سوات کے سات رنگ


وادی کمراٹ

؛نایاب، آپ رو رہی ہیں۔۔۔

میں نے حیرت اور دکھ کے ملے جلے جذبات سے کہا۔

نایاب نے بغیر کچھ کہے نم آنکھوں سے میری طرف دیکھا۔ ان آنکھوں میں آنسووں کے ساتھ ساتھ غصہ بھی تھا۔ مجھے یوں لگا کہ جیسے وہ کہہ رہی ہو کہ نہیں میں فٹبال کھیل رہی ہوں، نظر نہیں آ رہا کہ میں رو رہی ہوں۔ مجھے روتے ہوے لوگوں کو چپ کروانا نہیں آتا۔ مگر دل سے قریب دوستوں کے آنسو بہت تکلیف بھی دیتے ہیں۔ نایاب کے ساتھ ساتھ اب ذوئی بھی رونے لگی تھی۔ نایاب کالام کے پتھریلے راستوں کی طوالت دیکھ کر رو پڑئی تھیں۔

میں نے بہت کوشش کی کہ آنسووں کو مزید بہنے سے روکوں مگر نایاب کی آنکھوں سے بہتے پانی کی رفتار اب بڑھنے لگی تھی۔ اب ہماری گاڑی کا ماحول تھوڑا عجیب ہو گیا تھا۔ کالام کے پتھریلے راستے تھے، نایاب کے آنسو تھے اور ہم سب مسافروں کے پاس تسلی اور دلاسے تھے۔ ہم اپنی باتوں سے ان کے اندر حوصلہ بھر رہے تھے۔ ہماری کوششیں رنگ لے آئی تھیں۔ کوٹ مومن کی شہزادی کے چہرے پر مسکراہٹ لوٹ آئی تھی ساتھ ہی ہماری گڑیا پھر سے چہکنے لگی تھی۔ کالام کے پتھر بھی ہمیں دیکھ کر اب مسکرانے لگے تھے۔ گاڑی میں ایک بار پھر سوات کے رنگوں نے بسیرا کر لیا تھا۔

چند سال پہلے جب دوستوں کے ساتھ سوات جانے کا ارادہ بنا تھا تو سوچا کہ فیس بک کی کور پر سوات کی کوئی تصویر لگائی جاے۔ اس مقصد کے لئے گوگل کی مدد حاصل کی اور گوگل پر تلاش کے دوران ایک تصویر پر نظر ٹہر گئی۔ یہ ایک جھیل کی تصویر تھی۔ جس کے ٹھہرے پانیوں میں ایک عجیب سی کشش تھی۔ بلندو بالا پہاڑوں کے ساے میں پناہ لیتی وہ جھیل کسی اپسرا کے خدوخال جیسی تھی۔ جھیل کے پانیوں پر کبھی سبز تو کبھی آسمانی رنگ کا گمان ہوتا تھا۔

جھیل کے اوپر دو کشتیاں اپنے سواروں کی منتظر خاموش کھڑی تھیں۔ مجھے لگا جیسے وہ جھیل مجھے آواز دے رہی ہو۔ میرا دل میرے پاس کہاں رہا تھا۔ وہ تو ان سبز پانیوں کے پاس ہی کہیں کھو گیا تھا۔ میری آنکھیں تو بس اس ایک منظر کی متمنی تھیں۔ میرے وجود نے بس ایک بار ان پانیوں کو چھونے کی تمنا کی تھی۔ وہ تصویر میرے دل میں اُتر گئی تھی۔ گوگل نے بتایا کہ اس جھیل کا نام مہوڈنڈ ہے۔ اور یہ کالام سے چند گھنٹوں کے فاصلے پر ہے۔

دوستوں کے ساتھ سوات تو نہیں جا سکی ارادہ یہی تھا کہ جب بھی سوات جاوں گی مہوڈنڈ سے ملے بغیر واپس نہیں لوٹوں گی۔ اب جبکہ ہم کالام میں موجود تھے۔ مہوڈنڈ ہم سے زیادہ دور نہیں تھی۔ ایک رات کالام میں گزار کر صبح ہم نے مہوڈنڈ چلے جانا تھا۔ مہوڈنڈ کے پانیوں سے کھیلنا تھا۔ مہوڈنڈ کی خوشبو کو اپنے اندر اُتارنا تھا۔ میرا عشق میرا مہوڈنڈ میرا منتظر تھا۔ مگر وہ عشق ہی کیا جو آسانی سے مل جاے۔ کالام میں دریاے سوات کے پانیوں سے اٹکھلیاں کرتے ہوے میں نایاب کو دبے لفظوں میں کئی بار مہوڈنڈ کی خوبصورتی بیان کر چکی تھی۔

مگر نایاب نے وہاں جانے سے انکار کر دیا تھا۔ میری خواہش تھی کہ نایاب بھی ہمارے ساتھ چلے مگر کالام کے پتھریلے راستوں کا خوف ابھی تک اس کے اندر سے نہیں نکلا تھا۔ پھر یہی طے ہوا کہ جو ممبرز مہوڈنڈ جانا چاہتے ہیں وہ صبح چلے جائیں۔ باقی جو نہیں جانا چاہتے وہ ان کی واپسی تک کالام میں ہی رکیں گے۔ میرے اندر مایوسی پھیل رہی تھی۔ مجھے لگ رہا تھا کہ ابھی تھوڑی دیر میں کچھ مزید لوگ بھی انکار کر دیں گے۔ میرا عشق ادھورا رہ جاے گا۔

رات کو جب ہم کالام کے مشہور چپلی کباب کھانے بیٹھے تو مہوش نے بھی چلنے سے انکار کر دیا۔ ناجانے کی مختلف وجوہات بیان کی جا رہی تھیں۔ میں نے ایک نظر ان تمام فلسفیوں پر ڈالی جن کی دلیلیں سن کر کالام کے پہاڑ بھی مسکرا اُٹھے تھے۔ کیا ان میں کوئی بھی ایسا نہیں تھا جو یہ ساری دلیلیں رد کر کے کہتا کہ ہم کل ہر صورت مہوڈنڈ جا رہے ہیں۔ یہ سوچ کر دل کو اور تکلیف ہوئی اور پھر اچانک سے ہی دل نے ایک فیصلہ بھی کر ڈالا۔

ہم مہوڈنڈ نہیں جا رہے۔۔۔ ۔ بس اب کھانا کھا کر بازار کی طرف نکلتے ہیں ؛

میں نے اونچی آواز میں کہا۔ تھوڑی ہی دیر میں سب کالام کے مشہور چپلی کباب کھاتے ہوے باتوں میں مگن ہو گئے۔ میرے اندر کچھ ٹوٹا تھا۔ مگر میں نے مسکراہٹ کا دامن نہیں چھوڑا۔ کالام کے پہاڑوں کے پیچھے مہوڈنڈ جھیل میری طرف مسکرا کر دیکھ رہی تھی۔ مہوڈنڈ سے ملنے کا وقت ابھی نہیں آیا تھا۔ ادھورے خواب، ادھورا عشق دونوں ہی بہت تکلیف دیتے ہیں۔۔۔ ۔ کالام کے آسمان پر چاند کے ڈوبتے ساتھ ہی میرے خوابوں کا سفر بھی تمام ہوا۔

سوات کے اس سفر کے تمام مسافروں میں سے سب سے زیادہ عجیب شخصیت ہمارے ڈرایؤر کی تھی اور بلاشبہ اس کی ہمت دیکھ کر لگتا تھا کہ شاید یہ کوئی انسان نہیں ہے۔ یہ ڈرایؤر نہ سگریٹ سے شغف رکھتا تھا اور نہ موصوف چاے کے شوقین تھے۔ اٹھارہ سے بیس گھنٹے تک پہاڑی علاقوں میں مسلسل گاڑی بھگا نا کوئی آسان کام تھوڑی ہے۔ ہم کالام سے نکلے تو ہمارا اگلا پڑاؤ ایک آبشار تھی۔ سوات میں آپ کو جگہ جگہ آبشاریں اور چشمے نظر آیئں گے۔

 دریا کے ساتھ تو ہم نے دوستی کر لی تھی۔ آبشار شفا تک جانے کے لئے ڈولی کا استعمال کیا جاتا ہے۔ ڈولی چیرلفٹ کا کام دیتی ہے۔ ایک ڈولی میں بیک وقت چار لوگ بیٹھ سکتے ہیں۔ ڈولی میں پراعتماد انداز میں نایاب کو بیٹھتے دیکھ کر خوشی ہوئی کہ اب کالام کا خوف ان کے اندر سے رخصت ہو چکا ہے اور اب بہادری سے ہی ان راستوں کو تسخیر کریں گی اور ایسا ہی ہوا تھا۔ آبشار شفا کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ اس کا پانی ہر قسم کی بیماری میں شفا کا کام دیتا ہے۔

مزید پڑھنے کے لیے اگلا صفحہ کا بٹن دبائیں


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2 3 4 5 6 7 8