مولانا فضل الرحمن: ایم ایم اے، کشمیر کمیٹی، صد سالہ تقریبات، مولانا سمیع الحق، عمران خان


عدنان کاکڑ: کیا آئندہ سیاسی منظر نامے میں آپ آئنی طریقے سے انتقال اقتدار دیکھ رہے ہیں؟

مولانا فضل الرحمن: میرا خیال ہے کہ ایسا ہی ہوگا۔

عدنان کاکڑ: یعنی جمہوریت کو کوئی خطرات نہیں ہیں؟

مولانا فضل الرحمن: بظاہر تو نہیں ہیں۔ پریشانیاں ہوں گی۔ اضطراب رہیں گے۔ حکومت بھی کرو اور اطمینان سے ہینڈل بھِی کرو۔

فرنود: ایک طویل مدت سے آپ کشمیر کمیٹی۔ کے چیئرمین ہیں۔ یہ تاثر ہے کہ کشمیر کے اندر وہاں کی کچھ عوامی طاقتیں آپ سے پرخاش رکھتی ہیں۔ ان کی پریس کانفرنس میں آپ موجود بھی ہوتے ہیں تو تلخیاں پیدا ہو جاتی ہیں۔ شاید انڈیا اور پاکستان کا جو تعلق ہے اس میں آپ شاید مذہبی طبقے میں سب سے مختلف موقف رکھتے ہیں۔ پاکستان میں ایک بڑا طبقہ، کالم نگار اور دانشور کشمیر کمیٹی کے حوالے سے آپ کے کردار پر سوالات اٹھاتے ہیں۔ منور حسن صاحب نے اس پر سوال اٹھائے تھے۔ پھر کشمیر سے کئی آوازیں ہیں۔ اس پوری صورت حال میں کیا نکات آپ ہمارے قارئین کے ساتھ شیئر کرنا چاہیں گے۔

مولانا فضل الرحمن: انڈیا کی پارلیمنٹ میں یہ شور و غوغا اٹھا ہے کہ پاکستان مسئلہ کشمیر کو انٹرنیشنلائز کرنے میں کامیاب ہو رہا ہے۔ اور ایسا خود ان کے غیر سیاسی رویوں کی وجہ سے ہونا شروع ہوا ہے۔ لیکن عجیب صورت حال یہ ہے کہ پوری پارلیمنٹ کی اپوزیشن جماعتیں بھی اس بات کو سننے کے بعد خاموش ہو گئیں اور وہاں پر شدید ایک ردعمل تھا اپوزیشن کا، ان کو ایک سامنا تھا گورنمنٹ کو، اس میں وہ کافی پیچھے رہ گئے، واپس آ گئے۔ بنیادی بات یہی ہے کہ انڈیا پاکستان کے درمیان تو تنازعات بہت ہوں گے لیکن کور ایشو جسے ہم کہتے ہیں وہ مسئلہ کشمیر ہی ہے۔

اور کشمیر کے مسئلے پر ایک مسئلے کی بنیاد ہے تو وہ ریاستوں کے بیچ میں اختلافی مسئلہ ہے۔ ایک اس اختلاف کی بنیاد پر رویے ہیں۔ وہ حکومتیں کے قبضے میں ہوتے ہیں۔ اس وقت ہندوستان اپنے مفاد میں سمجھتا ہے کہ وہ کشمیر کے تنازعے کو تناؤ کا سبب بنائے۔ اور اس مسئلے پر کشیدگی کو بڑھائے یہ اس کا مفاد ہے۔ یہی وجہ ہے کہ پاکستان بطور ریاست کے بڑا ذمہ دارانہ جواب دے رہا ہے۔ اب جب ریاست یہ سمجھتی ہے کہ مجھے ذمہ دارانہ جواب دینا چاہیے، صفائی کا معاملہ بھی ہے، نئی بین الاقوامی کمیونٹی میں ہم جا رہے ہیں، اپنے مستقبل کو دیکھتے ہوئے کسی تنازعے کی طرف آگے نہیں بڑھنا چاہیے۔ یہ ریاست کی سوچ ہے۔

اب جب ریاست کی سوچ ہے اور جذبات اور ہیں اور ریاست اپنے مفاد میں اور طرح سوچتی ہے، عقل کا تقاضا کچھ اور ہوتا ہے، تو پھر ہو گا تو وہی جو ریاست چاہتی ہے۔ لیکن لوگوں کے جذبات جو ہیں ان کو متوجہ کیا جاتا ہے کشمیر کمیٹی کی طرف غصہ ادھر نکالنا ہوتا ہے۔ (قہقہہ)۔ یہ بڑا آسان ان کو راستہ نکل آتا ہے اور وہ اس لئے کہ وہاں پر فضل الرحمن بیٹھا ہوا ہے۔ اگر عام پارلیمنٹ کا کوئی ممبر بیٹھا ہو تو نوابزادہ نصراللہ سے لے کر فضل الرحمن تک آپ کو معلوم بھی نہیں ہے کہ چیئرمین کون ہے۔ (قہقہہ)۔

فرنود: اچھا ایک سوال مولانا صاحب۔ شاید یہ آپ کے مقام و مرتبے سے تعلق تو نہیں رکھتا لیکن پچھلے دنوں آپ نے ازراہ تفنن ایک بات کہی لیکن وہ زیر بحث آ گئی۔ صد سالہ کے موقعے میں بڑے سینئر ہمارے صحافی حضرات آپ کے ساتھ بیٹھے تو یہ سوال آپ سے ہوا کہ صد سالہ میں خواتین کی نمائندگی کیوں نہیں ہوئی۔ اس پر آپ کے جواب پر بڑے قہقہے لگے۔ ہمارا آئین یہ کہتا ہے کہ جنس اور عقیدے کی بنیاد پر شہریوں میں تفریق نہیں کی جائے گی۔ اور ظاہر ہے کہ اسی بنیاد پر ہم شہریوں سے ووٹ بھی نہیں مانگ سکتے۔ اس پوری صورت حال میں خاص طور پر باقی معاملات میں تو آپ کا موقف آپ کے سیاسی کردار سے واضح ہے لیکن جو خواتین کے حوالے سے دو تین پروگراموں میں آپ کا ایک خاص قسم کا نقطہ نظر پیش کیا ہے۔ صنفی مساوات کے سوال پر آپ کی کیا رائے ہے۔

مولانا فضل الرحمن: دیکھیں جہاں تک خواتین کے حقوق کا تعلق ہے، یا ان کے مقام و منزلت کا تعلق ہے، اس پر تو کوئی اختلاف نہیں ہے۔ اور ہم زیادہ دعویدار ہیں اس بات کے۔ ہمارے نقطہ نظر سے جو خواتین کے حقوق کا معیار ہے آپ اس کا مقابلہ ہی نہیں کر سکتے۔ لیکن اس کی تشریح اور عملی شکل کیا ہے، وہ ایک نظری معاملہ ہے۔ اور آپ جانتے ہیں کہ مغرب کا عورت کے بارے میں جو تصور ہے، پاکستان کے اندر اگر لبرل طبقے کا ایک تصور ہے، تو ہم اس بہاؤ میں بہنے کے لئے تیار نہیں ہوتے۔ ہم اپنا ایک نظریہ، موقف رکھتے ہیں عورت کے حق کے بارے میں، ان کے مقام و مرتبہ کے بارے میں، عورت اگر کسی لبرل کی ماں ہے، تو ایک فضل الرحمن کی بھی ماں ہے۔ عورت اگر کسی لبرل کی بیٹی ہے تو عورت فضل الرحمن کی بھی بیٹی ہے۔ عورت اگر کسی لبرل کی بہن ہے تو فضل الرحمن کی بھی بہن عورت ہے۔ تو یہ چیزیں کہ ان رشتوں کے حوالے سے جو احترام اور اس کے ساتھ جو ہمدردی اور محبت اور مودت لیکن اس کے پیمانے کیا ہونے چاہئیں، اس کی حدود کیا ہونی چاہئیں یہ ان کے اپنے تصورات ہوں گے، ہمارے اپنے تصورات ہوں گے۔ میں نے اپنے تصورات کے حوالے سے پبلک کو پیغام دینا ہے انہوں نے اپنے حوالے سے دینا ہے۔

لیکن یہ کہ وہ مجھے کہیں کہ آپ تو عورت کے حقوق کو دبا رہے ہیں، آپ تو عورت کے حق کو تسلیم نہیں کرتے، یہ چیز ہم مسترد کرتے ہیں۔ اگر میں قرآن کریم کی تعلیمات کے مطابق ایک خاتون کی زندگی چاہتا ہوں تو آپ اسے قید کہیں گے؟ آپ اسے گھر کے اندر بند کرنے والے الفاظ سے تعبیر کریں گے؟ تو یہ ساری وہ چیزیں ہیں کہ اس پر تفصیلات، تشریحات اور تعبیرات پر جب آئیں گے، تو اس کے عملی تصورات مختلف ہیں۔ تو جمعیت علما اور علما کا موقف اتنا کمزور بھی نہیں ہے کہ وہ ان کے بہاؤ میں اپنے سارے نظریات کو چھوڑ کر بہہ جائے۔ ہم اپنی جگہ ٹھہرے ہوئے ہیں اور ہم عورت کے حق کو بہتر جانتے ہیں۔ پارلیمنٹ میں ہماری نمائندگی ہے۔ اس کی نمائندگی کا اپنا رنگ ہے، دوسری پارٹیوں کا اپنا رنگ ہے۔ اور ہمیں بھی ووٹ خواتین دیتی ہیں۔ ہمیں بھی ان کے ووٹ کی ضرورت ہوتی ہے۔ میں بھی اگر پارلیمنٹ میں آتا ہوں جتنا مردوں کے ووٹ سے آتا ہوں اتنا ہی عورتوں کے ووٹ سے آتا ہوں۔ میں بھی جب پارلیمنٹ میں آتا ہوں جتنا یہ لوگ نوجوانوں کے ووٹ سے آتے ہیں میں بھِی اتنے نوجوانوں کے ووٹ سے آتا ہوں۔ تو یہ پیمانے اپنے اپنے ہو سکتے ہیں لیکن بنیادی تصورات جو ہیں، مفتی صاحب نے فرمایا کہ آزادی کے تو ہم سب قائل ہیں، آزادی پر تو کوئی اختلاف نہیں لیکن میں کم از کم آوارگی کو تو آزادی نہیں کہہ سکتا۔ (قہقہہ)۔

یہ چیزیں کم از کم مد نظر رکھنی چاہئیں۔ نظریاتی تفاوت تو ہے۔ ہم آپ کے نظریے کو تحلیل تو نہیں کر سکتے۔ آپ ہم سے عورت کی آزادی چاہتے ہیں جلسوں میں۔ اور ڈی چوک والا ہے۔ لعنت اس شرکت پر۔ (قہقہہ)۔

عدنان کاکڑ: ڈی چوک کا ذکر آیا ہے تو تحریک انصاف والوں نے تو خیر ہر شخص کے متعلق غلط زبان استعمال کی ہے مگر آپ نے بھی ان پر الزام لگایا ہے یہودی ایجنٹ ہونے کا۔ تو یہ یہودی لابی میں کون کون شامل ہے۔ کوئی شواہد ہیں یا۔

مولانا فضل الرحمن: اس پر تو اگر آپ میرا ایک مستقبل میں مکمل انٹرویو کریں۔ اتنی تفصیلات مہیا کر دوں گا اور آپ کو بتا دوں گا کہ یہ پاکستانی پالیٹکس کا حصہ ہی نہیں۔ لیکن ایک بات ذہن میں رکھیں۔ میں ایک نظریاتی جنگ لڑنے والا آدمی ہوں۔ میں نے وہ جنگ لڑی ہے۔ اور پانچ چھے سال لڑی ہے۔ میں اس میں کامیاب ہوا ہوں۔ اب میں اس کو موضوع سخن نہیں بنانا چاہتا۔ میں نے شکست دی ہے اس کو۔ وہ ایجنڈے ختم ہو گئے ہیں۔ اب وہ ورلڈ بینک سے قرضے لے کر صوبے کو چلانے کی بات کرتے ہی۔ باہر سے فنڈ آنے بند ہو گئے ہیں۔ ڈیلیور نہیں کرتا ہے۔

عدنان کاکڑ: صد سالہ تقریبات میں سراج الحق صاحب نے کہا ہے کہ آپ لیڈ کریں، آپ کو اختیار دیا ہے کہ سب کو متحد کریں، ایم ایم اے دوبارہ بنانے کا۔ آپ اگلے الیکشن میں اس کے امکانات دیکھ رہے ہیں؟

مولانا فضل الرحمن: ہم نے چھے اور سات مئی کو جمعیت علمائے اسلام کی مرکزی مجلس شوری کا اجلاس طلب کر لیا ہے۔ اس میں یہ بات بھی ایجنڈے پر ہو گی۔ آپ ایک بات ذہن میں رکھیں کہ سراج الحق صاحب کی اس سوچ پر میں نے کانفرنس میں بھی شکریہ ادا کیا لیکن بنیادی بات یہ کہ یہ کانفرنس جو ہم نے کی اور صد سالہ جمعیت علما کی تاسیس کے تصور کے ساتھ کی، جب تمام مکاتب فکر کو اس میں بلا لیا، جب میں نے تمام اقلیتوں کو اس میں بلا لیا، یہ آنے والے مستقبل کی سیاست کا پیش خیمہ نہیں ہو گا تو کیا ہو گا حضور۔

تو ایک ہے بیان دے دینا۔ ہم بیان تو روزانہ دیتے رہتے ہیں۔ ہر آدمی یہ کہتا ہے کہ میں اتحاد چاہتا ہوں۔ کون سیاستدان ہو گا جو کہے گا کہ میں اتحاد نہیں چاہتا ہوں۔ اور جب نہیں کرے گا کسی سے اتحاد تو اس پر تہمتیں لگائے گا۔ تم رکاوٹ ہو، میں تو چاہتا ہوں لیکن تم رکاوٹ ہو۔ ہم نے یہ پالیٹکس نہیں کی۔ ہم نے عملی طور پر بتایا کہ جمعیت علما قوم کو ایک پلیٹ فارم پر دیکھنا چاہتی ہے۔ فرقہ واریت سے بالاتر، مذہبی امتیاز سے بالاتر ہو کر۔ اس کا اتنا بڑا مظاہرہ کیا۔ اس میں جتنے لوگ آئے ہم ان کے شکر گزار ہیں۔ ان کے ایسے خیالات سے ہمیں سپورٹ ملی ہے۔ اور اب یہ کہ انتخاب کا اپنی حد تک بھی۔  کہ ساری دنیا آپ کے سٹیج پر آئے تو یہ انتخابی تقریب تو نہیں ہے۔ آپ ایک نظریہ دے رہے ہیں، ایک تصور دے رہے ہیں، جمیعت علما کی ایک پہچان دنیا کو دے رہے ہیں اور اس کی ترجیح متعارف کرا رہے ہیں۔ اب یہ ہے کہ ہم اس کو عملی شکل اور آئندہ انتخاب کے تصور سے کیا سوچتے ہیں، تو ہم انشا اللہ مشاورت کے بعد بتائیں گے۔

فرنود: مولانا آپ نے سب کو بلایا، مولانا سمیع الحق کو نہیں بلایا۔

مولانا فضل الرحمن: اس کو بلانے کی ضرورت نہیں تھی جی۔ وہ میزبان تھا۔ وہ نوشہرہ کا رہنے والا ہے۔ وہ اکوڑہ خٹک کا رہنے والا ہے۔ وہ جمعیت علما کی طرف خود کو منسوب کرتا ہے۔ کیا ہم نے کسی اور کو بھی بلایا ہے؟ مولانا انوار الحق صاحب ان کے بھائی ہیں وہ آئے ہوئے تھے، ان کے بیٹے بھتیجے آئے ہوئے تھے، ان کے استاد آئے ہوئے تھے۔ کیا ہم نے ان کو بلایا تھا؟ جماعت اسلامی والے تین مہینے میں تین مرتبہ ہمارے پاس آتے ہیں، کہتے ہیں کوئی خدمت ہمارے حوالے، کوئی خدمت ہمارے حوالے۔ مسلم لیگ ن والے آتے ہیں۔ دوسری تنظیموں کے لوگ آ رہے ہیں۔ کیا ہمارا اپنا بھائی، ہمارا اپنا بزرگ، ہمارا میزبان، وہ کبھی ایک دن کے لئے، کوئی تکلیف کی کہ بیٹے کو بھیج دے کہ جا کر پوچھو کوئی ضرورت ہو، میرے مہمان سارے آ رہے ہیں۔ پوری دنیا سے آ رہے ہیں۔

تو یہ بلانے کا مسئلہ نہیں ہے۔ یہ کانفرنس میں آنے کا مسئلہ ہے۔ یہ ہم کہیں گے کہ وہ کیوں نہیں آئے؟ یہ کوئی نہیں کہے گا کہ ان کو کیوں نہیں بلایا گیا۔

فرنود: ان کو میزبانی کا اعزاز نہیں دیا گیا ہو گا۔

مولانا فضل الرحمن: وہ تو چھوٹا بچہ تو نہیں ہے یار۔ اسی سال ہو گئے اس کو۔

عدنان کاکڑ: آپ نے بتایا کہ صد سالہ میں آپ کے سٹیج پر مسلم غیر مسلم سارے اکٹھے ہوئے ہیں، یہ آپ کی جمعیت کی پالیسی کا ایک رخ دکھا رہا ہے یہ اجتماع۔ کیا یہ کہہ سکتے ہیں کہ آپ مذہب سے بالاتر ہو کر جو سیاست کر رہے ہیں سب کو ساتھ لے کر چلنے کی، جمعیت کے اندر سیاست سیکولر ہے؟

مولانا فضل الرحمن: اس کو سیکولر کیوں کہا جاتا ہے؟ مذہب کہتا ہے کہ سب کو انسان سمجھو۔ مذہب کہتا ہے کہ انسانی وحدت۔ تو میں فضل الرحمن کون ہوتا ہوں کہ یہ انسانیت کی بات کر کے اس کا کریڈٹ لیتا ہے۔ فضل الرحمن کہتا ہے کہ اسلام کو اس کا کریڈٹ جاتا ہے۔ میرے قرآن کو اس کا کریڈٹ جاتا ہے۔ میرے پیغمبر اسلام کو اس کا کریڈٹ جاتا ہے۔ ہم نے مذہب کو ایسی چیز سمجھ لیا ہے جیسے انسانیت کوئی اور چیز ہے اور میرا مذہب کوئی اور چیز ہے؟

حضرت شیخ الہند نے جب جمعیت علما کی بنیاد رکھی تو تمام مکاتب فکر کے علما موجود تھے۔  اور وہ پہلا انسان تھا جس نے کہا کہ ہندوستان کی آزادی اب مسلمان کی بنیاد پر نہیں ہو گی بلکہ ہندوستانی قومیت کی بنیاد پر ہو گی، تو ہندو کو اٹھاؤ۔ گاندھی جی ان کے دور میں آئے تھے۔ سکھوں کے علما اس میں شریک ہو گئے عیسائیوں کے علما اس میں شریک ہو گئے۔ تو آج جو ہم صد سالہ منا رہے ہیں تو وہ اس اساس کے تصور پر منا رہے تھے تو ہم نے وہی مظاہرہ کیا عملی طور پر۔

وصی: آپ نے ابھی کہا کہ جب ان کو کوئی مسئلہ ہوتا ہے تو وہ غصے میں کشمیر کمیٹی والا سلسلہ چلا دیا جاتا ہے۔ میں نے یہ پوچھنا ہے کہ آپ پر جب کرپشن کے دو تین بار الزامات لگے تو اس وقت آپ کیا کر رہے تھے۔ کیا کوئی خاص مسائل تھے جن کی وجہ سے آپ کو دباؤ میں لایا جا رہا تھا۔

مولانا فضل الرحمن: میں اسٹیبلشمنٹ کی ہدایات نہیں مان رہا تھا۔

وصی: ایک تو ایم ایم اے کے دور میں زمین والا الزام تھا۔ سترہویں ترمیم کا معاملہ تھا؟

مولانا فضل الرحمن: اس وقت اسٹیبلشمنٹ کے تقاضے تھے۔ اسٹیبلشمنٹ والے کچھ مہم جوئی کر رہے تھے جو شاید میں رکاوٹ بن جاتا تو مجھے اس ریفرینس میں لایا گیا۔

وصی: ان الزامات کا سیاست پر کتنا اثر پڑتا ہے؟

مولانا فضل الرحمن: میرے لوگ مجھے جانتے ہیں۔ میرا کارکن بھی مجھے جانتا ہے۔ بڑے قریب سے جانتا ہے۔ آج تک میں نے اپنا دفاع نہیں کیا۔ اس کے باوجود آج تک مجھ سے کارکن نہیں گیا۔ صرف میڈیا مجھے گالی دینے کے لئے رہ جاتا ہے۔ جس چیز کا میرے فرشتوں تک کو بھی علم نہیں ہوتا اس کو مجھ سے ملایا جاتا ہے۔ جس کا پاکستان کی زمین پر وجود تک نہیں ہوتا، تو جب ایک چیز سکینڈل کے نام سے ہوتا ہے تو آپ سکینڈل کا لفظ استعمال نہیں کریں بلکہ جھوٹ کا لفظ استعمال کریں کہ فضل الرحمن کے خلاف فلانا جھوٹ، فضل الرحمن کے خلاف فلانا جھوٹ، فضل الرحمن کے خلاف فلانا جھوٹ، تو اس طریقے سے یہ ساری چیزیں ہیں۔ کسی میں آج تک جرات ہوئی ہے کہ وہ میرے اوپر بڑے بڑے سکینڈل اور ایک ایف آئی آر آج تک کسی تھانے میں کوئی درج نہیں کر سکا۔ کم بخت میرے مقابلے میں اتنے بے بس ہیں؟ کسی سول کورٹ میں کوئی عدالت میں ایک کاغذ نہیں دے سکا میرے خلاف۔ کوئی ایک چھوٹی سی برائے نام سہی ان کوائری نہیں بٹھا سکے آج تک۔ میں اتنا طاقتور ہوں اور میرے مخالف اتنے بے بس ہیں؟ (قہقہہ)۔ دیکھیں بات یہ ہے کہ باقاعدہ کچھ چیزیں انجینئیر کی گئیں اور اس زمانے میں باقاعدہ اسٹیبلشمنٹ نے کیں اور پھر وہ وقت بھی آیا جب انہوں نے اعتراف کیا اور کہا کہ آئندہ ایسا نہیں ہو گا۔

مجھ جیسا آدمی آپ نے دیکھا ہو گا کسی لیڈر کو آپ نے دیکھا ہو گا جو کہتا ہے کہ پاکستان سے اگر کرپشن دور کرنی ہے تو اس کا ایک مختصر فارمولا ہے۔ کہ جمعیت علمائے اسلام کے حوالے حکومت کر دو وہ کر دے گی۔

عدنان کاکڑ: یہ تو ساری جماعتیں کہتی ہیں۔

مولانا فضل الرحمن: نہیں کہہ سکتیں۔ قطعاً نہیں کہہ سکتیں جی۔

فرنود: تحریک انصاف بھی۔

مولانا فضل الرحمن: تحریک انصاف تو خود کرپٹ ہے جی۔ وہ کہے لیکن اس کے پیچھے آپ جذبے کو دیکھیں۔ خود اعتمادی کو دیکھیں۔ کس خود اعتمادی کے ساتھ ہم بات کر رہے ہیں۔ یہاں تو مشکل یہ ہے کہ خیبر بینک کی لوٹ مار جو ہے وہ بھی کہتے ہیں کہ کرپشن کے خاتمے کے لئے ہم کرپشن فری پاکستان بنا رہے ہیں۔ خیبر بینک کو لوٹا ہے جی۔ اس کا ایم ڈی چیخ رہا ہے اخبارات میں اشتہار دے رہا ہے کہ میرا منسٹر مجھے لوٹ رہا ہے۔ (قہقہہ)۔

عدنان کاکڑ: کرپشن کے معاملے میں کہتے ہیں کہ پولیس اور مال کا محکمہ ہے پٹواری وغیرہ اس کو اسے انہوں نے بہت اچھا کر دیا ہے۔ اس پر آپ کے کیا کمنٹ ہیں؟

مولانا فضل الرحمن: انا للہ و انا الیہ راجعون۔ انا للہ و انا الیہ راجعون ہی کہہ سکتا ہوں۔ جتنا کرپٹ طبقہ اس وقت آپ کے صوبے کا اس دور میں ہوا ہے پٹواریوں کا شاید پاکستان کی تاریخ میں اتنا کرپٹ نہیں ہوا۔

(ختم شد)


مکمل سیریز کے لنک

مولانا فضل الرحمن سے انتہا پسندی کے اسباب پر گفتگو  (پہلا حصہ)۔

مولانا فضل الرحمن ایم ایم کی حکومت اور انتہا پسند تنظیموں پر اظہار خیال کرتے ہیں   (دوسرا حصہ)۔

مولانا فضل الرحمن: اسلامی حکومت کا ماڈل، جمہوریت اور بلاسفیمی قانون (تیسرا حصہ)۔

مولانا فضل الرحمن: ایم ایم اے، کشمیر کمیٹی، صد سالہ تقریبات، مولانا سمیع الحق، عمران خان (چوتھا حصہ)۔

 


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

1 Comment (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments