ادب میں جانوروں کا تذکرہ


چیونٹیوں کے بارے میں ”لغاتِ مورات اور چیونٹی نامہ“ کا ذکر ہم پہلے کرچکے ہیں جو شہاب الدین سہروردی اور حفیظ جالندھری کی تحریریں ہیں۔ اب ہم عصمت چغتائی کی ایک کہانی کی بات کرتے ہیں جس کا عنوان ہے ”لال چیونٹے“ اس کہانی میں مصنفہ ایک باغ میں کچے آم یا کیریاں ڈھونڈ رہی ہے کہ اچانک اسے اپنی جلد میں ڈنک اترنے محسوس ہوتے ہیں۔ وہ دیکھتی ہے کہ لال چیونٹے اس کے بدن پر رینگ رہے ہیں۔ وہ وہاں سے بھاگ کر سڑک پر نکل جاتی ہے جہاں وہ ایک تھیٹر میں پہنچتی ہے۔

اس تھیٹر میں ایک ڈرامہ چل رہا ہے جس کے اداکار سماجی مسائل کا ذکر کررہے ہیں۔ مصنف مسجھتی ہے کہ یہ بھی ایک طرح کے لال چیونٹے ہیں جو تماشائی کو تکلیف پہنچا رہے ہیں۔ اس کے بعد وہ ایک ناچ دیکھنے جاتی ہیں جہاں کے رقص میں بھی کوئی سیاسی پیغام پوشیدہ ہے اور اُسے رقاص بھی لال چیونٹے لگتے ہیں۔ عصمت چغتائی اپنی کہانی کے انجام میں کہتی ہیں کہ لال چیونٹے وہ ہیں جو آپ کے آرام میں خلل ڈالتے ہیں اور آپ کو زندگی کا مزہ نہیں لینے دیتے۔

اس کو اگر ہم پاکستان پر لاگو کریں تو معلوم ہوتا ہے کہ لال چیونٹوں کو ختم کیا جارہا ہے۔ ان کے ڈنک نکالے جارہے ہیں تاکہ جو لوگ اپنی زندگی کے مزے لینا چاہتے ہیں وہ فن و ثقافت اور ڈانس اور ڈرامے سے ہر قسم کے سیاسی اور سماجی پیغامات نکال دینا چاہتے ہیں۔ اسی طرح راجندر سنگھ بیدی کی ایک کہانی ہے ”لارولے“ اس کہانی میں مصنف بیان کرتے ہیں کہ کس طرح وہ گندے پانی میں لاروے دیکھتے ہیں جو ادھر ادھر کلبلا رہے ہیں مگر جیسے ہی تازہ پانی وہاں چھوڑا جاتا ہے لاروے مرجاتے ہیں۔

اس کو اگر ایک بار پھر پاکستان پر لاگو کیا جائے تو ہم دیکھتے ہیں کہ افکارِ تازہ کی غیر موجودگی میں لاروے پنپتے ہیں اور اسی لیے اظہارِ رائے پر پابندیاں لگائی جاتی ہیں۔ کیڑوں کا ذکر کرتے ہوئے ایک اور کہانی کا ذکر بر محل ہوگا جس کا عنوان ہے ”ریشم کا کیڑا“ اور جسے آغا اشرف نے اپنے مجموعے ”افق سے افق تک“ میں شامل کیا ہے۔ کرشن چندر کی ایک کہانی کا عنوان ہے ”مینڈک کی گرفتاری“ جو ایک ایسے بڑے مینڈک کی کہانی ہے اور ایک محل سے رہا ہوکر اپنے مینڈکوں کے پاس واپس آجاتا ہے اور اسے محل کے انسانوں کے بارے میں بتاتا ہے۔

چوہوں کے بارے میں ممتاز مفتی کی ایک اچھی کہانی ہے ”چوہا“۔ اس کہانی میں بوڑھے میاں بیوی ایک گاؤں میں رہتے ہیں اور ان کا بیٹا شہر میں رہتا ہے۔ بوڑھا جوڑا ایک دوسرے سے بیزار ہے اور آپس میں بہت کم بات چیت کرتا ہے۔ حتیٰ کہ وہ ایک دوسرے کی طرف دیکھنے کو بھی گوارا نہیں کرتے۔ پھر اُن کے بڑے گھر میں انہیں چوہے بھی پریشان کرتے رہتے ہیں۔ ایک ان کا بیٹا شہر سے آکر انہیں شہر چلنے کا کہتا ہے جس پر وہ راضی ہوجاتے ہیں۔

شہر آکر دن بھر وہ بیٹے کے فلیٹ میں رہتے ہیں جبکہ بیٹا دفتر چلا جاتا ہے۔ وہ دونوں بھی گھر میں وقت گزارتے رہتے ہیں اور بہ مشکل ہی ایک دوسرے سے کچھ بولتے ہیں پھر اچانک ایک چوہا کسی سوراخ سے نمودار ہوتا ہے۔ اب وہ دونوں اس سوراخ کو ڈھونڈ کر اُسے بند کردیتے ہیں مگر کچھ عرصے بعد انہیں اپنے گاو¿ں والے گھر کے چوہے یاد آتے ہیں۔ بوریت سے تنگ آکر وہ گاؤں واپس جانے کا فیصلہ کرتے ہیں تاکہ گاؤں کے چوہوں کے ساتھ رہ سکیں بل کہ جاتے ہوئے وہ چوہوں کے لیے کچھ پنیر بھی خرید کر لے جاتے ہیں۔

یہ کہانی بوڑھے جوڑوں کی عمر رسیدگی کے مسائل اور بوریت کو خوب عکاسی کرتے ہیں۔ مضمون کے اختتام پر کچھ اور کہانیوں کے حوالے دیے جاسکتے ہیں جن میں ایس ایم اشرف کی جانوروں کے بارے میں کہانیاں ہیں۔ خاص طور پر ”نمبر دار کا نیلا“۔ اس کے علاوہ حمید شاہد کی کہانی ”سورگ میں سور“، مستنصر حسین تارڑ کی ”اسنو ٹائیگر کی سرگزشت“، فرخ ندیم کی ”نکیل“ اور خالدہ حسین کی ”ہزار پایہ“ شامل ہیں۔ ان مصنفین نے جانوروں کے بارے میں ہمارے شعور کو بڑھایا اور حیوانوں کے معاشرے میں کردار کو اجاگر کیا ہے۔

کچھ لکھنے والوں نے جانوروں کو علامات کے طور پر استعمال کیا ہے تاکہ آج کی دنیا کے حالات پر غصے کا اظہار کیا جاسکے۔ جیسا کہ راقم نے پہلے عرض کیا یہ مضمون کوئی جامع تجزیہ نہیں ہے۔ بہ صرف ان کہانیوں اور کتابوں کا ذکر ہے جو رقم کے ذاتی کتب خانے میں موجود ہیں اور جن کو میں نے مختلف اوقات میں پڑھا ہے۔ پھر بھی یہ میرے پاس موجود تمام کتابوں کا احاطہ نہیں کرتا۔ مزید طوالت سے بچنے کے لیے اس مضمون کو یہاں ختم کیا جارہا ہے۔ آخر میں قارئین کے لیے ایک پہیلی کیا کوئی بتا سکتا ہے کہانی ”حفیظ جالندھری کی بھینس“ کس نے لکھی تھی۔ سوچیے اور ڈھونڈیے۔ جوقاری یہ جواب ڈھونڈ لے گا یا لے گی اسے راقم کی طرف سے ایک کتاب تحفے میں ارسال کی جاے گی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2 3 4 5 6 7 8