تھی خبر گرم کہ اُڑیں گے ہمارے پُرزے
ہم نے بچپن سے زندگی کچھ ایسی نٹ کھٹ سی گزاری تھی کہ نہ کبھی شادی کا خیال آیا اور نہ ہی بچے کا شوق پالا۔ بلکہ صاف پوچھیے تو ہمیں بچے بالکل اچھے نہیں لگتے تھے (یہ بات ہمارے بچے بھی جانتے ہیں ) ۔ جونہی کسی کا بچہ رونا دھونا شروع کرتا ہماری پیشانی پہ بل پڑ جاتے، گو مُوت کے آثار دیکھ کر ہم چھی چھی کرتے ہوئے ناک آنکھیں بند کر لیتے، ممکن ہوتا تو جائے وقوعہ سے فرار ہو جاتے۔ مائیں یہ دیکھ کر منہ بناتیں، کچھ برا بھلا کہنے سے بھی نہ چوکتیں اور بہت سی دعاؤں نما بددعائیں دینے لگتیں کہ اللہ کرے اس پہ یہ دن جلدی آئے تو ہم بھی دیکھیں تماشا۔ یہ اور بات ہے کہ لوگوں کی تماشا دیکھنے کی تمنا حسرت میں بدل گئی۔
خیر تو ہم کہہ رہے تھے کہ شادی وادی کا پروگرام ہمارے عزائم کی فہرست میں تھا ہی نہیں۔ مگر کیا کیجیے کہ جب ہمارے ٹولے کے ممبران گھونگھٹ نکالے رفتہ رفتہ رخصت ہونے لگے تو ہمیں لگا کہ یہ بھی کوئی میڈل تھا جو ہم حاصل کرنے میں پیچھے رہ گئے۔
بھاگے بھاگے ہوسٹل سے گھر پہنچے، اماں ابا کا شمار تو ان ازلی بے فکروں میں تھا جن کے مطابق جب جس کام کا وقت ہو گا، ہو جائے گا سو ان سے کیا کہتے۔
بے شرم بن کر آپا سے پوچھا کہ ہے کوئی ہمارا بھی امیدوار؟ آپا بولیں ہاں بہت سے لوگ پوچھتے رہتے ہیں لیکن ہم نے سنجیدگی سے کسی کے متعلق سوچا ہی نہیں۔
دیکھیے کون ہے فہرست میں۔ چلیے جو بھی ہے اس کو ہاں کر دیں۔
ہائیں۔ بس ہاں کر دیں ایسے ہی؟ آپا ہڑبڑا کر بولیں۔
ہاں ہاں۔ بس جلدی سے ہاں کر دیں۔ ہماری زیادہ تر سہیلیاں رنگ برنگے کپڑے اور زیورات پہن کر ایک عدد دولہا بغل میں دبا کر عیش کرتی پھر رہی ہیں، ہر روز کوئی نئی داستان سننے کو ملتی ہے، ہمارے پاس سنانے کو کچھ ہے ہی نہیں۔ یہ تو کوئی بات نہ ہوئی۔ ہم نے منہ بسورا۔
لیجیے جناب اس بات کے دو ماہ بعد ہم پہ بھی ایک عدد دولہا رکھنے کا میڈل سج گیا۔
شادی تو ہم نے لپک جھپک کروا لی لیکن شادی کے بعد کے معاملات پر تو ہم نے غور کیا ہی نہیں تھا۔ چونکے اس وقت جب سہیلیوں کے بچے پیدا ہونے شروع ہوئے۔ اچھا اس مقابلے میں شامل رہنے کے لیے اب یہ کام بھی کرنا پڑے گا، یہ سوچ کر اوکھلی میں ہم نے بھی سر دے دیا یعنی حاملہ ہو گئے۔
اب عالم یہ تھا کہ حمل تو تھا، مگر ممتا ندارد کہ ماں بننے کا شوق ہی نہیں۔ یہ تو ایک ریس تھی جس میں دوسروں کے ساتھ ہم بھی حصہ لے رہے تھے۔
البتہ ہمارے اردگرد وہ سب خواتین جن کے بچوں کو ہم نے ڈانٹا یا گھور کر دیکھا تھا، اپنا اپنا سامان حرب تیار کر رہی تھیں اور ہم سے زیادہ پرجوش نظر آتی تھیں۔
پہلے تین مہینے جی متلانے میں گزر گئے۔ اگلے تین ماہ گاڑی کے لیے پیسے جمع کرنے میں اور جب آخری تین ماہ شروع ہوئے تو ہمیں خیال آیا کہ بھئی کچھ تیاری شیاری کر لیں۔ آخر پیٹ میں جو ایک جان کلبلا رہی ہے، اس کو دیکھنا تو پڑے گا نا۔
فیمنسٹ ہم تب بھی تھے سو بیٹا یا بیٹی؟ یہ سوال نہ کوئی ہم سے پوچھ سکتا تھا نہ ہی کوئی ایسی دعا دینے کی کوشش کر سکتا تھا، سب جانتے تھے کہ ہم پنجے جھاڑنے میں دیر ہرگز نہیں لگائیں گے۔ ہم ایک لڑکی ہوتے ہوئے لڑکے کی ماں بننے کی تمنا کیسے کر سکتے تھے؟ لڑکے کی ماں بننے سے جو سوشل سٹیٹس حاصل ہوتا ہے ہمیں اس کی قطعی پرواہ نہیں تھی، خود سے محبت کرنے کا یہ فائدہ تو ہوا۔
خیر جناب، نو ماہ پورے ہو گئے مگر بچے کو ہمارا پیٹ اتنا پسند آیا کہ دور دور تک درد زہ کے آثار نہیں تھے۔ کیا کریں؟ گو کہ ڈاکٹر تھے مگر ابھی سیزیرین کے فوائد سمجھ میں نہیں آئے تھے سو صبر کر کے انتظار میں بیٹھے رہے کہ کس دن بچہ باہر آنا پسند کرے گا؟
بچہ پیدا ہونے کی کہانی الگ ہے اور اس کے ساتھ ہماری گاڑی چوری ہونے کی کہانی بھی ہے سو وہ پھر کبھی۔ ابھی تو بچے کا قصہ سن لیں۔
انتیس مئی کی صبح ساڑھے چھ بجے گنگا رام کے لیبر روم میں ایک ننھی منی سی بچی نے آنکھ کھولی۔ بچی کا سر اس قدر لمبوترا تھا کہ ہماری امی جو خود سات بچے پیدا کر چکی تھیں اور بڑے بہن بھائیوں کے بچے دیکھ چکی تھیں دیکھ کر پریشان ہو گئیں کہ یہ کس قسم کا سر ہے؟
دوسری طرف بچی کی اماں اس قدر بے حال کہ آنکھ کھول کر بچی کو دیکھنے کی بھی روادار نہیں تھی۔ جسم اس قدر کٹا پھٹا۔ ماں بننے کی یہ قیمت چکانی ہو گی، کبھی وہم و گمان میں بھی یہ بات نہیں آئی تھی۔
طبیعت کچھ سنبھلی تو بچی کو دیکھا جس نے ہمیں اس تجربے سے روشناس کروایا تھا جس کو ابھی تک ہم نے دوسری عورتوں کے ساتھ ہوتے دیکھا تھا۔
منحنی سی جان پہ کالی گھور آنکھیں، کالے بال، گلابی رنگ، ننھے ننھے ہاتھ پاؤں۔ ماں کی اس قدر دم ساز کہ رونا دھونا کوسوں دور۔ راتوں کو ماں کی نیند حرام نہ کرنے کی پوری تیاری۔ گود میں آنے کی ضد نہ شوق۔ جہاں لٹاؤ، چپ چاپ لیٹی رہے، جب بھی دودھ پلاؤ، جلدی سے ہضم کر لے، ڈکار دلوانے کی مصیبت نہ قے صاف کرنے کا جھنجھٹ۔ ماں کا دودھ پینے کی شوقین، فیڈر / چوسنی کی طرف آنکھ اٹھا کر دیکھنا نہیں۔
بچی تھی یا چابی سے چلنے والی گڑیا۔ ماں نہال، لوگ حیران کہ کیا بچہ ایسا بھی ہوتا ہے؟
ہاں۔ ہوتا ہے بھئی۔ آخر ہمارے پیٹ سے نکلی ہے، منفرد تو ہوگی ہی۔
بخدا یہ نہ سمجھیے گا کہ بچی تابعدار بہت تھی اور ہے۔ کیسے ہو سکتا ہے؟ بنا محبت اور بنا اپنی مرضی کے جب ہم بڑی مشکل سے بات سمجھتے ہیں تو وہ کیسے؟
تو صاحبو! قصہ یہ ہے کہ بچی اتنی ہی آپ ہدری ہے جیسے کہ ہم۔ مگر ماں سے محبت بھی اتنی ہی ہے جتنی ہمیں اپنی ماں سے تھی۔
اب ایسا بھی نہیں کہ ہم نے ماں بن کر غلطیاں / زیادتیاں نہیں کیں۔ ارے صاحب ڈھیروں کیں مگر ہر غلطی کے بعد سکھایا اسی نے کہ دیکھو میری ماں ایسے نہیں ویسے۔ شروع میں بہت عجیب لگا، لو پیٹ کی جنی ہمیں سبق پڑھاتی اور سکھاتی ہے۔ لیکن پھر آہستہ آہستہ جان لیا کہ وہ ہمارا پرتو ہے۔ جیسے کبھی ہم نے اپنی ماں کا ہاتھ پکڑا تھا اور اپنی ذہین ماں کی کمزوریاں دور کرنے کی کوشش کی تھی بالکل اسی طرح۔ اس نے بھی اپنی ماں کو بہتر انسان بننے میں مدد دی ہے۔ وہ ہمیں بہلانے پھسلانے کا کام بھی جانفشانی سے انجام دیتی ہے، بیچ بیچ میں آنکھیں بھی دکھا لیتی ہے اور بعض اوقات دھمکی تک نوبت بھی آ جاتی ہے جس میں ہم ہار مان لیتے ہیں اور یقین کیجیے کہ یہ زندگی کی وہ ہار ہے جس پہ ہمیں قطعی افسوس نہیں۔
تو جناب ہم جو ممتا کے شیرے میں قطعی طور پہ لتھڑے ہوئے نہیں تھے، اب کچھ کچھ ایسا لگتا ہے کہ آخر کار ممتا کا سبق پڑھ ہی لیا۔ اب اس جان جگر کو دیکھ کر آنکھ کی روشنی بڑھ جاتی ہے اور دل ہمک کر کہتا ہے :
جیتی رہو بیٹی۔ ایسی نکمی ماں کو مانجھ مونجھ کر تم نے اپنے قابل بنا ہی لیا۔
Happy Birthday
- ماسک کیوں پہنا جائے؟ - 16/07/2025
- فیمنسٹ عورتو، عقل کے ناخن لو! - 12/07/2025
- کیا آپ ڈینگی وائرس، ہیپاٹائٹس سی وائرس، چیچک وائرس اور ایڈز وائرس کو مانتے ہیں؟ - 08/07/2025
Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).