انیس اشفاق بطور نقاد: فکری ژرف نگاہی اور اسلوبی سادگی کا امتزاج
اردو ادب کا سنجیدہ قاری انیس اشفاق کے نام سے بخوبی واقف ہے۔ وہ ان چند ادیبوں میں شامل ہیں جنہوں نے ادب کی تقریباً تمام اصناف میں قلم آزمایا اور اپنی منفرد شناخت قائم کی۔ ناول ہو یا افسانہ، تنقید ہو یا تحقیق، ترجمہ ہو یا شاعری، انیس اشفاق نے ہر میدان میں ایسی بصیرت افروز تخلیقات پیش کیں جو اردو ادب کے سرمائے میں گراں قدر اضافہ ہیں۔ آپ لکھنؤ کے ایک محلے بزازے میں 1950ء، میں پیدا ہوئے۔
شاعری میں ان کی ابتدائی تربیت کا سہرا ان کی والدہ محترمہ کے سر ہے، جنہوں نے نہ صرف ان کی زبان و بیان کو سنوارا بلکہ ان کے ذوقِ سخن کو بھی نکھارا۔ وہ نہایت شفقت سے انیس اشفاق کو شعر کہنا سکھاتیں، تقریریں لکھواتیں، اور دورانِ تقریر ان کے تلفظ کی درستگی پر توجہ دیتیں۔ یہی ابتدائی شعوری تربیت آگے چل کر ان کے ادبی وقار کی بنیاد بنی۔ انیس اشفاق نے ادب کی دنیا میں قدم بچوں کے لیے کہانیاں لکھ کر رکھا۔ ان کی تخلیقی فطرت اور جمالیاتی حس نے بچپن ہی میں انہیں اظہارِ ذات کی طرف مائل کیا۔ وقت کے ساتھ ان کا قلم پختہ ہوتا گیا اور وہ ایک ایسے فنکار کے طور پر ابھرے جس نے زندگی کے پیچیدہ تجربات کو ادبی اسلوب میں ڈھال کر قاری کو نئی فکری جہات سے روشناس کرایا۔
انیس اشفاق کی شخصیت کا حسن یہ ہے کہ وہ صرف ایک صنف کے تخلیق کار نہیں بلکہ ایک ایسے ہمہ جہت فنکار ہیں جن کی ہر تحریر میں علم، تخیل، تجربہ اور اظہار کی ہم آہنگی نظر آتی ہے۔ ان کی تنقید میں فکری گہرائی، ان کے فکشن میں انسانی رویوں کی تہہ در تہہ معنویت، اور ان کی شاعری میں جذبے کی لطافت نمایاں ہے۔
انیس اشفاق کا تنقیدی رویہ اردو تنقید کے اس ارتقائی سفر کا نمائندہ ہے۔ جس میں ادب کو محض الفاظ کا کھیل یا محض فنی اظہار نہیں سمجھا جاتا بلکہ اسے انسانی شعور، احساس اور تہذیبی روایت کا مظہر قرار دیا جاتا ہے۔ ان کی تنقید زندگی کے مختلف پہلوؤں سے جڑی ہوئی ہے، جس میں انسانی رویوں، اقدار، اور فکری رجحانات کا گہرا مشاہدہ نظر آتا ہے۔ وہ محض ادب کی فنی خوبیاں گنوانے پر اکتفا نہیں کرتے بلکہ اس میں چھپی تہذیبی معنویت اور فکری توانائی کو دریافت کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ ان کے نزدیک تنقید صرف متن کو پرکھنے کا نام نہیں بلکہ ایک فکری عمل ہے جو قاری کو ادب کے ذریعے زندگی کو بہتر طور پر سمجھنے میں مدد دیتا ہے۔
انیس اشفاق کے اسلوب کی سب سے بڑی خوبی یہ ہے کہ وہ فلسفیانہ پیچیدگی یا لسانی غرابت سے اجتناب کرتے ہوئے انتہائی سہل، سادہ اور رواں زبان میں گہری بات کہہ جاتے ہیں۔ یہی سادگی ان کے اسلوب کو اثر انگیز بناتی ہے۔ ان کی تحریروں میں تنقید، تجربہ، مشاہدہ، اور زندگی کے حقائق اس طرح گھل مل جاتے ہیں کہ قاری محض ادب نہیں پڑھتا بلکہ ایک مکالمے میں شامل ہو جاتا ہے۔ وہ ادب کو ایک زندہ اور متحرک عمل سمجھتے ہیں اور اسی تناظر میں تنقید کو بھی ایک فکری سرگرمی کے طور پر دیکھتے ہیں۔ یہی فکری بصیرت اور اسلوبی سادگی انہیں اردو تنقید کے موجودہ منظرنامے میں ممتاز مقام عطا کرتی ہے۔
انیس اشفاق کی اہم تنقیدی کتب درج ذیل ہیں :
1۔ بحث و تنقید
2۔ ادب کی باتیں
3۔ غالب: دنیائے معنی کا مطالعہ
4۔ سیدھی باتیں اور سادہ مطالب
5۔ اردو غزل میں علامت نگاری
6۔ غزل کا نیا علامتی نظام
اب ان کتابوں کا تنقیدی جائزہ پیش کیا جاتا ہے۔
1۔ بحث و تنقید۔ تنقید کے بنیادی اصولوں پر بصیرت افروز مکالمہ
انیس اشفاق کی یہ کتاب اردو تنقید کی بنیادوں کو سمجھنے اور نئے تنقیدی رویوں کو متعین کرنے کی ایک سنجیدہ کوشش ہے۔ اس کتاب میں انہوں نے ادبی اصناف، تنقیدی نظریات اور معاصر رجحانات پر متوازن گفتگو کی ہے۔ ”بحث و تنقید“ میں ان کا اسلوب نہایت شائستہ، دلیل پر مبنی اور قاری سے براہِ راست مکالمہ کرتا ہوا نظر آتا ہے۔ انہوں نے تنقید کو محض اصطلاحات اور نظریات کی مشق نہیں بنایا، بلکہ تنقیدی شعور کو زندگی سے مربوط رکھنے کی کوشش کی۔
انیس اشفاق کے تنقیدی مجموعے ”بحث و تنقید“ کی یہ تفصیل اس بات کی واضح ترجمان ہے کہ وہ تنقید کو ایک فن، ایک معروضی شعور اور ادب کی داخلی تفہیم کا ذریعہ سمجھتے ہیں۔ اس مجموعے میں شامل چوبیس مضامین کو موضوعاتی نوعیت کے لحاظ سے تین بڑے حصوں میں تقسیم کیا گیا ہے : شاعری، تنقید، اور فکشن۔ ان سبھی حصوں میں مختلف اصناف اور موضوعات پر تفصیلی اور بصیرت افروز مطالعہ پیش کیا گیا ہے۔
1۔ شاعری کا حصہ:
پہلے حصے میں مختلف ادوار اور صنفی تنوع کے حامل شاعروں کے کلام کے منفرد پہلوؤں پر روشنی ڈالی گئی ہے۔ انیس اشفاق نے ان شعرا کے کلام کو محض روایتی تنقید کی نظر سے نہیں دیکھا بلکہ ان کے شعری اسلوب، فکری جہات اور تہذیبی شعور کے تناظر میں گہرائی سے پرکھا ہے۔
اس حصے میں شامل شعرا جیسے کہ میر، غالب، مومن، انیس، خلیل الرحمن اعظمی، عرفان صدیقی اور فراست رضوی۔ سبھی کے ہاں فکر اور اسلوب کی جداگانہ جہتوں کو موضوع بنایا گیا ہے۔ خاص طور پر عرفان صدیقی پر لکھا گیا مضمون اپنی نوعیت کا پہلا مفصل مطالعہ ہے جو ہندوستان و پاکستان میں کسی بھی تنقید نگار نے پیش کیا۔ اسی طرح دو اہم موضوعاتی مضامین، ”اردو غزل اور ہمارا تہذیبی تشخص“ ، اور ”بیسویں صدی میں اردو غزل“ غزل کے فکری و تہذیبی پس منظر اور ارتقائی تجزیے کی عمدہ مثالیں ہیں۔
2۔ تنقید کا حصہ:
اس حصے میں زیادہ تر مضامین ”تنقید کی تنقید“ سے تعلق رکھتے ہیں، یعنی خود تنقیدی رویوں، تنقیدی نظریات اور ان کی حدود و امکانات پر گفتگو کی گئی ہے۔ صرف ایک مضمون ”تخلیقی تجربہ اور سماجی وابستگی“ اس عمومی دائرے سے ہٹ کر ہے کیونکہ یہ زیادہ تخلیق اور معاشرت کے باہمی تعلق کو زیر بحث لاتا ہے۔ انیس اشفاق یہاں تنقیدی دبستانوں کی پیروی نہیں کرتے بلکہ آزاد فکری رجحان کو اپناتے ہوئے ادب کے داخلی تناظر سے تنقیدی گفتگو کرتے ہیں۔
3۔ فکشن کا حصہ:
یہ حصہ اردو نثر، خصوصاً فکشن پر مبنی ہے۔ یہاں عزیز احمد، قرۃ العین حیدر اور رشید احمد صدیقی کے تخلیقی جہات کو موضوع بنایا گیا ہے۔ اگرچہ رشید احمد صدیقی کو عمومی طور پر فکشن نگار کے طور پر نہیں دیکھا جاتا، تاہم ان کے ایک اہم مضمون کے تجزیے نے اس کتاب میں ان کی شمولیت کو ضروری بنا دیا۔ مزید برآں، آخری دو مضامین میں : ایک میں اردو ناول کے نئے تنقیدی تناظر کا جائزہ لیا گیا ہے، جبکہ دوسرے میں ناول کی تکنیکی ساخت اور فنی مسائل پر گہری نظر ڈالی گئی ہے۔
عمومی تنقیدی رویہ:
انیس اشفاق کی سب سے اہم خصوصیت یہ ہے کہ وہ ادب کو کسی مخصوص نظریاتی سانچے یا دبستان میں قید کر کے نہیں دیکھتے۔ ان کا تنقیدی رویہ معروضی ہے، یعنی وہ ادب کو اس کے متن، اسلوب، اور داخلی معنویت کے حوالے سے سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں۔ وہ نظریے یا فلسفے کو ادب پر مسلط کرنے کے بجائے ادب سے نظریہ اخذ کرتے ہیں۔ ان کی تنقیدی تحریروں میں اصولی مباحث کے نتائج بھی خود ادب کے متن کی روشنی میں سامنے آتے ہیں۔
یوں ”بحث و تنقید“ اردو تنقید کی روایت میں ایک فکر انگیز اور متوازن اضافہ ہے، جو ادب کے مختلف شعبوں کو ایک سنجیدہ، منصفانہ اور تخلیقی انداز سے پرکھنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ انیس اشفاق کی یہ کتاب اس بات کا ثبوت ہے کہ تنقید بھی خود ایک تخلیقی عمل ہے، جو ادب کے حسن، معنویت، اور سماجی پس منظر کو روشن کرنے میں معاون ہوتا ہے۔
2۔ ادب کی باتیں
انیس اشفاق کی اس کتاب میں شامل تنقیدی مضامین کو موضوعات اور مباحث کی نوعیت کے اعتبار سے تین واضح حصوں میں تقسیم کیا گیا ہے، جو اس کتاب کے مطالعاتی نظام کو نہایت منظم اور فکری طور پر مربوط بنا دیتے ہیں۔
پہلا حصہ غزل کے فن اور اس کی تفہیم سے متعلق ہے۔ اس حصے میں ابتدائی مضامین غزل کے متنی تجزیے، تعبیر و تشریح، اور منشائے مصنف جیسے بنیادی تنقیدی مباحث پر مشتمل ہیں۔ ان مضامین میں صرف نظریاتی گفتگو نہیں کی گئی بلکہ عملی تنقید کے طور پر چند نمائندہ غزل گو شعرا کا تنقیدی محاکمہ بھی پیش کیا گیا ہے۔ اس حصے میں غزل کو ایک فنی و فکری صنف کے طور پر برتا گیا ہے اور اس کے اندر پوشیدہ معانی، تہذیبی شعور اور علامتی جہات کو گہرائی سے سمجھنے کی کوشش کی گئی ہے۔
دوسرے حصے میں نظم گو شعرا کے تجزیاتی مطالعے شامل ہیں۔ اس حصے کا تنقیدی طریقۂ کار بھی وہی ہے جو پہلے حصے میں اپنایا گیا، یعنی شعری متن کی باریک بینی سے تعبیر و تحلیل۔ ان مطالعوں میں نظم کی صنف کے مخصوص اسلوب، فکری ڈھانچے، اور شعری رویوں کا جائزہ لیا گیا ہے۔ یہاں اشعار کو صرف جمالیاتی انداز میں نہیں دیکھا گیا بلکہ ان کے فکری، سماجی اور علامتی پہلوؤں کو بھی موضوعِ مطالعہ بنایا گیا ہے۔
تیسرا اور آخری حصہ نثر پر مشتمل ہے، جو کتاب کا دائرہ وسیع تر کر دیتا ہے۔ اس حصے میں فکشن کے ایک غیر ملکی ادیب کی زندگی اور تخلیقات کا تفصیلی جائزہ شامل ہے، جس سے تنقید کی عالمی جہت بھی ابھر کر سامنے آتی ہے۔ اس کے علاوہ اردو کے ایک ممتاز افسانہ نگار کے افسانے کو ان کے ہم عصر کے تنقیدی مطالعے کی روشنی میں پرکھا گیا ہے، جو تنقیدی رویوں کی تقابلی جانچ کا ایک عمدہ نمونہ ہے۔ اس حصے میں ایک مخصوص ادبی موضوع سے متعلق تنقیدی کتاب پر بھی گفتگو کی گئی ہے، جس سے اردو تنقید کی جدید سمتوں پر روشنی پڑتی ہے۔
یوں یہ تینوں حصے نہ صرف موضوعاتی لحاظ سے متنوع ہیں بلکہ تنقیدی زاویوں کی سطح پر بھی ایک ہم آہنگ فکری تسلسل پیش کرتے ہیں، جو اس کتاب کو اردو تنقید میں ایک اہم سنگ میل کی حیثیت دیتا ہے۔
اس کتاب کے اہم موضوعات یہ ہیں۔ غزل کی تدریس / تفہیم، تعبیر متن اور منشائے مصنف، قائم کی غزل، یگانہ : فکری پس منظر، یگانہ اور نئی شاعری، کہ یاد میر کے انداز کی دِلا دینا، (فراق کی تاریخی اہمیت) ، فیض کی شاعری میں صبا کی علامت، غزل کا نیا علامتی نظام، میرا نیس اور قصہ گوئی کا فن، مرزداد بیر کے ایک مرثیے کا واقعاتی اور لفظیاتی نظام، جوش اور الفاظ، البیئر کا میو، بیدی کا افسانہ گرہن، (حیات اللہ انصاری کے تجزیے کی روشنی میں ) تنقید کے ایک نئے موضوع کی خشتِ اوّل (سانحۂ کربلا بطور شعری استعارہ)
3۔ سیدھی باتیں اور سادہ مطالب۔ سادگی میں معنوی گہرائی
یہ کتاب انیس اشفاق کی تنقیدی اپروچ کو سمجھنے کے لیے نہایت اہم ہے۔ جیسا کہ عنوان سے ظاہر ہے، مصنف نے یہاں تنقید کو ایک سادہ، قاری فہم اور روزمرہ انسانی تجربات سے جُڑے انداز میں پیش کیا ہے۔ کتاب کا تنقیدی تناظر وسیع ہے۔ انیس نے بارہ تنقیدی مضامین پیش کیے ہیں۔ جس میں فلسفہ غیر، شعر اقبال، قصیدے کی شعریات، تنقیدی زبان، طنز و مزاح، اختر الایمان کی شاعری، اردو میں بیانیے کی روایت، غیر افسانوی نثر، سردار جعفری کا دیوان ِمیر، افتخار عارف کی غزل اور معاصر اردو ناول، جیسے مضامین شامل ہیں۔ انیس اشفاق ادب کو زندگی کا آئینہ سمجھتے ہیں اور اس کی تفہیم کو انسانی شعور کی بیداری سے جوڑتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ ”ادب صرف ادب نہیں، بلکہ انسان کی فکری تاریخ ہے۔“ یہی نظریہ اس کتاب کے ہر مضمون میں جھلکتا ہے۔
ان کی یہ کتاب اردو تنقید میں ایک منفرد اسلوب کی نمائندگی کرتی ہے۔ انیس اشفاق کی تنقیدی بصیرت اور فکری گہرائی اس کتاب کے ہر مضمون میں نمایاں ہے۔ ان کے پیش کردہ موضوعات نہ صرف متنوع ہیں بلکہ اردو ادب کے مختلف گوشوں کو ایک وحدت میں پروتے ہیں۔ وہ ادب کو محض جمالیاتی تجربہ نہیں سمجھتے، بلکہ اسے انسانی شعور، سماجی تجربات اور فکری تاریخ کی توسیع تصور کرتے ہیں۔ ان کی تنقید محض تشریح یا تجزیہ نہیں بلکہ ایک فکری مکالمہ ہے جو قاری کو دعوتِ غور و فکر دیتا ہے۔ اس میں نہ صرف ادب کی بوطیقا پر گفتگو ہے بلکہ زبان، سماج اور تہذیب کے باہمی رشتوں کا بھی سراغ ملتا ہے۔
انیس اشفاق کا اسلوب تنقیدی نثر میں ایک تازہ ہوا کے جھونکے کی مانند محسوس ہوتا ہے۔ وہ پیچیدہ نظریاتی موضوعات کو سہل انداز میں بیان کرنے کا ہنر رکھتے ہیں، مگر اس سادگی میں گہرائی بھی برقرار رہتی ہے۔ ان کا بیانیہ محض علمی حوالوں کا انبار نہیں بلکہ ایک دل آویز فکری سفر ہے، جس میں قاری کو شریک کر کے اسے ادب کے وسیع تر معانی سے روشناس کروایا جاتا ہے۔ وہ ہر مضمون میں صرف ادبی فن پارے کا جائزہ نہیں لیتے بلکہ اس کے پس منظر، اس کی فکری معنویت اور عہد کے تقاضوں کو بھی سامنے رکھتے ہیں، یوں ان کی تنقید ایک ہمہ گیر مطالعے کی صورت اختیار کر لیتی ہے۔
اس کتاب کی سب سے اہم خوبی یہ ہے کہ اس میں انیس اشفاق نے نہ صرف کلاسیکی ادب بلکہ جدید اور معاصر ادب کو بھی تنقید کے دائرے میں شامل کیا ہے۔ قصیدہ ہو یا بیانیہ، غیر افسانوی نثر ہو یا طنز و مزاح، وہ ہر صنف کو اس کی فنی و فکری جہات کے ساتھ برتتے ہیں۔ خاص طور پر افتخار عارف، اختر الایمان اور سردار جعفری جیسے شعرا پر ان کا تنقیدی مطالعہ ان کی بصیرت افروز نگاہ کا ثبوت ہے۔ یوں یہ کتاب اردو تنقید میں ایک ہمہ گیر اور متوازن نقطۂ نظر کی نمائندگی کرتی ہے، جو روایت و تجدد، کلاسیکی و جدید، اور نظریہ و تجربہ، سب کو ایک بامعنی گفتگو میں سمیٹتی ہے۔
4۔ غالب: دنیائے معنی کا مطالعہ
انیس اشفاق اس کتاب میں غالب شناسی کے اس دو رُخی رویّے کا جائزہ لیتے ہیں جو ایک طرف غالب پر لکھنے کو محض ایک ادبی روایت کے تسلسل کے طور پر دیکھتا ہے اور دوسری طرف ایک فکری چیلنج کی صورت میں جائزہ لیتا ہے۔ ان کے نزدیک غالب پر لکھنے والے دو طرح کے لوگ ہوتے ہیں : ایک وہ جو غالب پر لکھنا فرضِ کفایہ سمجھتے ہیں، یعنی روایت کے نبھانے کے لیے لکھتے ہیں، اور دوسرے وہ جو اسے تخلیقی و تنقیدی ریاضت کا ایک چیلنج تصور کرتے ہیں۔
پہلے گروہ نے اگرچہ غالب کو اجتماعی حافظے میں زندہ رکھا، لیکن حقیقی بصیرت افروز تحریریں دوسرے گروہ کی دین ہیں جو غالب کے فن و فکر کو نئی جہات سے دیکھنے کی جستجو کرتا ہے۔ یہ رویّہ صرف غالبیات تک محدود نہیں بلکہ انسانی نفسیات کا عمومی مظہر ہے، جہاں سہل پسندی اکثریت جبکہ تخلیقی و فکری محنت اقلیت کا شیوہ ٹھہرتی ہے۔
انیس اشفاق اپنے تنقیدی مقام اور غالب انسٹی ٹیوٹ سے اپنے تعلق کو واضح کرتے ہیں۔ وہ اس بات کو تسلیم کرتے ہیں کہ غالبیات میں نئی بات کہنا آسان نہیں، لیکن ان کی کوشش ہے کہ جو باتیں بار بار کہی گئی ہیں، ان کو بھی نئے سیاق و سباق میں رکھ کر تازہ معانی دیے جائیں۔ ان کی یہ کتاب اس مقصد کی تکمیل کا ایک عملی نمونہ ہے، جہاں وہ غالب پر اپنے پیش کردہ تنقیدی مضامین کو یکجا کر کے غالب کے فن پر اپنے منفرد نقطۂ نظر کو نمایاں کرتے ہیں۔ وہ اس پہلو پر بھی روشنی ڈالتے ہیں کہ کیسے غالب انسٹی ٹیوٹ اور اس کے جریدے ’غالب نامہ‘ کے توسط سے ان کے کئی مضامین شائع اور پیش کیے جا چکے ہیں، جو اس انسٹی ٹیوٹ سے ان کے فکری ربط کی علامت ہیں۔
انیس اشفاق نے کتاب میں شامل مضامین کا تعارف کرایا ہے، اور بتایا ہے کہ یہ مضامین مختلف اوقات میں مختلف علمی و ادبی سیمیناروں میں پڑھے گئے۔ ان میں ایوانِ غالب کے تحت پیش کیے گئے تحقیقی مقالات، دہلی اردو اکادمی کے تنقیدی اجلاسوں میں پڑھے گئے مضامین، اور ساہتیہ اکادمی جیسے اداروں میں بجنوری پر کیے گئے علمی کام شامل ہیں۔ خاص طور پر ”غالب کی شاعری کا علامتی نظام“ جیسا مضمون ان کے اس وسیع تر منصوبے کا حصہ ہے جس میں وہ اردو غزل کے علامتی نظام کو سمجھنے اور واضح کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ ان تمام مضامین کی مشترک خوبی یہ ہے کہ یہ غالب کو محض ماضی کی عظمت کے طور پر نہیں بلکہ حال کے فکری چیلنج کے طور پر دیکھتے ہیں، اور یہی رویہ انیس اشفاق کو ایک نمایاں غالب شناس کے طور پر پیش کرتا ہے۔
5۔ اردو غزل میں علامت نگاری
اس کتاب میں انیس اشفاق علامت پر بات کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ادب میں بالواسطہ اظہار کو بنیادی اہمیت حاصل ہے کیونکہ یہ علامتی سطح پر نہ صرف گہرے معانی کو جنم دیتا ہے بلکہ قاری کے ذہن کو بھی متحرک کرتا ہے۔ علامت نگاری میں براہ راست بیانیہ کے بجائے ایسے اشارے، استعارے اور تمثیلات استعمال ہوتی ہیں جو کسی واقعہ یا جذبے کو وسیع تر مفاہیم کے ساتھ پیش کرتی ہیں۔ ادبی علامتیں ظاہری اور باطنی مفہوم کے درمیان ایک ایسا رشتہ قائم کرتی ہیں جو قاری کو محض ظاہری واقعات سے آگے لے جا کر کسی گہری سچائی یا باطنی حقیقت تک پہنچنے کی دعوت دیتی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ علامت کا دائرہ محض ایک مفہوم تک محدود نہیں رہتا بلکہ اس کی تعبیر قاری کے فہم، تجربے اور تناظر کے مطابق بدل سکتی ہے۔
علامت نگاری کا عمل صرف جمالیاتی اظہار نہیں بلکہ حقیقت کے کسی گہرے اور پوشیدہ پہلو کو دریافت کرنے کی سعی بھی ہوتا ہے۔ یہ ذہنی، فکری اور روحانی سطح پر قاری کو مہمیز دیتا ہے تاکہ وہ متن میں پوشیدہ جہات کو سمجھنے کی کوشش کرے۔ اردو ادب میں علامت نگاری پر کچھ کام ضرور ہوا ہے، تاہم یہ موضوع ابھی بھی تحقیق اور تنقیدی مطالعے کا متقاضی ہے۔ خاص طور پر غزل، نظم اور افسانے میں علامت نگاری کے مختلف اسالیب اور رجحانات پر مزید غور و فکر کی ضرورت ہے تاکہ اردو ادب میں اس فنی و فکری پہلو کو بہتر طور پر سمجھا جا سکے۔ اس کتاب کے چھ ابواب میں نقاد نے اردو غزل میں علامت نگاری کے اس تفصیلی جائزے میں علامت کی تشکیل سے لے کر اظہار میں علامت کی اہمیت اور دائرہ عمل اور اردو شعراء کے تصور علامت سے متعلق بہت سے پہلوؤں کا احاطہ کیا گیا ہے۔
6۔ غزل کا نیا علامتی نظام
انیس اشفاق کے مطابق، اگرچہ پرانے علامتی نظام میں ایک استحکام، روانی اور معنوی وسعت پائی جاتی تھی، لیکن وقت کے ساتھ ساتھ اس نظام کی معنوی توانائی کم ہونے لگی، اور وہ نئے عہد کے فکری، تہذیبی اور نفسیاتی تقاضوں سے ہم آہنگ نہیں رہا۔ یہی وجہ ہے کہ نئی غزل نے ان علامتوں کو ترک کر کے نئی علامتوں کی تشکیل کی جانب قدم بڑھایا۔ اس کا مطلب صرف پرانے نظام سے انحراف نہیں بلکہ اس کی جگہ ایک تازہ تر، عصری اور زندگی کے بدلتے ہوئے تجربات سے ہم آہنگ علامتی نظام کی تخلیق ہے۔
انیس اشفاق اس عمل کو محض تغیر یا رد و بدل نہیں سمجھتے بلکہ ایک باشعور ادبی اقدام کے طور پر دیکھتے ہیں۔ وہ اسے ایک فکری جدوجہد کہتے ہیں جس کے ذریعے غزل نے خود کو وقت کے ساتھ ہم آہنگ کیا ہے۔ ان کے مطابق، اس نئی تشکیل میں شعرا صرف نئی علامتیں وضع نہیں کرتے بلکہ ان کے ساتھ جڑے ہوئے تلازمات، ثقافتی و ذاتی سیاق و سباق، اور فکری متعلقات بھی نئے سرے سے تخلیق کرتے ہیں۔ اس کا مطلب ہے کہ علامت اب محض کوئی جمالیاتی یا فنی آلہ نہیں بلکہ ایک مکمل فکری وحدت بن گئی ہے جو شاعر کی انفرادی شناخت اور عصری شعور دونوں کی نمائندگی کرتی ہے۔ وہ لکھتے ہیں :
”غزل کا نیا علامتی نظام میری پہلی کتاب ’اردو غزل میں علامت نگاری‘ کا دوسرا حصہ ہے۔ پہلے حصے کا خاتمہ غالب کی علامت نگاری پر ہوا تھا۔ اس کتاب میں سے یہ نتیجہ نکالا کہ پرانا علامتی نظام رواں اور مستحکم ہونے کے باوجود نئی شاعری میں فرسودہ اور ازکار رفتہ سمجھا جانے لگا۔ جس کی وجہ سے پرانا علامتی نظام ٹوٹ رہا ہے اور اس کی جگہ ایک نیا علامتی نظام بن رہا ہے۔ “
مزید برآں، انیس اشفاق نے دس نمائندہ شاعروں کے انتخاب سے یہ ثابت کرنے کی کوشش کی کہ یہ رجحان کوئی انفرادی تجربہ نہیں بلکہ ایک اجتماعی ادبی رویہ بنتا جا رہا ہے۔ یہ شاعر نئی علامتیں صرف خارجی مشاہدے کی بنیاد پر نہیں بلکہ اپنی داخلی کیفیات، سماجی شعور اور تہذیبی تجربے کی بنیاد پر تخلیق کرتے ہیں۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ غزل اب محض اظہارِ جذبات یا روایتی استعارہ بازی کا وسیلہ نہیں بلکہ انسانی تجربے کے وسیع تر دائرے کو سمیٹنے والی ایک فکری صنف بنتی جا رہی ہے۔ انیس اشفاق کی یہ تجزیاتی بصیرت اردو غزل کو ایک نئے تنقیدی زاویے سے دیکھنے کا موقع فراہم کرتی ہے۔
انیس اشفاق کی تنقید کی اہمیت
انیس اشفاق کی تنقید کی اہمیت اس میں ہے کہ وہ پیچیدہ مباحث کو سہل، مگر فکر انگیز انداز میں بیان کرتے ہیں۔ ان کی تحریر کسی دباؤ یا نظریاتی جبر سے آزاد ہے، اور قاری کو ادبی مکالمے میں شامل کرتی ہے۔ وہ نہ تو تنقید کو محض فن سمجھتے ہیں اور نہ ہی اسے ایک علمی مشق بلکہ اسے ایک تہذیبی عمل اور انسانی تجربے کا تسلسل قرار دیتے ہیں۔
ان کی تنقیدی کتابیں اردو ادب کے طالبعلموں اور محققین کے لیے فکری مواد مہیا کرتی ہیں۔ ان کی تحریریں ہمیں یہ سکھاتی ہیں کہ تنقید صرف معروضی تجزیہ نہیں، بلکہ ایک باطن کی بیداری، ادب کے ساتھ جڑت اور شعور کی تازگی بھی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ انیس اشفاق اردو کے ان نقادوں میں شمار ہوتے ہیں جن کی تحریریں آج بھی پڑھنے والے کو سوچنے پر مجبور کرتی ہیں۔
Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).