چراغ سا دل


Loading

(بانو مشتاق کو 2025 کا بوکر پرائز ملا ہے۔ وہ ہندوستان کی پانچویں لکھاری ہیں جن کو یہ اعزاز ملا ہے۔ بانو مشتاق جنوبی ہندوستان کی ریاست کرناٹک سے تعلق رکھتی ہیں اور وہاں کی زبان کناڈ میں لکھتی ہیں۔ ان کے افسانوں کے مجموعہ کا ترجمہ Heart Lamp کے نام سے دیپا بھستی نے کیا ہے اور انعام کی رقم مصنفہ اور مترجم دونوں میں تقسیم کی گئی ہے۔ 200 صفحات کی اس کتاب میں 12 افسانے ہیں۔ ان میں سے ایک کا ترجمہ درج ذیل ہے )

ترجمہ: شہلا نقوی

مہرن نے ادھ کھلے دروازے کو ذرا سا کھول کر اپنا قدم اندر رکھا ہی تھا کہ اس کے باپ جو دیوان خانے کے تخت پر لیٹے اس کے سب سے بڑے بھائی سے دھیمی آواز میں گفتگو کر رہے تھے خاموش ہو کر اس کی طرف دیکھنے لگے۔

اس کی بھتیجی رابعہ بھاگتی ہوئی باہر آئی ”مہرن پھپھو آئی ہیں، مہرن پھپھو آئی ہیں“ ۔ امان، اس کا منجھلا بھائی، رابعہ کا باپ اپنے کمرے میں سے باہر آیا اس کے چہرے پر شیو کے لیے صابن کا جھاگ لگا ہوا تھا وہ شیو کا برش ہاتھ میں لیے اس کی طرف ایسے دیکھ رہا تھا جیسے اسے اپنی آنکھوں پر یقین نہ آ رہا ہو۔ اس کی سب سے بڑی بھاوج جو بچوں کو قرآن پڑھا رہی تھیں اسے دیکھنے اس تیزی سے دیوان خانے میں داخل ہوئیں کہ ساری کا پلو نیچے گر گیا اور وہ ننگے سر سسر کے سامنے آ گئیں۔ اس کی ماں اپنے لاغر ہاتھ میں تسبیح لیے دم بخود کھڑی مجسم سوال تھیں ”کیا یہ سچ ہے؟“ اس کی چھوٹی بہنیں ریحانہ اور صبیحہ دیوان خانے کے دروازے کے پیچھے سے جھانک رہی تھیں اس خیال کو بھلائے کہ جو چپاتی وہ توے پر ڈال کر آئی تھیں وہ جل کر سیاہ ہو رہی ہیں۔ شکر ہے اس کا چھوٹا بھائی عاطف گھر پر نہیں تھا۔

پورا گھر ایک لمحے کو ساکت ہو گیا۔ اس کے لیے اجنبی ہو گیا۔ جس ماں نے اسے نو ماہ کوکھ میں رکھا اور پھر پالا تھا اس نے یہ نہیں کہا وہاں کیا کھڑی ہو میرے پاس آؤ پیاری اور اس کے ابا جو کبھی اپنی چھوٹی لاڈو کو اپنے چوڑے سینے پر کودنے دیتے تھے ان کے چہرے پر مسکراہٹ کی رمق تک نہ تھی۔ نہ بڑے بھائی نے جو بچپن میں اسے میرا فرشتہ، میری ننھی پری کہا کرتا تھا اور نہ امان جس نے زبردستی کر کے اسے کالج میں داخل کروایا تھا۔ کسی نے اسے سلام کیا۔ اس کی دونوں بھاوجیں دوسرے کمرے سے اس طرح اسے دیکھ رہی تھیں گویا وہ کسی دوسرے سیارے کی مخلوق ہو۔

مہرن کا دل بیٹھ گیا۔ ذرا سی دیر میں اس کی گود کی بچی نے رونا شروع کر دیا۔ سب لوگ گویا جاگ گئے۔ بڑے بھائی نے پوچھا، ”عنایت کہاں ہے“ ۔

مہرن نے کسی مجرم کی طرح سر جھکا دیا۔ ”وہ شہر میں نہیں ہیں“ ۔
”تم کس کے ساتھ آئی ہو؟“
”میں اکیلی آئی ہوں“
”اکیلی“ ۔ سب نے یک زبان ہو کر کہا۔ اور وہ اب بھی چوکھٹ پر تنہا کھڑی تھی۔

”اس کو اندر لے کر آؤ“ اس کے بڑے بھائی نے کہا۔ مہرن بھاری قدموں اندر داخل ہو گئی۔ بچی نے پھر رونا شروع کر دیا۔

وہ برقعہ اتارے بغیر، نقاب پلٹ کر باپ کے پلنگ کے کونے پر ٹک کر بچی کو دودھ پلانے لگی۔ اس نے منہ تک نہیں دھویا تھا۔ پیٹ میں آگ سی لگی ہوئی تھی، اس نے کل رات سے کچھ نہیں کھایا تھا۔ اس گفتگو میں اس کی ماں کے علاوہ کوئی اور عورت شریک نہیں ہوئی۔

”مہر تم نے آنے سے پہلے کسی کو بتایا تھا؟“
”نہیں“ ۔

”کیوں۔ تم نے چلنے سے پہلے انھیں کیوں نہیں بتایا؟ تم نے تو ہمارے منہ پر کالک پوتنے کا تہیہ کر لیا ہے۔“

”کس کو بتاتی؟ وہاں کون ہے؟ پچھلے ہفتے بھر سے وہ گھر نہیں آئے ہیں، مجھے یہ بھی نہیں بتایا کہ وہ کہاں جا رہے ہیں۔ میں نے آپ لوگوں کو خط لکھا لیکن اس کا کوئی جواب نہیں ملا۔“

” تم نے لکھا کہ تمہارا شوہر ایک نرس کے ساتھ بھاگ گیا ہے اور تم سمجھتی ہو ہم سب اس بات پہ یقین کر لیتے“ ۔

”اگر آپ کو میری بات پر یقین نہیں آیا تو پھر آپ خود آ کر دیکھ لیتے، معلوم کر لیتے، لوگوں نے دونوں کو ساتھ دیکھا ہے۔“

” اور اگر ہم یہ پوچھتے اور پتہ چلتا کہ یہ سچ ہے تو ہم کیا کرتے، اس کا گریبان پکڑتے۔ اس سے پوچھتے اور وہ کہتا کہ ہاں ایسا ہی ہے تو پھر ہم کیا کرتے؟ مسجد میں جا کر دہائی دیتے۔ وہ کہتا کہ ہاں میں نے غلطی کی اب میں اسے مسلمان کر کے نکاح کر لیتا ہوں۔ پھر تم پر سوت آ جاتی۔ ہم اسے اور ڈانٹتے پھٹکارتے تو وہ کہتا مجھے یہ عورت، مہرن نہیں چاہیے میں اسے طلاق دے دیتا ہوں۔“ مہرن اب پھوٹ پھوٹ کر رو رہی تھی۔ وہ اپنی بچی کو ایک طرف سے دوسری طرف کر کے اسے دودھ پلاتی رہی۔ اس نے برقعہ کے نیچے سے ساری کا پلو کھینچ کر اس سے اپنی آنکھیں اور ناک پونچھی۔ ایک لمحے کو خاموشی ہو گئی۔

”یعنی آپ لوگ کچھ نہیں کر سکتے؟“ سب خاموش رہے۔ وہ بولتی رہی۔ ”میں نے پاؤں پکڑے کہ میں ابھی شادی کرنا نہیں چاہتی لیکن کسی نے میری سنی؟ میں نے کہا میں برقعہ اوڑھ کر کالج جاؤں گی، للہ میری پڑھائی نہ روکو لیکن آپ سب نے میری ایک نہ سنی۔ میری کلاس کی کئی لڑکیوں کی تو ابھی شادی بھی نہیں ہوئی اور میں پانچ بچوں کا بوجھ اٹھائے ایک بڈھی عورت بن چکی ہوں۔ ان کا باپ گھومتا پھر رہا ہے اور میری زندگی ختم ہو چکی ہے۔ جو وہ کر رہا ہے وہ حرام ہے لیکن اس سے کوئی سوال نہیں کرتا۔“

بس مہرن بس ”اس کی ماں نے آنکھیں میچ کے سر ہلایا۔

”ہاں اماں بس بہت برداشت کر لیا، پہلے تو لوگ سرگوشیاں ہی کرتے تھے پھر انھوں نے دونوں کو ساتھ تھیٹر جاتے دیکھا، ہوٹلوں میں دیکھا اور آ کر مجھے بتایا۔ اس کی ہمت اتنی بڑھی ہے کہ اب وہ اس کے گھر جاتا ہے۔ جب لوگوں نے برا بھلا کہا تو وہ بنگلورو گیا اور ہزاروں روپے رشوت دے کر اس کا تبادلہ ہمارے شہر میں کروا لیا۔ اب پچھلے آٹھ دن سے اسی کے ساتھ رہ رہا ہے۔ میں کب تک برداشت کروں، کیسے زندہ رہوں۔“

”صبر کر میری بیٹی۔ تم اسے محبت سے ہی راہِ راست پر لا سکتی ہو۔“

”اماں کیا میرا دل نہیں ہے؟ کیا میرے کوئی جذبات نہیں ہیں؟ ان حرکتوں کے بعد میں اس کی عزت کیسے کروں۔ مجھے اس سے گھن آتی ہے محبت تو دور کی بات ہے۔ وہ مجھے کیا طلاق دے گا میں اس سے طلاق لوں گی۔ میں واپس اس کے گھر نہیں جاؤں گی۔“

”مہر یہ تم کیا کہہ رہی ہو؟ حد سے بڑھ رہی ہو، وہ مرد ہے کیچڑ میں پاؤں رکھے گا تو چھینٹ پڑ جائے گی۔ پانی ملے گا تو دھو کر گھر میں آ جائے گا اس پر کوئی داغ دھبا نہیں رہے گا۔“ اس سے پہلے کہ وہ کچھ کہتی امان بول پڑا ”دیکھو ہمارے سامنے کیسا بول رہی ہے، اس کے سامنے بھی اسی طرح بولتی ہو گی تبھی تو وہ ناراض ہو کر گھر چھوڑ گیا۔“ وہ رکا اور پھر نسبتاً نرم لہجے میں کہنے لگا اگر گھر کی بہوؤں نے بھی یہ سیکھ لیا تو بڑا غضب ہو گا۔ ”مہرن کا غم پہلے غصے اور پھر مایوسی میں بدل گیا۔

”بھیا اللہ تمہیں خوش رکھے، بحث تم خوب کر لیتے ہو۔ ہاں سچ ہے میں ہی بری ہوں، میری ہی عادت خراب ہے۔ میں نے تو کبھی برقعہ نہیں چھوڑا حالانکہ اس نے اصرار کیا، نہ میں اس کے کہنے پر ناف سے نیچے ساری باندھ کر اس کا ہاتھ تھام کر گھومی ہوں۔ مجھے تو جیسے پالا گیا تھا ویسی ہی ہوں۔ مجھے خدا کا خوف کرنا سکھایا گیا تھا، میری تو ساری کا پلو میرے سر سے کبھی نہیں ڈھلکا۔ میں نے اس کی باتیں نہیں مانیں تو وہ اس کے پاس چلا گیا جو اس کے اشاروں پر ناچتی ہے۔ آپ لوگ پریشان نہ ہوں کہ اس نے مجھے چھوڑ دیا تو میں آپ پر بوجھ بن جاؤں گی، اس لیے آپ مجھ سے برداشت کرنے کو کہہ رہے ہیں۔ لیکن ایسا نہیں ہو سکتا۔ اس جہنم میں زندہ جلنے سے بہتر ہے میں اپنے بچوں کو لے کر کہیں چلی جاؤں اور محنت مزدوری کروں میں آپ پر بوجھ نہیں بنوں گی۔“

”مہرن، کبھی بیل کو اپنا پھل بوجھ لگا ہے، بے کار کی باتیں نہ کرو۔“ اس کی ماں نے احتجاج کیا۔

”اماں اس کو اندر لے جائیں اور کچھ کھلائیں پلائیں“ ۔ اس کے بڑے بھائی نے گمبھیر لہجے میں کہا۔ ”ہم دس منٹ میں چکمگلور کے لیے نکل جائیں گے۔ بس ہوئی تو بس لیں گے نہیں تو ٹیکسی کر لیں گے۔ لیکن ہم اس کے گانے پر ناچ نہیں سکتے۔“

”میں تمہارے گھر میں پانی کا قطرہ بھی نہیں پیوں گی، نہ میں چکمگلور جاؤں گی۔ اگر کسی نے مجھ پر زبردستی کی تو قسم سے میں جسم میں آگ لگا کر جان دے دوں گی۔“

”چپ رہو مہر۔ جو مرنے کو تیار ہوتے ہیں وہ اس کا ذکر نہیں کرتے۔ اگر تمہیں اس خاندان کی عزت کا خیال ہوتا تو تم یہاں آنے کے بجائے یہی کرتیں۔ جہاں ڈولی جاتی ہے وہیں سے شریف عورت کا جنازہ نکلتا ہے۔ تمہاری بیٹی ہائی اسکول میں پڑھ رہی ہے، تمہاری دو چھوٹی بہنیں شادی کی عمر کی ہیں۔ تم نے کوئی غلط قدم اٹھایا تو تم ان کا مستقبل تباہ کر دو گی۔ تم چاہتی ہو ہم تمہاری بچکانہ باتوں پر جا کر تمہارے شوہر سے لڑیں لیکن ہماری اپنی بیویاں اور بچے ہیں۔ اندر جاؤ اور کچھ کھاؤ“ ۔ وہ چھوٹے بھائی کی طرف مڑا ”امان بھاگ کے جاؤ اور ٹیکسی لے آؤ“ پھر اس کی طرف منہ کر کے کہا اگر تمہارے بچے یا محلے والے پوچھیں تو کہہ دینا بچی کو لے کر اسپتال گئی تھیں۔ تم وہاں سے کتنے بجے چلی تھیں؟ ”اس نے کوئی جواب نہیں دیا۔

”ساڑھے نو بجے ہیں“ امان نے کہا ”یہ نو بجے پہنچی ہے، غالباً صبح چھ بجے چلی ہوگی۔ اگر ہم فوراً چل پڑیں تو وہاں ساڑھے بارہ پہنچ سکتے ہیں۔“

مہرن جہاں بیٹھی تھی بیٹھی رہی۔ اس کی ماں اور چھوٹی بہنیں اسے کچھ کھلانے کے لیے منتیں کرتی رہیں لیکن اس نے کھانے کا ایک بھورا اور پانی کا ایک قطرہ بھی منہ میں نہ رکھا۔ جب ٹیکسی آ گئی تو وہ کسی سے ایک لفظ کہے بغیر بچی کو سینے سے لگائے باہر آ گئی۔ اس کے بڑے بھائی اس کے ساتھ تھے۔ آخری چند قدم پر وہ ٹھٹکی اور اس نے مڑ کر اس گھر کو دیکھا جہاں وہ پلی بڑھی تھی۔ اس کی آنکھیں بھر آئیں۔ اس کا باپ سینہ تھامے کھانس رہا تھا۔ ماں سسکیاں لیتے ہوئے اس کی طرف دیکھ کر اس کے باپ کی طرف پلٹی اس کو لٹاتے ہوئے، پنکھا جھلتے ہوئے وہ دل ہی دل میں دعا کر رہی تھی۔ یا اللہ اگر اس زندگی میں میں نے کوئی ثواب کمایا ہے تو تو میری بیٹی کی زندگی سنوار دے۔

امان نے زیرِ لب بڑبڑاتے ہوئے ٹیکسی کا دروازہ کھول کر مہر کو آنکھ سے اندر بیٹھنے کا اشارہ کیا۔

اسے اپنے بھائیوں پر اتنا ناز تھا۔ وہ غصے میں اپنے شوہر عنایت سے کہہ چکی تھی، ”میرے بھائی شیر ہیں شیر اگر انھیں تمہارے کرتوت پتہ چلے تو ٹکڑے ٹکڑے کر دیں گے۔ اب یہ غرور خاک میں مل چکا تھا۔ اس کے بھائی کے الفاظ اس کے کانوں میں گونج رہے تھے۔“ اگر تمہیں اس خاندان کی عزت کا خیال ہوتا تو تم آگ لگا کر مر جاتیں یہاں نہ آتیں۔ ”اس نے دوبارہ گھر کی طرف نگاہ نہیں کی اور ٹیکسی میں بیٹھ گئی۔ ماں کی طرف بھی نہیں جو کھڑکی میں سے جھانک رہی تھی، نہ بہنوں کی طرف جو پردے کی آڑ سے دیکھ رہی تھیں، نہ بھاوجوں کی طرف لیکن وہ تو اندر کام میں لگی ہوں گی۔ نقاب کے پیچھے اس کے آنسو بہتے رہے اور وہ دانتوں میں ہونٹ دبائے سسکیوں کو نگلتی رہی۔

گاڑی تیز دوڑ رہی تھی۔ سب خاموش تھے۔ امان آگے کی سیٹ پر بیٹھا تھا۔ ڈرائیور محلے کا آدمی تھا اس کے سامنے گھر کے راز کیسے کھولے جا سکتے تھے۔ سفر خاموشی میں جاری رہا۔ وہ عنایت کے محبت اور ہوس کے کھیل میں ایک مہرہ تھی اور سولہ سال بعد اس نے اس کی نسوانیت کی توہین کی تھی۔ ”تم تو لوتھ کی طرح پڑی رہتی ہو، مجھے تم نے کیا خوشی دی“ ؟ اس نے اس کا مذاق اڑایا ”میں نے تمہیں کیا نہیں دیا؟ کھانا؟ کپڑے؟ مجھے کون روک سکتا ہے؟ میں ایک ایسی عورت کے ساتھ ہوں جو مجھے خوش کرتی ہے۔

اس نے راستے کے درخت دیکھے نہ سڑک نہ اس کے کنارے کے منظر۔ ٹیکسی ایک جھٹکے سے رکی۔ اس نے لا تعلقی سے سر اٹھا کر اس گھر کو دیکھا جسے لوگ اس کا گھر کہتے تھے۔ کمہلائے ہوئے چہرے کے ساتھ ایک نو عمر لڑکی سامنے کے دروازے سے بھاگتی ہوئی گاڑی تک آئی ”امی آخر آپ آ گئیں۔ میں اتنی پریشان تھی۔“ اس نے بچی کو ماں کی بانہوں سے لے لیا اور اسے سینے سے لگا کر گھر کے اندر بھاگ گئی۔

مہرن سست قدموں سے گھر میں داخل ہوئی، وہ اسے خالی لگا۔ بچے اسکول میں تھے سوائے اس کی سولہ سالہ بیٹی سلمیٰ کے جو اس کے ہر درد کو محسوس کرتی تھی۔ سلمیٰ بچوں کو اسکول بھیج کر گھبرائی ہوئی ماں کا انتظار کر رہی تھی۔ ماں کو ماموؤں کے ساتھ دیکھ کر اس نے سکون کا سانس لیا تھا اس کو یقین تھا وہ اس عورت کو جھونٹوں سے گھسیٹ کر گھر سے نکال باہر کریں گے۔ وہ ہرنی کی طرح دوڑ رہی تھے چائے بناتی ماموؤں کو کچھ کھلانے کا انتظام کرتی۔

مہرن اپنے کمرے میں لیٹی ہوئی تھی، سلمیٰ کمرے میں داخل ہوئی اس نے ماں کے آنسو پونچھے، اسے چند لقمے کھلائے اور بچے ہوئے کھانے کی رکابی لے کر پلٹ رہی تھی کہ اسے ایک مانوس آواز سنائی دی۔

وہ بھاگ کر ماں کے کمرے میں گئی، ”امی، امی، ابا آ گئے۔“ مہرن نے ظاہر کیا کہ اس نے سنا ہی نہیں اور اور اپنے سر کو کمبل میں لپیٹ لیا۔ اس کے سر کے اعصاب دھمک رہے تھے۔ سلمیٰ کمرے سے باہر گئی تو وہ مردوں کے ہنسنے، بولنے اور سلام کرنے کی آوازیں سن سکتی تھی۔ ”ارے بھائی۔ آپ کب آئے“ ۔ عنایت پوچھ رہا تھا۔

”ابھی پہنچے ہیں آپ کیسے ہیں؟“
”جی خدا کا شکر ہے، آپ کی دعائیں ہیں“
امان کی آواز آئی ”آپ کہاں تھے عنایت بھائی؟“

” بس یہیں تھا، کچھ کام کچھ یہ کچھ وہ۔ تم تو جانتے ہی ہو جاگنے کے بعد ہم صرف گھر پر تو بیٹھے نہیں رہ سکتے۔ سلمیٰ اس نے آواز دی۔“ سلمیٰ، امی کہاں ہیں۔ دیکھو کون آیا ہے امی سے کہو باہر آئیں ”۔

اندر سے کوئی آواز نہیں آئی۔ ”پتہ نہیں کہاں ہے“ عنایت نے کہا ”بچی کے ساتھ اندر ہوگی میں بلاتا ہوں۔ آپ بیٹھیئے۔“ وہ اندر گیا اور سلمیٰ کو دیکھ کر اس سے آواز دبا کر پوچھا، ”یہ لوگ کب آئے؟ تمہاری امی کہاں ہیں۔“ اس کے دل میں شک کا دھاگا الجھنے لگا تھا۔

”امی سو رہی ہیں اور یہ لوگ ابھی آئے ہیں۔“ اس نے ہشیاری سے جواب دیا۔
عنایت نے سکون کا سانس لیا۔

” یہ اب تک نہیں اٹھی ہے۔ اسے کیا ہو گیا ہے۔“ کمرے کے دروازے سے کمبل میں لپٹی مہرن کو دیکھ کر اسے کراہت سی ہوئی۔ اس کی زندگی میں صرف ایک اہمیت تھی کہ وہ اس کے بچوں کی ماں تھی۔ وہ چاہتا تھا لیکن اس کی ٹانگوں نے اسے اندر لے جانے سے انکار کر دیا۔

اس نے سوچا وہ دروازے پر کھڑا ہو گا لباس میں سگرٹ اور پسینے کی بدبو کے ساتھ۔ اس کا ادھیڑ عمر جسم، ابلی ہوئی سی آنکھیں، یہ مرد جس کا نقش اس کے تمام اعصاب پہ تھا اس کے لیے اجنبی تھا۔ وہ کمبل میں لپٹی اس کی آواز سنتی رہی۔

”سلمیٰ یہاں آؤ۔ اس سے کہو کہ یہ ڈرامہ بند کرے۔ اگر اس نے اپنے بھائیوں کو مجھے سمجھانے کے لیے بلایا ہے تو یہ اپنی ہی گردن پھندے میں ڈال رہی ہے۔ میں ایک سانس میں ایک دو تین دفعہ کہہ کر یہ سارا سلسلہ ہی ختم کر دوں گا۔

اس سے کہہ دو، اس سے کہہ دو کہ طلاق کے بعد دیکھتے ہیں اس کی چھوٹی بہنوں اور بیٹیوں کی شادی کیسے ہوتی ہے۔ اسے بتا دو کہ وہ مہمانوں کے سامنے اپنے خاندان کو بے عزت کر رہی ہے۔ اپنی ماں سے کہو اٹھے اور مہمانوں کی خاطر تواضع کرے۔ اس سے پوچھو کہ اسے مرغ چاہیے یا بکری کا گوشت۔ دوپہر ہونے والی ہے۔ اس سے کہو کھانا پکانا شروع کرے۔ ”سلمیٰ وہاں تھی بھی نہیں لیکن وہ بولے جا رہا تھا یہ سمجھتے ہوئے کہ وہ وہاں ہے۔

عنایت اور اس کے سالے ایسے گفتگو کر رہے تھے جیسے کوئی کرنے کو کوئی اہم بات ہی نہ ہو۔ انھوں نے کافی کی قیمت کی بات کی، کشمیر کے الیکشن اور محلے میں ہونے والے ایک معمر جوڑے کے قتل کی تحقیقات پر اور محلے کی ایک مسلمان لڑکی کا تذکرہ جس نے ایک ہندو لڑکے سے کورٹ میں شادی کر لی تھی یہ بات اور وہ بات۔ پریشر کوکر کی بھاپ نکلنے کی آواز، بلینڈر کی آواز اور مسالوں کی تیز مہک پھیلی اور پھر مرغی کا سالن آیا اور کھانا تیار تھا چونکہ مہرن نے پکایا تھا سلمیٰ نے دوڑ دوڑ کر سب کو کھانا کھلایا لیکن مہرن باورچی خانے سے ذرا دیر کو ہی باہر آئی۔ مرغن کھانے کے بعد ، منہ میں تمبولا بھرے مہرن کے بھائی جانے کو تیار ہوئے۔ چلنے سے پہلے امان کچن کے دروازے پر آیا، ”ذرا عقل استعمال کرو اور حالات کو سدھار لو۔ میں اگلے ہفتے پھر آؤں گا۔ دیکھ لینا یہ کچھ دن ایسے رہے گا اور پھر اپنے آپ واپس آ جائے گا۔ ذمہ داری سے کام لو، دیکھو بعض عورتوں کو کیسی مصیبتیں سہنی پڑتی ہیں، شرابی شوہر، مار پیٹ کرنے والی ساسیں۔ تم بہت اچھے گھر میں ہو، ہاں وہ تھوڑا سا غیر ذمہ دار ہے لیکن اس کمی کو تمہیں پورا کرنا پڑے گا۔“ اس کے بھائی چلے گئے اور ان کی موٹر کی آواز کے ساتھ ہی عنایت بھی گھر سے غائب ہو گیا۔

سلمیٰ نے اپنی ماں کی طرف دیکھا۔ اس کے ماموؤں نے نہ اس کی ماں کی کوئی مدد کی تھی نہ اس کا غصہ ٹھنڈا کیا تھا۔ اس کا دل اپنی ماں کے دکھ سے دھڑکنے لگا، باپ کے جاتے ہی اس کی آنکھیں آنسوؤں سے لبریز ہو گئیں۔ گھر پر غم کی چادر ڈھکی ہوئی تھی اور جب بچے اسکول سے واپس آئے تو وہ بھی اسے نہیں اٹھا سکے۔ سب کے اپنے اپنے کام اور اپنے اپنے بوجھ تھے۔

شام کی روشنی پھیکی پڑ رہی تھی، گھر میں روشنیاں جل گئی تھیں لیکن مہرن کے دل کا چراغ بجھ چکا تھا۔ وہ کس لیے زندہ رہے؟ اس زندگی کا کیا مقصد تھا؟ دیواریں، چھت، پلیٹیں، پیالے، چولھا، بستر، برتن، صحن میں کھلتے گلاب، ان میں سے کوئی چیز اس کے سوالوں کا جواب نہیں تھی۔ وہ ان دو اداس آنکھوں سے بے نیاز تھی جو اس کا پہرہ دے رہی تھیں۔ سلمیٰ کے امتحان قریب تھے وہ صرف اپنی کتابوں میں ڈوبی رہنا چاہتی تھی لیکن ایک خوف جس کو وہ کوئی نام نہیں دے سکتی تھی اسے ہر لمحہ ماں کو نظر میں رکھنے پر مجبور کر رہا تھا۔

رات کے سناٹے میں مہرن اندھیرے کو گھورتی رہی وہ اس کی زندگی کی طرح سیاہ تھا۔ بچے سو رہے تھے صرف سلمی جاگ رہی تھی وہ ڈرائنگ روم میں کتابیں سامنے رکھے بیٹھی تھی لیکن اس کی نگاہیں ماں کے کمرے کے دروازے پر جمی ہوئی تھیں۔

مہرن کی نیند اڑ چکی تھی۔ وہ سوچ رہی تھی اس گھر کے لیے اس نے جو جدوجہد کی تھی کیا وہ ضروری تھی؟ اس کی عنایت سے شادی کے ایک مہینے بعد اس کے بی کام سیکنڈ ایر کے امتحان تھے۔ وہ کتنا روئی تھی، اس نے کتنی خوشامد کی تھی کہ اسے پہلے امتحان دینے کا موقع مل جائے لیکن کسی نے اس کی نہ سنی۔ شادی کے ایک ہفتے بعد اس نے جھجکتے ہوئے اپنے شوہر سے اس کا ذکر کیا۔ وہ ہنسا تھا اس نے اسے ”میری پیاری“ اور ”میری جان“ کہا تھا۔ ”تم یہاں نہیں ہوں گی تو مجھے سانس بھی نہیں آئے گا۔ : مہرن کو اس کی باتوں پر یقین آ گیا تھا، اگر وہ گھر پر نہ رہی تو شاید ایسا ہی ہو جائے۔ وہ بہت خوش تھی اس کی ہر خواہش پوری کرتے ہوئے، وہ ایسا چراغ تھی جس سے عنایت کا دل روشن تھا۔

ساس سسر کے انتقال کے بعد ہی مہرن کو اپنا شوہر مکمل ملا تھا۔ اس کی نندیں اپنے گھروں کی ہو چکی تھیں، دیور اپنے اپنے راستے پر نکل گئے تھے۔ اپنے گھر کا پرانا خواب اب پورا ہو چکا تھا۔ لیکن اس کے چہرے پر شکنیں پڑ چکی تھیں، ہاتھ کی پشت پر نسیں ابھر آئی تھیں اور آنکھوں کے نیچے حلقے پڑ چکے تھے۔ اس کی ایڑیاں پھٹی ہوئی تھیں اور ان میں ہمیشہ کے لیے میل جم چکی تھی، اس کے ناخن ٹوٹے ہوئے تھے اور سر کے بال چھدرے ہو چکے تھے۔

ہو سکتا ہے عنایت ان سب کو نظر انداز کر دیتا لیکن عنایت کا اپینڈکس کا آپریشن ہوا اور اس پرائیویٹ اسپتال کی نرس جو تھوڑی سی تنخواہ پر بہت زیادہ کام کر رہی تھی لیکن اس کی آنکھوں میں ہزاروں خواب تھے اور دیکھنے والے کو کچھ اندازہ نہیں ہوتا تھا کہ وہ چلتی تھی یا ہوا پر قدم رکھتی تھی، اس کی جلد جگمگاتی تھی اور شہد رنگ آنکھیں ایک گرداب کی طرح دیکھنے والے کو ڈبو دیتی تھیں، وہ اب عمر کے تیس سال کے بعد دوسری ڈھلان پر نیچے پھسل رہی تھی اور اپنے خوابوں کو پورا کرنے اور مستقبل کو محفوظ کرنے کے لیے کچھ بھی کرنے کو تیار تھی۔

عنایت نے کبھی نرس کو سسٹر نہیں کہا۔ اسپتال میں جتنے دن وہ رہا اس نے ہمیشہ اس کو نام سے پکارا۔

اور اس نے اس کوکھ کی تذلیل کی تھی جس نے اسے اتنے بچے دیے تھے۔ اس نے مہرن کے ڈھیلے پیٹ کا مذاق اڑایا اس کی ڈھلکی ہوئی چھاتیوں کا، جنہوں نے اس کی اولاد کے پیٹ بھرے تھے۔ اسے لگا تھا جیسے اس نے اس کی روح کو بھی ننگا کر دیا تھا۔ ایک دن اس نے کہا تم تو میری ماں لگتی ہو، اور ان الفاظ نے اسے جیتے جی جہنم میں دھکیل دیا تھا۔ پچھلے چند مہینوں میں، جب سے اس نے الفاظ کہے تھے اسے اس گھر میں کھایا ہوا ہر لقمہ ایک گناہ لگتا تھا۔ اپنے ہی گھر میں اجنبیت محسوس ہوتی تھی۔ وہ اس توہین سے پس کر رہ گئی تھی اور اس نے اپنے گھر والوں سے مدد مانگی تھی۔

رات کی تاریکی بڑھتی جا رہی تھی اور مہرن کے دل کا تلاطم سختی میں تبدیل ہو رہا تھا۔ اس نے کبھی ایسی تنہائی نہیں محسوس کی تھی۔ اس کی سب خواہشیں ختم ہو گئی تھیں۔ اب اس کی خواہش کسی کو نہیں رہی تھی۔ اب اسے چھیڑنے والا، لپٹانے والا چومنے والا کوئی نہیں تھا۔ جو یہ سب کرتا تھا اب کسی اور کا تھا۔ زندگی ختم کیوں نہیں ہوتی۔ پیچھے سے کسی چیز کے گرنے کی آواز نے بھی اسے نہیں چونکایا، اسے اندازہ تھا کہ ایک فریم ہوئی تصویر گری ہے، شیشہ چکناچور تھا، فریم ٹوٹ گیا تھا اور تصویر باہر گر پڑی تھی لیکن اس کو کسی چیز کو ٹھیک کرنے کی کوئی خواہش نہیں تھی۔ وہ آہستہ سے پلنگ سے اٹھی اور خاصی دیر کھڑی بچی کو دیکھتی رہی پھر کمرے سے نکل آئی، بچے سو رہے تھے۔

جب وہ خاموشی سے ڈرائنگ روم میں آئی تو سلمیٰ جو وہاں پڑھنے کے لیے بیٹھی تھی، میز پر سر ٹکا کر سو چکی تھی۔ وہ اپنی سوتی ہوئی بیٹی کے پاس کھڑی یک لخت کانپنے لگی۔ اس کا خیال تھا کہ اس کے تمام جذبات مر چکے ہیں لیکن سلمیٰ کو دیکھتے ہوئے اس کے اندر ان کی ایک ایسی لہر اٹھی کہ وہ گرتے گرتے بچی۔ اس نے سلمیٰ کو چھونے کی خواہش سے اپنے آپ کو روکا اور اس سے دل ہی دل میں کہا، میری پیاری اب تمہیں ان بچوں کی ماں بننا پڑے گا۔

اس کے قدم اسے دروازے کے باہر گھر کے سامنے لے گئے۔ اس کے سینچے ہوئے پودے لگتا تھا رو رہے ہیں اور اس کے فیصلے پر اثبات میں سر ہلا رہے ہیں۔ وہ واپس اندر آ گئی، دروازہ اپنے پیچھے مقفل کیا، کچن گئی، مٹی کے تیل کا کین لے کر گھر کے پیچھے گئی، پھر گھر کے اندر بچوں کو دیکھنے گئی۔ اس نے سلمیٰ کی طرف نہیں دیکھا۔ اس نے کچن سے ماچس اٹھائی اسے سختی سے ہاتھ میں تھامے وہ صحن میں آئی۔ اس نے پھر اندھیرے کو دیکھا اپنے آپ کو یاد دلایا کہ اس کا کوئی نہیں ہے۔ اس نے مٹی کا تیل اپنے اوپر انڈیل لیا۔ اب وہ اپنے سے زیادہ طاقتور جذبے کی گرفت میں تھی۔ اس نے ادھرادھر دیکھا کوئی آواز، کوئی لمس کوئی یاد نہیں بچی تھی، کوئی رشتہ اس کے دل کو نہیں چھو سکتا تھا وہ اپنی سوچ کی دنیا سے نکل چکی تھی۔

لیکن گھر میں بچی بھوک سے رو رو کر سلمیٰ کو جگا چکی تھی۔ اس نے دوڑ کر بچی کو اٹھایا اور امی امی کہتی اس کمرے میں سے گزری جہاں بچے سو رہے تھے۔ اس نے کھلا ہوا دروازہ دیکھا، صحن کے ملگجے اندھیرے میں ماں کا ہیولہ اور مٹی کے تیل کی بو۔ کچھ سوچے بغیر وہ اس کی طرف دوڑی، اس کی بانہوں میں بچی تھی لیکن وہ ماں سے لپٹ گئی۔ ماں نے ہاتھ میں ماچس کی ڈبیا تھامی ہوئی تھی اور وہ لاتعلقی سے اس لڑکی کو اپنے سے لپٹتا دیکھ رہی تھی جیسے اسے کسی اور کی امید تھی۔ سلمیٰ نے بچی کو نیچے بٹھا دیا اور رونے لگی۔ ”امی ہمیں چھوڑ کر مت جاؤ“ وہ ماں کی ٹانگوں سے لپٹ گئی۔

سلمیٰ بلک بلک کر رو رہی تھی اور چھوٹی بچی زمین پر لیٹی رو رہی تھی۔ مہرن نے ان کو دیکھا اور اس عجیب جذبے کا مقابلہ کرنے لگی جس نے اسے اپنی لپیٹ میں لے لیا تھا۔ سلمیٰ اب بھی اس کی ٹانگوں کو جکڑے ہوئے تھی ”صرف اس لیے کہ ایک آدمی نے آپ کو چھوڑ دیا ہے آپ ہم سب کو اس عورت کے رحم و کرم پر چھوڑ جائیں گی؟ آپ ابا کے لیے مر جانا چاہتی ہیں لیکن کیا آپ ہم لوگوں کے لیے زندہ نہیں رہ سکتیں؟ آپ ہمیں بن ماں کے بچے بنا دیں گی، امی؟ ہمیں آپ کی ضرورت ہے۔“ اس کے الفاظ سے زیادہ سلمیٰ کا لمس تھا جو اس پر اثر کر رہا تھا۔ اس نے بلکتی بچی کو اٹھایا اور سلمیٰ کو سینے سے لگا لیا اسے لگا گویا کوئی دوست اس کی تکلیف کو سمجھ رہا ہے، اس کے دل کے زخموں پر پھاہا رکھ رہا ہے۔ اس کی پلکیں بھاری ہونے لگیں وہ صرف یہ کہہ سکی، ”مجھے معاف کر دو میری جان“ ، رات کا اندھیرا پگھل رہا تھا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments