دبئی میں پاکستانی اور بنگلہ دیشی محنت کش۔ کچھ گپ شپ
شیخ محمد بن راشد بلیوارڈ دبئی، اڑتیسویں منزل کی مشرق کو کھلتی بالکونی سے طلوع آفتاب کا دل کش منظر، طلوع آفتاب کے بعد آسمان کو چھوتے پلازوں کے سورج کی سنہری کرنوں سے چمکتے شیشے، اور ان کے چاروں طرف کی بلڈنگز سے منعکس ہوتی لہروں کے نظر آتے منفرد و فرحت بخش نظارے دیکھتے بالکل سامنے والی اسؔی نوؔے منزلہ بلڈنگ کی چھت کے پیچھے نظر رک گئی۔ برج خلیفہ اپنے ہی رنگ میں ڈھکا ہوا تھا۔ اتفاقا ”نگاہ اسی سامنے والے پلازے پہ کافی نیچے والی منزل کی کھڑکیوں کے باہر، اس پلازے کی چھت سے لٹکتی رسی پہ جا ٹکی۔ مکمل حفاظتی گیئر پہنے ایک محنت کش لٹکا ہوا، بائیں ہاتھ سے رسی پکڑے دائیں ہاتھ میں بڑا سا وائپر پکڑے کھڑکیوں کے شیشے باہر سے صاف کر رہا تھا۔ ایک مرتبہ تو دہل گیا کہ نیچے جھانکتے ہی ہول اٹھتا اور یہ کئی سو میٹر کی بلندی سے نیچے رسی سے لٹکا، صفائی کرتا، اترتا پچاس ساٹھ منزل نیچے اتنی خطرناک ڈیوٹی دے رہا تھا۔ روٹی روزی کے لئے۔ اب دوسری رسی لٹکی اور دوسرا محنت کش اوپر کی منزلوں سے شیشوں کی صفائی کرتا نیچے آتا نظر آیا۔ ساتھ والے پلازے کی چھت سے بھی دو رسیاں کچھ فاصلہ دے کر لٹکیں اور شیشے صاف ہونے لگے۔ موبائل کا کیمرہ مکمل زوم کر کے دیکھا تو لگا کہ بعد والے دونوں کے پاس کچھ زیادہ بہتر سسٹم تھا۔ بٹن دباتے محلول سپرے ہو جاتا۔ وائپر بھی درمیان سے تھام رکھے تھے اور خود بخود گھومتے آگے پیچھے ہوتے۔ “ ہیں مشکل بہت بندۂ مزدور کے اوقات ”میں دہراتا اندر آ چکا تھا۔ لازما“ سخت ٹریننگ، تربیت اور مہارت کے حامل ہی یہ کام کرتے ہوں گے اور یقیناً خاصا بھاری معاوضہ ہو گا۔ ناشتے کی میز پہ ہم سب یہ موضوع چھیڑے تھے۔
کچھ ہی دیر بعد پلازا کے کسی شعبے کا انچارج اجازت لے کر اندر آیا۔ بنگلہ دیش، ڈھاکہ کے قریب کسی قصبہ سے تعلق رکھتے کبیر کی اردو بہت شستہ تھی۔ بیگم صاحبہ سے گپ شپ شروع ہو گئی۔ عرصہ سے دوبئی میں معمولی نوکریوں پہ کام کرتے اب دو تین برس سے اس پلازہ میں بہتر، کم سخت مگر بہت ذمہ داری کا کام تھا۔ بہت اچھی تنخواہ کے باوجود دوبئی میں فیملی کے ساتھ رہنے کا سوچنا بھی ناممکن تھا۔ البتہ کوئی اسی نوے کلو میٹر دور عجمان کے دیہات قصبوں میں کرائے بھی بہت کم اور مہنگائی بھی بہت کم تھی۔ وہاں ایک کمرے کے اپارٹمنٹ میں بیوی بچے تھے۔ اور چار چھ ہفتوں بعد گھر چکر لگا آتا۔ یہاں پلازہ کے کسی کھونے کھدرے میں رہائش تھی۔ ہم اس سے ان اتنی بلندی سے لٹکتے شیشے صاف کرتے کارکنوں کے متعلق پوچھ رہے تھے۔ تجربہ اور پلازہ کی اونچائی اور کام کی نوعیت کے مطابق گیارہ درہم سے چودہ پندرہ درہم فی گھنٹہ تک کی ابتدائی تنخواہ سے اٹھارہ درہم فی گھنٹہ تک سن ہم ہکؔابکاؔ تھے۔ اکثر بڑی کمپنیوں نے بڑے معاوضہ پہ ٹھیکے لئے ہوتے ہیں مگر آگے ذیلی کمپنیوں کو کام سونپا ہوتا ہے۔ جو بہت کم معاوضہ دیتے ہیں۔ یہ کبیر کا بتانا تھا اور بعد میں اکثر ملاقاتیوں سے تصدیق بھی ہوئی۔ جس پلازہ میں ہم نے اپارٹمنٹ لیا تھا وہاں چونکہ ہر منزل پہ باہر بالکونی تھی یہ تیرہ درہم دیتے تھے جبکہ برج خلیفہ والوں کا معاوضہ اصل تو بہت زیادہ مگر مزدور کو کیا ملتا ہے، اسے علم نہ تھا۔
اس بات کا تو ہمیں پہلے ہی علم تھا کہ عرب دنیا میں مغربی ترقی یافتہ ملکوں سے آئی لیبر ہو یا اعلیٰ ہنرمند یا عہدیدار کو اتنی ہی قابلیت والے مشرقی ملک کے کارندے سے دگنا تگنا معاوضہ ملتا ہے۔ کبیر بتا رہا تھا کہ مشرق کے بھی سب ملکوں سے کم معاوضہ بنگلہ دیش اور پاکستان سے آئے محنت کش کا ہے۔ ہم نے گوگل بھائی سے پوچھا تو پتہ چلا کہ دبئی میں ونڈو کلینر اوسطا ”تئیس سو سے ستائیس سو درہم ماہانہ بناتا ہے۔ کینیڈا میں اٹھارہ سے چھبیس ڈالر فی گھنٹہ جب کہ بہت خصوصی مشکل جیسے سی این ٹاور ( پانچ سو میٹر سے زیادہ بلند ) والے پچاس ڈالر بھی شاید حاصل کر لیتے ہیں۔ بتاتا چلوں کہ آٹھ سو اٹھائیس میٹر تک اونچے پہنچے برج خلیفہ کی باہر سے صفائی ہر تین ماہ بعد شروع ہوتی ہے جبکہ اوپر سے نیچے تک مکمل بھی تقریباً تین ماہ میں ہوتی ہے۔ گویا سارا سال چلتی ہے۔
ساڑھے دس بجے ہم، کنبہ کے گیارہ افراد، پلازا کی پارکنگ میں بڑی سی مرسیڈیز وین میں ابوظہبی کی مشہور الشیخ زید بن سلطان مسجد دیکھنے جانے کے لئے بیٹھ رہے تھے۔ افغان ڈرائیور، الف خان کہہ لیجیے، سے بات چھڑ گئی۔ کوہاٹ کے نواح سے تھا۔ امارات نے تازہ تازہ ( گزشتہ دسمبر میں شاید ) پاکستانیوں کے لئے ویزے بند کیے تھے اور وہ تپا ہوا تھا۔ پاکستان سے کسی طرح ویزا لے امارات میں سیاحت کے موسم میں بھیک مانگنا ایک منافع بخش کاروبار بن چکا تھا اور پہلے ہی بہت گر چکے اور دن بدن مزید گرتے چلے جاتے وقار والے پاکستان کا نام ذلت کے عمیق گہرائیوں میں پہنچا چکا تھا۔ وہ ایک خاصی معقول تنخواہ کے باوجود سال بھر میں اتنا نہیں کماتا تھا، جتنا یہ انتہائی منظم لیبر ریکروٹنگ یا کسی اور روپ میں نظر آتی کمپنیوں کی رہنمائی، ٹریننگ اور حصہ داری میں بھیک منگ مافیا والے تین چار ماہ میں کما واپس چلے جاتے تھے۔ کہانی کچھ لاہور کراچی وغیرہ کے معروف چوکوں پہ بھکاری مافیا اور پولیس کی ٹھیکیداری کی کہانیوں سے ملتی جلتی تھی۔ یہ لوگ ہر پاکستانی محنت کش کو حقارت بھری نظروں اور طعنوں کا نشانہ بنا گئے تھے۔ پاکستان کی سیاسی ابتری اور کرپشن کی تفصیلات بیان کرتے بھی رنجیدہ تھا کہ یہ و جۂ تحقیر کو مہمیز لگا چکی تھی۔ الف خان بھی معقول تنخواہ اور ٹپ کے باوجود دبئی کی مہنگائی میں فیملی لا بسانا ناممکن بتا رہا تھا۔ سخت گرمی کے موسم میں سیاحت بھی برائے نام رہ جاتی ہے اور یہ گھروں کے چکر لگا آتے ہیں۔ ایک ایک کمرے میں چار سے چھ افراد رہائش پذیر تھے۔ پاکستان کی مہنگائی میں ان کی پیٹ کاٹ بھیجی خاصی معقول رقوم میں بھی پوری نہ پڑتی تھی۔
شارجہ میں الشیخ زید بن سلطان گرینڈ مسجد اوؔل اور امارات حکمران کے مرکزی محل قصرالوطن کے حسن اور شان کو گھوم پھر آزادی سے دیکھ غروب آفتاب کے لگ بھگ ہم اسی وین پہ واپس رواں تھے۔ الف خان سیاست پہ آ چکا تھا اور پاکستان اپنے آخری چکر میں ائرپورٹ سے ہی اٹھا لیے جانے، چار روز کے چلہ کے بعد رہائی کی داستان مزے لے سنا رہا تھا۔ وہ اپنے امریکہ میں مقیم کسی دوست کی موجودہ نظام مخالف پوسٹوں کو آگے شیئر کرنے کا مجرم تھا۔ لمبی تفصیل سے گریز۔ اپنے قریبی رشتہ داروں کے جو اصل حکمرانی کے اچھے عہدوں پہ تھے کا حوالہ دے وہ معروف محبت سے بچا رہا تھا۔ اور عزیزوں کی تصدیق کام دکھا گئی تھی۔ اور ہمیں اس کے رنجیدہ و نالاں رویہ اور لہجہ کی معرفت ہو چکی تھی۔
اگلے روز دوپہر کے کھانے کے بعد دو خصوصی طور صحرا کی ریت میں سفر کرنے والی نسؔان ایس یو وی گاڑیوں پہ سوار شارجہ کو جا رہے تھے۔ ہمارے والی کا ڈرائیور پشاور کے علاقے کا پٹھان تھا۔ وہ رستہ میں صحرائی سفاری میں اونچے نیچے بڑے چھوٹے تیز ہوا سے بنتے بگڑتے ٹیلوں اور ان کی عمودی ڈھلوانوں چھلانگیں مارتی یا پہلو کے رخ جھکی گاڑی کے سفر کا طریق، صرف دس پاؤنڈ ہوا ٹائر میں رکھتے ریت میں چلانے کا بتا ہمیں ممکنہ دھکے دار جھولنا جھلاتے، ہڈیاں ہلاتے، کولہے مٹکواتے سفر میں احتیاطوں کی ٹریننگ کراتا سبق بتا رہا تھا۔ وہ ایک معمولی مزدوری کرتے اپنے ڈرائیونگ کے شوق کو پورا کرنے اتفاقا ”موقع ملنے پر سفاری کمپنی جا پہنچا تھا آٹھ نو ماہ کی سخت ٹریننگ سات آٹھ مختلف محکموں کے ٹیسٹ پاس کرتے چند ماہ استاد کی نگرانی میں کام کرتے اب وہ بہت پر اعتماد صحرائی سفاری ڈرائیور تھا۔ اچھی تنخواہ، معقول ٹپ اور گرمیوں میں کام نہ ہونے اور چار ماہ با تنخواہ چھٹیوں کے باوجود فیملی یہاں لا بسانے کا سوچ بھی نہ سکتا تھا۔ چار ماہ گھر لگا آتا۔ دو ہزار ریال کرائے والے کمرے میں چھ افراد مقیم تھے۔ اوپر نیچے بستر اور ایک بڑی الماری سامان کے لیے ۔
پرانے دبئی کا چسکا لینے ہم باپ بیٹا نئی لگتی، بی ایم ڈبلیو ٹیکسی میں سوار ہوئے۔ شکل سے بنگالی لگتے نوجوان ڈرائیور کو ٹٹولا تو وہ بھی پاکستانی حافظ آباد کے خصوصی لہجے والا ابھی غیر شادی شدہ تھا۔ پہلے کرائے کی ٹیکسی چلاتے گیارہ بارہ سو درہم بنتے تھے۔ اب اپنے کزن کی شراکت میں اپنی گاڑی تھی۔ قسطیں انشورنس اور دیگر خرچے نکال سال کے کوئی چھتیس ہزار ریال آمدنی کل ( ٹپ اس کے علاوہ ) ہوئی تھی۔ دس بارہ گھنٹے کام روزانہ۔ دو چھوٹے کمروں میں نو افراد کی رہائش تھی۔ زیادہ تر دور نزدیک کے رشتہ دار تھے۔ کنبہ کے بہت سے افراد عرصۂ دراز سے دبئی اور سپین میں پھیلے تھے۔ ان کی وساطت سے دوبئی آنا آسان رہا تھا۔ بہت بڑا پچھتاوا تھا کہ سپین کے ویزے کا موقعہ بھی عزیزوں نے مہیا کیا تھا۔ جو اب سارے اس سے دو تین گنا اور نسبتاً کم اوقات کار میں کما رہے تھے۔
کہانی سب ٹیکسی والوں کی ایک جیسی تھی۔ بیگم اور بچے، اگر میں ساتھ نہ گیا ہوتا، یہ کہانیاں سناتے۔ پاکستان اور دیگر پسماندہ ملکوں کے عوام اور حکومتوں کا خون چوس کے ایکڑوں پہ پھیلے اربوں ڈالر مالیت کے ”غریبانہ“ محلات کے علاقے کے نزدیک سے گزرتے ٹیکسی ڈرائیور ان کے آگے سے گزر کے دکھاتے جانے کی پیش کش کرتے۔ ایک سیاحتی گائڈ کی طرح ان ”غریبوں“ کی ہسٹری کی الف ب تک دہراتے ان کے منہ سے جھڑے پھول بھی سننے لائق تھے۔ سب کا کہنا تھا کہ خدا نخواستہ بیمار پڑیں تو علاج انتہائی مہنگا۔ اکثر خود ہی گولیاں کھاتے بڑی بوڑھیوں والے ٹوٹکے کرتے۔ ڈرائیونگ کے قانون بہت سخت اور معمولی غلطی یا سات آٹھ کلومیٹر بھی تیز رفتار پر تین چار سو سے ایک ہزار ریال جرمانہ۔ عوام عمومی طور پر قانون کے پابند۔ فوری انصاف اور سخت سزاؤں کی وجہ سے چوری چکاری، اور جرائم سے پاک معاشرہ، یہاں تک کے سونے کے زیورات سے لدی پھندی دکانیں کھلی چھوڑ نماز کے لئے چلا جانا ( یہ خواتین کے اپنے مشاہدہ میں آیا) تاہم اگر کسی تنازعہ یا حادثہ وغیرہ میں فریق مخالف کوئی عرب ہو تو اس کا وزن بڑا اور موقف زیادہ قابل قبول، کہ بحیثیت قوم پاکستان اور برصغیر وغیرہ کے واردان علاقہ کے موقف کے سچ ہونے پر کوئی یقین نہیں کرتا۔ دوبئی شہر کے مرکزی علاقہ دبئی مال وغیرہ میں عرب باشندے اسی تناسب سے نظر آئے، جتنا تناسب کینیڈا کے بریمپٹن اور مسی ساگا اور وینکوور وغیرہ میں اصل کینیڈین یا یورپی باشندوں کا ہے۔ محنت کش تو یہاں شاپنگ کر سکنے کا تصور بھی نہیں کرتا۔ ٹیکسی ڈرائیورز کی متفقہ رائے تھی کہ اسی فیصد نظر آتے غیر ملکی سیاح ہوتے ہیں۔ جو شدید گرم مہینوں میں یہاں کا رخ نہیں کرتے تب کئی مال اور گلوبل ولیج اور تفریحی ادارے، خصوصاً صحرائی سفاری وغیرہ بند بھی رہتے اور سڑکیں ویران نظر آتی ہیں۔
دوبئی سے واپسی تھی۔ ائر پورٹ میں ہم میاں بیوی وہیل چیئرز پہ بیٹھے تھے کہ بورڈنگ لاؤنج بہت فاصلے پہ تھا۔ بیگم صاحبہ نے پھر انٹرویو شروع کر دیا۔ وہیل چیئر دھکیلنے والا ایک پھر حافظ آباد کا اور دوسرا مانسہرہ سے تھا۔ وہی کہانی کسی بڑی کمپنی کے پاس وہیل چیئر پر بزرگ اور معذور افراد کو بورڈنگ لاؤنج تک پہنچاتے یا باہر لانے کا ٹھیکہ تھا، اور اس نے آگے ذیلی یا ضمنی ٹھیکے دے رکھے تھے۔ یہ ذیلی ٹھیکیدار کمپنیاں محنت کشوں کا خون نچوڑتیں۔ تنخواہ ماہانہ آٹھ سو ریال صرف تھی۔ کام کی شفٹیں تبدیل ہوتی رہتیں۔ کمپنی نے البتہ رہائش مہیا کی تھی ایک بڑے کمرہ میں آٹھ افراد تھے۔ اگر مہینہ بھر کوئی چھٹی نہ ہو تو سو درہم انعام ملتا۔ چھوٹی موٹی بیماری خود، مگر اگر کوئی بڑا حادثہ یا بیماری ہو تو ہسپتال کا علاج کمپنی کے ذمہ۔ کھانا کیٹرنگ کمپنی سے آتا تھا جس کے اوقات مقرر تھے۔ آپ کام پہ ہوں تو ٹفن باہر رکھ دیا جاتا ہے جو جب بھی واپسی ہو ٹھنڈا زہر مار کرنا پڑتا ہے، کھانے کی مقدار اتنی کم کہ پیٹ کبھی نہیں بھرتا لہذا ناشتہ بھی بازار سے اور چھوٹی موٹی منہ ماری بھی ساتھ خاصی رقم گنواتی ہے مسافروں کی دی ٹپ اور مکمل کنجوسی کرتے بھوکے بھی رہتے ہر تفریح راحت بھولتے پانچ چھ سو ریال گھر بھیجتے ہیں جو چالیس پینتالیس ہزار روپیہ بن ہی جاتا ہے اور گاؤں میں رہتے گھر والے ”میاں صاحب دبئی ہوندے نیں“ کے نعرے لگاتے ہیں۔
ائرپورٹ بورڈنگ لاؤنج میں نیم دراز میری نگاہوں میں پاکستان اور آزاد کشمیر کے مختلف شہری اور دور دراز بالکل پسماندہ لگتے علاقوں میں ان بیرون ملک پاکستانیوں کے محلات کی تصویریں اور ترقی کی داستانیں بھی گردش کر رہی تھیں جو محنت اور لگن سے کام کرتے بہت آگے بلکہ یورپی امریکن ممالک کی اسمبلیوں کے رکن، وزیر، میئر وغیرہ تک جا پہنچے تھے اور اسؔی کی دہائی میں اداکار شکیل کا وہ ڈرامہ بھی گھوم رہا تھا جس میں بیرون ملک پلمبر بنے زندگی گزار یہ خواب دیکھتے واپس آتا ہے کہ پوری زندگی بھیجے پیسوں سے بچت شدہ رقم سے کوئی اچھا کاروبار شروع کرے گا اور یہاں اس کے گھر والے اسے بیروں ملک انجینئر بتاتے ٹھاٹھ دار زندگی گزارتے سب کچھ ختم کر چکے ہوتے ہیں اور دوبارہ پلمبنگ کا کام شروع کر اتفاقآ اس گھر میں پائپ مرمت کر رہا ہوتا ہے جہاں اس کی بیوی اور عزیز اس انجینئر کی بیٹی یا بیٹے کی شادی کی بات پکی کرنے آئے ہوتے ہیں۔
مجھے جنوری انیس سو ستر کی شدید سرد صبح یاد آتی ہے جب مڑا تڑا سوٹ پہنے انگلینڈ سے آیا ایک جوان ہاتھ میں کار کی چھت کا جنگلہ لئے اسے بیچنے، میری دکان کے باہر کھڑی کار دیکھ کر اندر آتا ہے اور اپنا پاسپورٹ ویزا ورک پرمٹ دکھاتے اسے خرید لینے کی درخواست کرتا ہے۔ اس نے جو کچھ بھیجا تھا گھر والے اُچیاں شاناں والے ”بن اُڑا چکے تھے اور وہ جو ساتھ لایا تھا وہ شملہ اونچا رکھنے کے لئے نزدیک و دور کے عزیزوں میں آؤنی کے طور بانٹا جا چکا تھا اور اب وہ ٹٹول رہا تھا کہ واپسی کے لئے لاہور ائرپورٹ پہنچنے اور زاد راہ کا انتظام کرنا تھا۔ اور اگلے روز ایک گرم سوٹ اور کوٹ پینٹ کا اچھی کوالٹی کا کپڑا ساتھ رسید لے کے روتا ہوا آیا کہ اس نے اپنی شادی کے لئے سوٹ بنوانا تھا۔ مگر واپس بھاگنا ہے۔
مجھے وہ جوان یاد آیا جس سے پوچھا کہ تم نے پڑھائی ادھوری چھوڑ دی تو کوئی کام دھندا بھی نہیں کرتے تو منہ ٹیڑھا کرتے ”بھا جی دوبئی ہوندے نے“ کہہ نکل گیا تھا۔
جہاز کی روانگی کا اعلان ہو گیا تھا اور اندر جاتے گلشن نندہ کے ناول کالی گھٹا کا یہ فقرہ ہماری زبان پہ تھا۔ ”آکاش پہ چھاتی امڈتی کالی گھٹا کو دیکھ اس کے اندر چھپے طوفانوں کا اندازہ تو سبھی لگا لیتے ہیں، مگر کسی انسان کے دل میں امڈتے طوفانوں کا اندازہ آسان نہیں۔ وہ اسے اپنی مجبوریوں سے ڈھانپ لیتا ہے“ ایک ٹیکسی ڈرائیور نے کہا تھا، ”انکل، اندر کے کرب کیسے بتائیں، کسے بتائیں، گھر والوں کو بھی نہیں، کہ جھولی اٹھائیں تو پیٹ اپنا ہی ننگا ہوتا ہے۔“
- دبئی میں پاکستانی اور بنگلہ دیشی محنت کش۔ کچھ گپ شپ - 03/05/2025
- کینیڈا: کیا مزا اس ووٹ ڈالنے کا - 21/04/2025
- شارجہ صحرائی سفاری: چمکتی ریت اور مہم جوئی میں گزرا دن - 16/04/2025
Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).