بیٹیوں کے سنگدل والدین!


Loading

جب اوّل و آخر ہدف ہی شادی ہے تو کیا ضرورت ہے کتابوں میں سر کھپانے کی؟ اور اگر اچھے رشتے کی تلاش میں ڈگری لے ہی لی ہے تو نوکری کیوں کی جائے، منہ کی رونق چلی گئی تو کون پسند کرے گا؟

لیجیے آ گئی بلی تھیلے سے باہر!
جی چاہا کہ اس کے جواب میں وہ سب کہا جائے جو وقتاً فوقتاً کان میں پڑتا رہتا ہے۔
ایک تقریب میں ایک خاتون دوسری خاتون سے۔
” بہن ماشا اللّہ بہت پیاری بچی ہے، کیا کر رہی ہے؟
جی ابھی بی اے کیا ہے۔
بہت مبارک ہو، ارے ہاں یاد آیا اس کا جڑواں بھائی بھی تو ہے۔ وہ؟
جی ہاں وہ بھی بی اے کر چکا اب ایم اے کے لئے یونی ورسٹی میں داخلہ لے گا۔ ماں کا فخریہ انداز۔
اچھا اچھا، تو بیٹی بھی ایم اے کرے گی۔ خاتون کا سوال۔

نہیں بہن، اس کے ابا چاہتے ہیں کہ ان کی ذمہ داری ادا ہو جائے۔ بس اپنے گھر کی کر دیں۔ دیکھو نا لڑکیوں کا بیاہ تو وقت پر ہی اچھا لگتا ہے۔

ہماری نظر ساتھ کھڑی انیس بیس برس کی بچی پہ پڑی جو انتہائی معصومیت سے ماں کی طرف دیکھ رہی تھی۔ ہمارا دل بے اختیار دُکھی ہوا۔ جی چاہا کہ جا کر اس کی ماں سے کہوں، سنو کیا جانتی ہو تم کہ اپنی لاڈلی کو نہتا بنا کے زندگی کے سمندر میں دھکا دے رہی ہو؟ جہاں ہر تھپیڑے کے بعد اس کے پاس کوئی ایسی چیز نہیں ہو گی کہ وہ اپنی نیا کھے سکے۔

ہمارے ابا کہا کرتے تھے، بیٹی کو رخصت کرتے ہوئے دو باتیں ضرور سوچ لینا، بیوہ ہوئی یا طلاق ملی، کہاں جائے گی؟ کیسے رہے گی؟ کیسے اپنا اور بچوں کا پیٹ پالے گی؟ بھائی کے آگے ہاتھ پھیلائے گی؟ بھابھی کے رحم و کرم پر زندگی گزارے گی؟

بچی کی ماں کے فقروں میں پدرسری نظام کی نمایاں جھلک تھی جہاں بیٹی کو ذمہ داری کا نام دے کر کسی اگلے شخص کے حوالے کر دیا جاتا ہے جو اس کے ساتھ جیسا چاہے سلوک کرے اور صرف وہی نہیں اس کا خاندان بھی اس لڑکی کو بے دام غلام سمجھ کر اس پہ حکم چلائے۔

لیکن ہم سسرال اور شوہر کو کیوں قصور وار ٹھہرائیں؟

پیدا کرنے والوں کا گریبان کیوں نہ پکڑیں جن کے جنسی تعلق سے لڑکیاں اس دنیا میں آئیں اور ان چاہی مخلوق سمجھ کر بلوغت تک برداشت کیا گیا اور پھر کسی نہ کسی طرح پیچھا چھڑا لیا گیا۔ اور ساتھ میں یہ بھی ہدایت کر دی کہ مشکلات آئیں تو ہماری طرف مت دیکھنا، قبر میں چلی جانا مگر میکے مت آنا۔

کل شام پاکستان سے تعلق رکھنے والی مریضہ سے ملاقات ہوئی، ان کا احوال سنیے :

ماں باپ نے پانچ جماعت پڑھانے کے بعد شادی کر دی، پانچ بچے ہیں، چار بیٹیاں اور ایک بیٹا۔ شوہر دن رات زد و کوب کرتا ہے، پچھلے برس بازو توڑ ڈالا۔ بچوں کا بھی یہی حشر کرتا ہے۔ اخراجات کے نام پہ ایک پھوٹی کوڑی بھی نہیں، صرف روٹی کھلاتا ہے۔ ماں باپ مر چکے ہیں۔ ان پانچ بچوں کو لے کر کدھر جاؤں، کس کو فریاد سناؤں؟ پڑھی لکھی تو ہوں نہیں کہ علیحدہ ہو کے اپنا اور بچوں کا پیٹ پال سکوں۔ آپ بتائیں میں کیا کروں؟

ایک اور خاتون سے بات ہوئی جن کے والد اعلیٰ تعلیم یافتہ تھے مگر والد کے حکم پر بیٹی کو دوگنی عمر کے مرد سے بیاہ دیا۔ جب جب تشدد ہوا، یہ کہتے ہوئے صبر کرنے کی نصیحت کی کہ ابھی ہم نے دو اور بیاہنی ہیں۔ جب شوہر نے طلاق دے کر گھر سے نکالا تب بھی بیٹی کو قصور وار سمجھتے ہوئے گھر کے دروازے نہیں کھولے۔

ان سب عورتوں کو کیا بتائیں ہم؟ کیا کہیں کہ سسرال اور شوہر کو کوسنے دینے کی بجائے ماں باپ سے جواب طلبی کرو جن کا ڈی این اے آج بھی تمہارے جسم میں دوڑتا ہے۔

چلیے ایک ساتھی ڈاکٹر کی بات یاد آ گئی جو عرب ہیں۔ چھ بہنیں اور سب کی سب کماؤ پتریاں۔ ایک دن ہنس کر بتانے لگیں کہ ہمارے ابا نے کبھی مدرسے کی شکل نہیں دیکھی، گزر برس کھجوروں کے باغ سے ہوتی تھی۔ اس معاشرے میں جہاں لڑکیوں کی شادی قطعی درد سر نہیں، جہیز کا نام و نشان نہیں، دوسری/ تیسری شادی، طلاق یا بیوگی کچھ بھی مشکل نہیں، لیکن ان کے ابا نے بچپن سے کہنا شروع کیا کہ تم سب کی شادیاں تب کروں گا جب پڑھ لکھ کر نوکری کرو گی اور سب کا اپنا بینک اکاؤنٹ ہو گا۔ یہ سن کر جی چاہا کہ جا کر ان ابا کے مزدور ہاتھ چوم لیں جنہوں نے چھ عورتوں کو اعتماد دیا اور ان سے پیچھا چھڑانے کی کوشش میں کسی بھی اجڈ اور ناکارہ شخص کے پلو سے نہیں باندھ دیا۔

اکیسویں صدی کی پاکستانی عورت کو شادی کے یوٹوپیا سے نکلنا ہو گا۔ یقین کریں کہ رنگ برنگے لہنگے اور میک اپ کی بجائے وہ ٹوپی اور گاؤن زیادہ سجے گا جو لڑکیاں ڈگری لیتے ہوئے پہنیں گی۔

والدین سے تعلیم، معاشی خود مختاری اور مرضی کی شادی کا حق لیتے ہوئے ڈٹ جائیے اور کبھی ہار مت مانیے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments