سوات کے سات رنگ


چشمہ شفا

 میں نے سبزے سے بھرے اس شہر کے پہاڑوں کو دیکھا جو بانہیں پھیلا کر ہمیں خوش آمدید کہہ رہے تھے۔ ہم شہرِمحبت میں داخل ہو چکے تھے۔ جہاں کے درخت، پھول، پودے، درخت سب محبت کی زبان گنگنا رہے تھے۔ چند لمحوں کے لئے دل چاہا کہ باقی مسافروں کو جانے دوں اور ان پہاڑوں کی خوشبو کو اپنے اندر اُتار لوں۔ مگر یہ ممکن نہیں تھا ہمیں جلدازجلد ہوٹل پہنچنا تھاْکیونکہ شام کے ساے گہرے ہو رہے تھے اور یہاں جنگلی جانوروں کی اکژیت ہے۔

اس لئے گاڑی میں بیٹھ کر ہی ہم آگے جا سکتے تھے۔ اب ہوٹل والے سے رابطہ کرنا تھا مگر سوات پہنچتے ہی میرے فون کے سگنلز آنے بند ہو گئے تھے۔ آپ لوگ اگر ان علاقوں میں موبائل سروس سے فائدہ اُٹھانا چاہتے ہیں توپھر فور جی سم لیں۔ تھری جی یہاں بہت کم چلتا ہے۔ زونگ کی سروس ان علاقوں میں زیادہ فائدہ مند ہیں۔ جن ممبرز کے دوسرے نیٹ ورک تھے، ان سے ہوٹل والے سے رابطہ کیا گیا۔ ہمیں ہمارا کوئی ہوٹل آسانی سے نہیں ملا مگر مالم جبہ میں تو ہوٹل کی تلاش میں جتنی جدوجہد کی تھی اس پر تو ایک اور پیراگراف لکھا جا سکتا ہے۔

نجانے کیسے ایک راستے سے دوسرے راستے کو کھوجتے ہم اپنی منزل کی جانب گامزن تھے۔ منزل بھی ایسی جو آکے ہی نہیں دے رہی تھی۔ رات کی سرمئی چادر ہر طرف پھیل رہی تھی۔ اب ہمارا خوف بڑھنے لگا تھا۔ اب تک ہم سب کو پہنچ جانا چاہیے تھے۔ یہاں مجھے ڈرائیور پر بھی بہت غصہ آ رہا تھا۔ وہ جس طرح گاڑی چلا رہا تھا۔ اس سے لگ رہا تھا وہ ہمیں دو دن بعد ہی ہوٹل پہنچاے گا۔ ڈرائیور صاحب مزاج کے بھی نواب ہی تھے۔ کب محترم کے مزاج بگڑ جایئں پتہ ہی نہیں چلتا تھا۔

اس لئے بہتر یہی تھا کہ ان صاحب سے نرمی سے بات کی جاے ورنہ اُن سے کچھ بعید نہیں تھا کہ ہمیں پہاڑوں پر چھوڑ کر خود واپس چلے جاتے۔ ہم راستے میں ملنے والے ہر مقامی سے ہوٹل مرینہ کا پتا پوچھتے پھر رہے تھے۔ ایسے میں احسن نے ایک پٹھان سے جب پوچھا کہ ہوٹل مرینہ کہاں ہے تو احسن کے سوال کے جواب میں وہ مسلسل ایک ہی بات کہہ رہا تھا کہ مرینہ نہ بولو۔۔۔ ۔ ۔ پپینگ گیسٹ بولو۔۔۔ ۔ پینگ گیسٹ بولو۔۔۔ ۔ پینگ گیسٹ۔

 ۔ ۔ بات کرتے ہوئے وہ پٹھان غصے میں آ گیا۔ پٹھان کو غصے میں چھوڑ کر ہم نے وہاں سے گاڑی بھگانے میں ہی بہتری سمجھی۔ مجھے لگا شاید ہمارے ہوٹل یا پھر مرینہ نام کے ساتھ پٹھان کی کوئی تلخ یاد وابستہ تھی۔ تھوڑی ہی دیر بعد ہم اپنے ہوٹل پہنچ گئے۔ مالم جبہ کا ہوٹل ہمارے دوستوں کو کچھ خاص پسند نہیں آیا تھا۔ یہ ہوٹل ایمرجینسی میں بُک کروایا گیا تھا۔ غنیمت تھی کہ ہمیں کمرے مل گئے تھے۔ مالم جبہ خاصی اونچائی پر ہے۔

 اس لئے رات کو یہاں درجہ حرارت کافی گر جاتا ہے۔ کچھ دیر آرام کرنے کے بعد ہم نے یہاں کے راستوں کو اپنا ہمراز بنا یا۔ رات کو احسن نے ایک بار پھر ایک مزیدار کڑاہی تیار کی۔ احسن نے ہمیں بحرین میں بھی مزیدار چکن کڑاہی تیار کھلائی تھی۔ شکر ہے ہمارے ساتھ احسن تھا جس نے ہوٹل والوں کے ساتھ مل کر ہمارے کھانوں کو منفرد ذائقوں سے روشناس کروایا۔ مالم جبہ میں ہمارے باقی دوست تو رات کو بہت دیر تک جاگتے رہے تھے مگر ہمارا گروپ جلدی نیند کی آغوش میں چلا گیا تھا۔

 میرا ارادہ تو سونے کا نہیں تھا مگر نایاب کو ریکی کرتے وقت کب نیند آئی پتا ہی نہیں چلا۔ شاہد یہی وجہ تھی کہ میں صبح اذانوں کے ساتھ ہی اُٹھ گئی تھی۔ فجر کی نماز ادا کرنے کے بعد جب میں باہر نکلی تو تمام مسافر سو رہے تھے۔ مالم جبہ کی صبح اتنی خوبصورت اور دلنشیں تھی کہ لمحے بھر کو میں ٹہر گئی تھی۔ میں نے اس سے پہلے شوگران میں ایسی ہی ایک صبح دیکھی تھی۔ ابھی سورج نکلنے میں کچھ وقت تھا۔ صبح کے سارے پرندے لگتا تھا کہ اس شہر محبت میں لوٹ آے ہیں۔

 اس وقت تمام سبزہ، درخت، پھول میرے ساتھ ہمکلام تھے۔ مجھے لگا میں بھی کسی منظر کا حصہ بن گئی ہوں۔ میرا تخیل، میرے خواب سب اس خوبصورت منظر کا حصہ بن گئے تھے۔ میں اس منظر میں گم تھی جب کسی نے آکر مجھے پکارا کہ سورج نکل چکا ہے اب مالم جبہ سے نکلنے کی تیاری کی جاے۔ اُس لمحے دل کسی ضدی بچے کی طرح یہاں سے نہ جانے کی ضد کرنے لگا۔ ابھی تو ان مناظر کا جادو اثر کرنے لگا تھا۔ ابھی تو یہ خوشبو اس دل کی مکین بننے لگی تھی۔

 مگر ضدی دل کی ضد کو کسی خاطر میں نہ لاتے ہوے واپسی کی تیاری کی۔ ارادہ یہی تھا کہ مالم جبہ سے باہر نکل کر فضاگٹ میں ناشتہ کیا جاے۔ میری خواہش تھی کہ واپسی پر میں نایاب اور علینہ تینوں ایک ساتھ بیٹھیں۔ ویسے بھی نایاب نے تو پہلے اُتر جانا تھا۔ مگر مجھے معلوم تھا کہ علی بھائی کا پاوں ٹھیک نہیں ہے اور پاوں کی تکلیف کی وجہ سے ہی وہ آگے بیٹھے ہیں۔ اس لئے اس خواہش کا دوستوں سے تو اظہار کر دیا مگر علی بھائی سے کہنے کی ہمت نہیں پڑی۔

 میری اس خواہش کی تکمیل تو ہو گئی مگر ہلکی سی بدمزگی کے ساتھ۔۔۔ ۔ جس پر یہی احساس حاوی رہا کہ مجھے یہ خواہش کرنی ہی نہیں چاہیے تھی۔ ناشتہ ہم نے فضہ گٹ کے ایک ریسٹورنٹ میں کیا۔ ہم مسافر آتے وقت جتنے خوش اور پرجوش تھے۔ اب جب جا رہے تھے تو یوں لگ رہا تھا جیسے سب ایک دوسرے سے ناراض ہوں۔ ویسے میرا یہ تجربہ ہے کہ سفر کے دوران چھوٹی موٹی بدمزگیاں ہو جاتی ہیں مگر یہ زیادہ دیر رہتی نہیں ہیں۔ محبت ان سب ناراضگیوں کو دھو ڈالتی ہے۔ فضاگٹ کے پھولوں کے ساتھ ہم نے بہت سی تصویریں بنوایئں۔ فضا گٹ سے نکلتے ساتھ ہی ہمارا واپسی کا سفر شروع ہو گیا تھا۔

مزید پڑھنے کے لیے اگلا صفحہ کا بٹن دبائیں


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2 3 4 5 6 7 8