکستان کو قومی سلامتی کا سب سے بڑا خطرہ بنا کر پیش کیا جاتا ہے اور اس خوف کی بنیاد پر عسکری ادارے مضبوط کیے جاتے ہیں سیاسی آزادیوں پر قدغن لگائی جاتی ہیں خارجہ پالیسی کو جارحانہ بنا دیا جاتا ہے۔ عوامی شعور کو خطرے کے احساس میں جکڑ دیا جاتا ہے۔ نتیجتاً اس طرح دشمنی کو قومی سروائیول کا لازمی جز بنا دیا جاتا ہے۔ ریاستی سطح پر دشمنی نہ صرف ایک منافع بخش صنعت بن چکی ہے بلکہ بیرونی دشمن کا بیانیہ احتساب سے فرار کا آسان ترین راستہ بھی فراہم کرتا ہے۔ ہمیں اس بات پر ضرور سوچنا چاہیے کہ ریاستی بیانیے کے برعکس عوام کے درمیان تاریخی، ثقافتی اور انسانی رشتے ہمیشہ سے موجود رہے ہیں۔ زبان، موسیقی، ادب اور مذہبی ورثہ نے سرحدوں سے ماورا لوگوں کو جوڑے رکھا ہے۔ عام لوگ اپنے دکھ سکھ، خواب اور انسانی تجربات میں ایک دوسرے سے زیادہ قریب ہیں۔

ہمیں اس بنیادی حقیقت کو سمجھنا چاہیے کہ نفرت کوئی فطری جذبہ نہیں بلکہ ایک مسلط کردہ سماجی ساخت/ساختیہ (سوشل کنسٹرکٹ) ہے۔ ریاستیں نظریاتی مشینری اور طاقتور مفادات اسے تعلیم، میڈیا اور سیاست کے ذریعے عوام کے اجتماعی ذہن پر تھوپتے ہیں۔ اس کے برعکس محبت، ہمدردی اور مشترکہ انسانیت کا احساس انسان کی جبلت میں پیوست ہے۔ نفرت کو زندہ رکھنے کے لیے ریاستی اداروں کو مسلسل محنت کرنی پڑتی ہے جبکہ محبت خود بخود پھوٹتی ہے۔ یہی فرق انسانی فطرت اور مسلط شدہ بیانیوں کے درمیان اصل لکیر کھینچتا ہے۔ پاکستان اور انڈیا کے تعلقات نفرت کے ایک مستقل سائیکل یا بند دائرے میں پھنسے ہوئے ہیں جسے محض سرکاری بیانات، کرکٹ ڈپلومیسی، وفود کے تبادلے یا علامتی سفارتی ملاقاتوں سے توڑا نہیں جا سکتا خاص طور پر ایسی صورتحال میں جب انڈین بالی وڈ اور پاکستانی ڈرامہ انڈسٹری میں بھی اکثر دشمنی اور ایک دوسرے کے خلاف نفرت کو رومانوی انداز میں پیش کر کے اس سائیکل کو مزید گہرا کیا جاتا ہے۔ اسی طرح تعلیمی نصاب، جنگی فلمیں، اور حب الوطنی کے نام پر دشمن ریاست کی مسلسل منفی تصویر کشی عوام کے ذہنوں میں خوف اور نفرت کو جڑوں سے پیوست کر دیتی ہے۔

یہ ایک ایسا بند دائرہ ہے جس میں ہر نئی نسل لاشعوری طور پر داخل ہوتی رہتی ہے اور ریاستی مشینری اسے ”فطری دشمنی“ کے طور پر پیش کرتی ہے۔ حالانکہ یہ ایک پیدا کی گئی اور مسلسل زندہ رکھی گئی دشمنی ہے۔ پائیدار امن کے لیے نام نہاد ”دو طرفہ مذاکرات“ سے زیادہ اہم اور اصل ضرورت ان ریاستی ڈھانچوں اور نظریاتی بیانیوں کو چیلنج کرنے کی ہے جو دشمنی کو اپنی طاقت کا ستون بنائے ہوئے ہیں۔ یاد رکھیں کہ امن محض ایک خواہش نہیں بلکہ ایک شعوری سیاسی عمل ہوتا ہے۔ امن اس وقت ممکن ہو گا جب عوام نفرت کے انسٹیٹیوشنل سسٹم کو پہچان کر اسے مسترد کریں۔ مکالمہ، انسانی رشتے اور مشترکہ تاریخ کو دوبارہ زندہ کیا جائے۔ تبھی برصغیر میں وہ صبح طلوع ہو سکتی ہے جس میں سرحدیں دلوں کے درمیان نہیں بلکہ صرف کاغذی نقشوں پر ہوں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments