بستر میں جبر کرنے والے شوہر کو میں نے چھوڑ دیا


مجھے یوں محسوس ہو رہا تھا کہ وہ رات نہیں گزرے گی۔ میرا سر درد سے پھٹ رہا تھا اور میں مسلسل رو رہی تھی۔ روتے روتے نہ جانے کب آنکھ لگ گئی۔ صبح چھ بجے جب بیدار ہوئی تو میرا شوہر میرے سامنے سراپا سوال تھا۔ اس نے پوچھا: ‘تو تم نے کیا فیصلہ کیا؟ تمہارا جواب ہاں ہے یا نہیں؟’ مجھے کچھ بھی سمجھ میں نہیں آرہا تھا۔ پھر بھی ہمت سے بولی۔ ‘آج آپ دفتر جائیے پلیز۔ میں آپ کو شام تک فون سے بتا دوں گی۔ میں وعدہ کرتی ہوں۔’

انھوں نے دھمکاتے ہوئے کہا: ‘ٹھیک ہے، میں چار بجے خود ہی تمہیں فون کروں گا۔ مجھے جواب چاہیے اور ‘ہاں’ میں جواب چاہیے۔ ورنہ رات کو سزا کا سامنا کرنے کے لیے تیار رہنا۔’

سزا سے اس کا مطلب ‘اینل سیکس’ تھا۔ اسے پتہ تھا کہ اس سے مجھے بہت درد ہوتا ہے۔ لہذا اس نے اسے مجھے پر ‘تشدد’ کا طریقہ بنا لیا تھا۔ نو بجے تک، وہ اور اس کی بڑی بہن دونوں دفتر جا چکے تھے۔ میں گھر میں تنہا تھی۔ گھنٹوں سوچنے کے بعد میں نے اپنے والد کو فون کیا اور کہا کہ میں اب اس کے ساتھ نہیں رہ سکتی۔ مجھے ڈر تھا کہ والد ناراض ہوں گے۔ لیکن انھوں نے کہا کہ ‘بیگ اٹھاو اور وہاں سے باہر نکلو۔’

میں اپنی ‘اصل اسناد’ اور ایک کتاب لے کر بس اڈے کی جانب بھاگی۔ اپنے شوہر کو میسیج کیا کہ ‘میرا جواب نہیں ہے، میں اپنے گھر جا رہی ہوں’، اور فون بند کر دیا۔

تھوڑی دیر بعد میں اپنے عزیزوں کے درمیان اپنے گھر میں تھی۔ میں نے شادی کے دو ماہ بعد ہی اپنے شوہر کا گھر چھوڑ دیا۔ میرا شوہر ساحل، جس سے میں شادی سے تین سال پہلے گریجویشن میں ملی تھی۔ وہ بہت ہنس مکھ تھا۔ مجھے اس کا قریب رہنا پسند آتا تھا اور پھر پیار ہو گيا۔ ہم گھومنے جاتے، فون پر گھنٹوں باتیں کرتے۔ زندگی ذرا زیادہ ہی مہربان نظر آ رہی تھی۔ لیکن یہ گلابی رومانس طویل عرصے تک نہیں رہا۔

رفتہ رفتہ میں نے محسوس کیا کہ یہ مساوات پر مبنی تعلق نہیں ہے، جس کی مجھے خواہش تھی۔ یہ رشتہ ویسا ہی ہوتا جا رہا تھا جیسا میری والدہ اور والد کا تھا۔ فرق صرف یہ تھا کہ ماں کچھ نہیں کہتی اور میں خاموش نہیں رہ سکتی۔ پاپا چھوٹی چھوٹی چیزوں پر ممی پر چیختے، ہاتھ اٹھاتے۔ ممی صرف روتی رہتیں۔ ساحل سے اگر بحث ہوتی تو وہ دھکا مکی پر اتر آتا اور زبردستی قریب آنے کی کوشش کرتا۔ میں منع کرتی تو چیختا چلاتا ہے۔

ایک بار اس نے مجھ سے پوچھا: ‘بتاؤ، اگر میں کبھی تم پر ہاتھ اٹھاؤں تو۔۔۔؟’ میں دنگ رہ گئی۔ بمشکل اپنے غصے پر قابو کرتے ہوئے بولی: ‘میں اسی دن تم سے الگ ہوجاؤں گی۔’ اس نے جھٹ سے کہا: ‘اس کا مطلب تم مجھ سے محبت نہیں کرتی۔ پیار میں تو کوئی شرط نہیں ہونی چاہیے۔’ اس کے بعد تقریبا ایک ماہ تک ہماری بات چیت بند رہی۔

آہستہ آہستہ لڑائیاں بڑھنے لگیں۔ کئی بار میں نے رشتہ ختم کرنے کی کوشش کی لیکن ہر بار وہ معافی مانگ لیتا تھا۔ میں سدا کے لیے ساحل سے دور ہونا چاہتی تھی لیکن نہ جانے کیوں ایسا نہیں کر پا رہی تھی۔ دریں اثنا مجھ پر شادی کے لیے دباؤ ڈالا جانے لگا۔ میں اب ٹیچر بن گئی تھی۔ میں کلاس میں ہوتی اور میرے والدین کے فون آ جاتے۔ ہر بار فون پر ایک ہی بات ہوتی۔ ‘شادی کے بارے میں کیا فیصلہ کیا۔ ساحل سے کر لو۔ اس سے نہیں کرنی تو ہماری پسند کے لڑکے سے کر لو۔ اپنی دو چھوٹی بہنوں کے بارے میں بھی سوچو۔۔۔’ وغیرہ وغیرہ۔

گھر میں کوئی بھی گربڑ ہوتی اسے میری شادی سے جوڑ دیا جاتا۔ ماں کی طبیعت اس لیے خراب ہوئی کیونکہ میں شادی نہیں کر رہی ہوں۔ پاپا کے کاروبار میں نقصان ہورہا کیونکہ میں شادی نہیں کر رہی تھی۔ میں اتنی پریشان ہو گئی کہ میں نے شادی کے لیے حامی بھر لی۔ اس کے بعد بھی میں تیار نہیں تھی اور ساحل کے وعدے پر مجھے بھروسہ نہیں تھا کہ وہ کوئی ایسا کام نہیں کرے گا جس سے مجھے دکھ ہو۔

شادی کے بعد میرا خوف سچ ثابت ہونے لگا۔ ساحل مجھے کٹھ پتلی کی طرح اپنے اشارے پر نچانے لگا۔ مجھے شاعری کا شوق تھا۔ میں فیس بک پر اپنی نظمیں شیئر کرتی تھی۔ اس نے اس پر پابندی لگا دی۔ میں وہی لباس پہن سکتی تھی جو وہ چاہتا تھا۔ ایک بار اس نے کہا تھا: ‘رات تک اپنی پڑھائی لکھائی کا کام نمٹا لیا کرو۔ مجھے خوش نہیں رکھو گی تو میں کہیں اور جاؤں گا۔’

وہ کہا کرتا تھا کہ میں اسے خوش نہیں کرپاتی۔ اس لیے پارن ویڈیو دیکھ کر کچھ سیکھنے کی تلقین کرتا۔ اور پھر اس کے سر پر ہیرو بننے کا شوق سوار ہو گیا۔ وہ مجھے چھوڑ کر ممبئی جانا چاہتا تھا۔ اس نے کہا: ‘تم یہیں رہ کر کام کرو اور مجھے پیسے بھیجنا۔ پھر میں تمہارے نام پر قرض لے کر گھر بھی خریدوں گا۔’

اور اس کے لیے اسے میری حامی چاہیے تھی۔ اس رات ‘ہاں’ سننے کے لیے اس نے مجھے بستر پر دھکیل دیا اور مجھ سے زبردستی کرنے کی کوشش کی۔ اس رات اس نے حد کر دی۔ اگلی صبح میں نے اپنے شوہر کو چھوڑ دیا۔ میں پڑھی لکھی لڑکی تھی۔ خود کما سکتی تھی۔ پھر بھی جب میں ساحل کا گھر چھوڑ کر نکلی تو میرا کلیجہ منھ کو آ رہا تھا۔

معاشرے کے ساتھ اپنے لوگوں کا بھی ڈر تھا۔ لیکن میرے سینے میں جمع درد اس خوف سے زیادہ تھا۔ میں اپنے والدین اور دو بہنوں سے گھری گھر پہنچی۔ میرے بال بکھرے ہوئے تھے اور رات بھر رونے سے میری آنکھیں سوجی ہوئی تھیں۔ شادی کے دو مہینے بعد جب لڑکیاں پہلی بار اپنے گھر آتی ہے تو ان کے چہرے کا نکھار ہی مختلف ہوتا ہے۔ لیکن میرا چہرہ مرجھایا ہوا تھا۔ پڑوسیوں کی تیز آنکھوں کو سچ جاننے میں دیر نہیں لگی۔

میرے گھر لوگوں کا تانتا سا لگ گيا۔ سب کہہ رہے تھے، ہمارے ساتھ بہت برا ہوا۔ کچھ لوگ دلاسہ دے رہے تھے کہ ساحل خود مجھے واپس لینے آئے گا۔ بعض نے کہا کہ ایسی چھوٹی باتوں پر اتنا بڑا فیصلہ نہیں کرنا چاہیے۔ جتنے منھ اتنی باتیں۔ لیکن یہ چیزیں میرے فیصلے کو تبدیل نہیں کر سکیں۔

ساحل کا گھر چھوڑے سات مہینے ہو چکے ہیں اور اب میں اپنے راستے خود طے کر رہی ہوں۔ مجھے فیلوشپ ملی ہے، میں نوکری کے ساتھ پڑھائی کر رہی ہوں۔ ان سب کے ساتھ، پولیس تھانے اور عدالت کے چکر لگتے رہتے ہیں کیونکہ ابھی قانونی طور پر طلاق نہیں ہوئی ہے۔

میں سوتے ہوئے اب بھی چونک کر اٹھ جاتی ہوں۔ اب بھی برے خواب آتے ہیں۔ جو کچھ ہوا اسے بھول نہیں پائی لیکن اب بھی آگے بڑھنے کی کوشش کر رہی ہوں۔ رشتے اور محبت پر میرا اعتماد کمزور ہو گیا ہے لیکن ٹوٹا نہیں ہے۔ میں نے سوچا کہ میں خود کو کم از کم تین سال کا وقت دوں گی۔ اس دوران میں اپنا سارا پیار خود پر لٹاؤں گی اور خود کو مضبوط بناؤں گی۔

مجھے فخر ہے کہ میں چپ نہیں رہی، گھٹتی نہیں رہی۔ بلکہ بروقت اس رشتے کو توڑ دیا۔ لہذا مجھ یقین ہے کہ میرا آنے والا کل میرے ماضی اور حال سے بہتر ہوگا۔

(یہ انڈیا کی مغربی ریاست کی ایک خاتون کی سچی کہانی ہے جو انھوں نے بی بی سی نمائندہ سندھو واسنی سے کی۔ خاتون کی خواہش پر ان کا نام ظاہر نہیں کیا گيا ہے۔ اس سیریز کی پروڈیوسر دیوہ آریہ ہیں۔)

اس سیریز کے دیگر حصےمیں نے بغیر شادی کے بچہ پیدا کرنے کا فیصلہ کیوں کیا؟شادی نہ کرنے کا مطلب یہ نہیں کہ میں ہر کسی کے لیے دستیاب ہوں

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32558 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp