ادب میں جانوروں کا تذکرہ


رنگیلا پرندہ بھی یورپ لایا جاتا ہے جہاں وہ ہندوستانی سپاہیوں کے ساتھ پیغام رسانی کی انمول خدمات انجام دیتا ہے۔ اگر آپ مچھلیوں اور اُن کی ہمت کی کہانیاں پڑھنا چاہیں تو دو کتابیں ضرور پڑھیں۔ ( Mobi Dick) کی موبی ڈک ( Herman Melville) امریکی مصنف ہرمین میل ویلجو 1851 ءمیں شائع ہوئی اور ارنسٹ ہمنگ وے کی“ بوڑھا اور سمندر ”جس کا ذکر اوپر کیا گیا۔ اگر آپ گھوڑوں سے دل چسپی رکھتے ہیں ( Anton Chekhov) روسی مصنف انتون چے خفکی“ کوچوان ”ضرور پڑھیے۔

روس کی شدید سردی میں ایک کوچوان مسافروں کا انتظار کررہا ہے۔ اس کی گھوڑی سردی میں ٹھٹھر رہی ہے مگر مسافروں کے آنے پر چست ہوکر دوڑنے لگتی ہے۔ کوچوان بہت افسردہ ہے کیوں کہ ایک دن قبل ہی اس کا بیٹا فوت ہوا ہے مگر وہ کسی سے اپنا غم کہہ نہیں پایا۔ مسافروں آتے اور چلے جاتے ہیں۔ کوچوان کا مذاق اڑاتے ہیں مگر جب بھی کوچوان کچھ کہنے کی کوشش کرتا ہے تو اسے قہقہوں یا گالی گلوچ میں دبادیا جاتا ہے۔ بالآخر رات گئے جب کوچوان اور اس کی گھوڑی تھک ہار کر واپس آتے ہیں تو کوچوان اپنی گھوڑی کو چارا ڈالتا ہے اس پر گھوڑی اس کے قریب آکر اس کو سونگھتی ہے اور اس کے ہاتھ چاٹتی ہے۔

کوچوان اسے اپنی بیٹی کہتا ہے اور اس کے گلے لگ کر روتے ہوئے اپنا غم بیان کرتا ہے یہ کہانی پڑھتے ہوئے اپنے آنسوو¿ں پر قابو پانا مشکل ہوگا۔ ( Anna Swell) عالمی ادب میں گھوڑوں پر مزید کہانیاں بھی ہیں جیسے اینا سویل( The Red Pony) کی دی ریڈ پونی ( John Steinbeck) کی بلیک بیوٹی جو 1877 ءمیں لکھی گئی۔ جان اسٹائن بیکWalter Farley جو 1937 ءمیں لکھی گئی اور والٹر فارلیThe Black Stallion) کی دی بلیک اسٹالین( Dostoyevsky) یہاں ایک اور شاندار ادبی شہ پارے کا ذکر بے محل نہ ہوگا جس کو روسی ادیب دستائی ایفسکینے لکھا تھا۔

(Raskolnikov) دستائی ایفسکی کے ناول کا نام کرائم اینڈ پنشن منٹ یا“ جرم و سزا ”ہے۔ اس کا ہیرو راس کول نی کوفایک خواب دیکھتا ہے جس میں ایک گھوڑے کو بے دردی سے مارا جارہا ہے اور اُسے مار مار کر قتل کردیا جاتا ہے۔ یہ جانوروں پر ظلم کا اتنا درد ناک منظر ہے جس کی مثال عالمی ادب میں کم ہی ملتی ہے اگر یہ آپ رات کو پڑھیں تو سو نہیں پائیں گے۔ بعض اور کتابیں، ناول اور کہانیاں جن میں انسان و حیوان کے تعلق پر لکھا گیا ہے یہ ہیں جو 1903 ءمیں لکھی گئی ( White Fang) اور وائٹ فینگ ( Call of the Wild، 1906 ) جیک لنڈن کی“ کال آف دی وائلڈ ”Metamorphosis )۔

ان کے علاوہ فرانز کافکا کی میٹا مورفوسیسیا کایا کلپ جو 1915 ءمیں لکھی گئی اور“ ایک کتے سے تفتیش ”جو 1922 ءمیں منظر عام پر آئی۔ کی کتاب Gerald Durell ڈیفنی ڈو موریے کی کتاب پرندے جس پر الفریڈ ہچکاک نے فلم بھی بنائی۔ جیراڈ ڈریلمیرا خاندان اور دیگر حیوان“ ان کے علاوہ موراکامی کی کہانی جسے سعید نقوی نے ”ہاتھی کی گمشدگی“ کے عنوان سے ترجمہ کیا اور جو اجمل کمال کے رسالے ”آج“ کے چھیاسویں شمارے میں شائع ہوئی۔

اُردو ادب میں پرندے اُردو ادب کے دو ابتدائی لکھاری منش پریم چند اور سجاد حیدر یلدرم تھے۔ دونوں کی ولادت 1880 ءمیں صوبہ جات متحدہ جسے اب اتر پردیش یا یوپی کہا جاتا ہے میں ہوئی۔ ان دونوں نے بیسویں صدی کے اوائل میں لکھنا شروع کیا تھا۔ منشی پریم چند بنیادی طور پر ایک حقیقت نگار تھے جبکہ یلدرم کی تحریروں میں رومانیت کا رنگ زیادہ جھلکتا ہے۔ جانوروں یا یوں کہنا چاہیے کہ پرندوں کے بارے میں یلدرم کی کہانی ”چڑیا چڑے کی کہانی“ میں مصنف ایک چڑیا کے ذریعے انسانوں سے متعلق خیالات بیان کراتا ہے۔

پرندہ کہتا ہے کہ مرد محبت میں دھوکا دیتے ہیں اور کئی عورتوں کو دام میں پھنساتے ہیں جب کہ چڑے بڑے دیانت دار اور مخلص ہوتے ہیں اور صرف ایک ساتھی پر اکتفا کرتے ہیں۔ چڑیا بیان کرتی ہے کہ کس طرح خواتین زیادہ خوب صورت نظر آنے کے لیے بناو¿ سنگھار کرتی ہے۔ یہ تحریربہ مشکل چھ کتابی صفحات کی ہے مگر بڑے دل چسپ انداز میں ہمیں یہ بتاتی ہے کہ چڑیاں انسانوں کو کیسے دیکھتی ہیں۔ یہ کہانی یلدرم کے مجموعے ”خیالستان“ میں شامل ہے۔

منشی پریم چند بھی اپنی ایک کہانی میں بیان کرتے ہیں کہ جب وہ بچے تھے تو کس طرح انہوں نے چڑیوں کے گھونسلے میں انڈوں کو چھولیا تھا یہ جانے بغیر کہ چڑیا چھوجانے والے انڈوں کو پھر نہیں سہتی اور انہیں گھونسلے سے باہر پھینک دیتی ہے۔ چڑیوں کے بارے میں مولانا ابوالکلام آزاد نے بھی ایک تحریر چھوڑی ہے جو اُن کے جیل میں مشاہدات پر مبنی ہے۔ یہ کہانی 1943 ءمیں لکھی گئی جب مولانا آزاد احمد نگر جیل میں قید تھے۔

اس کہانی کا عنوان بھی ”چڑیا چڑے کی کہانی“ ہے۔ یہ کہانی اُردو نثر کا شہ کار ہے جس میں اُردو اور فارسی کے اشعار شامل ہیں جو شاد عظیم آبادی سے آتش قندھاری تک پھیلے ہوئے ہیں۔ مولانا آزاد بیان کرتے ہیں کہ اپنے جیل کے کمرے میں وہ کس طرح چڑیوں سے بہت پریشان ہوئے پھر اُن چڑیوں کو کمرے سے دور رکھنے کے بہت جتن کیے۔ مگر اپنی کوششوں سے مسلسل ناکامی کے بعد وہ چڑیوں سے دوستی کرنے پر مجبور ہوجاتے ہیں اور پھر انہیں ان ننھے پرندوں سے محبت ہوجاتی ہے۔

یہ کہانی عدم تشدد کے نظریے کا پرچار کرتی ہے اور اس کے آخر میں ایک زخمی چڑیا اس وقت اڑنے کے قابل ہوجاتی ہے جب اُسے سورج کی روشنی سے حرارت ملتی ہے۔ خواجہ احمد عباس کی کہانی ”ابابیل“ بھی اُن کی بہترین کہانیوں میں شمار ہوتی ہے۔ جس میں چند گھریلو چڑیاں ایک شخص رحیم خان کے گھر میں رہتی ہیں جو انسان و حیوان دونوں سے بے زار ہے۔ رحیم خان اپنے بچوں کو پیٹتا ہے اپنے جانوروں کو مارتا ہے اور اپنے ہم سایوں سے جھگڑتا رہتا ہے۔

تشدد کرنا اس کی سرشت میں داخل معلوم ہوتا ہے اور جو بھی اس سے الجھے اُسے مارنے سے دریغ نہیں کرتا۔ رفتہ رفتہ خود اس کے گھر والے اُسے چھوڑ دیتے ہیں۔ پڑوسی اور محلے والے بات نہیں کرتے اور وہ گھر میں چڑیوں کے ساتھ اکیلا رہ جاتا ہے۔ اس اکیلے پن اور تنہائی میں چڑیاں ہی اس کی ہم نفس بن جاتی ہیں اور رحیم خان اُن میں دل چسپی لینے لگتا ہے جب بات کرنے کو کوئی نہیں ملتا تو وہ چڑیوں سے ہی باتیں کرنا شروع کردیتا ہے اس طرح اس کی طبیعت کی درشتی آہستہ آہستہ نرمی میں بدل جاتی ہے۔

جب وہ بیمار ہوتا ہے تو چڑیاں ہی اُس کے اردگرد ہوتی ہیں مگر اب اس کا کوئی نہیں اور وہ تنہا موت کو گلے لگالیتا ہے۔ اس کہانی سے ہمیں یہ سبق ملتا ہے کہ جانوروں سے ہمارے رویے ہماری شخصیت کے آئینہ دار ہوتے ہیں۔ یہ بات ایک حقیقت ہے کہ جو لوگ جانوروں سے محبت کرتے ہیں وہ عام زندگی میں پرامن ہوتے ہیں اور تشدد کی طرف مائل نہیں ہوتے۔ غالباً یہی وجہ ہے کہ ہم نہ جانوروں سے محبت کرتے ہیں اور نہ ہی پرامن ہیں۔

مزید پڑھنے کے لیے اگلا صفحہ کا بٹن دبائیں


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2 3 4 5 6 7 8