ادب میں جانوروں کا تذکرہ


اس میں ایک رات کتوں کے شور و غوغا کا بیان ہے جس سے مصنف سو نہیں پاتا۔ لیکن غالباً کتوں کے بارے میں اُردو ادب کی بہترین کہانی سعادت حسن منٹو نے لکھی ہے جس کا عنوان ہے ”ٹیٹوال کا کتا“۔ یہ منٹو کی کہانیوں کے مجموعے ”یزید“ میں شامل ہے۔ اور اس کا طاہرہ نقوی نے انگریزی میں ترجمہ بھی کیا ہے جو 1985 ءمیں وین گارڈ نے شائع کیا تھا۔ یہ کہانی منٹو نے 1951 ءمیں لکھی مگر آج بھی موجودہ حالات کے مطابق معلوم ہوتی ہے۔

ٹیٹوال بھارت اور پاکستان کے درمیان سرحدی علاقہ ہے جہاں دونوں ممالک کے فوجی اکتا کر ایک دوسرے پر گولیاں چلاتے رہتے ہیں۔ اچانک سرحد پر ایک کتا نمودار ہوتا ہے مگر بھارتی فوجی فیصلہ نہیں کرپاتے کہ وہ کتا بھارتی ہے یا پاکستانی۔ بھارتی فوجی اس کتے کو اپنا بنالیتے ہیں اور اس کا ایک نام بھی رکھ دیتے ہیں۔ اُسے کھلاتے پلاتے ہیں اور کہتے ہیں کہ اُسے ایک فخر مند بھارتی ہونا چاہیے۔ پھر اس کے گلے میں نام کا کالر بھی باندھ دیا جاتا ہے۔

کچھ دیر بعد وہی کتا چلتے پھرتے پاکستانی سرحد میں داخل ہوجاتا ہے جس پر پاکستانی فوجی اسے پکڑ کر اپنے نئے نام کا پٹا گلے میں باندھ دیتے ہیں۔ جب وہ کتا واپس بھارتی سرحد میں آتا ہے تو بھارتی فوجی نیا نام دیکھ کر آگ بگولہ ہوجاتے ہیں اور پاکستان کی جانب گولیاں داغنے لگتے ہیں۔ بے چارہ کتا گولیوں سے ڈر کر ادھر ادھر بھاگتا ہے اور پاکستانی سرحد میں داخل ہونے کی کوشش کرتا ہے مگر اس دوران کسی گولی کا شکار ہوکر گر پڑتا ہے اور تڑپ تڑپ کر مر جاتا ہے۔

یہ ایک ایسا المیہ ہے جسے پڑھ کر آپ آب دیدہ ہوجائیں گے۔ اس میں پاک بھارت دشمنی کی خصوصیات دکھائی گئی ہیں جس کی وجہ سے عوام کتوں کا روپ دھار چکے ہیں۔ کتوں کے بارے میں ایک اور کہانی افسانہ نگار جوگیند پال نے لکھی ہے جس کا عنوان ”بھو بھو“ ہے اور جو ”نیا دور“ کے تہترویں شمارے میں شائع ہوئی تھی۔ کتوں سے بلیوں کی طرف آئیں تو احمد ندیم قاسمی کی کہانی ”مانو کی میاوں“ یاد آتی ہے اس میں ایک بلی اپنے مالک کو اس کی موت کے بعد یاد کرتی ہے اور افسردگی میں چلاتی ہے یعنی زور زور سے میاوں میاوں کرتی ہے۔

نوے سالہ مالک کی وفات کے بعد اس کے لواحقین بلی سے بیزار ہیں اور اس کا خیال نہیں رکھتے اور جب لوگ پرسے کے لیے آتے ہیں تو بلی کو ایک کمرے میں بند کردیتے ہیں۔ پھر مالک کے لواحقین میں کئی جوان لڑکیاں بھی ہیں جو بلی کو پسند نہیں کرتیں۔ پھر اچانک ایک دور پرے کا خاندان کسی دوسرے شہر سے پرسے کے لیے آتا ہے جس میں کئی جوان اور شادی کے قابل کنوارے لڑکے ہیں۔ وہ لڑکے جب بلی کی آواز سن کر اُسے پچکارتے اور محبت کا اظہار کرتے ہیں تو پورے گھر کا رویہ بلی کی طرف بالکل بدل جاتا ہے اور ہر کوئی بلی کو سر پر بٹھانے لگتا ہے۔

اس کہانی میں بتایا گیا ہے کہ کس طرح ایک گھر کے فرد کی موت کے بعد بھی گھر والے اور لواحقین اپنے ذاتی مفادات نہیں بھولتے۔ اسی طرح غلام عباس کی ایک کہانی ہے ”بندر والا“۔ اس میں مصنف کو ایک پڑوسی شاہ صاحب اپنے گھر چائے پر بلاتے ہیں جب وہ ان کے گھر جاکر بیٹھتے ہیں، شاہ صاحب اپنے چھوٹے بیٹے کو جو کھیل رہا ہے بلاتے ہیں اور مہمان کو سلام کرنے کا کہتے ہیں پھر اس کو مہمان کا شکریہ ادا کرنے کا کہا جاتا ہے۔

مختصر یہ کہ وہ بچہ مسلسل اردو اور انگریزی کی نظمیں سنانے پر مجبور کیا جاتا ہے جو اُسے یاد کرائی گئی ہیں پھر اشعار کی باری آتی ہے جو اُسے والدین نے حفظ کرائے ہیں۔ غلام عباس لکھتے ہیں کہ چائے سے واپسی پر راستے میں انہیں ایک بندر والا نظر آتا ہے جسے دیکھ کر وہ رک جاتے ہیں۔ بندر کے تماشے میں بندر سے تقریباً وہی حرکتیں کرائی جاتی ہیں جو اُسے پہلے سے سکھائی گئی ہیں۔ اس کہانی میں دراصل اُن بچوں سے ہم دردی کا اظہار ہے جو اپنے والدین کے ہاتھوں مجبور ہوتے ہیں۔

قرة العین حیدر کی ایک نسبتاً غیر معروف کہانی ہے جس کا عنوان ہے ”لکڑھ بگے کی ہنسی“۔ یہ ایک غیر معمولی کہانی ہے جس میں ایک لڑکی پر مگرمچھ کے حملے اور لڑکی کو چبانے کی خونی تفصیل بیان کی گئی ہے جو عام طور پر قرة العین حیدر کا انداز نہیں ہے۔ وہ لڑکی دراصل ایک اداکارہ بننا چاہتی ہے اور اس کے لئے ایک رکھیل، داشتہ یا طوائف بننے پر بھی راضی ہے بشرطیکہ اس کی خواہشات پوری کی جائیں۔ وہ لڑکی ایک امیر آدمی کے ساتھ پہاڑوں پر جاتی ہے۔

وہ لوگ ہمالیہ کے پہاڑوں کے قریب ایک ہوٹل میں مقیم ہیں جہاں کچھ غیر ملکی سیاح بھی موجود ہیں۔ وہ لڑکی ایک سیاح کو اپنی طرف راغب کرنے کے لیے اُسے لبھاتی ہے۔ مگر یہ کرتے ہوئے وہ کس طرح ایک مگرمچھ کے منہ میں چلی جاتی ہے اس کا اندازہ آپ کو کہانی پڑھ کر ہوگا۔ اب ہم آتے ہیں اردو ادب میں کچھ ایسی کہانیوں کی طرف جن میں چھوٹے جانوروں یا حشرات الارضی اور کیڑوں کا ذکر ہے۔ سانپوں کے بارے میں دو کہانیاں ذہن میں آتی ہیں۔

ایک تو منشی پریم چند کی ”ناگ پوجا“ اور دوسری مظہر الاسلام کی ”سانپ گھر“۔ پریم چند کی ”ناگ پوجا“ ایک پریشان کن کہانی ہے جس میں ایک لڑکی اپنے گھر میں آنے والے ناگ کو دودھ پلاتی ہے جس پر وہ اکثر آجاتا ہے اور تقریباً پالتو بن جاتا ہے۔ جب لڑکی کی شادی ہوتی ہے تو وہ سانپ کہیں سے برآمد ہوکر دولہے کو ڈس لیتا ہے۔ کچھ عرصے بعد دوسری شادی کا اہتمام کیا جاتا ہے مگر اس بار پھر ناگ دولہے کو ڈس کر مار دیتا ہے۔

اس پر کہرام مچ جاتا ہے۔ کچھ عرصے بعد یہ خبر ایک جانوروں کے ڈاکٹر کو معلوم ہوتی ہے تو وہ رشتہ لے کر آجاتا ہے۔ جب اس ڈاکٹر کی شادی اس لڑکی سے ہوتی ہے تو ناگ اور ڈاکٹر کیا کرتے ہیں، یہ جاننے کے لیے بھی آپ کو کہانی پڑھنی پڑے گی۔ مظہر الاسلام کی بہترین کہانیوں میں سے ایک ”سانپ گھر“ ہے۔ اس کہانی میں ایک آدمی کو وہم ہوجاتا ہے کہ اس کے گھر میں ایک سانپ موجود ہے جسے وہ ڈھونڈتا ہے مگر تلاش نہیں کرپاتا۔ وہ دوسرے لوگوں کی مدد لیتا ہے مگر ہر کوئی اس کی مدد کرنے سے قاصر رہتا ہے۔

حتیٰ کہ سپیرے بھی کچھ نہیں کر پاتے اور وہ سانپ نہیں ڈھونڈھ سکتے جو اس آدمی کو ہر جگہ محسوس ہوتے ہیں۔ بالآخر وہ ایک بڑے ماہر کے پاس پہنچتا ہے اور مدد کی درخواست کرتا ہے۔ اس پر وہ مقدس ولی اس شخص کو دیکھ کر کہتے ہیں کہ احمق آدمی میں تمہارے لیے سانپ کیے ڈھونڈھ سکتا ہوں جب کہ خود میرے گھر میں بھی ایسی صورتِ حال ہے۔ اس کہانی کے ذریعے مظہر الاسلام سارے روحانی باباوں کو منظر سے خارج کردیتے ہیں اور قارئین کو پیغام دیتے ہیں اپنے سانپوں سے خود نپٹو۔

مزید پڑھنے کے لیے اگلا صفحہ کا بٹن دبائیں


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2 3 4 5 6 7 8