سوات کے سات رنگ


گبن جبہ

اگلے روز ہمارا پڑاؤ گبن جبہ تھا۔ ہمارا گوگل آگے بیٹھا تھا۔ علینہ نے اس پورے سفر میں گائیڈ کا کام کیا۔ اسی لئے اُسے ہم نے گوگل کا خطاب دے دیا تھا۔ اب ہم بحرین سے گبن جبہ کی طرف جا رہے تھے۔ گبن جبہ کے بارے میں مجھے نکلنے سے کچھ دن پہلے ہی کسی نے بتایا تھا۔ گبن جبہ کی تصویریں دیکھ کر کسی نخلستان کا گمان ہوتا تھا۔ ایسی جگہ جہاں حدِ نظر سبزہ ہی سبزہ ہو۔ ہمارا خیال تھا کہ ہم چند گھنٹوں میں گبن جبہ پہنچ جایئں گے۔

 مجھے لگتا ہے سوات کے راستے ہمارے ان خیالوں پر خوب ہنستے ہوں گے۔ ہمارا ارادہ اُسی روز لاہور واپس جانے کا بھی تھا۔ اس لئے یہی منصوبہ تھا کہ کچھ وقت گبن جبہ میں گزار کر لاہور واپسی کی راہ لی جاے۔ گبن جبہ اگر ہمیں جلدی مل بھی جاتا تب بھی ہم لاہور نہ پہنچ پاتے۔ ہمیں بحرین سے نکلے دو گھنٹے سے زائد ہو چکے تھے۔ مگر گبن جبہ تا حال ہماری نظروں سے اوجھل تھا۔ ایک موڑ پر ہماری گاڑی نے چلنے سے انکار کر دیا۔

معلوم ہوا کہ وزن زیادہ ہے۔ کچھ مسافروں کو اُترنا پڑے گا۔ مجھ سمیت آدھے سے زیادہ ممبرز پیدل چڑھائی چڑھ رہے تھے کہ اچانک سے ہمیں ایک ٹرک نظر آیا اور ہمیں یوں لگا جیسے کسی نے غیبی مدد بھیج دی ہو۔ بس چند ہی لمحے لگے ہمیں اور ہم اس ٹرک کے سوار بن گئے۔ ٹرک والا بھی اتنے مسافروں کو دیکھ کر بہت خوش تھا۔ اب سوات کے راستے تھے اور ہم ٹرک کے اوپر بیٹھے ان راستوں کو تسخیر کرتے جا رہے تھے۔ نایاب، ذوئی، فلک۔ علینہ سمیت دیگر ممبرز ٹرک پر بیٹھ کر اتنے خوش تھے گویا وہ کسی ایف سیکسٹین طیارے پر بیٹھے ہوں۔

وہ تو ٹرک والے نے درخواست کی کہ اُتر جایئں ورنہ یہ ٹرک آپ کو کابل پہنچا دے گا۔ گاڑی میں بیٹھی مہوش بھی اب نیچے اتر آئی تھی۔ ریحانہ آپا گاڑی میں ہی موجود تھیں۔ آس پاس کے لوگوں نے بتایا کہ یہ جگہ لال کھوہ ہے اور گبن جبہ یہاں سے کافی آگے ہے۔ اُدھر ویسے بھی جیپ جاتی ہے۔ سو ہم نے لال کھوہ کو ہی دریافت کرنے کا فیصلہ کر لیا۔ لال کھوہ ایک خوبصورت جگہ ہے۔ یہاں پر موجود جنگل، آبشاریں سب کچھ دیکھنے والا ہے۔

یہاں پر مجھے دریا کے دوسری طرف جانے کا طریقہ خاصا خطرناک لگا۔ صرف ایک لکڑی کا پھٹا تھا جس پر سے گزر کر ہمیں دوسری طرف جانا تھا۔ یہاں پر میں حفظہ کی تعریف کروں گی۔ جس نے ہاتھ پکڑ پکڑ کر جس طرح مجھے پر خطر راستوں سے گزارا ہے اس پر میں اس کی ہمیشہ ممنون رہوں گی۔ ہماری نایاب بھی اب بہت بہادر ہو گئی تھی۔ اس نے جس طرح زوئی کا ہاتھ پکڑ کر بغیر کسی کی مدد کے ان راستوں کو عبور کیا ہے اس سے ثابت ہوا ہے کہ وہ اب کے ٹو پر بھی جا سکتی ہے۔

دریا کے اس پار ایک چھوٹا سا جنگل ہے جہاں پر سیب اور دیگر پھلوں کے درخت موجود ہیں۔ ہم نے اس جنگل میں خوب تصویریں کھینچیں۔ یہاں سے واپسی پر کچھ ممبرز آگے آبشار کی طرف چلے گئے جبکہ میں اور نایاب ایک گھر میں کچھ وقت گزارنے چلے گئے۔ گھروں میں جانے کا کام ہم نے یہاں بہت بار کیا۔ مقصد صرف یہی تھا کہ ہمیں یہاں کے کلچر سے آگہی ہو۔ اب کی بار جس گھر میں گئے تھے وہاں کے مکینوں کو اُردو نہیں آتی تھی جبکہ ہم پشتو سے ناواقف تھے۔

یہاں لوگوں کی اکژیت اُردو زبان سے نابلد ہے۔ اس گھر میں ایک چار دن کی دلہن بھی تھی۔ جس کی آنکھوں میں حیا کے نئے رنگ بہت انوکھے سے تھے۔ جس کی باتوں سے چھلکتی شرمیلی مسکراہٹ بہت خوبصورت تھی۔ وہ دلہن ہمیں اپنے کمرے میں لے گئی اور تب تو اس نے ہمیں مزید حیران کیا جب وہ اپنا زیور لے کر آ گئی۔ ہم جس جنونی انداز میں تصویریں بنوا رہے تھے۔ اسے دیکھ کر دلہن کو احساس ہو گیا تھا کہ باجیاں عقل سے پیدل ہیں اور یقیناً زیور کے ساتھ تصویریں بنوا کر بہت خوش ہوں گی۔

ایسا ہی ہوا ہم نے زیور ماڈلنگ کرنے کے بعد اجازت چاہی تھی۔ یہاں پر میں اتنا ضرور کہوں گی کہ یہ لوگ بہت مہمان نواز اور بہت محبت کرنے والے لوگ ہیں۔ ان کی محبتوں کے قرض چکانے بہت مشکل ہیں۔ لال کھوہ میں ہی ہم نے فیصلہ کیا تھا کہ ہم مالم جبہ ضرور جایئں گے۔ ہم نے اپنا پروگرام ایک دن بڑھا دیا تھا۔ واپسی پر ایک بار پھر ہم نے ٹرک کی لفٹ کی آفر قبول کر لی۔ یہاں پر نوید سمیت دیگر ممبرز نے گلے پھاڑ پھاڑ کر وہ گیت گاے کہ لال کھوہ کے پہاڑ بھی ڈر گئے۔ ٹرک سے اُتر کر اب ہم واپس گاڑی میں بیٹھ چکے تھے۔ اب ہمارا اگلا پڑاؤ مالم جبہ تھا۔ گبن جبہ نے تو ہم سے پردہ کر لیا تھا مگر مجھے معلوم تھا کہ مالم جبہ کے پہاڑ ایسا کچھ نہیں کریں گے۔ وہ ہمیں خوش آمدید کہنے کو تیار بیٹھے ہیں۔ مالم جبہ جہاں رنگ مسکراتے ہیں اور زندگی رقص کرتی ہے۔

بھائی، یہاں کوئی آتا ہے :

نایاب مسلسل تیسری بار یہ سوال ایک گاڑی کو روک کر پوچھ رہی تھی۔ اور ہر گاڑی والے اور راہگیر کا ایک ہی جواب تھا کہ یہاں لوگ آتے ہیں اور اوپر ٹاپ تک ضرور جاتے ہیں۔ مالم جبہ پہنچ کر مجھے یوں لگا کہ جیسے میں سبزے سے بھرے کسی شہر میں آ گئی ہوں، یہاں بھی ہماری گاڑی نے زیادہ وزن کی وجہ سے آگے چلنے سے انکار کر دیا تھا۔ یہی وجہ تھی کہ ہم ایک بار پھر گاڑی سے باہر نکل کر پیدل ان راستوں کو کھوج رہے تھے۔ ہم اس خاموشی سے ہم کلام تھے۔

یہاں آواز گونجتی ہے۔ یہ تجربہ میں نے اور علینہ نے کیا اور ہم یہ کرکے کتنی ہی دیر ہنستے رہے۔ کبھی کبھی بچوں کی طرح اُلٹی سیدھی حرکتیں کرنے کو دل کرتا ہے۔ مالم جبہ میں جب گاڑی کو بریک نہیں لگتے تھے اور نہایت تیزی سے سب ممبرز نیچے اُترتے تھے۔ تو نہایت دلچسپ صورتحال پیدا ہو جاتی تھی۔ جسے اب سوچتی ہوں تو بے اختیا ر ہنسی آ جاتی ہے۔ مالم جبہ کے سبزے سے جھانکتی محبت کئی رنگوں میں ہمارے سامنے آ رہی تھی۔

مزید پڑھنے کے لیے اگلا صفحہ کا بٹن دبائیں


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2 3 4 5 6 7 8