قہقہے کے پیچھے آئینہ
کہتے ہیں ایک بستی تھی جو الفاظ سے بنی تھی۔ یہاں خیالات درختوں پر پھلتے، اور سوالات کی جڑیں زمین میں اترتی تھیں۔ اسی بستی میں ایک بچہ پیدا ہوا، جس کی آنکھوں میں کائنات کی حیرانی بسی ہوئی تھی۔ ان ابھری ہوئی آنکھوں نے اس کا نام رکھا جاحظ۔ چہرہ ایسا جیسے عقل مذاق کر رہی ہو، اور مزاح کسی فلسفے کی صورت اختیار کر گیا ہو۔ جب دوسرے بچے گیند سے کھیلتے، وہ نقطوں اور ویرگول سے کھیلتا۔ جب آندھیاں آتیں، وہ کھڑکی بند کرنے کے بجائے باہر جھانک کر پوچھتا، ”تم کس طرف سے آئی ہو؟“ وہ جانوروں کی بولی سننے لگتا، انسانوں کے بہانے سمجھنے لگتا، اور الفاظ کو ایسا برتتا جیسے انہیں پہلی بار ایجاد کیا گیا ہو۔ کہتے ہیں ایک دن وہ شوربے سے بھری پلیٹ کے ساتھ بیٹھا کتاب پڑھ رہا تھا۔ شوربہ گرا، لیکن اس نے صفحہ صاف کیا، منہ نہیں۔ علم کی محبت اگر کسی نے دیکھی ہو تو یہی تھی۔
جوان ہوا تو بصرہ کی گلیاں اس کے فقرے سننے کی عادی ہو گئیں۔ اس نے علم کا بازار نہیں لگایا بلکہ ایسا چشمہ کھولا جہاں سنجیدگی بھی ہنستی تھی اور ہنسی بھی سوچنے پر مجبور کرتی تھی۔
اس نے جب کتاب الحیوان لکھی تو لوگ سمجھے کہ یہ جانوروں پر کوئی سادہ سی کتاب ہوگی۔ مگر وہ تو حیرت کا خزانہ نکلا۔ کتاب میں کہیں شیر خود سے کہتا تھا، جو ماحول کو سمجھے گا، وہی زندہ رہے گا۔ اور کہیں مکھی فلسفہ دیتی تھی کہ مجھے نہ مارو، ممکن ہے میں تمہیں کسی بور عالم سے بچا رہی ہوں۔
پھر آئی وہ کتاب جس نے انسان کی فطرت کو ننگا کیا، اور قہقہوں کی چادر میں لپیٹ کر پیش کیا۔ البخلاء۔ کنجوسوں کی دنیا، جہاں سکہ بھی اپنی آزادی پر رو پڑتا تھا۔ ایک کنجوس کا ذکر آتا ہے جو اپنے بچوں کو ایک دن چھوڑ گیا۔ وجہ پوچھی گئی تو بولا، وہ سانس لیتے ہوئے بھی آہستہ نہیں تھے، میری تنگدستی میں ہوا کی کھپت بھی گنی جاتی ہے۔ ایک اور کنجوس نے دعوت دی، اور جب مہمان آیا تو کہا، تمہیں خوشبو آ رہی ہے نا؟ وہی کھانے کا حصہ ہے، باقی کل دکھا دوں گا۔
الجاحظ خود بھی کردار تھا۔ ایک دن بازار میں جا رہا تھا کہ ایک سنار عورت نے دیکھتے ہی قہقہہ مارا۔ الجاحظ نے پوچھا، کیوں ہنسی؟ عورت بولی، تمہاری شکل بتاتی ہے کہ تمہاری عقل بھی تمہاری آنکھوں کی طرح باہر نکلی ہوئی ہے۔ وہ مسکرایا، جیسے جواب پہلے سے جیب میں رکھا ہو۔ بولا، اگر عقل چہرے سے پہچانی جاتی تو آئینے سب سے بڑے فلاسفر ہوتے۔ تم نے صرف باہر دیکھا، اندر جھانکنے کی کوشش نہیں کی۔ اس لیے ہنسی تم پر آنی چاہیے، مجھ پر نہیں۔ لوگ ہنسے۔ مگر وہ ہنسی تلوار نہیں تھی، آئینہ تھی۔ وہ قہقہے طنز نہیں تھے، تشریح تھے۔ الجاحظ کا ہر جملہ ایسا ہوتا جیسے لطیفے کے پردے میں علم کا خنجر چھپا ہو۔
زندگی بھر وہ کتابوں کے درمیان رہا۔ ان کے ساتھ کھایا، سویا، اور شاید جھگڑا بھی کیا۔ کہا جاتا ہے، ایک دن وہ اپنی محبوب کتابوں کی الماری سے کچھ نکالنے لگا تو ساری الماری اس پر آ گری۔ لوگ کہتے ہیں وہ کتابوں کے نیچے آ کر مر گیا، مگر جو جانتے ہیں وہ کہتے ہیں کہ وہ کتابوں میں سما گیا۔
بصرہ کی ہوا میں آج بھی ایک مدھم سی سرگوشی ہے۔ جب کبھی کوئی ہنستا ہوا رک جائے، اور سوچنے لگے کہ یہ جملہ مذاق تھا یا پیغام، سمجھ لو الجاحظ پھر سے بول پڑا ہے۔ کہیں کوئی نوجوان لفظوں سے چپکے چپکے دوستی کر رہا ہو، کہیں کوئی استاد فقرے میں فلسفہ باندھ رہا ہو، یا کوئی کنجوس اپنی چالاکی کو عقلمندی سمجھ رہا ہو۔ تو سن لو، الجاحظ ابھی گیا نہیں، بس کسی صفحے میں چھپ کر بیٹھا ہے۔
وہ ہر قہقہے کے پیچھے ایک آئینہ رکھتا ہے۔
ایسا آئینہ جو صرف چہرہ نہیں، ذہن بھی دکھاتا ہے۔
اور جو اسے غور سے دیکھ لے، اس کی مسکراہٹ میں سوال پیدا ہو جاتا ہے۔
کہتے ہیں وہ مرا نہیں، بس کہانی بن گیا ہے۔ اور اچھی کہانیاں کبھی نہیں مرتیں۔
بس وقت کے ساتھ پڑھنے والے بدلتے ہیں۔
- فینکس پروٹوکول - 09/07/2025
- شک کا دھواں - 28/06/2025
- مسٹر یو ٹرن - 25/06/2025
Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).