میرے والد، پروفیسر محمد سلیم سندھو – کچھ یادیں کچھ باتیں
وطن عزیز کی خاطر اس پار سے ہجرت کر کے آنے والے لوگ نہ صرف اسلاف کا صدیوں میں بننے والا اثاثہ وہاں چھوڑ آئے بلکہ یہاں آ کر تعمیر نو کے مرحلہ سے بھی دوچار ہوئے۔
میرے والد جناب محمد سلیم سندھو صاحب جولائی 1953 کو ایسے ہی ایک گھرانے میں پیدا ہوئے جو 1947 میں جموں شہر کے محلہ پیر مٹھا سے ہجرت کر کے براستہ سیالکوٹ۔ کوٹلی لوہاراں ڈسکہ شہر میں آباد ہوا۔ یہ وہ لوگ تھے جو جیسے ہی اِس پار اترے تارک ہجرت ہوئے، وگرنہ یہاں تو آج تک کچھ لوگ اس ہجرت کے نام پر تجارت کر رہے ہیں۔ میرے دادا عبدالواحد صاحب کثیر العیال آدمی تھے، ان کے ہاں نو بچوں کی ولادت ہوئی، دو بیٹیاں اور سات بیٹے۔ دادا وراثت میں حکمت اور زرگری کا پیشہ لئے ہوئے تھے جس میں سے انھوں نے زرگری کو ذریعہ معاش کے طور پر اختیار کیا۔
میرے والد اپنے نو بہن بھائیوں میں پانچویں نمبر پر تھے، دو بہنیں دو بھائی بڑے اور چار بھائی چھوٹے۔ خاندان میں تعلیمی روایت صرف اتنی تھی کہ میری دادی نے جماعت پنجم میں وظیفہ پایا اور نتیجے کے طور پر بیاہ کر جموں چلی گئیں۔ میرے والد کے چہرے پر نمایاں ذہین آنکھیں اور خوبصورت تراشے ہوئے ہونٹ تھے، قد پانچ فٹ سات انچ اور پاؤں آٹھ نمبر تھا۔ اس قد کاٹھ میں خوبی یہ تھی کہ بازار میں سب سے اچھے لباس اور جوتے ان کو اس طرح پورے آتے جیسے ان کے لیے ہی بنائے گئے ہوں۔ انھوں نے ابتدائی تعلیم ڈسکہ کے سرکاری سکول اور کالج سے حاصل کی۔ بعد میں ایم بی ای کے حصول کے لیے آئی ای آر پنجاب یونیورسٹی آ گئے اور 1979 میں تعلیم مکمل کی۔ میرے والد اپنے پورے خاندان میں پہلے شخص تھے جنہوں نے اعلیٰ تعلیم حاصل کی۔ حصول تعلیم میرے والد کے لیے آسان نہیں تھی کیونکہ اس زمانے میں بیٹے اس لیے مانگے جاتے تھے تاکہ جلد کفیل بن سکیں۔ تعلیم پہلے انویسٹمینٹ مانگتی ہے اور بعد میں کفیل بنتی ہے۔ میرے والد نے میٹرک کے امتحانات کے بعد دادا کے ایک دوست صوفی دین محمد صاحب جو کچہری میں عرضی نویس تھے سے ٹائپنگ اور دوسری فنی صلاحیتیں سیکھیں اور پھر بلدیہ میں عارضی ملازمت اختیار کرلی۔ بلدیہ کی ملازمت نے انھیں بی اے تک حصول تعلیم میں مالی معاونت دی۔ پنجاب یونیورسٹی میں داخلے کے بعد ملازمت چھوڑ دی۔ بتایا کرتے تھے کہ تعلیم کے دوران ان کی والدہ نے مالی معاونت کی تھی۔
جس زمانے میں میرے والد جوان ہوئے وہ طلبہ سیاست اور ہاکی کی مقبولیت کا زمانہ تھا۔ میرے والد نے دونوں میں بھر پور حصہ لیا۔ وہ بہت معیاری ہاکی کھیلا کرتے تھے، انھوں نے یونیورسٹی کے زمانے تک ہاکی کھیلی۔ بعد میں جب وہ پنجاب یونیورسٹی میں پڑھاتے تھے تو طلبہ کی ہاکی کے نگران بھی تھے۔
ہم جس زمانے میں بڑے ہوئے تو وہ کرکٹ کی مقبولیت کا زمانہ تھا، ہم نے ہاکی بھی کھیلی مگر چھاپ کرکٹ کی ہی لگی رہی۔ ایک روز میں اور ڈیڈی ہاکی کی مشق کر رہے تھے، میں گول روک رہا تھا اور وہ پینلٹی ہٹ مار رہے تھے۔ وہ جو بھی ہٹ دائیں جانب مار دیتے میں روک لیتا مگر بائیں جانب وہ گول کرنے میں وہ کامیاب ہو جاتے۔ کہنے لگے تم دائیں ہاتھ سے کھیلنے والے کرکٹر ہو اس لیے دائیں جانب گرنے والی ہٹ بہتر طریقہ پر روک لیتے ہو۔
والد نے طلبہ سیاست میں کہاں تک حصہ لیا میں زیادہ نہیں جانتا مگر یہ ضرور جانتا ہوں کہ انھوں نے 1979 کا بلدیاتی انتخاب ایک طالب علم کے طور پر ایک صنعت کار کے خلاف لڑا اور ہار گئے۔ ہمارے آبائی گھر کے صدر دروازے کے اوپر والد کے انتحابات کے زمانے کا دھات سے بنا ہوا بورڈ تا دیر آویزاں رہا۔ اس پر انتخابی نشان سائیکل بنا ہوا تھا اور لکھا تھا محمد سلیم ایم اے۔
سیاسی اختلاف سے متعلق ایک دلچسپ واقعہ یہ ہے کہ دادا بھٹو صاحب کے اس حد تک پرستار تھے کہ ضیاء کے خلاف تقریر کرنے پر جیل کاٹی، جبکہ والد دائیں بازو کے رجحانات رکھتے تھے۔ بھٹو کی مخالفت کرنے پر دادا نے ایک بار والد صاحب کو گھر سے نکال دیا۔ والد نے پھر کئی دن ایک عزیز دوست کے ہاں گزارے۔
والد کے زمانے کا تیسرا بڑا رجحان مقابلے کے امتحان میں حصہ لینا تھا۔ انھوں نے بھی قسمت آزمائی کی مگر نمبر شاید پوسٹل سروسز میں آیا جس کا وہ حصہ نہ بنے۔ ان کا ضیاء دور میں ہونے والے امتحان پر اعتراض بھی کیا اور وہ محکمہ کے خلاف عدالت گئے مگر بے سود۔
والد کی جوانی کے دنوں کا ایک اور رواج سول ڈیفنس اور جانباز فورس بھی تھی۔ والد نے دونوں کی تربیت لے رکھی تھی۔ بلکہ جانباز فورس کی تربیت کے لیے تو انھیں نوکری سے باقاعدہ چھٹی لینی پڑتی۔ جانباز فورس سے انھیں نجات تب ملی جب انھوں نے 1986 میں پنجاب یونیورسٹی جوائن کی۔ ان دونوں تربیتوں کی جھلک والد کی نشست و برخاست میں بڑی واضح تھی۔ ایک روز وہ رئیس جامع جو کہ ایک ریٹائرڈ فوجی تھے سے مل کر واپس آنے لگے تو جناب نے پوچھا پروفیسر صاحب کیا آپ کبھی فوج میں رہے ہیں، کہنے لگے نہیں مگر جانباز فورس میں۔ وہ بولے آپ کی نشست و برخاست ہم فوجیوں جیسی ہے۔
والد صاحب فوجی پیشے کی بے پناہ قدر کرتے تھے مگر فوج کی سیاسی مداخلت کے مخالف تھے۔
آپ نے تعلیم مکمل کرنے کے بعد 1979 میں گورنمنٹ کامرس کالج اٹک کو لیکچرر کی طور پر جوائن کر لیا اور بعد میں تبدیل ہو کر ڈسکہ آ گئے۔ 1986 میں والد کو شعبہ کاروباری تعلیم، آئی ای آر، یونیورسٹی آف دی پنجاب میں چن لیا گیا۔ 1987 میں وہ ہمیں بھی اپنے ساتھ لاہور لے آئے۔
زندگی کے وہ سال جو ڈیڈی کے ساتھ پنجاب یونیورسٹی میں گزرے وہ زندگی کے بہترین دن تھے۔ میں جب بھی اپنے والد کے لیے دعا کرتا ہوں تو دو مرتبہ دعا کرتا ہوں، ایک اس لیے کہ وہ میرے والد ہیں دوسرا اس لیے کہ وہ ہمیں پنجاب یونیورسٹی لاہور لے آئے۔
میرے والد ایک فرمانبردار بیٹے، ہمدرد بھائی، شفیق والد، بے غرض دوست، لائق استاد اور مہربان انسان تھے۔ وہ خوش پوش، خوش گفتار اور اعلیٰ اخلاقیات کے حامل تھے۔ ان کی حس مزاح بڑی کامل تھی۔ وہ ایک زندگی سے بھرپور شخصیت تھے۔ ان کے دو ساتھی، ڈاکٹر ندیم بھٹی صاحب اور ڈاکٹر عبدالقیوم چوہدری صاحب مجھے برسوں بعد مختلف مقامات پر ملے مگر ایک ہی بات کہی ”ہمیں آج بھی لگتا ہے کہ سلیم ابھی ادھر ہی ہیں اور کچھ ہی دیر میں آ نکلیں گے اپنی زندگی سے بھر پور شخصیت کے ساتھ“ ۔
میرے والد کے روزانہ کا معمول بڑا جاندار تھا۔ وہ صبح سویرے اٹھتے اپنے لیے چائے بناتے، چائے کا کپ اور سگریٹ اٹھاتے اور گیٹ پر آ جاتے۔ وہ اپنی گاڑی روزانہ خود صاف کرتے اور گاڑی صاف کرنے کے بعد کچھ دیر گیٹ پر بیٹھتے وہاں موجود نگہبان کے ساتھ گپ لگاتے اور پھر کچھ دیر سستانے کے بعد دفتر جانے کے لیے تیار ہونے لگتے۔ نگہبان ہمیں بعد میں بتایا کرتے کہ وہ اکثر مجھ سے میری گڑ والی چائے لے لیتے اور اپنی چینی والی چائے مجھے دے دیتے۔
میرے والد اُنچ نیچ کے قائل نہیں تھے وہ ہر شخص کے ساتھ برابری کا برتاؤ کرتے۔ ہم نے ہر عہدے کے لوگوں کا اپنے والد کے ساتھ دوستانہ دیکھا۔ ہم بہت سال یونیورسٹی کے فیصل ہال، جو کہ اساتذہ کا فیملی ہال تھا، میں رہے۔ وہاں تقریباً اساتذہ اور ملازمین کے پچیس خاندان رہتے تھے، اور سب ہی ایک بڑے کنبے کی طرح رہتے تھے۔ میرے والد ہر روز شام کو ہال کے باہر بیٹھ جاتے جہاں آنے والوں کا تانتا بندھا رہتا۔ وہ وہاں رات گئے تک بیٹھتے۔ آج برسوں بعد بھی لوگ ان محفلوں کا تذکرہ کرتے ہیں۔
والد صاحب 8 : 30 پر دفتر چلے جاتے، وہ اکثر دفتر پیدل ہی جایا کرتے کیونکہ نہر کے اِس پار ہم رہتے تھے اور اُس پار ان کا دفتر تھا۔ وہ دفتر سے 1 : 30 پر لوٹ آتے، ہمارے ساتھ کھانا کھاتے اور پھر کچھ دیر آرام کرتے۔ شام سے پہلے وہ یا تو ہاکی کھیلنے جاتے یا تیراکی کرنے۔ تیراکی کرنے ہم بھی ان کے ساتھ جایا کرتے۔ انھوں نے تیراکی نہر میں دوستوں کے ساتھ سیکھی تھی جبکہ ہم نے کوچ سے۔
رات کو اکثر مطالعہ میں مصروف رہتے۔
ان کی قابل ذکر باتوں میں ان کا اپنے اساتذہ کے لیے بے پناہ احترام تھا۔ ان کی وفات کے بعد میرا ان کے دو اساتذہ ڈاکٹر نیر رضا زیدی اور ڈاکٹر ذوالفقار خان صاحب مرحوم سے مستقل رابطہ رہا۔ دونوں اپنے شاگرد کو بہت محبت سے یاد کرتے تھے۔ دونوں بزرگ ان کی اس خوبی کا خاص طور پر ذکر کرتے۔ زیدی صاحب اب بھی ملتے ہیں تو کہتے ہیں یار سلیم سا شاگرد پھر نہیں ملا۔
والد کا انداز گفتگو نرالا اور دل موہ لینے والا تھا، وہ بولتے تو دل چاہتا کہ سنتے رہیں۔ ان کا مطالعہ وسیع تھا، پیشہ ورانہ علوم سے لے کر دین، تاریخ، سائنس اور سیاست پر بے تکان بول سکتے تھے۔
زندگی کے بارے میں وہ اس حدیث رسول پر عمل پیرا تھے کہ جو کھا لیا، پہن لیا، استعمال کر لیا اور خیرات کر دیا وہ اپنا ہے باقی سب یہیں رہ جانے والا ہے۔ انھوں نے عمر بھر بہترین کھایا اور کھلایا، بہترین پہنا اور پہنایا اور بہترین گفتگو کی۔ مجھ کو نہیں یاد کہ میں نے اپنے والد کو کبھی حرص و طمع میں مبتلا دیکھا ہو یا پچھتاتے دیکھا ہو۔
میرے والد بچوں کے ساتھ ایسا تعلق رکھتے تھے جس میں آداب بھی ملحوظ رہیں اور بے تکلفی بھی ختم نہ ہو۔ وہ ہمارے ساتھ اس طرح برتاؤ کرتے تھے کہ ہمیں ان سے سوال پوچھتے وقت زیادہ ہچکچاہٹ محسوس نہ ہو۔ بچے جب بچپن سے نکل کر لڑکپن میں داخل ہوتے ہیں تو انھیں بہت ساری باتیں جاننے کی ضرورت ہوتی ہے۔ ایسے میں اگر معلومات کا ذریعہ مستند نہ ہو تو مشکلات پیدا ہو سکتی ہیں۔ مجھے یاد پڑتا ہے کہ جیسے جیسے ہم بڑے ہوتے گئے والد صاحب بڑے سلیقہ سے ہماری معلومات میں اضافہ کرتے گئے۔
ان میں ہماری تربیت کے حوالے سے ایک بڑی منفرد بات تھی۔ عام طور پر باہر سے آنے والی شکایت پر والدین اپنے بچوں کی جگہ دوسروں میں خامی ڈھونڈتے ہیں مگر والد گرامی ہماری غلطی تلاش کرتے اور اصلاح کا مناسب انتظام بھی فرماتے جو ہمیں اکثر نامناسب لگتا۔ معاملہ اگر ہمارے اور کسی بڑے کے درمیان ہوتا تو وہ بڑے کی رعایت کرتے اور ہماری اصلاح۔ اس وقت ہمیں یہ ناگوار گزرتا مگر آج ہم اعتراف کرتے ہیں کہ ان کے اس طریقہ کار نے بڑی حد تک اپنی غلطی تلاش کرنے میں مدد کی۔
والد کی شخصیت میں نمایاں خوبی ہر طرح کے حالات میں پروقار رہنا تھا۔ خوشی ہو یا غمی وہ ہمیشہ پروقار رہتے، معاملہ کیسا بھی ہوتا وہ اس کے عملی حل کی کوشش کرتے۔
ایک مرتبہ ہمارے چچاؤں کے درمیان کوئی کاروباری مسئلہ ہو گیا۔ ہم لوگ اپنے آبائی شہر گئے ہوئے تھے اور۔ والد صاحب معاملے کو دیکھ رہے تھے میں وہاں موجود تھا اور کر یہ رہا تھا کہ ایک طرف کا تبصرہ دوسری طرف پہنچا رہا تھا۔ والد صاحب کو معلوم ہوا تو میری سخت گرفت کی اور ایسی حرکت کے مضمرات سے آگاہ کیا کہ آنے والی زندگی میں میری اصلاح ہو گئی۔
وہ اس قدر چپکے سے ہمیں چھوڑ کر رفیق اعلیٰ سے جا ملے کہ آج تک یقین نہیں آتا کہ وہ رخصت ہوچکے ہیں یا رخصت پر گئے ہیں کہ ابھی لوٹ آئیں گے۔
- زندہ رود از جاوید اقبال: علامہ اقبال سے ملنے کا اک بہانہ ہی تو ہے - 19/06/2025
- دروازہ کھلتا ہے از ابدال بیلا - 18/06/2025
- میرے والد، پروفیسر محمد سلیم سندھو – کچھ یادیں کچھ باتیں - 30/05/2025
Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).