خواب، محبت اور زندگی 33


Loading

mahnaz rahman

بوڑھی عورت اور چین کا ثقافتی انقلاب

یہ بات مجھے بہت عرصہ بعد سمجھ میں آئی کہ جب میں اور فہمیدہ اپنی چین نوازی اور روس نوازی کے حوالے سے بحث میں مصروف تھے تو احفاظ خاموشی سے کھڑے مسکرا کیوں رہے تھے۔ احفاظ ہماری شادی سے پہلے بھی 1969 میں اپنی نوجوانی کے زمانے میں چین گئے تھے۔ (یہ وہی سال تھا جب میں نے کراچی یونیورسٹی میں داخلہ لیا تھا) ۔ احفاظ کا تعلق بھی چین نواز کیمپ سے تھا اور وہاں جا کے انہیں ثقافتی انقلاب کا براہ راست مشاہدہ کرنے کا موقع ملا بلکہ انہوں نے کھیتوں میں کسانوں کے ساتھ کام بھی کیا۔ ایک غیر ملکی کی حیثیت سے انہوں نے رضاکارانہ طور پر اپنی خدمات پیش کی تھیں جب کہ ان کے دفتر کے چینی رفقائے کار کے لئے دیہات میں جا کر کسانوں کے ساتھ کام کرنا لازمی قرار دیا گیا تھا۔ وہ مجبور تھے کہ اپنے شہر کو چھوڑ کر دور دراز کے دیہات کے نا مانوس ماحول میں جا کے کھیتوں میں کام کریں۔

یہ 1970 یا 1971 کا ذکر ہے جب ایک گاؤں میں احفاظ کی ملاقات ایک کمزور سی بوڑھی عورت سے ہوئی جسے کسی دور دراز کے شہر سے اس گاؤں میں کام کرنے کے لئے بھیجا گیا تھا۔ اسے اپنے بیٹے، بہو اور پوتے پوتی کو چھوڑ کر مجبوراً گاؤں آنا پڑا تھا۔ اسے ہانپتے کانپتے محنت مشقت کرتے دیکھ کر احفاظ کو بچپن میں دیکھی ہوئی کراچی کی وہ بوڑھی عورت یاد آ گئی جس کی کمر بوجھ اٹھاتے اٹھاتے دہری ہو گئی تھی۔ اسے دیکھ کر احفاظ کے دل میں سماجی نا انصافی سے لڑنے اور بغاوت کرنے کا جذبہ پیدا ہوا تھا۔ اب اتنے سالوں بعد اپنے وطن سے دور ان کی آنکھوں کے سامنے وہی نا انصافی اس ملک میں ہو رہی تھی جو خود کو اشتراکی کہتا تھا۔ احفاظ اپنے آپ سے پوچھنے پر مجبور ہو گئے کہ آخر پھر بدلا کیا ہے؟ پاکستان کی سرمایہ داری معیشت میں ایک بوڑھی عورت کے ساتھ جو سلوک ہو رہا تھا، وہی سلوک ایک سوشلسٹ معیشت میں بھی ہو رہا تھا۔

احفاظ زندگی بھر سوشلزم کی حمایت اور سامراج کی مخالفت کے اپنے موقف پر ڈٹے رہے۔ خاص طور پر نائن الیون کے بعد جب ادبی حلقوں پر خاموشی طاری تھی، وہ واحد قلم کار تھے جو امریکی جارحیت کے خلاف نظموں پر نظمیں اور مضامین لکھ رہے تھے لیکن چین میں سوشلزم کے نام پر ثقافتی انقلاب کے دوران جو کچھ ہوا، اسے دیکھ کر وہ سمجھ گئے تھے کہ یہ سب کچھ ان کے آدرشوں اور نظریات سے مطابقت نہیں رکھتا۔ یہ بات ان کے لئے بے حد تکلیف دہ تھی۔ شاید اسی لئے پاکستان واپس آ کر معراج محمد خان اور دیگر دوستوں کی کوششوں کے باوجود وہ پارٹی پالیٹکس سے دور رہے اور خود کو ٹریڈ یونین سرگرمیوں کے لئے وقف کر دیا۔ خیر یہ سب کچھ تو مجھے برسوں بعد جا کے معلوم ہوا۔ اپنے یونیورسٹی کے زمانے میں تو میں ان کے بارے میں کچھ نہیں جانتی تھی۔

شہر سے بارہ میل پرے ہے اک البیلی بستی۔ یونیورسٹی

حیدرآباد سے بی اے کا امتحان دینے کے بعد جب میں واپس شکارپور گئی تو ابی کا خیال تھا کہ بی اے تک کی تعلیم میرے لئے کافی ہے لیکن امی چاہتی تھیں کہ میں کراچی یونیورسٹی سے ایم اے کروں۔ بچوں کے معاملات میں ہمیشہ امی کی بات چلتی تھی۔ اس معاملے میں بھی یہی ہوا۔ تب تک صحافی بننے کا شوق میرے سر پر سوار ہو چکا تھا۔ میں صحافت میں ایم اے کرنا چاہتی تھی لیکن ابی کا خیال تھا کہ مجھے اکنامکس میں ایم اے کرنا چاہیے کیونکہ پاکستان میں صحافت کی کوئی قدر و قیمت نہیں ہے۔ انہوں نے مجھے سمجھایا کہ اخبارات و جرائد میں میرے مضامین اور افسانے تو شائع ہوتے رہتے ہیں، اس لئے صحافی تو میں بن ہی جاؤں گی لیکن ایم اے مجھے اکنامکس میں ہی کرنا چاہیے۔ میں نے بھی یہی سوچ کر ان کی بات مان لی کہ اکنامکس پڑھنے کے بعد بھی بننا تو مجھے صحافی ہی ہے۔ ویسے بھی سوشلزم میں دلچسپی رکھنے کی وجہ سے اقتصادیات کا مضمون میرے لئے بے حد اہمیت رکھتا تھا۔ ابھی تک تو میرا سوشلزم ساحر لدھیانوی کی شاعری اور دیگر ترقی پسند ادیبوں کی تحریروں تک محدود تھا لیکن اقتصادیات پڑھ کر میں سماجی نا انصافیوں کے خاتمے کے مزید نئے راستے تلاش کر سکتی تھی۔

امی مجھے یونیورسٹی میں داخلہ دلانے کے لئے میرے اور سب سے چھوٹے بھائی فراز کے ساتھ ٹرین میں کراچی گئیں۔ ہم لوگ کراچی میں میری حیدرآباد ہوسٹل کے زمانے کی دوست نسرین کے گھر ٹھہرے۔ اس کے والد ایک ایماندار پولیس افسر تھے۔ اس وقت ان کا عہدہ ڈی ایس پی کا تھا۔ ان کا ایک انسپکٹر اپنی فوکس ویگن کار میں ہمیں یونیورسٹی لے کر گیا۔ ڈاکٹر احسان رشید اکنامکس ڈیپارٹمنٹ کے چئیرپرسن تھے۔ وہ اردو کے مشہور ادیب رشید احمد صدیقی کے صاحب زادے تھے۔ ڈاکٹر احسان رشید اپنے دفتر میں ہمارے ننھے منے قافلے کو بیٹھا دیکھ کر بے حد محظوظ ہوئے۔ سالوں بعد میں نے ان کی بہن سلمیٰ صدیقی کا انٹرویو کیا تھا جنہوں نے اردو کے عظیم ادیب کرشن چندر سے شادی کی تھی۔ لیکن جب میں نے ان کا انٹرویو کیا تب کرشن چندر کا انتقال ہو چکا تھا۔

اس وقت تک حیدرآباد یونیورسٹی کا بی اے کا رزلٹ نہیں آیا تھا۔ اس لئے مجھے پروویژنل یا عارضی داخلہ ملا اور اس کے ساتھ ہوسٹل میں کمرا بھی مل گیا۔ امی مجھے لے کر ہوسٹل کی وارڈن مسز قریشی کے پاس گئیں۔ اور ان سے کہا کہ مجھے یہاں سکھر یا شکارپور سے آنے والی کسی لڑکی سے متعارف کروا دیں تاکہ چھٹیوں میں ہم ٹرین میں اکٹھے گھر واپس آ سکیں۔ وارڈن نے ایک لڑکی کو بلوایا۔ ہاؤس کوٹ یا شاید سلیپنگ گاؤن پہنے، بالوں میں گھونگر ڈالنے والے رولر سر پر لگائے مسکراتی ہوئی ایک لڑکی اندر آئی۔ یہ سکھر کی رہائشی ممتاز تھی۔ ہوسٹل کے پہلے دن سے شروع ہونے والی یہ دوستی نصف صدی گزر جانے کے باوجود آج بھی قائم ہے۔
(جاری ہے )


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments