نہ میں ماں اور نہ میں بیٹی ہوں
کتنی عجیب بات ہے کہ اس معاشرے میں تالیاں بجانے والے ہاتھوں کی آواز تو سب کو سنائی دیتی ہے، مگر ان ہاتھوں کی کہانی کوئی نہیں سنتا۔ ہماری گلیوں بازاروں میں رنگ برنگی ساڑھیوں میں لپٹے، کاجل میں ڈوبی آنکھوں والے یہ خواجہ سرا جب تالی بجاتے ہیں تو لگتا ہے جیسے پورا سماج ان کی بے بسی پر قہقہہ لگا رہا ہو۔ ان کی ہنسی، ان کا ناچ، ان کی مانگے تانگے کی دعائیں دراصل ہماری اجتماعی بے حسی کی ماتم گاہ ہیں مگر مجال ہے کسی کے دل پر دستک پڑے۔
کل ہی کی خبر ہے کہ ایک باپ نے اپنے اکیس سالہ خواجہ سرا بیٹے کو اس لیے مار ڈالا کہ وہ شادیوں میں ناچتا تھا۔ سوال یہ نہیں کہ وہ لڑکا پیدائشی خواجہ سرا تھا یا خود ساختہ۔ سوال مگر یہ ہے کہ ایک باپ نے اپنی جگر کے ٹکڑے کو فقط اسی ”گناہ“ پر مار ڈالا جس کا حل سمجھ بوجھ اور علاج تھا۔ اگر وہ ”خود ساختہ“ تھا تو اسے نفسیاتی کونسلنگ کے ذریعے دوبارہ معمول کی زندگی میں لایا جا سکتا تھا، جیسے بہت سے والدین نے کیا بھی۔ مگر یہاں تو ”جرم“ کی سزا ہمیشہ موت ہی کیوں نکلتی ہے؟
ذرا سوچئے یہ ”خود ساختہ“ خواجہ سرا آخر بنتے ہی کیوں ہیں؟ کیا آپ جانتے ہیں کہ یہ دراصل گھر کی بے توجہی، والدین کی لاعلمی اور معاشرے کی سنگ دلی کا پیدا کردہ المیہ ہے؟ معصوم ذہنوں کو جب رنگین محفلیں، تالیاں اور تھوڑی سی توجہ ملتی ہے تو وہ اس طرف کھنچے چلے جاتے ہیں۔ پھر یہ رنگ آہستہ آہستہ ان کی ہستی پر ایسا چڑھتا ہے کہ ساری زندگی پیچھا نہیں چھوڑتا۔ یہاں والدین کی توجہ، محبت اور بروقت رہنمائی ہی وہ دوا ہے جو بہت سے بچوں کو واپس لانے کی طاقت رکھتی ہے۔
اور وہ بچے جو فطری نقص لے کر دنیا میں آتے ہیں ان کا کیا قصور ہے؟ ان میں کیا گناہ ہے؟ کوئی بچہ اگر نابینا یا گونگا بہرا پیدا ہوتا ہے تو ہم اسے ہمدردی دیتے ہیں، مگر خواجہ سرا پیدا ہو تو ہم اپنے چٹکلے تیز کر لیتے ہیں۔ اسے یا تو ہوس بھری نگاہوں سے تکتے ہیں یا طعنوں کے کوڑے مارتے ہیں۔ جب پورا سماج دروازے بند کر دیتا ہے تو یہی بچے ”گرو“ کے دامن میں جا گرتے ہیں۔ وہی گرو جن کی چھاؤں میں انہیں تالیاں بجانے، ناچنے اور گلی گلی در در رسوا ہونے کے سوا کچھ نہیں ملتا۔ آخر یہ معاشرتی قبرستان ہے یا زندہ انسانوں کی بستی؟
ہم نے ان کے ہاتھوں میں کتاب کیوں نہ دی؟ قلم کیوں نہ تھمایا؟ اسکول، کالج، یونیورسٹی، روزگار کے دروازے ان کے لیے کیوں بند ہیں؟ ہم نے آج تک کتنے والدین کو بتایا کہ ایسے بچوں کا علاج ہو سکتا ہے؟ حکومت کی ترجیحات میں یہ سسکتے چہرے کیوں شامل نہیں؟ جب ہم نے ان کے لیے عزت کی کوئی راہ رکھی ہی نہیں تو تالیاں سن کر شکوہ کس بات کا؟
ذرا ترقی یافتہ معاشروں کو دیکھ لیجیے۔ وہاں بھی خواجہ سرا ہیں مگر وہاں کے سکولوں، دفاتر، ہسپتالوں میں ان کا احترام ہے۔ وہاں ان کا مذاق نہیں بنتا۔ وہاں ان کے ہاتھوں میں تالی نہیں، قلم ہوتا ہے۔ کیا یہ ہم نہیں کر سکتے؟ کر سکتے ہیں بس تھوڑی سی ہمدردی، تھوڑی سی سمجھ بوجھ اور تھوڑی سی انسانیت چاہیے۔
آج اگر ہم نے فیصلہ کر لیا کہ اس گرو کلچر کو ختم کر کے خواجہ سرا کو باعزت روزگار دیں گے، ان کے علاج کی راہیں کھولیں گے، ان کے لیے تعلیم و تربیت کا نظام بہتر کریں گے تو یقین کریں کل کو یہ تالیاں خود بخود خاموش ہو جائیں گی۔ آج جو تالی ہمیں گلی میں چونکا دیتی ہے، اگر کل کو وہی ہاتھ دعا کے بجائے ڈگری تھامے ہوں تو یہ سماج سچ میں انسانوں کی بستی کہلائے گا، تماشے کا میدان نہیں۔
- نہ میں ماں اور نہ میں بیٹی ہوں - 05/07/2025
- ننھے فواد کی مسکراہٹ - 29/06/2025
- زمین بنجر، اولاد بے ثمر - 27/06/2025
Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).