جنگ
راجکُمار کم سن تھا مگر راجہ صاحب نے اسے صغرسنی میں ہی اپنے مصاحب خاص کے حوالے کر دیا تھا کہ وہ ہمہ وقت اسے اپنے زیر سایہ رکھے اور راج پاٹھ پڑھائے کہ مستقبل میں سنگھاسن پر براجمان ہونے کے بعد اسے اقتدار کی پرپیچ گتھیوں کو سلجھانے میں ذرا بھی دقت نہ ہو۔ ایک شام شہزادہ اپنے اتالیق کے ساتھ ہوا خوری کے لیے جا رہا تھا کہ اس کی نظر ایک گھنے درخت پر پڑی اور غصے سے اس کے چہرے کا رنگ متغیر ہو گیا۔ اس نے کہا مجھے اس درخت کو کاٹنا ہے۔ ابھی اور اسی وقت۔ استاد نے حیران ہو کر پوچھا کیوں؟ کہا بچپن میں مَیں یہاں کھیل رہا تھا تو اس کے تنے سے ٹکرا کر میرا سر پھٹ گیا تھا اور ٹانگ پر شدید چوٹ آئی تھی۔ مجھے اس سے بدلہ لینا ہے۔ استاد نے لمبا سانس لیا اور اپنی بودی کو انگلی پر لپیٹتے ہوئے بولا۔
”مہاراج! کسی جِیو کی ہتیا کرنا پاپ ہے اور پھر برگد دیوتا کی ہتیا تو مہا پاپ ہے۔ (کانوں کو ہاتھ لگا کر رام رام) ایشور کبھی شَما (معاف) نہیں کرے گا۔
لیکن اگر بدلہ چاہیے تو جو میں کہتا ہوں وہ کرو۔ ایک دیگ بھر پانی کو ابال دلواؤ اور میرے پاس لے آؤ۔ ”
کہاروں کو حکم ہوا اور دیگ آ گئی۔ گُرو جی نے لوٹا منگوا کر کھولتے ہوئے پانی کی ساری دیگ درخت کی جڑوں میں انڈیل دی۔ پھر ایک شیطانی مسکراہٹ کے ساتھ شہزادے کو دیکھ کر کہا۔
’پربھو! اب یہ خود ہی چند دنوں میں سوکھ جائے گا۔ آپ کا بدلہ بھی پورا ہو جائے گا اور آپ کو پرماتما (خدا) کا ڈنڈ (سزا) بھی نہیں لگے گا۔ راج نِیتی میں بھی اس نِیَم (اصول) کو یاد رکھنا۔‘
یہ شیطان صفت گرو گھنٹال وشنو گپتا المعروف کوٹلہ چانکیہ تھا جو تین سو پچھتر قبل مسیح میں ٹکساشیلا (موجودہ ٹیکسلا، پنجاب پاکستان) میں پیدا ہوا اور موریا سلطنت کے بانی چندر گپت موریا کا بیک وقت نیشنل سیکیورٹی ایڈوائزر اور وزیر اعظم تھا۔ چندر گپت کے بیٹے کا نام بِندو سرا تھا جسے چانکیہ نے کھولتے پانی کا تجربہ دکھایا تھا۔
چانکیہ نے ارتھ شاستر نامی معرکتہ الآرا کتاب لکھی جسے پڑھ کر اندازہ ہوتا ہے کہ چانکیہ تلامیذ الشیطان میں سے تھا۔
آج چانکیہ بھارتی انتہا پسندوں کا روحانی باپ ہے۔ آپ کو یقین نہ آئے تو آپ مشہور ہفوات گو میجر رگورو آریہ کے چینل کا نام ’چانکیہ فورم‘ دیکھ لیجیے۔
انتہا پسند کی نشانی یہ ہے کہ یہ بآسانی پہچانا جاتا ہے۔ نریندر مودی بھی ایک انتہا پسند آدمی ہے۔ آر ایس ایس کا رکن رہا ہے۔ اپنے سیاسی سفر کا آغاز ہی جس نے آر ایس ایس کے دفتر میں جھاڑو لگانے سے کیا تھا۔ بی جے پی کیا ہے؟ یہ آر ایس ایس کا سیاسی بازو ہے۔ اترپردیش بھارت کا بلحاظ آبادی سب سے بڑا صوبہ ہے جس کی آبادی پاکستان کے برابر تقریباً پچیس کروڑ ہے۔ یوگی ادتیا ناتھ اس صوبے کا وزیر اعلیٰٰ ہے۔ یوگی ادتیاناتھ مسلم نسل کشی، قتل و غارت، فسادات، بم دھماکوں اور نفرت انگیز تقاریر سمیت ہندو دہشت گرد تنظیموں کی سربراہی میں براہ راست ملوث ہے۔ آپ اسے ہندوؤں کا اسامہ کہہ سکتے ہیں۔ اسے بھارت کے سب سے بڑے صوبے کا مُکھ منتری بنانے کا کیا مطلب ہے؟ وزیر اعلیٰ تو رہا ایک طرف انہوں نے تو ملک کا سربراہ ہی ایک دہشت گرد ذہنیت کے حامل نریندر مودی کو بنا رکھا ہے۔ کیا مودی گجرات میں مسلم نسل کشی میں ملوث نہیں ہے؟ کیا بین الاقوامی دہشت گردوں کی فہرست میں نام آنے کے بعد مودی کے امریکہ داخلے پر پابندی نہیں تھی؟ ایک ایسے شخص کے ہاتھ دنیا کے بلحاظ آبادی سب سے بڑے ملک کی باگ ڈور دے دینا فاشسٹ ریاست کے سوا کس کا کام ہو سکتا ہے؟ بھارت کا نیشنل سکیورٹی ایڈوائیزر اجیت دوول اور وزیر داخلہ امیت شاہ کون ہیں؟ یہ سب انتہا پسند ہندوتوا کے حمام کے وہ ننگے ہیں جو بھارت کے ساتھ زنا بالجبر کر رہے ہیں۔ انفارمیشن کی صدی ہے کسی کو یقین نہ آئے تو ایک کلک پر متذکرہ بالا موذیوں کا نامہ اعمال کھنگال سکتا ہے۔
بھارت دہشت گردوں کے ہاتھوں یرغمال ایک ایسی ریاست بن چکی ہے جس کا آئین اب یہ محسوس ہوتا ہے کہ
’چور اچکا چوہدری، غنڈی رن پردھان۔‘
بھارت کو چلانے والے کرتا دھرتا نازی جرمنی اور ہٹلر کے گدی نشین ہیں۔ بٹوارے کے بعد سے اب تک بھارتی کشتی کے ناخدا یہ حقیقت ماننے سے انکاری ہیں کہ پاکستان نامی ایک ملک اس کرہ ارض پر وجود رکھتا ہے۔ بھارت کے سب سے بڑی جمہوریت ہونے کے تمام تر دعوے جھوٹے ہیں۔ بھارت قطعاً ایک سیکیولر ریاست نہیں بلکہ ایک خالص ہندو ریاست کے قیام کے لئے کوشاں مکار لومڑوں کے ہاتھوں ہائی جیک ڈیڑھ ارب انسانوں کا وہ بحری جہاز ہے جس کے تکثیری اور رنگا رنگ ثقافتوں سے مرصع تختوں میں ہندوتوا مسلسل چھید کر رہی ہے۔
یہ بات اظہر من الشمس ہے کہ یہ برصغیر ایک ہی خطہ ہے ایک ہی خاندان ہے۔ ہند و پاک کی نسلوں کی رگوں میں ایک ہی خون ہے۔ سرحد کے دونوں پار کی اکثریت اچھے اور مساوی تعلقات کی خواہاں ہے۔ یہ بات بھی قبول کہ دونوں طرف شر پسند عناصر جنگی جنون کے حامی ہیں۔ حالیہ صورتحال میں مگر بھارتی فاشسٹ رجیم کا پہلگام فالس فلیگ آپریشن، اس کے میڈیا کا انتہائی بھونڈے انداز میں پروپیگنڈا مہم میں گوئبلز کا جانشین بن جانا اور بالآخر جنگی جنون میں پاکستان پر بلا اشتعال حملے کی پوری دنیا گواہ ہے۔
مطالعہ پاکستان ماضی میں ہمیں جو کچھ پڑھاتا رہا اس سے قطع نظر اس بار کے چشم دید گواہ ہم خود ہیں جب بار بار پاکستان نے عالمی برادری کو بیچ میں ڈال کر بھارت کو آزادانہ تحقیقات کی نہ صرف پیش کش کی بلکہ اس میں معاونت کی یقین دہانی کرائی۔ مگر چانکیہ ذہن ہندوتوا کے پجاریوں نے امن کی بھاشا کو کمزوری گردانا اور رات کی تاریکی میں پاکستان کی سرحد کی پامالی کرتے ہوئے چھے مقامات پر شہری آبادیوں پر بزدلانہ حملہ کیا جس میں 50 سے زائد انسانی جانیں گئیں۔ پاکستان نے منہ توڑ جواب دیتے ہوئے فرانس ساختہ جدید ترین بھارتی رافیل طیاروں کو راکھ کا ڈھیر بنا دیا۔ تادم تحریر پانچ بھارتی طیاروں اور نو سے زائد بھارتی ملٹری تنصیبات کی مکمل تباہی کی تصدیق انٹرنیشنل میڈیا کر چکا ہے۔ بھارتی شر پسند حکومت اب سفید جھنڈے لہرا لہرا کر دہائیاں دے رہی ہے۔ یعنی داڑھی پھٹی تو ٹھیک ورنہ پیروں میں گر جاؤ۔
پاکستان داد کا مستحق ہے کہ جنوبی ہند اور ”چکن نیک“ سے پار کی سات ریاستوں سمیت پورا بھارت لاک کر دینے کے باوجود اس نے کسی شہری آبادی پر حملہ نہ کیا۔ بین الاقوامی طاقتیں بالآخر درمیان میں کود پڑی ہیں اور پردے کے پیچھے بہت کچھ چل رہا ہے۔ زمین کے ٹکڑوں پر کھینچی گئی لکیریں بے شک فرضی ہیں مگر ظالم اور درانداز کی حمایت کسی صورت نہیں کی جا سکتی۔ راون کو چھوڑ دیا گیا تھا تو اس نے لنکا میں آگ لگا دی تھی۔ نفرت کے بیوپاریوں کی بیخ کنی از حد ضروری ہے۔
بھارت اور پاکستان دونوں کے عوام کو دہشت گردوں کے چہرے پہچاننے کی ضرورت ہے بلکہ ان کے منہ سے نقاب کھینچنے کی ضرورت ہے۔ بھارت کے لئے لمحہ فکریہ یوں ہے کہ انہوں نے دہشت گردوں کے ہاتھ میں عنان اقتدار تھما رکھی ہے۔ ہم امن کے خواہاں ضرور ہیں لیکن اگر کوئی دُرگا پاٹھ پڑھ کر ہمیں موت کی نیند سلانا چاہتا ہے تو وہ جان لے ہم اگر مرے تو صنم تمہیں بھی اپنے ساتھ ہی سَتی کریں گے۔ اور یہ تو وہ دور ہے جب پورے کرہ ارض کی مکمل تباہی صرف چند لمحات اور بٹنوں کا کھیل ہے۔ کیا تمہیں یاد نہیں کرشن سے ارجن نے کیا کہا تھا؟
’اور اب میں مَوت بن گیا ہوں۔ دنیاؤں کا تباہ کرنے والا۔‘
(بھگوت گیتا 11 : 32 )
- بالی ووڈ کا پاکستان - 10/05/2025
- جنگ - 08/05/2025
- کیلاش - 03/05/2025
Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).